Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الاول 1431ھ

ہ رسالہ

2 - 16
***
انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ اور اُمّت مسلمہ کی ذمہ داری
مولانا محمد منظور نعمانی 
الحمدلله الذی ھدانا لھذا وما کنا لنھتدی لولا ان ھدانا الله لقد جاء ت رسل ربنا بالحق․
ہم سب خدا پرستوں کا عقیدہ ہے کہ اس ساری دنیا کو ایک الله نے پیدا کیا ہے او روہی دنیا کے اس کارخانہ کو چلا رہا ہے اور ہم آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس پور ی کائنات میں اور اس سارے سنسار میں انسان کو الله نے وہ صلاحیتیں دی ہیں اور وہ طاقتیں بخشی ہیں جو دوسری مخلوقات کو نہیں دی گئی ہیں ، اس میں جو ترقیاں او رجو نئی نئی ایجادیں ہو رہی ہیں وہ سب انسان ہی کی قابلیت او رانسان ہی کی ترقی پسند ی کا نتیجہ ہیں۔
انسان کو ترقی کرنے او ربڑھنے کی جو صلاحیت اور قابلیت دی گئی ہے اس کے ذریعہ وہ نیکی اور بھلائی میں بھی ترقی کر سکتا ہے او راسی طرح بدی او ربرائی میں بھی ۔ وہ اگر اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں کو نیکی کے راستہ پر لگائے تو ایسے بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے اور وہ مرتبے حاصل کر سکتا ہے جہاں فرشتوں کی بھی رسائی نہیں اور اگر اپنی اسی طاقت اور قابلیت کو وہ برائی کے راستہ پر لگائے او راس کے ذریعہ بدی اور شرارت میں ترقی کرے تو ایسا شریر اور موذی بن سکتا ہے کہ سانپ بچھو اور بھیڑیے اور چیتے بھی اس سے پیچھے رہ جائیں۔
الله تعالیٰ نے نبوت او رپیغمبری کا سلسلہ اسی لیے جاری فرمایا اور مختلف زبانوں او رمختلف ملکوں او رقوموں میں ہزاروں رسول اور پیغمبر اسی واسطے بھیجے کہ وہ انسان کو نیک بن کر دنیا میں رہنے اور نیکی کے راستہ پر اپنی طاقت صرف کرنے کا طریقہ بتلائیں اور اپنی تعلیم وتربیت سے ان کو نیک اورصالح بنا کر فرشتوں سے بھی آگے بڑھائیں۔
انبیاء علیہم السلام کی تاریخ سے ہم نے جوکچھ سمجھا او رجانا ہے، وہ یہ ہے کہ انسانوں کو وہ زندگی کے تین بنیادی اصول دیتے ہیں اور ان ہی اصولوں کی بنیاد پر وہ پوری زندگی کی تنظیم اور تشکیل کرتے ہیں ، یعنی یہ بنیادی اصول جن کاموں کے کرنے کا تقاضا کرتے ہیں وہ حضرات اپنے ماننے والوں کو ان کے کرنے کا حکم دیتے ہیں اورجن چیزوں سے بچنے او رجن باتوں کو چھوڑنے کا تقاضا کرتے ہیں وہ ان سے منع کرتے ہیں۔
ان میں پہلا بنیادی اصول وہ یہ دیتے ہیں کہ انسان اس پر یقین کرے اور دل سے اس کو مانے کہ میرا او رساری دنیا کا بس ایک خالق اور رب ہے ، وہی دنیا کے اس پورے کارخانے کو بلاشرکت غیر ے چلا رہا ہے اور اس پوری کائنات کی ہر چیز صرف اسی کے قبضہ اور اختیار میں ہے، جس کو جو چاہے دے او رجس سے جو چاہے لے ، موت اور زندگی ، بیماری اور تندرستی، رزق کی فراخی اور تنگی ، خوش حالی اور بد حالی سب اسی کے ہاتھ میں ہے اور اسی کے حکم سے آتی او رجاتی ہے، اس لیے بس وہی عبادت کا مستحق ہے او راس کو راضی کرنا اور زندگی کے سارے معاملات میں اس کی مرضیات پر چلنا اور اس کا حکم ماننا انسان کا سب سے اہم فرض ہے۔
یہ سب سے پہلا اصول ہے جو انبیاء علیہم السلام انسانوں کو زندگی کی بنیاد کے طور پر دیتے ہیں اور ہدایت کرتے ہیں کہ زندگی کے سارے معاملات میں اس اصول کو ملحوظ رکھا جائے او رجو کچھ سوچا جائے اسی کی روشنی میں سوچا جائے اورجو کچھ کیا جائے اس کی بنیاد پر اور اس کے تقاضے کے مطابق کیا جائے ۔
دوسرا اصول وہ یہ دیتے ہیں کہ انسان اس کا یقین کرے اور دل سے اس کو حق اور یقیناً ہونے والا واقعہ مانے کہ اس زندگی میں وہ جو اچھے بُرے عمل کرے گا مرنے کے بعد والی زندگی میں وہ ضرور اس کی جزا اورسزا پائے گا، اگر وہ اچھے اور نیک اعمال کرے گا اور زندگی اچھے طریقے اور اپنے پیداکرنے والے کے حکموں کے مطابق گزار کے جائے گا تو مرنے کے بعد وہ بڑی لذت او رمسرت والی زندگی پائے گا اور ہمیشہ ہمیشہ کی لذتیں او رمسرتیں حاصل کرے گا اور اگر وہ غلط طریقہ پر زندگی گزار کے اور الله کی نافرمانیاں اور بندوں کی حق تلفیاں کرکے اس دنیا سے جائے گا تو اگلی دنیامیں اسے بڑے سخت دکھ اٹھانا پڑیں گے اور وہاں اس کی زندگی بڑی ذلتوں او رمصیبتوں والی زندگی ہو گی اور وہاں کی وہ ذلتیں اور مصیبتیں اس دنیا کی بڑی سے بڑی ذلتوں اور مصیبتوں سے بھی ہزاروں لاکھوں گنا بڑی ہوں گی۔
تو انسانوں کی زندگی کے لیے دوسرا بنیادی اصول انبیا علیہم السلام یہ دیتے ہیں کہ مرنے کے بعد کی جزا اور سزا پر یقین رکھتے ہوئے اور اسکا دھیان وفکر کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔
تیسرا بنیادی اصول انبیاء علیہم السلام یہ دیتے ہیں کہ انسان ہمیشہ اس حقیقت کو نظر کے سامنے رکھے اور کبھی اس سے غافل نہ ہو کہ اس کی دو جہتیں ہیں، یعنی خود اس کی زندگی میں دو پہلو او ردو رُخ ہیں ایک مادیت کا اور ایک روحانیت کا اور ان دونوں کے تقاضے باہم بہت مختلف ہیں ، ہماری مادیت کی بعض خواہشیں وہ ہیں جو روحانیت کے لیے زہر ہیں او رروحانیت کے بعض تقاضے وہ ہیں جو مادی خواہشوں کے سرا سر خلاف ہیں تو انبیاء علیہم السلام انسانی زندگی کا ایک بنیادی اصول یہ قرار دیتے ہیں کہ مادیت کو اورمادی خواہشات کو ہماری روحانیت پر غالب آنے او راس کو دبانے کا موقع نہ دیا جائے بلکہ روحانیت کو غالب رکھ کر طبیعت کے مادی تقاضوں کو اس کا ماتحت اور تابع بنایا جائے۔
الله کے جو پیغمبر بھی جب کبھی جس ملک میں اور جس قوم میں آئے اگر ان کی تعلیم او ران کے کام کے متعلق صحیح معلومات حاصل کرنے کا ہمارے آپ کے پاس کوئی ذریعہ ہو تو اس ذریعہ سے جو معلومات حاصل ہوں گی وہ یہی بتلائیں گی کہ انہوں نے زندگی کا جو نقشہ اور جو نظام الله تعالیٰ کی طرف سے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا تھا اس کی بنیاد ان ہی اصولوں پر تھی۔
پھر انسان جب ان سچے اصولوں کو مان لے تو اسے آپ سے آپ ضرورت محسوس ہو گی کہ وہ معلوم کرے کہ میں الله کی عبادت کس طرح کروں اور زندگی کے بارے میں اس کے کیا احکام ہیں، جن کی میں فرماں برداری کروں اور وہ کیا اعمال ہیں جن کو کرکے میں الله تعالیٰ کی رضا مند ی اور مرنے کے بعد لذت ومسرت والی دائمی زندگی حاصل کرسکتا ہوں اور وہ کون سے اعمال ہیں جن کو خدا نخواستہ اگر میں نے کیاتو مرنے کے بعد مجھے بے انتہا ذلتیں اور تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی اور وہ کون سا طریقہ ہے جس پر چل کر میری روحانی ترقی ہوتی رہے اور مادیت کو روحانیت پر غالب آکر اس کا گلا گھونٹنے کا موقع نہ ملے؟ اس لیے انبیاء علیہم السلام ان بنیادی اصولوں کے ساتھ انسانی زندگی کے متعلق الله تعالیٰ کی طرف سے تفصیلی ہدایات بھی لاتے ہیں او ربتلاتے ہیں کہ تم کو یہ یہ کام کرنے ہیں اور یہ یہ باتیں چھوڑنی ہیں۔
ہمارا ایمان ہے کہ الله کے جو رسول اور پیغمبر جب کبھی کسی ملک اور کسی قوم میں آئے وہ اس سلسلہ کی ضروری ہدایتیں بھی الله تعالیٰ کی طرف سے لائے او رجن لوگوں نے ان کی بات مانی اور ان کی پیروی قبول کی، ان کی تعلیم وتربیت ان نبیوں نے ان ہی اصولوں او ران ہی ہدایات کے مطابق کی او رپھر انہیں وہ ترقیاں حاصل ہوئیں اور وہ کمالات نصیب ہوئے کہ فرشتوں نے ان پر رشک کیا اور الله کے وہ پیارے ہو گئے اور مرنے کے بعد ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ انہوں نے کیا کچھ پایا۔
اور جن لوگوں نے پیغمبروں کے لائے ہوئے ان اصولوں کو اور زندگی کے بارہ میں ان کی ہدایات کو نہیں مانا او رنہیں اپنایا اور خدا کی ہدایات اور مرنے کے بعد کی جزا اور سزا کی فکر اور روحانیت کی تکمیل وترقی سے بے پروا ہو کر جنہوں نے اپنی اغراض وخواہشات او رہویٰ وہوس ہی کو زندگی کا منتہا اورنصب العین بنالیا ، ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں ہوا کہ وہ انسان نما درندے یا شکل آدم میں شیطان یا کم ازکم ایک ترقی یافتہ حیوان بن گئے ہیں۔
ہماری بدنصیبی ہے کہ اس وقت دنیا ایسے ہی انسان نما حیوانوں اور آدم صورت شیطانوں سے بھری ہوئی ہے ۔ خدا اور مذہب اور آخرت کا انکار کرنے والے تو اگرچہ اب بھی بہت کم ہیں، لیکن زندگی کے بارے میں انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے اصول او ران کی ہدایات وتعلیمات سے بے پروا ہو کر اور خدا کے احکام اور آخرت کی جزا اور سزا او رروحانیت کے تقاضوں سے بے فکر ہو کر خدا ومذہب کے منکروں کی سی زندگی گزارنے والوں سے ہماری یہ دنیا بھری ہوئی ہے او راس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی خداداد قابلیت سے صرف حیوانیت میں اور درندگی میں ترقی کر رہے ہیں او رروحانی کمالات سے روز بروز خالی اور دیوالیے ہوتے جارہے ہیں۔
حضرات! آپ اگر عقل سلیم اور انصاف سے کام لے کر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس وقت انسانی دنیا جن مصیبتوں میں مبتلا ہے اور تباہی وبربادی کے جو سخت خطرے اس وقت ساری دنیا پر منڈلارہے ہیں جن کا خیال کرکرکے تمام یورپ وایشیا والے سمجھتے جارہے ہیں یہ سب اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری اس دنیا نے انبیاء علیہم السلام کا لایا ہوا انسانی اور روحانی طریقہٴ زندگی چھوڑ کر اور خدا اور آخرت اور روح کے تقاضوں کو بالکل پس پشت ڈال کر شیطان کا بتلایا اور سکھایا ہوا حیوانی اور خالص مادی طریقہٴ زندگی اختیار کر لیا ہے ۔ کم از کم اجتماعی اور قومی معاملات میں تو ہم خدا اور آخرت اور روحانیت کو بالکل بھلا چکے ہیں اور خیر یورپ والوں نے اگر یہ مادہ پرستانہ طرز زندگی اختیار کیا تھا تو کیا تھا۔ ان کی اندھی تقلید میں ہم ایشیا والے بھی اسی راستہ پر چل پڑے ہیں،حالاں کہ ایشیا کی سر زمین نبیوں، رسولوں کی سر زمین ہے۔
آج حماقت او رجہالت سے یورپ کی اس اندھی تقلید کو ترقی سمجھا جارہا ہے، حالاں کہ میں نے جیساکہ ابھی عرض کیا تھا یہ صرف حیوانیت میں، شیطانیت میں اوردرندگی میں ترقی ہے ۔ او راگر یہ ترقی یوں ہی ہوتی رہی اور انبیاء علیہم السلام کے انسانیت اور روحانیت اور عبدیت کے اصولوں کو پھر سے نہیں اپنایا گیا تو اس خدا فراموش اور آخرت سے بے پروا دنیا کے سامنے شاید جلدی ہی اس کا انجام آجائے گا اور تیسری جنگ عظیم اگر برپا ہوئی تو جو اس سے بچ جائیں گے وہ دیکھ لیں گے کہ خدا اور اس کی ہدایت سے بے تعلق ہو کر اور آخرت کو بُھلا کر ترقی کرنے والوں کا او ران کی ترقیوں کا حشر کیا ہوا کرتا ہے ۔﴿ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون﴾․
حضرات! ہمارے سامنے یہی مسئلہ ہے او رہم اسی کو انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں ۔ ہماری دعوت او رہمارا پیام اپنے کو اور آپ سب حضرات کو بھی بس یہی ہے کہ الله کے نبیوں اور رسولوں کے بتلائے ہوئے ان اصولوں کو ہم پھر سے زندگی کی بنیاد بنائیں جو انسان کو خدا کا اچھا بندہ او راچھا آدمی بناتے ہیں اور مادہ پرستی او رخدا فراموشی کے ان طور طریقوں کو چھوڑیں جنہوں نے ہماری زندگی کو حیوانی اور شیطانی زندگی بنا کر پوری انسانی دنیا کو جہنم کے کنارے پر کھڑا کر دیا ہے۔
عجیب بات ہے کہ آج سڑکوں او رگلی کوچوں کی صفائی کا مسئلہ قابل فکر ہے ، گندی نالیوں کی دھلائی کا مسئلہ فکر کے قابل ہے ، مچھروں اور مکھیوں اور چوہوں کو مارنے اور کم کرنے کے لیے لمبی لمبی اسکیمیں بنائی جاتی ہیں اوران کاموں پر ہزاروں لاکھوں آدمیوں کا وقت اور کڑوروں روپیہ صرف ہوتا ہے ، لیکن آدمیوں میں سے درندگی او رحیوانیت کی تباہ کن صفات نکالنے اور ان کو اچھا آدمی اور الله کا اچھا بندہ بنانے کی طرف بالکل توجہ نہیں کی جاتی ۔ میرے نزدیک تویہ اسی کا عذاب ہے کہ ہمارا کوئی مسئلہ سلجھنے میں نہیں آتا او راگر برسوں کی محنت اور اربوں روپے کے خرچ کے بعد کوئی ایک مسئلہ کچھ قابو میں آتا ہے تو چار اور الجھ جاتے ہیں، ابھی گزشتہ ہفتہ کے اخباروں میں آپ نے پڑھا ہو گا کہ صرف غذا کے مسئلہ پر اب تک بے تحاشہ روپیہ صرف ہو چکا ہے اورمسئلہ کی مشکلیں جوں کی توں ہیں۔ بعض علاقوں میں پانی کی کمی ہو رہی ہے او رکنوئیں سوکھ رہے ہیں اور ڈر ہے کہ بھوک کے عذاب سے پہلے، بہت سے آدمی او رجانور کہیں پانی نہ ملنے کے اس عذاب سے موت کا شکار نہ ہو جائیں۔
حضرات! ہم خدا پرستوں کاایمان ہے کہ دنیا اس وقت جن پریشانیوں میں مبتلا ہے وہ محض اتفاقی نہیں ہیں، بلکہ الله کی بادشاہی میں کوئی چیز بھی آپ سے آپ اور محض اتفاق سے نہیں ہوتی ، یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ الله کے حکم سے ہوتا ہے، اس لیے ہماری موجودہ پریشانیاں یقینا خدا کے حکم سے ہیں اور وہ الله ظالم نہیں ہے اور نہ بلاوجہ ہمیں ستانے میں اسے کوئی لذت آتی ہے ۔ بلکہ انسانی دنیا کی یہ پریشانیاں اور بے چینیاں اس کی خدا فراموشی اور آخرت سے بے فکری کی سزا ہیں ۔ ﴿ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشة ضنکا﴾․
پس ہمیں آپ سے صرف یہ کہنا ہے کہ جہاں آپ اور بہت سے قومی کاموں پر اپنا وقت ، اپنا روپیہ اور اپنی طاقتیں صرف کرتے ہیں، وہاں اس کام کی طرف بھی توجہ کریں ، اس کے لیے جماعتیں اور سوسائٹیاں بنائیں، اس کے طریقے سوچیں ، جب آپ خلوص اور دیانت داری سے اس کام کو شروع کریں گے اور صاف ذہن سے غور کریں گے تو آپ پر خودراہیں کھلیں گی اور آپ کی طرف سے اپنے ملک او راپنی قوم کی بلکہ ساری انسانیت کی یہ بہت بڑی خدمت ہو گی۔
اگر آپ نے اپنے کو اچھا خدا پرست اور خدا ترس آدمی بنا لیا اور اپنی قوم کے صرف دس بیس فیصدی افراد ہی کو آپ اچھا آدمی بناسکے اور وہ زندگی کے ہر معاملہ میں خدا سے ڈرنے والے اور مرنے کے بعد والی جزا سزا کی فکر کرنے والے بن گئے تویقین کیجیے کہ روحانی فائدوں کے علاوہ آپ ملک او رقوم کو موجودہ مصیبتوں سے نجات دلانے میں بھی بڑی مدد دیں گے۔ اس وقت ہم جن مصیبتوں میں مبتلا ہیں ان میں 95,90 فیصدی وہ ہیں جن میں ہم صرف اس لیے گھر ے ہوئے ہیں کہ قوم میں خدا پرستی او رایمان داری نہیں ہے اور مرنے کے بعد کی جزا وسزا کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ اگر ہمارے وزیروں اور چھوٹے بڑے افسروں میں اورحکومت کے عام اہلکاروں میں ، اسی طرح تاجروں میں، مزدورں میں اور دوسرے عام طبقوں میں انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے مطابق بجائے غرض پرستی اور مادہ پرستی کے خدا پرستی اورایمان داری آجائے ، بجائے حرص اور طمع کے قناعت آجائے ، ایثار اور سخاوت آجائے ، دوسروں کی غم خواری اور دوسروں کے لیے خود تکلیف اٹھانے اور قربانی دینے کا رواج ہو جائے تو ہماری ساری وہ مشکلیں ایک دن میں دور ہو جائیں گی جن کو حل کرنے کے لیے کروڑوں روپیہ صرف کرنے کے باوجود ہماری وزارتیں آج بھی عاجز ہیں۔
حضرات! اتنی بات جو میں نے اب تک کہی یہ کسی مذہب وملت سے مخصوص نہیں ہے، اس لیے یہ بات ہم ہر مذہب وملت والے سے کہتے ہیں ، عیسائیوں سے بھی کہتے ہیں اوریہودیوں سے بھی، اسی طرح دوسرے ادیان ومذاہب والوں سے بھی۔
البتہ مسلمانوں سے ہم اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ تم تو اپنے کو مسلمان کہہ کر ان سب باتوں کا عہد اور اقرار کر چکے ہو، کیوں کہ کسی شخص کے مسلمان ہونے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ اپنی زندگی وہ ان اصولوں اور ان ہدایات کے مطابق گزارے گا، جو الله تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام اور سب سے آخر میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم مکمل ترین شکل میں لے کر آئے اور دنیا سے زیادہ فکر وہ آخرت کی کرے گا او رمادی خواہشات کے مقابلہ میں روحانی تقاضوں او رمطالبوں کو ترجیح دے گا۔
اس لیے ہر مسلمان سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اس اقرار اور ان اصولوں کے مطابق بنائے یعنی اس کی زندگی الله کی بندگی اورعبدیت والی زندگی ہو ، وہ نفس کی خواہشات اور طبیعت کے تقاضوں کے بجائے الله کے احکام پر او راس کی بھیجی ہوئی شریعت پر چلنے والا ہو ، مرنے کے بعد حساب او رجزا وسزا سے ڈرنے والا اور دنیا سے زیادہ آخرت کی زندگی بنانے کی فکر کرنے والا ہو ، اسی طرح مادی ترقی سے زیادہ اس کو روحانی ترقی کی فکر ہو ۔
مسلمان اسی لیے پیدا کیے گئے تھے کہ وہ دنیا میں الله تعالیٰ کی بتلائی ہوئی ایمانی اور روحانی زندگی گزاریں او راسی مبارک زندگی کو دنیا میں رواج دیں۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے ․﴿کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتؤمنون بالله﴾․
اس کا مطلب یہی ہے کہ نیکی کو دنیا میں رواج دینا، برائی او ربدی کے طور طریقوں سے لوگوں کو بچانا اور روکنا اور خود مضبوطی سے اس ایمانی طریقہ پر اور نیکی کے راستہ پر قائم رہنا مسلمانوں کے خاص فرائض میں سے ہے، بلکہ وہ دنیا میں اسی مقصد کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔
لیکن ہمیں اقرار ہے کہ ہم بھی راستہ سے ہٹ گئے ، جس مقدس کام کے لیے ہم پیدا کیے گئے تھے او رجو خدمت ہمارے سپرد کی گئی تھی ہم نے اپنی نالائقی اور غفلت سے اس کو چھوڑ دیا اور نفس پرستی ، غرض پرستی اور آخرت فراموشی اور صرف مادی ترقیوں میں انہماک والی وہی زندگی ہم نے بھی اختیار کر لی جس کو مٹانے کے لیے ہم پیدا کیے گئے تھے ۔ بلاشبہ یہ ہمارا بہت بڑا جرم ہے اور یہ ہم نے خود اپنے اوپر بہت بڑا ظلم کیا ہے، بس الله تعالیٰ ہی ہمارے اس جرم کو معافر فرمائے۔
حضرات! اگرچہ ہماری حالت بہت بگڑ گئی ہے او رہم اپنے مقام سے بہت ہٹ گئے ہیں لیکن الله تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم مایوس نہیں ہیں ، ہم امید کرتے ہیں کہ وہ ہمیں سنبھلنے کی اور پھر اپنے مقصد زندگی کی طرف لوٹنے کی توفیق دے گا اور ہم سے وہ کام لے گا جو ” خیرامة“ کی حیثیت سے ہم کو کرنا چاہیے تھا ۔
محترم حاضرین! یہ خالص دینی اور ایمانی دعوت اور تحریک، جس کے سلسلہ میں ہمارا مختصر سا قافلہ کل سے یہاں آپ کے اس شہر میں آیا ہوا ہے دراصل یہ اس کی کوشش ہے کہ ہماری بگڑی ہوئی زندگی درست ہو جائے اور ہم وہ زندگی گزارنے لگیں اور وہ کام کرنے لگیں جس کے لیے ہم پیدا کیے گئے تھے، آج کل لوگ مادیت اور خدا فراموشی کے غلبہ سے اس قدر متاثر ہیں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس زمانہ میں بھی ایمانی اور روحانی زندگی کی کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے، لیکن ہم الله تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس کے رحم وکرم نے ایک ایسے طریق کار کی طرف ہماری رہنمائی کر دی ہے، جس کے کافی تجربہ کے بعد ہم الحمدلله اس پر بالکل مطمئن ہیں کہ مسلمانوں کا جو طبقہ اس مقصد کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرتا ہے یا محسوس کرانے سے محسوس کر سکتا ہے، اگر وہی اس طریقے پر جدوجہد کرنے لگے تو ہمیں بالکل یقین ہے کہ ان شاء الله فضا بالکل بدل جائے گی اور ہماری زندگی ایمان بالله اور فکر آخرت والی زندگی بن جائے گی، جس میں روحانیت مادیت پر غالب ہو گی۔
مسلمانوں میں پھر سے ایمانی زندگی پیدا کرنے کی اس خاص طریقہ سے یہ کوشش یوں تو بیس سال سے زیادہ عرصے سے ہو رہی ہے او رخود میرا تعلق بھی اس تحریک سے قریباً10,9 سال سے ہے لیکن ابتدا میں اس کا دائرہ بہت محدود تھا اور رفتار بہت دھیمی تھی جس کی ایک خاص وجہ کام کے بالکل نامانوس ہونے کے علاوہ یہ بھی تھی کہ سیاسی تحریکوں کے شورو شغب میں اس خالص غیر سیاسی کام کرنے والوں اور اس کی طرف بلانے والوں کی آواز کوئی سنتا ہی نہ تھا، اب ادھر دو تین سال سے لوگ کچھ متوجہ ہونے لگے ہیں اور حالات کی رفتار نے بھی یہ سمجھنا ان کے لیے آسان کر دیا ہے کہ ایمان اور ایمان والی زندگی بھی کوئی ضروری چیز ہے اور ہمیں آخرت کی فکر بھی کرنی چاہیے۔
حضرات! اس کام کے لیے ہم نے جو طریق کار اختیار کیا ہے، جس کے متعلق میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ الحمدلله تجربہ نے اُس پر ہم کو بالکل مطمئن کر دیا ہے۔ لیکن وہ کچھ اس طرح کا ہے کہ صرف میرے بتلانے اور بیان کرنے سے اس کو پوری طرح نہیں سمجھا جاسکتا، بلکہ کچھ وقت کام کرنے والوں کے ساتھ رہ کر اور خود دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے، خود میرا معاملہ یہ ہے کہ میں بھی اس کو اس وقت تک اچھی طرح نہیں سمجھ سکا او راس کے بارہ میں مطمئن نہیں ہو سکا تھا، جب تک کہ چند روز ایک جماعت کے ساتھ رہ کر اُس کو دیکھ نہ لیا ۔ اس لیے میں آپ کو اس طریق کار کے سمجھانے کی کوشش نہیں کروں گا۔ بلکہ یہی گزارش کروں گا کہ آپ کچھ وقت کے لیے ہمارے ساتھ ہو جائیں، ان شاء الله چند ونوں میں آپ جان لیں گے اور امید ہے کہ جان کر مطمئن ہو جائیں گے کہ ہاں! اس طریقہ پر جد وجہد کرنے سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی امت میں وہ ایمان او رعمل صالح والی زندگی ان شاء الله پھر سے پیدا ہو سکتی ہے جس کے پیدا کرنے کے لیے حضور صلی الله علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اور جس کے متعلق الله تعالیٰ کا یہ محکم وعدہ ہے کہ اگر کوئی قوم او رامت وہ زندگی اپنے اندر پیدا کرلے تو وہ اس دنیا میں بھی خاص نعمتوں سے سرفراز کی جائے گی او رمرنے کے بعد عالم آخرت میں بھی جنت اور الله کی رضا اس کو حاصل ہو گی۔
اپنے دینی بھائیوں سے میں ایک آخری بات او رکہنا چاہتا ہوں ۔ دنیا اس وقت مادی ترقیوں سے اور ان کے انجام سے تنگ آچکی ہے او رجن کو الله نے سوچنے سمجھنے کے قابل بنایا ہے وہ اب محسوس کرنے لگے ہیں کہ جو خدا فراموشانہ اور مادہ پرستانہ نظر یہ حیات انہوں نے اختیار کیا تھا اس کاانجام عالم گیر تباہی او ربربادی اور انسانیت کی درد ناک موت کے سوا کچھ ہونے والا نہیں ہے، ایسے وقت میں اگر کوئی قوم اورامت انبیاء علیہم السلام کی تعلیم وہدایت کے مطابق ایمانی طرز زندگی کا نمونہ بن کر دنیا کے سامنے آجائے تو اس میں ذرا شبہ نہیں کہ اس وقت دنیا اس کی طرف دوڑ پڑے گی او راس کو اپنالے گی اور وہ ایمانی طرز زندگی بالکل مکمل او رمرتب شکل میں صرف محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی امت کے پاس ہے، ضرورت صرف اس کی ہے کہ وہ چیز بجائے کتابوں کے، دنیا کی نظر کے سامنے ہماری تمہاری زندگی میں آجائے اور دنیا والے بجائے کتابوں میں پڑھنے اور مطالعہ کرنے کے ہماری زندگی میں اس کے نتائج دیکھ لیں۔
بزرگو اور بھائیو! میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جن سے میں اپنے دل کے اس یقین کو ظاہر کر سکوں کہ اس وقت ساری دنیا کی سلامتی او رنجات اس پر موقوف او رمتعلق ہے کہ مسلمان ایمانی طرز زندگی اختیار کرکے دنیا کو ایمان والی زندگی کے طریقہ سے روشناس کرائیں ۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو دنیا کے بگاڑ اور اس کی بربادی کی بڑی ذمہ داری ان پر ہو گی اور یہ محض الله کا فضل ہے اور ایک لطیفہٴ غیبی ہے کہ مسلمانوں میں ایمانی زندگی پیدا کرنے اور عام کرنے کی کوشش کا ایک خاص سہل اور قابل عمل طریقہ الله تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی سے اسی زمانہ میں ہم عاجزوں، بے چاروں کے ہاتھ آگیا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر طبقہ اور ہرعلاقہ کے لوگ اس کو ہم سے لے لیں، وہ ہماری جاگیر نہیں ہے اور نہ ہم اس کو اپنی جاگیر بنانا چاہتے ہیں، ہم تو اسی لیے علاقے علاقے خود پھرتے ہیں اور آپ کے یہاں بھی اسی لیے آئے ہیں کہ آپ حضرات ہمارے ساتھ تھوڑا سا وقت گزار کے اس طریقہ کو ہم سے لے لیں اور پھر اپنی ذمہ داری پر خو دکام کریں ، کیا عجب ہے کہ الله تعالیٰ آپ سے وہ کام لے لے جوہم سے نہیں ہو پا رہا ہے ۔ اس کام میں ہماری حیثیت صرف یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے اس کام کی اہمیت اور ضرورت کا کچھ احساس ہمارے اندر پیدا فرما دیا ہے اور یہ یقین دل میں ڈال دیا ہے کہ جہاں تک بن پڑے اس کام کے لیے کوشش کرنا اور الله کے بندوں تک اس کی دعوت اور اس کا پیغام پہنچانا ہمارا اپنا فرض ہے، اس لیے جہاں تک ہم سے بن پڑتا ہے خود جاجاکر اپنے بھائیوں کو اس کی دعوت دیتے ہیں اور الله کے بعض بندوں کی صحبت ورفاقت سے او رکچھ اپنے تجربوں سے بفضلہ تعالیٰ اس کام کا جو طریقہ معلوم ہو گیا ہے بس بطور مشورے کے اس کو عرض کرتے ہیں ، اس سے زیادہ ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ ہم نے اس کے لیے کوئی خاص انجمن یا جماعت قائم نہیں کی ہے ،جس کی ہم شاخیں قائم کرنا چاہتے ہوں یا آپ کو اس کا ممبر یا رکن بنانا چاہتے ہوں یا کسی امیر یا کسی پیر کے ہاتھ پر بیعت کراناچاہتے ہوں۔
ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ حضرات اس کام کو اپنائیں اور اس کا پیغام لے کر شہروں شہروں اور خدا توفیق دے تو ملکوں ملکوں پھریں، اس راستہ میں تھکنا اور بے آرام ہوناانبیاء علیہم السلام کی خاص وراثت ہے اور الله تعالیٰ کو ہر دوسرے کام سے زیادہ محبوب ہے ۔ مبارک ہیں وہ پاؤں جو اس راہ میں تھکیں او رمبارک ہیں زندگی کی وہ گھڑیاں جو اس کام میں صرف ہوں۔
الله تعالیٰ ہم سب کو اس کام کی توفیق دے اور دین کے زندہ کرنے کے لیے تکلیفیں اٹھانے اور مرنے مٹنے کا شوق ہم سب کے دلوں میں پیدا فرما دے، دراصل اس راہ میں مرمٹنا ہی اصل زندگی ہے ۔
واخردعوانا ان الحمد لله رب العالمین وسلام علی المرسلین․

Flag Counter