Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الاول 1431ھ

ہ رسالہ

12 - 16
***
ایک عاشقِ قرآن کی رحلت
مولانا محمد اسلم شیخوپوری
قرآن کریم کا ایک اور سچا عاشق ، قابلِ رشک زندگی گزار کر الله کے حضور پہنچ گیا۔ میری مراد جامعہ بنوریہ کے بانی اور سرپرست قاری عبدالحلیم رحمہ الله سے ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں حضرت قاری صاحب ایک پارسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ایسی مثالیں دو چار نہیں، بے شمار ہیں کہ شیخ زادے اور پیر زادے خدمتِ اسلام سے محروم رہے اور الله نے کسی برہمن زادے کو آسمانِ رشد وہدایت کا ایسا تابندہ ستارہ بنا دیا جس کی چمک دمک دیکھ کر صدیوں کے نسلی مسلمانوں کی آنکھیں چندھیا کر رہ گئیں ۔ حضرت قاری صاحب بھی ایسا ہی ایک درخشندہ ستارہ تھے۔ ان کے والد گرامی نے جب اسلام قبول کیا تو قاری صاحب کی عمر محض چار سال تھی۔ حفظ قرآن کے لیے انہیں ڈابھیل کے تاریخی مدرسہ میں داخل کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ الله وہاں تشنگانِ علم کو سیراب فرما رہے تھے او رحضرت بنوری رحمہ الله جیسا نابغہٴ روز گار ان کے فیوض وبرکات چاردانگ عالم میں پھیلانے کے لیے سمیٹ رہا تھا۔
حضرت قاری صاحب نے کچھ ایسے ذوق وشوق سے قرآن کا نور اپنے سینے میں منتقل کیا کہ الله تعالیٰ نے ان کی زندگی خدمتِ قرآن کے لیے قبول فرما لی ۔ فطرت نے انہیں لحن داؤدی کی جھلک عطا فرمائی تھی۔ وہ جب ترنم کے ساتھ تلاوت فرماتے تو ذوقِ سماع اور جذبہٴ ایمان رکھنے والے جھوم جھوم اُٹھتے ۔ وہ بے تکلفی سے قرآن پڑھتے تھے، مگر اس بے تکلفی میں بھی ایک سوز، ایک درد او رایک کیف پایا جاتا تھا۔ کیا سعودیہ اور کیا امریکا ، ہر جگہ ان کے چاہنے والے تھے۔ ان کی تلاوت کی کیسٹیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں۔ چند سال وہ طائف میں بھی پڑھاتے رہے۔ امریکا میں انہیں تراویح کے لیے بلایا جاتا تھا۔ پاکستان میں بھی جس مسجد میں وہ مصلیٰ سناتے وہاں نماز میں شرکت کے لیے دور دور سے لوگ آتے تھے۔ کئی حضرات نے ان کی نقالی کی کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ کثرتِ تلاوت کی وجہ سے قرآن ان کے دل کی بہار اور آنکھوں کا نور بن چکا تھا۔
سالہا سال سے انہوں نے روزانہ دس پارے کی تلاوت کا معمول بنا لیا تھا۔ صحت ہو یا بیماری ، انہوں نے زندگی بھر اس معمول کو نبھایا۔ حدیہ کہ گزشتہ سال انہیں عارضہٴ قلب کی وجہ سے بائی پاس کروانا پڑا تو ہسپتال میں داخل ہونے سے پہلے بیٹے سے کہا:” الله ہی جانتا ہے میں زندہ واپس آسکوں گا یا نہیں ، اس لیے میں نے آج تلاوت کا معمول صبح ہی پورا کر لیا تھا۔“ معاملہ صرف تلاوت کے معمول کا نہیں تھا بلکہ اپنے دیگر معمولات پر بھی وہ اسی استقامت کے ساتھ کاربند رہے ۔ تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین… ان ساری نفلی نمازوں کی وہ پابندی فرماتے تھے ۔ وہ بھی اتنے خشوع وخضوع اور استغراق کے ساتھ کہ قیام فرماتے تو لگتا رکوع کرنا بھول گئے ہیں ، سجدہ میں جاتے تو حضرت گنج مراد آبادی رحمہ الله کے الفاظ میں یوں محسوس ہوتا: ” الله میاں نے پیار کر لیا ہے۔“
زندگی کا آخر ی دن بھی قرآن کریم کی خدمت میں گزارا۔ سارا دن شعبہٴ بنات میں حفظ کی طالبات کا امتحان لیتے رہے۔ دینی معمولات پر استقامت کو علماء نے ولایت قرار دیا ہے ۔ یار لوگ شعبدوں اور خوارق کو ولایت کا لازمی جز سمجھتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے ہوا میں اُڑنا، پانی پر چلنا، آگ میں کو دجانا اور بے موسم کے پھل حاضر کر دینا آسان ہے، مگر زندگی بھر عبادت واطاعت پر جمے رہنا او رمعصیت سے اپنے دامن کو بچا کر رکھنا مشکل ہے ۔ یہ مشکل کام توفیق یافتہ انسانوں کے لیے آسان ہو جاتا ہے ۔ ہمارے ممدوح انہی توفیق یافتہ انسانوں میں سے ایک تھے۔ میں نے انہیں اپنے دور طالب علمی میں آج سے تیس بتیس سال پہلے بھی دیکھا تھا ۔ ان کے صاحبزادے میرے ہم درس تھے۔ تب گھر میں غربت تھی، تنخواہ محدود تھی اور اہل وعیال زیادہ تھے۔ بچے زیر تعلیم تھے اور وہ گھر کے واحد کفیل تھے۔ اسٹار کالونی کے ایک چھوٹے سے مکان میں ان کی رہائش تھی اور اسی کالونی کی مسجد میں وہ امامت وخطابت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ بعد میں اس وقت بھی انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جب الله نے انہیں خوش حال اور پیسے کی فراوانی عطا فرما دی ۔ ہر بیٹے نے الگ الگ اپنا کاروبار شروع کر دیا اور انہیں برکت بھی خوب ملی ، مگر قاری صاحب کے طرزِ زندگی ، زہد وعبادت، تواضع وانکساری، معمولات او رحسنات میں نہ صرف یہ کہ کوئی فرق نہ آیا، بلکہ مادی اور روحانی نعمتوں میں اضافے کے ساتھ ان کی گردن الله کے حضور مزید جھکتی چلی گئی ۔ تواضع ان کا ایک ایسا ذاتی وصف بن چکا تھا جس پر ادلتے بدلتے حالات کی کوئی پر چھائیں نہیں پڑتی تھیں۔
وہ ایک ایسی جامعہ کے بانی تھے جس میں نہ صرف پاکستان، بلکہ امریکا سمیت مختلف ممالک کے سینکڑوں طلبہ اور طالبات زیر تعلیم تھے۔ ملکی اور غیر ملکی رؤسا اور سر کاری آفیسر ان جامعہ کے دورے پر آتے رہتے تھے۔ ان کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد بھی ہوتا تھا، مگر قاری صاحب اپنے آپ کو ہمیشہ پچھلی صف میں رکھنے کی کوشش کرتے۔ وہ اپنے لیے کبھی بھی نمایاں مسند کے طلب گار نہ ہوتے ۔ خود جامعہ میں بھی ان کا کوئی ایسا دفتر نہ تھا جہاں سیکریٹری اور دربان کا اہتمام ہوتا او ران سے ملاقات کے لیے کوئی ہفت خواں سرکرنا پڑتا۔ کیا علما اور کیا طلبہ ، کیا مدرسہ کے خدام او رکیا بیرونی مہمان… ان سے ہر کوئی ہر وقت مل سکتا تھا ۔ وہ مسجد کے کسی گوشے میں عبادت وتلاوت کرتے ہوئے نظر آجاتے یا طلبہ او رمدرسہ کے ملازمین کی کسی جماعت کے ساتھ مل جاتے۔ اجنبی شخص جب انہیں دیکھتا تو ان کے لباس اور بودوباش کی سادگی کی وجہ سے پہچان نہ پاتا کہ یہی وہ روشن چہرہ شخصیت ہیں جنہیں اتنی بڑی جامعہ کا مؤسس اور مدیر ہونے کا شرف حاصل ہے۔
طلبہ اور ملازمین اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے لیے انہیں گھیرے رکھتے تھے ۔ وہ کسی کو مایوس نہیں کرتے تھے۔ ان سے جو کچھ بن پڑتا ہر کسی کے ساتھ تعاون فرماتے۔ مختلف مدات کی رقوم الگ الگ لفافوں میں وہ اپنے ساتھ رکھتے اور انہیں صحیح مصرف میں لگانے کے لیے کوشاں رہتے۔ قارئین کے لیے آج کے دور میں یہ بات انکشاف سے کم نہ ہو گی کہ وہ صاحب خیر جو مستحقین میں لاکھوں خرچ کرتا تھا ، خود اس کی ملکیت میں کچھ نہ تھا۔ بینک بیلنس، نہ تجارتی مال ومتاع۔ ان کے پاس جو کچھ تھا وہ بیٹوں کے حوالے کر چکے تھے۔ مستحقین کے ساتھ تعاون وہ مالک کی حیثیت سے نہیں، بطور امین کرتے تھے۔
حرمین شریفین کی محبت ان کی رگ رگ میں سمائی ہوئی تھی ۔ یہ محبت انہیں ہر سال کشاں کشاں حج کے لیے لے جاتی۔ وہاں ان کی کیفیت دیدنی ہوتی۔ یوں تو ان کی آنکھیں ہر وقت چھلکتی رہتی تھیں، مگر منیٰ اور عرفات میں وہ آبشار کی صورت اختیار کر جاتیں۔ انہیں کم وبیش پینتیس بار حج کی سعادت حاصل ہوئی ۔ اس سال بھی وہ یہ شرف حاصل کرکے آئے تھے ۔ حسن خاتمہ دیکھیے! چند دن پہلے حرمین شریفین سے ان کی واپسی ہوئی۔ آتے ہی مدرسے کی دیکھ بھال اور طلبہ کی تعلیم وتربیت میں لگ گئے۔ آخری دن دس پاروں کی تلاوت کی ، حفظ کی طالبات کا امتحان لیا، فجر سے عشا تک پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کیں، رات کو سوگئے اور ساڑھے بارہ بجے الله کا ذکر کرتے ہوئے سفرِ آخرت پر روانہ ہو گئے۔ زندگی بھی قابلِ رشک تھی، الله نے موت بھی قابلِ رشک عطا فرمائی۔ پسماندگان میں انہوں نے مفتی محمد نعیم جیسے عظیم فرزند، ہزاروں روحانی بیٹے اور بیٹیاں اور جامعہ بنوریہ جیسا ادارہ چھوڑا۔ یہاں جب تک قال الله وقال الرسول کی صدا گونجتی رہے گی، قاری صاحب کے درجات بلند ہوتے رہیں گے۔ زہے نصیب!

Flag Counter