Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی محرم الحرام 1431ھ

ہ رسالہ

8 - 15
***
یہ ہے مغرب
محترم عبدالله خالد قاسمی
بلجیم کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ایک مسلمان خاتون کے منتخب ہونے کے بعد یہ تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ اسے اسکارف کے ساتھ حلف اٹھانے دیا جائے یا نہیں؟ اسکارف کی مخالف سیاسی جماعتیں اس حوالے سے یہ موقف رکھتی ہیں کہ بلجیم کے قوانین کی رو سے کوئی بھی با حجاب خاتون رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے حلف نہیں اٹھاسکتی، اس لیے انہیں نااہل قرار دیا جائے۔ ترکی سے تعلق رکھنے والی مسلمان خاتون ماہ نور کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف حلف اٹھاتے وقت اسکارف پہنے رہیں گی، بلکہ پارلیمنٹ میں بھی اسکارف پہن کر آئیں گی۔
مشہور عرب جریدہ الشرق الاوسط کے نمائندے کے مطابق اس نے بلجیم کے انتخابات سے ایک روز قبل ماہ نور سے پوچھا کہ کیا انہیں یہ خدشہ نہیں کہ پارلیمنٹ میں انہیں اسکارف کے ساتھ داخلے کی اجازت نہیں ملے گی؟ جواب میں ماہ نور نے نہایت سکون کے ساتھ کہا کہ وہ انتخابات یا پارلیمنٹ کی وجہ سے اپنا اسکارف ہرگز نہیں اتاریں گی۔لوگوں کو ان کے کام کی طرف دیکھنا چاہیے نہ کہ اسکارف کی طرف۔ ماہ نور کی کامیابی سے بلجیم کی مسلمان کمیونٹی اور سیکولرکمیونٹی کے درمیان ایک سرد جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ نا اہل قرار دینے والوں کا کہنا ہے کہ وہ بلجیم کی ثقافت کو تباہ کرنا چاہتی ہیں، اس لیے ان کو نمائندگی کا کوئی حق نہیں۔
الشرق الاوسط کے نمائندے نے ان سے پوچھا کہ پارلیمنٹ میں جاکر وہ ترجیحاً کن مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں سے حجاب پر پابندی ختم کرانا ان کی ترجیح اول ہوگی۔ اسی طرح عیدالاضحیٰ اور بعض دوسرے مواقع پر مسلمانوں کو اپنے گھروں میں جانور ذبح کرنے کی اجازت، نیز مسلمان تنظیموں کے عطیات جمع کرنے پر پابندی کے خلاف بھی وہ آواز اٹھانا چاہتی ہیں۔
دوسرا واقعہ برطانیہ کی خاتون مسلمان ڈاکٹر سیدہ مسرت شاہ کی ملازمت سے برطرفی سے متعلق ہے، ان کو محض اس لیے ملازمت سے برطرف کردیا گیا کہ وہ باقاعدگی کے ساتھ ہسپتال کے قریب واقع مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے جاتی تھیں۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق ہسپتال کی انتظامیہ نے نماز کی ادائیگی کے لیے ان کو صرف پانچ منٹ کا وقت دیا کہ وہ نماز ادا کرکے ڈیوٹی پر واپس آجائیں یا نماز کی ادائیگی ترک کردیں۔ نماز کی ادائیگی ترک کرنے سے انکار پر ملازمت سے نکالی جانے والی ڈاکٹر مسرت شاہ کا کہنا ہے کہ انہیں نماز سے دوری قبول نہیں۔ اس حوالے سے وہ کسی کا دباؤ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
31سالہ ڈاکٹر مسرت شاہ برطانوی علاقے لیڈز کے ایک ہسپتال میں بطور سرجن کام کرتی ہیں، ایمپلائر ٹربیونل میں اپنی برطرفی کے خلاف دائر کیے جانے والے مقدمے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کو مسلمان ہونے کی وجہ سے نسلی تعصب اور مذہبی امتیاز کا نشانہ بنایا گیا ہے، ان کے قریبی ساتھیوں نے بھی ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا، اس کے چار ساتھی ڈاکٹروں کو ان کی یہ روش پسند نہ تھی کہ وہ باقاعدگی سے مسجد جائیں اور شہر بھر سے آئی ہوئی مسلمان خواتین کے ساتھ نماز کی ادائیگی کا شرف حاصل کریں ، ڈاکٹروں کے مسلسل اصرار پر انہوں نے 8/ اگست2008ء سے نماز کی ادائیگی کے لیے جانا ترک کردیا اور ہسپتال میں انفرادی طور پر نماز ادا کرنا شروع کردی، لیکن اس کے باوجود انتظامیہ اور ساتھی ڈاکٹروں کی تشفی نہ ہوئی اور ان کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ انچارج ڈاکٹر مارکوس جولیر نے کہا کہ دنیا کا کوئی کام یا نماز، سرجری سے زیادہ اہم نہیں۔ اس لیے سرجری کے لیے نماز ترک کردینا چاہیے۔ دوسری طرف یہی مغرب ہے جو انسان کے بنیادی حقوق اور مذہبی آزادی کا دعویٰ بھی کرتا ہے کیا یہ تضاد اور دہرا معیار نہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ مغرب تیزی سے بڑھتے ہوئے نو مسلموں سے خوف زدہ ہے، جو مغرب کے منافقانہ طرز عمل اور مغربی تہذیب کی چکاچوند سے مایوس ہوکر اسلام کی آغوش میں اپنے آپ کو محفوظ اور ذہنی طور پر آسودہ محسوس کرتے ہیں، اسلام قبول کرنے والوں میں خواتین کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ وہ مغربی خواتین ہیں جو مغرب کی نام نہاد تہذیب سے بیزار ہوکر اسلام کو اپنی جائے پناہ اور اپنے دکھوں کا مداوا سمجھتی ہیں۔ 
مغرب حجاب میں لپٹی پاکیزہ زندگی گزارنے والی خواتین سے خوف زدہ ہے۔ اس لیے حجاب اور اسلامی رہن سہن کے خلاف ایک مہم چلا رکھی ہے۔ مغرب کا یہی تضاد، دہرا معیار اور تعصب ہے، جو ہر حساس اور انصاف پسند انسان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ واقعتا خدائے واحد پر ایمان اور اسلام ہی انسانی حقوق کے تحفظ کو ممکن بناتا ہے اور تعصب سے پاک منصفانہ زندگی کا ضامن ہے۔ یہی احساس اسلام کی مقبولیت کا سبب بھی ہے۔
اسلام کے خلاف مغرب کا بڑھتا ہوا تعصب تیزی سے سامنے آرہا ہے، سیاست ہو یا معیشت، تعلیمی میدان ہو، یاکوئی اور شعبہ، غرض ہرمیدان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ نسلی اور مذہبی تعصب بڑھتا جارہا ہے۔
یکم جولائی 2009ء جرمنی کے شہر ڈرلیٹرن میں ایک مسلمان خاتون 32 سالہ مروہ الشر بینی کو بھر ی عدالت میں اس وقت شہید کردیا گیا جب اس نے انصاف کے حصول کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، اس کے ساتھ اس کا شوہر علوی عکاظ اور ڈھائی سالہ بیٹا مصطفےٰ بھی عدالت میں موجود تھے، شہیدہٴ حجاب مروہ الشر بینی کی شہادت کا دل خراش واقعہ ہر مہذب اور باشعور شخص کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے، جو دلوں کوگداز اور آنکھوں کو تادیر نمناک کردیتا ہے۔
اگست 2008 میں مروہ الشربینی جو کہ مصری نژاد ہیں اپنے بیٹے مصطفےٰ کے ساتھ ایک پارک میں تھی کہ ملعون ایگزل ڈبلیونامی شخص نے مروہ کو حجاب میں دیکھ کر ’دہشت گرد‘ کہا، جب مروہ نے اسے جواب دیا تو اس نے اللہ رب العزت اور نبی مہربان صلی الله علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی اور اسلام کی توہین اورمسلمانوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ پارک میں اس ہونے والے جھگڑے کی شکایت مروہ الشربینی نے مقامی عدالت میں کی۔ عدالت نے شربینی کے دعوے کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے مذکورہ شخص کو جرمانہ کیا، لیکن اس ملعون نے دوسری عدالت میں اس فیصلے کو چیلنج کردیا۔
عدالت نے دونوں کو طلب کیا، سب سے پہلے مروہ الشربینی سے واقعے کی تفصیلات معلوم کیں اور اس کے بعد جرمن باشندے ایگزل سے کہا کہ وہ واقعہ بتائے تو اس نے کہا میرا بس چلے تو میں اس عورت کو حجاب پہننے کی ایسی سزا دوں کہ ہمیشہ یاد رکھے۔ اس پر عدالت نے اس کو مسلمان عورت کو گالی گلوچ کرنے اور قتل کی دھمکی دینے پر780جرمن مارک یا 2800 یورو کا جرمانہ کردیا اور اسے گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ یہ سنتے ہی جنونی ملعون ایگزل ڈبلیو نے بھری عدالت میں اسلام کی باحجاب بیٹی پر خنجر سے حملہ کردیا، اس کا حجاب نوچ ڈالا اور اس کے جسم پر خنجر سے وار کرنے شروع کردیے ۔ پولیس یہ خونی منظر دیکھنے کے باوجود مروہ الشربینی کو بچانے کے لیے آگے نہ بڑھی۔ مروہ کے شوہر علوی عکاظ نے چیخ چیخ کر عدالت میں کھڑی مسلح پولیس سے کہا کہ وہ اس کی بیوی کو بچائیں۔ مروہ کو بچانے کے بجائے پولیس نے اس کے شوہر کو دو گولیاں ماریں، جس سے اس کی ٹانگیں شدید متاثر ہوئیں، حالانکہ وہ اپنی بیوی کو بچانے کے لیے آگے بڑھا تھا۔ اس دوران جنونی قاتل نے مروہ کے شوہر پر بھی خنجر برسائے، زخمی علوی عکاظ اپنی باحجاب بیوی کو نہ بچاسکا، اسلام کی بیٹی نے بھری عدالت میں دم توڑ دیا۔ اسکندر یہ میں جب شہیدہ کی میت پہنچی تو لاکھوں لوگوں نے بھرپور احتجاج کیا۔
مصری اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین میں اس واقعہ کا اصل ذمہ دار فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کو ٹھہرایا گیا ہے، جس نے حجاب کے خلاف کھلا اعلان جنگ کررکھا ہے، نکولس سرکوزی نے باقاعدہ طور پر فرانس میں حجاب کے خلاف اپنی مہم کے دوران متعصبانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ برقع اور حجاب آمرانہ اقدام، نسل پرستی اور تعصب کا آئینہ دار ہے، برقع پوش خاتون کسی قیدی کی طرح نظر آتی ہے۔

Flag Counter