Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی محرم الحرام 1431ھ

ہ رسالہ

10 - 15
***
یاسیت کی بیماری
ڈاکٹر مبین اختر
پروین نے بتایا کہ گھر سے باہر کہیں آنے جانے کو دل نہیں چاہتا۔ احساسِ کم تری کا شکار ہوں۔ اپنے رنگ کے بارے میں زیادہ احساس رہتا ہے۔ جب میں اسکول میں پڑھتی تھی تو سہیلیاں تھیں اور اسکول کی تقریبات میں انھوں نے مجھے شکل و صورت کے بارے میں احساس دلایا اور میں احساس کم تری کا شکار ہوگئی۔ انٹر تک تعلیم حاصل کی، لیکن سب سے الگ تھلگ رہتی تھی۔ گھبراہٹ ہوتی ہے۔ رونا آتا ہے۔ پہلے سر میں بھی درد ہوتا تھا۔ اب یہ شکایت نہیں ہے۔ مرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ کانوں میں سیٹیوں کی آوازیں آتی ہیں۔ اپنے آپ کو کم زور سمجھتی ہوں اور موٹا ہونا چاہتی ہوں۔ گھر سے باہر خاموش رہتی ہوں۔
پروین کی عمر بائیس سال ہے اور تقریباً ایک برس سے یہ شکایات لاحق تھیں۔ والدہ بھی پروین کی اس کیفیت سے خاصی پریشان اور عاجز تھیں۔ چوں کہ یہ اکثر معمولی معمولی باتوں پر بہت زیادہ غصہ کرتی تھیں اور کھانا پینا چھوڑ دیتی تھیں، والدہ نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل انھیں لیکوریا کی بیماری تھی۔ اندام نہانی سے پانی آتا تھا کہ جیسے پیشاب کررہی ہو۔ ہر جگہ جانے سے گریز کرتی تھیں۔ گھر میں بھائی کی شادی تھی۔ اس میں بہت مشکل سے شرکت کی۔ تمام وقت ڈری سہمی رہیں۔ اکثر چکر آنے کی شکایت کرتی تھیں۔ اکثر تمام دن بستر پر لیٹ کر گزارتی تھی۔
ان شکایات کے علاوہ پروین میں کسی اور بیماری کی کوئی علامت موجود نہیں تھی۔ لیکوریا کی شکایت کا والدہ نے تذکرہ کیا تھا، لیکن جس وقت پروین کو علاج کے لیے نفسیاتی معالج کے پاس لایا گیا اس وقت اس قسم کی کوئی شکایت نہیں تھی۔ پروین کی گفت گو پوری طرح مربوط تھی، یادداشت ٹھیک تھی اور معائنے کے وقت محاوروں کا صحیح مفہوم بیان کیا۔ پروین کو بیماری کا مکمل شعور تھا۔
ان علامات کے پیشِ نظر یاسیت کی بیماری تشخیص کی گئی اور ضدیاسیت ادویہ تجویز کی گئیں۔ علاج کے دوران ابتدا میں کوئی افاقہ محسوس نہیں ہوا۔ اپنی شکل کے بارے میں اکثر خیال آتا کہ رنگ کالا ہے اور ایک روز تجویز کردہ ضدیاسیت ادویہ زیادہ مقدار میں کھالیں۔ دوا کھانے کی وجہ ابتدا میں تو یہ بتائی کہ ایسا جلد صحت یاب ہونے کے لیے کیا تھا۔ مزید گفت گو کرنے پر معلوم ہوا کہ پروین نے خودکشی کرنے کے لیے دوا زیادہ مقدار میں کھائی۔ بہ ہر حال، خودکشی کی اس کوشش کے نتیجے میں طبیعت مزید خراب ہوگئی۔ اُلٹیاں آنے لگیں تو فوری طور پر ہسپتال لانا پڑا۔ جہاں ادویہ دی گئیں اور ڈرپ لگائی گئی تو طبیعت بہتر ہوگئی۔ اس کے بعد ضدیاسیت ادویہ جاری رکھی گئیں۔
چھبیس سالہ شبیر ایک قومی جہاز راں ادارے میں فائرمین کی حیثیت سے ملازم ہے۔ جہاز میں آگ بجھانے کے سلسلے میں پیر میں چوٹ آگئی۔ چوٹ کا علاج کرایا۔ چوٹ تو تقریباً ٹھیک ہوگئی، لیکن اس واقعے کے بعد یہ کیفیت ہوگئی کہ اکثر جی متلاتا ہے، الٹی آجاتی ہے۔ سر میں کبھی کبھی درد محسوس ہوتا ہے۔ دل کی دھڑکن تیز محسوس ہوتی ہے۔ جب جہاز میں آتش زدگی کا واقعہ یاد آتا ہے تو پسینا آجاتا ہے۔ نیند کبھی ٹھیک آتی ہے اور کبھی نہیں آتی۔ مالی حالات کی بھی فکر رہتی ہے کہ کنبے کی کفالت کس طرح کرسکوں گا۔ کم زور ہوگیا ہوں۔ اُداسی اور مایوسی ہوتی ہے۔
ان علامات کے پیش نظر یاسیت کی بیماری تشخیص کی گئی اور ضد یاسیت دوائیں تجویز کی گئیں۔ مریض کو دس روز ہسپتال میں داخل کیا گیا تاکہ ادویہ کے اثرات کا بہ خوبی جائزہ لیا جاسکے اور دیگر نفسیاتی مسائل کے لیے مشاورت بھی جاری رہے۔ ساتھ ہی مشینی علاج بھی تجویز کیا گیا۔ شبیر نے ہسپتال میں دس روز گزارے، اور تقریباً علامات یک سر دور ہوگئیں۔ اس کے بعد چند ماہ بیرونی مریض کی حیثیت سے علاج جاری رہا، تاکہ علاج کی مدت پوری ہوجائے اور بیماری کی علامات دوبارہ رونما ہونے کا کوئی امکان نہ رہے۔
معالجوں کا سابقہ اکثر ایسے مریضوں سے پڑتا ہے جنھیں بہ ظاہر کوئی جسمانی عارضہ لاحق نہیں ہوتا۔ ہر قسم کے معائنے کرائے جاتے ہیں۔ بڑے سے بڑے معالج سے مشورہ ہوتا ہے، لیکن کسی خرابی یا بیماری کا سراغ نہیں ملتا۔ معالج کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح یہ بات سمجھائے کہ موصوف کی صحت قابل رشک ہے۔ مریض اس بات پر اور بھی افسردہ ہوجاتا ہے کہ اگر معالج اس کی بیماری کا علاج کرنے سے قاصر ہے تو کم از کم اس کو صحت مند تو قرار نہ دے۔ بعض معالج اس قسم کے مریضوں کے لیے طاقت کی نام نہاد دوائیں تجویز کرتے ہیں۔ بعض جھنجھلا کر کہہ دیتے ہیں، ”جاؤ میاں عیش کرو، تم بالکل ٹھیک ہو، کیوں اپنا پیسہ اور ہمارا وقت خراب کرتے ہو۔“ کبھی گھر والوں کو ہدایت کردی جاتی ہے کہ مریض کو زیادہ سے زیادہ خوش رکھیں۔ مریض کو تنبیہ ہوتی ہے کہ خوش رہا کرو۔ مریض حیرت سے معالج کی طرف دیکھتا ہے۔ اس کا حال تو یہ ہے:
پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
گھر والے جو سدا مریض کی ناز برداری سے پہلے ہی اکتا چکے ہوتے ہیں، معالج کی ہدایت پر بعض اوقات برہم ہوجاتے ہیں کہ انھیں آخر کس طرح خوش رکھیں۔ گھر میں خواہ کچھ ہوتا رہے، یہ صاحب الگ تھلگ خاموش اور افسردہ رہتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں پر اس قدر خفا ہوتے ہیں کہ سارا گھر شرمندہ ہوجاتا ہے۔ اچھے سے اچھا کھانا یہ کہہ کر رد کردیتے ہیں کہ بھوک نہیں ہے۔ سارے دن بستر پر لیٹے رہتے ہیں۔ پھر یہ شکوہ ہے کہ نیند نہیں آتی۔ بڑے بڑے ڈاکٹروں کو دکھا لیا۔ ہزاروں روپیہ پانی کی طرح بہا ڈالا۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ کوئی مرض نہیں، انھیں یہ شکایت ہے کہ ڈاکٹر کی سمجھ میں میرا مرض نہیں آتا۔ حکیموں کا علاج ہوگیا۔ اور تو اور عاملوں سے دم کرالیا۔ مزاروں اور آستانوں پر حاضری دے ڈالی، لیکن سب لاحاصل۔
یہ علامات ”یاسیت“ (Depression) کے مرض کی ہیں۔ یاسیت کے ہر مریض کو تقریباً انھی حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ مرض دوسروں کو تو بہت معمولی محسوس ہوتا ہے، لیکن مریض کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے۔
علامات
اس بیماری میں چوں کہ جسمانی شکایات مثلاً جسم اور سر میں درد، چکر، نیند اور بھوک کی کمی، قبض وغیرہ کی شکایت عموماً ہوجاتی ہے، لہٰذا ابتدا میں معالج سے یہ ہی شکایت بیان کرتے ہیں اور بالعموم معالجین بھی انھی شکایات کو رفع کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہنی اور جسمانی امراض کی علامات بعض اوقات ایک دوسرے میں اس قدر مدغم ہوجاتی ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ یہ شکایات ذہنی بیماری کا نتیجہ ہیں یا ان کا سبب کوئی جسمانی عارضہ ہے۔ چوں کہ مریض بھی جسمانی تکلیف ہی بیان کرتے ہیں جس سے مرض کی تشخیص بعض اوقات خاصی دیر میں ہوتی ہے۔ مریض اُداسی کے بارے میں صرف اسی وقت بتاتے ہیں جب ان سے اس بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔
اس بارے میں اب سے دس برس بیشتر ایک تحقیقی جائزہ لیا گیا کہ یاسیت کے مریض معالج سے کیا شکایات بیان کرتے ہیں۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ 100 میں سے 90 مریضوں نے دردِسر، چکر اور اختلاجِ قلب کی شکایت کی تھی جب کہ ان مریضوں میں اُداسی کی بیشتر علامات مثلاً اُداسی یا پژمردگی، مایوسی، رونا، نیند اور بھوک کی کمی، موت کی خواہش اور موت کا خوف جیسی علامات بھی موجود تھیں۔ ان شکایات کے بارے میں وہ صرف پوچھنے پر ہی بتاتے تھے۔
اس بیماری میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، دل ہر وقت اُداس و پژمُردہ اور ذہن پریشان رہتا ہے۔ کوئی کام کرنے کی ہمت ہوتی ہے، نہ خوش مزاجی۔ حد درجہ چڑ چڑا ہوجاتا ہے۔ غرض کچھ اچھا نہیں لگتا۔ بات بات پر رونا آتا ہے۔ زندگی اس قدر بے کیف محسوس ہوتی ہے کہ موت کی خواہش ہونے لگتی ہے۔ کبھی یہ خواہش اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ خود کشی کا خیال آنے لگتا ہے۔ لیکن خودکشی چونکہ ایک مسلمان کے لیے گناہ ہے، لہٰذا یہ سوچ کر اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک میں خود کشی کی شرح بہت کم ہے جب کہ دوسرے ممالک میں خودکشی کرنے والے افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ تصور کیجیے کہ جس مرض میں انسان موت کی جستجو کرے، وہ مرض کتنا اذیت ناک ہوگا۔
اس بیماری کی علامات میں ان اصطلاحات کا تذکرہ بہت ضروری ہے۔
(الف) لو بلڈ پریشر:
مریض معالج سے اپنی جسمانی شکایات کا ہی تذکرہ کرتا ہے۔ جب خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوتی تو مریض کو تردد ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ عزیز و اقارب قسم قسم کی بیماریوں کا شک ظاہر کرتے ہیں اور اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ لوبلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے۔ دراصل ہمارے ہاں کم زوری کی شکایت کو لو بلڈ پریشر کہا جاتا ہے اور یہ شکایت بھی یاسیت کے مرض کی ہی ایک بڑی علامت ہے۔ جب مرض کا علاج ہوتا ہے تو دوسری شکایات کی طرح یہ بھی رفع ہوجاتی ہے۔
جہاں تک بلڈ پریشر کی سطح کم ہونے کا تعلق ہے، یہ بات ہر مستند اور تجربہ کار معالج بہ خوبی جانتا ہے کہ خون کے دباؤ کا کسی قدر کم ہونا قطعی فکر کی بات نہیں ہے۔ یہ صرف اس وقت تشویش کا باعث ہوتا ہے جب مریض بے ہوشی کی حالت میں بستر پر لیٹا ہو، ورنہ ایک مریض جو اپنے پیروں سے چل کر ڈاکٹر کے مطب تک آتا ہے، اس کا فشارِ خون کسی حد تک کم ہونا کوئی قابل ذکر بات نہیں ہے۔ خون کا دباؤ اوسط سے کسی قدر کم ہونا اچھی صحت کی نشانی ہے، لیکن اُداسی کے مریض کے لیے صحت کی یہ نشانی خطرناک بیماری کی علامت قرار دے دی جاتی ہے اور اس طرح پریشانی کا ایک نیا باب کھل جاتا ہے۔
(ب) گیس کا مرض:
گیس کی شکایت اکثر مریض کرتے ہیں۔ وہ مختلف شکایات اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں، مثلاً گیس اوپر کو جاتی ہے، پیٹ پھولتا ہے، ڈکاریں آتی ہیں، قبض رہتا ہے، بھوک نہیں لگتی، دست آتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے گیس دماغ میں جارہی ہے، سینے میں جلن ہوتی ہے، کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ یہ علامات بھی یاسیت کی بیماری کی ہیں اور ان کے رفع ہونے سے شکایات بھی رفع ہوجاتی ہیں۔
یاسیت کی اقسام
یاسیت سن رسیدگی
اُداسی کی یہ علامات ادھیڑ عمر اور بڑھاپے میں بھی لاحق ہوجاتی ہیں، کیوں کہ ایک تو انسانی قوت کم زور ہونے سے انسان اُداسی کا شکار ہوجاتا ہے، دوسرا بڑھاپے میں ذمے داریاں بھی بہت کم ہوجاتی ہیں اور لوگ خود کو بے مصرف محسوس کرنے لگتے ہیں۔ یہ صورتِ حال اُداسی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس کیفیت کو ”یاسیت سن رسیدگی“ (Involutional Depression) کہا جاتا ہے۔ خواتین میں اکثر یہ علامات ماہواری بند ہونے کے بعد پیدا ہوتی ہیں اور اُداسی کی علامات کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر شکایات بھی پیدا ہوجاتی ہیں جو کہ جسم میں رونما ہونے والی کیمیائی تبدیلیوں کے سبب ہوتی ہیں۔ اس کیفیت میں اکثر خواتین کو چہرے پر مرچیں سی لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، ہاتھ پیروں میں جلن ہوتی ہے، گرمی زیادہ محسوس ہوتی ہے، پسینا زیادہ آتا ہے۔ اس کیفیت کے لیے ضدیاسیت (اینٹی ڈپریسنٹ) دوا کے ساتھ ساتھ ان شکایات کو دور کرنے والی دیگر دوائیں بھی تجویز کی جاتی ہیں جن کے استعمال سے یہ شکایات جلد رفع ہوجاتی ہیں۔
شدید یاسیت 
بعض اوقات یاسیت کی علامات کے ساتھ ساتھ اوہام اور فریب بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ یعنی مریض کو یہ گمان ہوتا ہے کہ لوگ اس کے خلاف سازش کررہے ہیں، اس کو زہر دیا جارہا ہے، کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس کو وہ آوازیں سنائی دیتی ہیں جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس کیفیت کو ”شدید یاسیت“ (Psychotic Depression) کہتے ہیں۔ علاج کے لیے ضدیاسیت (اینٹی ڈپریسنٹ) دوا کے ساتھ اوہام اور فریب دور کرنے والی دوائیں (اینٹی سائکوٹکس) تجویز کی جاتی ہیں۔ اگر معالج ضرورت محسوس کرے تو مشینی علاج کیا جاتا ہے۔
وجوہ
یاسیت کا مرض دماغ میں کیمیائی تبدیلیاں رونما ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ بالعموم اس مرض کی علامات کسی افسوس ناک واقعے یا شدید نقصان کے بعد شروع ہوتی ہیں مثلاً کسی عزیز کی موت، آتش زدگی یا کوئی مالی خسارہ وغیرہ۔ اس قسم کے حادثات سے انسان کا متاثر ہونا ایک فطری امر ہے، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ غم کا یہ تاثر معدوم ہوجاتا ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا اور غم کی یہ کیفیت برسوں برقرار رہتی ہے۔ اس کیفیت کو یاسیت کی بیماری قراردیا جاتا ہے۔
اس مرض کے بارے میں اس وقت غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے جب مریض اس نوعیت کے حالات سے دوچار ہوتا ہے جو فی الواقعی اُداسی کا سبب ہوتے ہیں۔ اس موقع پر مریض اور اس کے گھر والے اس کیفیت کو حالات کا نتیجہ سمجھ کر ناقابلِ علاج تصور کرلیتے ہیں، حال آنکہ علاج کے بعد مریض بہتر طریقے سے اپنے مسائل سے نبرد آزما ہوسکتا ہے۔
اس کے برعکس، بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ مریض اور اس کے لواحقین اطراف میں کوئی ایسی وجہ نہیں پاتے جو اُداسی کا سبب ہو اور پھر مریض پر شدت سے یہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ چوں کہ وہ انتہائی خوش گوار حالات میں زندگی بسر کررہا ہے، لہٰذا اسے اس مرض میں مبتلا ہونے کا کوئی حق نہیں ہے، حال آنکہ یہ مرض دماغ میں کیمیائی تبدیلیاں رونما ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے اور محض ناخوش گوار حالات اس کا سبب نہیں ہوتے۔
علاج
اس مرض کے بارے میں سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشیں کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ دیگر جسمانی امراض کی طرح کا ہی ایک مرض ہے جس طرح بخار کا مریض اپنے معمولات انجام نہیں دے سکتا۔ اسی طرح یاسیت میں مبتلا کسی فرد کے لیے اپنے فرائض منصبی بجا لانا ناممکن ہے، جس طرح بخار کے علاج کے لیے دواؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اس مرض کا علاج بھی معالج کی تجویز کردہ ادویہ کے ذریعے سے ہی ممکن ہے۔ صرف خوش رہنے یا گھر والوں کا اچھا برتاؤ کرنے سے یہ شکایات رفع نہیں ہوسکتیں۔ چوں کہ اس مرض کی تشخیص کسی آلے یا خون کے کیمیائی جائزے سے نہیں ہوتی، لہٰذا اس کی شدت کا اندازہ بھی صرف اس مریض کو ہی ہوتا ہے کہ جو اس مرض میں مبتلا اور انتہائی اذیت سے دوچار ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ جس بنا پر یہ کہا جاسکے کہ مریض خوش رہ کر اپنے مرض پر قابو پاسکتا ہے۔ ایسی بے شمار تکالیف اور کیفیات ہیں جس کو ناپنے کے لیے آلہ موجود نہیں ہے، لیکن اس طرح یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ محض مریض کے ذہن کی پیداوارہیں۔ گردے کے درد میں مبتلا مریض کی تکلیف کسی آلے سے نہیں ناپی جاتی، لیکن کوئی معالج گردے کے درد میں مبتلا مریض کو محض خوش رہنے کا مشورہ دے کر رخصت نہیں کرتا بلکہ اس کی شکایت فوری طور پر رفع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ اسی طرح یاسیت کے مریض کا علاج بھی دوا اور دوسرے جدید طریقوں سے کرنا چاہیے۔
علاج کے لیے جو ادویہ تجویز کی جاتی ہیں ان کا اثر بالعموم دو تین ہفتے میں ہوتا ہے، لیکن اس سے دل برداشتہ ہو کر علاج ترک نہیں کرنا چاہیے، بلکہ معالج کی ہدایت پر علاج جاری رکھا جانا چاہیے۔ ابتدا میں مریض کو تین دن بعد دیکھنے کے لیے بلایا جاتا ہے اور اس کیفیت کے مطابق ادویہ میں رد و بدل کیا جاتا ہے۔ مریض کے گھریلو حالات کے بارے میں گفت گو کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں مریض کی رہ نمائی کی جاتی ہے۔ علامات کے رفع ہونے کے بعد بھی کچھ عرصہ ادویہ کا استعمال جاری رکھنا ہوتا ہے، ورنہ مرض کی علامات دوبارہ رو نما ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ پھر بہ تدریج ادویہ میں کمی کرکے ان کا استعمال مکمل طور پر بند کردیا جاتا ہے۔
مشینی علاج یاسیت کے مرض میں انتہائی موثر ثابت ہوا ہے تاہم یہ علاج ماہر معالج ہی اپنی نگرانی میں کراسکتا ہے، اور وہ بھی شدید ضرورت کے تحت۔
شدید یاسیت میں جب اُداسی کی علامات کے ساتھ اوہام اور فریب ہوں، یعنی مریض کو اس قسم کے شکوک ہونے لگیں کہ لوگ اس کے دشمن ہیں، اس کے خلاف سازش ہورہی ہے یا اس کو بے بنیاد آوازیں سنائی دیں یا بے سبب کوئی خوشبو یا بدبو محسوس ہو تو ضد یاسیت دواؤں کے ساتھ مشینی علاج بہت موثر ثابت ہوتا ہے۔

Flag Counter