Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی محرم الحرام 1431ھ

ہ رسالہ

3 - 15
***
مدارس پر چھاپے…ایک سوچا سمجھا منصوبہ
مولانا محمد حنیف جالندھری
حالیہ دنوں میں دینی مدارس پر چھاپوں کا ملک گیر سلسلہ شروع ہوا۔اس سلسلے کا آغاز اسلام آباد کے مدارس پر چھاپوں سے ہوا اوربعد ازاں لاہوراور فیصل آباد سے ہوتاہوا یہ سلسلہ کراچی کے مدارس تک پھیل گیا ۔اس آپریشن کے دوران بیسیوں مدارس پر چھاپے مارے گئے، لیکن کہیں سے نہ تو اسلحہ برآمد ہوا اور نہ ہی کسی مشکوک شخص کی گرفتاری عمل میں آئی۔ پولیس نے اپنی ناکامی اور سبکی مٹانے کے لیے عجیب اوچھے ہتھکنڈوں سے کام لیا ۔آپ کراچی کے مدرسہ رحمانیہ بفرزون کی مثال لے لیجیے، اس ادارے میں قریبی تھانے کے پولیس اہلکار آئے، انہوں نے پوچھا ”کیاآپ کے ہاں غیرملکی طلبا زیر تعلیم ہیں ؟“ ادارے کی انتظامیہ نے کہا ”جی ہاں! بالکل ہیں مگران کے پاس مکمل سفری اور قانونی دستاویزات ،این اوسی اورنادرا کا رڈ موجود ہیں۔ “پولیس اہلکاروں نے کہا کہ ” بہت اچھی بات ہے، آپ مہربانی فرماکر ان طلباء کو ہمارے ساتھ بھیج دیں، ہم اپنے ہاں ان کے کوائف کا اندراج کرنا چاہتے ہیں “مدرسہ انتظامیہ نے ان طلبا کو پولیس کے ہمراہ بھیج دیا لیکن پولیس نے ان کے کوائف کااندراج کرنے کے بجائے میڈیا کے نمائندوں کو تھانے بلالیا اور ان معصوم،مظلوم اور مہمان طلبا کو دہشت گرد وں کے روپ میں میڈیا کے سامنے پیش کردیا اور ان کی گرفتاری ڈال دی ۔ان طلبا کو اگلے دن جب عدالت میں پیش کیاگیا تو عدالت نے ان کے کاغذات کو تسلی بخش اور قابل قبول قرار دیتے ہوئے انہیں بری کر دیا لیکن میڈیا کے ذریعے جو ڈھنڈورہ پیٹا جا چکاتھا،اس کاازالہ ممکن نہ تھا۔ اسی طرح کے اوچھے ہتھکنڈے دوسری جگہوں پر بھی بروئے کار لائے گئے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ مدارس کی انتظامیہ اور تمام مدارس کے نمائندہ وفاقوں نے ہمیشہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون بھی کیا اور اپنے اداروں کو کھلی کتاب کی مانند قراردیا ،یہ مدارس کبھی بھی نوگوایر یا نہیں رہے کہ ان پر پورے لاؤولشکر سمیت یلغار کی ضرورت پیش آئے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وقفے وقفے سے ان مدارس کو مشقِ ستم بنا یا جاتاہے اور معمول کی چیکنگ ،کوائف وغیر ہ کے حصول ،خفیہ نگرانی کے مسلسل اور مربوط سلسلے کے ہوتے ہوئے سمجھ نہیں آتی کہ کیوں کچھ عرصے بعد مدارس پر اس انداز سے چڑھائی کر دی جاتی ہے، جیسے اسرائیلی افواج غزہ یا بھارتی افواج کشمیر پر چڑھائی کیا کرتی ہیں ۔ حالیہ دنوں میں مدارس کے خلاف جن حالات میں کریک ڈاوٴن کیا گیا ان سے اندازہ ہوتاہے کہ ان چھاپوں کے لیے ڈوری کہیں اور سے ہلائی گئی تھی۔کیری لوگر بل میں چونکہ مدارس کی مشکیں کسنے کی شرط بھی شامل تھی، اس لیے اس بل کی وفاقی کا بینہ سے منظوری ہوتے ہی مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا اور عین اس موقع پر جب سینیٹر جان کیری اور جنرل پیٹر یاس پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے تھے مدارس پر چھاپے مارے گئے اور لاہور کے مدارس کو اس وقت مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑا جب بعض” اہم مہمانوں“ کی لاہور آمد آمد تھی۔ مدارس کے ذمہ داران نے ایک بات بطور خاص نوٹ کی کہ چھاپے مارنے سے قبل پورے میڈیا کوباقاعدہ اطلاع دے کر ان کی حاضری کو یقینی بنایا جاتا تھا اور پھر اس چھاپہ مار مہم کا خوب ڈھنڈورہ پیٹا جاتا تھا ۔اس سے لگتاہے کہ یہ آپریشن مدارس کے میڈیا ٹرائل اور ایک منظم مہم کا حصہ تھا ۔ان چھاپوں کے بعد ایک اور بات یہ نوٹ کی گئی کہ بعض نجی چینلز کے بعض اینکر پرسنز نے مدارس کو آڑے ہاتھوں لیا اور بعض نام نہاد دانشوروں اور قلم کاروں نے مدارس کے خلاف مزید کارروائی کے لیے ہلہ شیری دی اور بتدریج مدارس کے خلاف ماحول بنایا جانے لگا۔یہ سب کچھ ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں لگتی ہیں ۔
ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے تناظر میں مدارس پر چھاپے مارکر جہاں اس عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے ڈانڈے مدارس سے ملانے کی کوشش کی گئی، وہیں حکومتی اداروں نے اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے بھی مدارس کو ہی اپنا ہدف بنایا ۔ہمارے ہاں یہ عجیب ماحول بن گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی واردارتیں کروانے والی اصل قوتوں کو بے نقاب کر نے کی بجائے ”مرے کو مارے شاہ مدار“کے مصداق ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے دینی مدارس پر چڑھ دوڑتے ہیں اور اپنے نمبر بنانے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسری طرف اصل تخریب کاروں کو افغانی بھیس ،جعلی نمبر پلیٹ ،ناجائز اسلحہ سمیت گرفتار کر کے اپنے” صوابدیدی اختیارات“ کی بنیاد اور ایک فون کال پر چھوڑ دیاجاتا ہے۔ 
مدارس کے خلاف یہ کریک ڈاؤن ایک ایسے وقت کیا گیا جب وطن عزیز تاریخ کے انتہائی نازک ترین دور سے گزررہاہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے گلے شکوے دور کیے جائیں اور مختلف ناراض طبقات کے خدشات کے ازالے کی فکر کی جائے، جبکہ ہمارے ارباب اختیار الٹانت نئے محاذ کھول رہے ہیں اور مدارس کے لاکھوں طلبا ،ہزاروں علما اورمدارس کے ملک بھر میں پھیلے معاونین اور متعلقین میں تشویش واضطراب پیدا کرکے وطن عزیز کو مزید بدترین حالات اور بحرانوں سے دوچار کررہے ہیں۔موجودہ حالات میں مدارس کے خلاف چھاپے، جہاں غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں وہیں، بدترین ناعاقبت اندیشی کے زمرے میں بھی آتے ہیں۔ اس وقت اعلیٰ سرکاری حکام کو سوچناچاہیے کہ کہیں کوئی ایسی خاص قسم کی لابی تو نہیں جو دانستہ طور پر حالات کو بگاڑ نا چاہتی ہے اور حکومت اور دینی قوتوں کے مابین محاذ آرائی کے لیے راہ ہموار کررہی ہے ۔
مدارس پر حالیہ چھاپے مدارس کے خلاف امتیازی سلوک بھی ہے، کیونکہ وہ عصری ادارے جہاں سے آئے روز اسلحہ برآمد ہورہاہے، جہاں قتل وغارت گری اور طلبا کے مابین تصادم روز کامعمول بن گیاہے، ان کے خلاف کریک ڈاؤن کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی اور سارا نزلہ صرف مدارس پر گرایا جاتاہے ۔اسی طرح نجی ہاسٹلز،ہوٹلوں اور دوسری جگہوں پر کریک ڈاوٴن نہیں ہوتا، صرف مدارس کے خلاف ہی کیوں ہوتا ہے ؟
دینی مدارس جہاں سے ہر وقت قا ل اللہ وقال الرسول کی صدائیں گونجتی ہیں ،جہاں ملک کے استحکام وسا لمیت کے لیے قرآن کریم کا ختم ،سورہ یسین کی تلاوت اور آیت کریمہ کا ورد کیا جاتا ہے وہاں اس طرح چھاپے مار کر ان اداروں کا تقدس پامال کرنا نہایت افسوس ناک ہے ۔بعض جگہوں سے یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ پولیس اہلکار جوتوں سمیت مسجدوں میں گھس گئے ،بعض جگہو ں پربچیوں کے مدارس میں چادر اور چار دیواری کا تقدس بھی پامال کیا گیا ۔یہ کس قدر شرمناک بات ہے ؟ پاکستان کے عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ دینی مدارس کو اس لیے نشانہ بنایاجا رہا ہے کہ وہ مراکز جو اسلام کی حفاظت کے قلعے ہیں ان میں نقب لگائی جائے اور جو ادارے لوگوں کے دین سے وابستگی اور حصول علم کا ذریعہ ہیں ان کو بدنام کر دیاجائے، اس لیے اس قسم کے کریک ڈاوٴن کا سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہیے، تاکہ عوامی تشویش واضطراب کا خاتمہ ہو سکے ۔ 
میں نے ان چھاپوں کے بعد تقریباً ہرمدرسہ کی انتظامیہ اور مہتمم صاحبان سے رابطہ کیا ، ان کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کی ،اس دوران یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی کہ اس قسم کی کارروائیوں سے ملک بھرمیں بہت زیادہ اشتعال اور غم وغصہ پایا جاتاہے ۔ان چھاپوں کے بعدراولپنڈی اسلام آباد کے علمائے کرام نے تمام اہم سرکاری شخصیات اور اعلیٰ حکام سے وفد کی صورت میں ملاقاتیں کیں ،اسی طرح کراچی کے علما نے گورنر سندھ سمیت دیگر لوگوں سے گفتگو کی اور خود میں نے وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک ،سیکرٹری داخلہ،آئی جی پنجاب ،ہوم سیکرٹری ،چیف کمشنر اسلام آباد اور دیگر تمام اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی مدارس کے خلاف ہونے والے کریک ڈاؤن کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ ہرایک دوسرے پر ڈال رہا ہے اور زبانی طور پر مدارس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے، لیکن عملاً پھر مدارس پر چڑھائی کردی جاتی ہے۔ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ تعلیم وتعلم میں مصروف لوگوں کے غم وغصہ اور مدارس کے طلبا کے اشتعال کوآخر کب تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور ہم یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس صورتحال کو کیا نام دیاجائے… قول وفعل کا تضاد کہا جائے یا کسی تیسری قوت کی کارستانی ؟…اسلام دشمنی سمجھا جائے یا استعماری قوتوں کی غلامی ؟…اور متاثرہ فریق کو صبر وتحمل کی ترغیب دیں یالانگ مارچ کی تیاری کریں ؟ …کیونکہ اس ملک میں لانگ مارچ کے بغیر نہ تو کوئی مطالبہ منوایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اپناحق حاصل کیا جا سکتا ہے۔

Flag Counter