Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی محرم الحرام 1431ھ

ہ رسالہ

13 - 15
***
مستشرقین کی علمی تحقیقات اور ان کے مقاصد
مولانا عمیر الصدیق
اس مضمون کے دو پہلو ہیں، ایک تو مستشرقین کی علمی تحقیقات اور دوسرے ان کے اصل مقاصد، دیکھا جائے تو یہ دونوں پہلو اصلاً ایک ہی ہیں، مستشرقین کی علمی تحقیقات دراصل ان کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہیں ، اس لیے تحقیقات اور مقاصد میں معنوی طور سے کوئی فرق نہیں۔
یہاں اولاً خود مستشرقین او راستشراق کی تعریف کی ضرورت ہے، لیکن اب یہ طبقہ اس درجہ معروف ہے کہ آپ سے یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ اصطلاح مغرب کے ان اہل علم وتحقیق کے لیے خاص ہے جنہوں نے مشرقی علوم وفنون، زبان اورآ داب اور تہذیب وثقافت جس میں مذہب بھی شامل ہے کو اپنی دلچسپی کا موضوع بنایا اور ان کا خصوصی مطالعہ کرکے براہ راست ان سے واقفیت حاصل کی۔
ایک سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ استشراق کی ابتدا کب او رکن حالات میں ہوئی ، اب اصطلاحی مستشرقین کی تاریخ دیکھی جائے تو محققین کے مطابق اس طبقے کے کئی ادوار سامنے آتے ہیں ، مثلاً ایک دور تو وہ ہے جب اسپین اور سسلی کی سر زمین پر عربوں نے پہلا قدم رکھا ، اسپین میں عربوں کی آمد سب جانتے ہیں کہ تہذیب وتمدن او رعلوم وفنون کے ایک نئے اور انقلاب آفریں دور کی شروعات تھی ، عربوں یعنی مسلمانوں کی علمی سر بلندی کا راز دریافت کرنے کا جذبہ اور خود اسلام کی حقیقت کو سمجھنے کی خواہش اس وقت کے اسپینی اور وسیع پیمانے پر پورے یورپ کے عیسائیوں میں پیدا ہونا ایک فطری امر تھا ، چناں چہ بارہویں صدی عیسوی میں طلیطلہ کے وریمورنڈ ابراہم بن عذراء، گیرررڈی کریمونا ، ایڈی لرڈ، ڈینیل آف مالے ، میکل اسکاٹ وغیرہ ایسے نام ملتے ہیں جنہوں نے اسلامی علوم کی کتابوں کو اپنی زبانوں میں منتقل کیا۔
اس کے بعد وہ زمانہ آتا ہے جس کے متعلق ہمارے محققین نے لکھا کہ یہ صلیبی جنگوں کے بعد کا دور ہے ، علامہ شبلی نے اس دور کے مستشرقین کی علمی دلچسپیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ”یورپ کی فیاض دلی قابل رشک ہے کہ ایک طرف تو وہ مذہبی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کے خون کا پیاسا تھا ، لیکن دوسری طرف اس نے بے تکلف مسلمانوں کے خوان کرم سے زلہ ربائی شروع کر دی ، اس دو رکی خصوصیت یہ ہے کہ اب مستشرقین کے طرز فکر اور انداز تحقیق میں بنیادی تبدیلی آگئی ، یعنی اسلام کی تعلیمات اور پیغمبر اسلام کی حیات طیبہ، بلکہ اسلامی تہذیب کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہا جو ان مستشرقین کے تعصبانہ افکار کی زد میں نہ آگیا ہو، اسی دور میں اسلام کی جو غلط تصویر یورپ والوں کے سامنے پیش کی گئی وہ مدتوں تک تاریخی حقیقت کے طور پر یورپ میں زبان زدرہی۔
اس دوسرے دور کے بعد وہ دور شروع ہوا جس کا تعلق یورپ کے صنعتی انقلاب سے ہے ، یورپ کے اس صنعتی انقلاب نے ان کے اندر استعمار او رملک گیری کی نئی ہوس کو ہوا دی ، دولت اور اقتدار اور قبضہ کی اس ہوس کا نشانہ ظاہر ہے مسلم ممالک ہی تھے ، ایسے میں اسلام کے لیے کھلا عناد اور دشمنی ظاہر ہے سیاسی مصلحتوں اور مفادات کے لیے مناسب نہیں تھی ، اس لیے مسلمانوں کی تاریخ کے ایک ایک پیچ وخم، سماجی رحجانات اور دینی شعور کی فیاضی کی ضرورت تھی ، نیا یورپ اس حقیقت سے واقف ہو چکا تھا کہ محکوم کے دل ودماغ تک پہنچے بغیر حکمراں کی کوئی ساحری کامیاب نہیں ہو سکتی ، چناں چہ مستشرقین نے اب اپنا رخ اور چہرہ بدلا ، اب کھلے عناد او رجنگ وجدل کی ظاہری علامات کی جگہ علمی اور فکری یلغار کی تیاری شروع ہوئی ، عربی پڑھانے کا انتظام کیا گیا ، اسلام کے علمی ذخائر کو جگہ جگہ سے سمیٹ کر لانے کے منصوبے بنائے گئے ، اس سلسلے میں ایڈورڈ پوکاک، جارج سیل، ریسکے، بورہرڈ، سلوسٹرڈی ساسی، ڈوزمی، رابرئن اسمتھ کے نام آتے ہیں، یہ وہ تمام مستشرقین ہیں جنہوں نے زہر کی تلخیوں کو تحقیق کے شہد میں اس طرح چھپایا کہ کام ودہن کو تو تلخی محسوس نہیں ہوئی، لیکن زہررگ وپے میں اتر گیا ، یہ تیسرا دور ، دوسرے دور سے بھی زیادہ سر گرم اور کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔
اس کے بعد ایک دور وہ آیا جو یورپ کی استعماری ہوس کے کمزور ہونے کا دور تھا ، جن ملکوں پر یورپ والوں کا قبضہ تھا ، وہاں آزادی کی تحریکوں نے غاصبین کا چین وآرام چھیننا شروع کر دیا، یورپ کے شاطر دماغوں نے یہ حقیقت سمجھ لی کہ اب ان نو آبادیوں کی آزادی کو ٹالنا اور ان کو پہلے جیسا محکوم بنا کرر کھنا ممکن نہیں ، لیکن سیاسی اقتدار اور مصالح ومفاد کے لحاظ سے بالکل بے تعلق رہنا بھی ناممکن ہے، چناں چہ ہمارے ایک عالم کے بقول ”اب تمدنی رشتوں کی نئی زنجیریں وضع کرنے کے لیے اسلامی علوم کا نئے انداز سے مطالعہ ضروری ہوا، سیاسی مصلحتوں نے اس دور کے مستشرقین کے لب ولہجہ کو اس طرح متاثر کیا کہ اب ان کی تحقیقی کاوشوں میں رنگِ احترام آگیا ، لیکن احترام کا یہ ڈھونگ ایسانہیں تھا کہ اس کی حقیقت پرنگاہ نہ پڑ سکے ، اہل فکر نے صاف دیکھا کہ اب ایسے فتنوں کو خاموشی سے بیدار کر دینے کی جستجو شروع ہو گئی جن سے مسلمان ممالک افتراق اور انتشار کا شکار بن جائیں اورملی وحدت کی مضبوط رسی ان کے ہاتھوں سے چھوٹ جائے ، دوسری جنگ عظیم کے بعد انگلینڈ میں ” اسکاربرو“ رپورٹ سامنے آئی، جس کو محققین نے بجا طور پر استشراق جدید کے منشور سے تعبیر کیا ، اس میں صاف طور پر اس حقیقت کا اظہار ہوا کہ اگر نئے ابھرتے ہوئے مشرق کو پوری طرح نہیں سمجھا گیا تو برطانوی مقاصد بری طرح متاثر ہوں گے ، ان برطانوی مقاصد کو نام بھی بڑا معصوم دیا گیا ، یعنی ”ورلڈ پیس“ ”امن عالم“ لیکن بقول پروفیسر خلیق احمد نظامی اس رپورٹ کے ایک ایک حرف سے سامراجی جذبات کے نئے چولے کے رنگ جھانک رہے تھے ، ایچ۔ اے۔ آر۔ گب نے ”ماڈرن ٹرینڈس ان اسلام“ میں اسی انداز سے مسلمانوں کی نبض ٹٹولی۔
اس چوتھے دور کے بعد وہ دور شروع ہوا جس میں ہم آپ سانس لے رہے ہیں ، یعنی مسلمان ملکوں میں پٹرول اور معدنیات کے نئے ذخائر کی دریافت کی وجہ سے ان ملکوں کی اقتصادی خوش حالی سامنے آئی تو یہ یورپ کے لیے تشویش، بلکہ تو حش کا سبب بن گئی ، اب ان کی اصل فطرت سامنے آئی کہ اقتصادی اعتبار سے کیسے فائدہ اٹھایا جائے؟ مستشرقین نے یہاں پھر اپنا انداز بدلا ،اب ان کی دلچسپی جدید مذہبی تحریکوں، سماجی رجحانوں اوراقتصادی امکانوں کی جانب منتقل ہوئی ،اب فکر اسلامی کی توجیہ وتعلیل سے زیادہ مسلمان ملکوں کے اندرونی او ربیرونی حالات کا تجزیہ ان کا سب سے بڑا موضوع بنا ، قومیت کے وہ عناصر جو وحدت ملی کے تصورات کو پارہ پارہ کر سکتے ہیں ، یہ ان مستشرقین کی توجہ کا مرکز بنے ، یعنی اب پہلی بار یہ محسو س ہوا کہ صیہونیت نے مستشرقین کے انداز تحقیق سے خاموشی سے ساز باز کر لی ، ایریا اسٹڈی، سیاست ارضی او رعمرانیات ونفسیات کو اہمیت دے کر دینی عناصر کے مطالعہ سے گریز کیا جانے لگا ، اس دور میں یورپ کے ساتھ امریکا بھی بلکہ وہی زیادہ نمایاں ہو کر اس طرح سامنے آیا کہ مشرق وسطیٰ کے مطالعات کے لیے کثرت سے مراکز قائم ہوئے او رہر مرکز اسی خلش سے قائم ہوا کہ ہائیڈرو پالی ٹیکس، اسلام اور نوآبادیات اور جدید تاریخ میں جہاد جیسے موضوع پر غور شروع ہوا اور اس طرح شروع ہوا کہ مستشرقین پہلی بار اس تذبذب میں مبتلا ہوئے کہ اسلامی فکر کا دھارا اب کس رخ بہے گا اور یہ کہ اب کہاں کہاں اورکس کس طرح بند بنایا جائے۔
مستشرقین کی اصطلاحی تاریخ کے یہ پانچ ابواب ہیں، جن سے ان کی فکر ، مقصد، منہج، محرکات او رمحسوسات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن اگر اور غور سے دیکھا جائے تو یہ اصطلاحی تاریخ نامکمل ہے، یہ تاریخ تو اسی روز سے شروع ہوتی ہے جب اسلام پہلی بار پیغام حق لے کر آیا او رمخالفت میں گو کفار قریش تھے، لیکن ان سے بڑھ کر وہ یہود ونصاری تھے ، جنہوں نے نسلی تعصب او رمذہبی عصبیت کی وجہ سے اسلام کو اپنے مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھ کر اسلام کا راستہ روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ، قرآن مجید نے جب یہ کہا کہ﴿وقال الذین کفروا لا تسمعوا لھذا القرآن والغوا فیہ لعلکم تغلبون﴾ تو گویا یہ استشراق کی روح کا اظہار تھا۔
قرآن مجید کی یہ آیت کہ :﴿وقالت طائفة من أھل الکتاب امنوا بالذی أنزل علی الذین امنوا وجہ النھار واکفروا اٰخرہ لعلھم یرجعون﴾ یا یہ کہ ﴿ودوا لوتدھن فیدھنون﴾ نے صاف بتایا کہ زمانہ نبوت کے یہود ونصاری اس دور کے مستشرق تھے، اس لیے اس سلسلہ استشراق کے ادوار کی تقسیم کی ضرورت نہیں، ان کا جو رویہ اور رحجان اور نیت آج ہے وہ پہلے بھی تھی ، اس لیے مستشرقین کا نام ہو یا کوئی اور نام ، ان کو پہچاننے میں کوتاہی ذرا بھی نہ کی جائے ، ہاں! وقت کے ساتھ ان کے طور طریق، انداز اور لب ولہجہ میں فرق ضرور آتا ہے، کبھی دشنام طرازی، کبھی باقاعدہ جنگ وجدال، کبھی تحقیق کے نام پر تاریخی تلبیات او رکبھی اسی تحقیق کو ” علمی“ کا نام دے کر بظاہر معقول اورمعروضی مباحث۔ صرف شکلیں بدلتی ہیں ، روح سب میں ایک ۔ موجودہ دور ڈپلومیسی کا دور ہے اس لیے لفظ مستشرقین کو بڑی معصومیت سے زبان سے ادا کیا جاتا ہے ، ہمارے اکثر روشن مزاج اہل عقل ودانش بھی کہتے ہیں کہ اگر بیچارے مغربی اسکالر اور مفکرین مشرقی علوم وفنون کی تحصیل وتحقیق میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں ، وقت ہی نہیں ، سرمایہ اور ذہنی صلاحیتیں بھی وہ کام جو ہمیں کرنا چاہیے ، بیچارے وہ کر رہے ہیں ، کیا یہ ان کا احسان نہیں ، لیکن یہ اہل دانش اپنی سطحی نظر سے اس دام کو نہیں دیکھ پاتے جو مستشرقین نے ان کے شکار کے لیے بچھائے ، حکیم مشرق علامہ اقبال نے صحیح کہا تھا کہ جہاں تک اسلام پر ریسرچ کا تعلق ہے ، فرانس ، جرمنی، انگلستان اور اٹلی کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے مقاصد خاص ہیں جن کو عالمانہ تحقیق او راحقاق حق کے ظاہری طلسم میں چھپایا جاتا ہے، سادہ لوح مسلمان طالب، طلسم میں گرفتار ہو کر گم راہ جاتا ہے ، اب اس سادہ لوحی کو کیا کہا جائے ، یورپ میں سائنس او رمذہب کامعرکہ جلدی شروع ہوا او رجلدی ہی ختم ہو گیا، لیکن مستشرقین نے مشرق میں اس جنگ کو طول دے کر مسلمانوں کو قدم قدم پر اپنے مذہب کے ناقص ہونے کا احساس دلایا۔
ایک مقصد یہ بھی سامنے آیا کہ مسلمانوں کے ذہن کو ایسے مسائل میں الجھا دیا جائے جن کا ان کی مکمل زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو، لیکن قوائے حصّہ ذہنی کو مضمحل کرنے میں کارگر ثابت ہوں ، اقبال کی نظم میں ابلیس کا جو بیشتر مسلمان کو ان گتھیوں کے سلجھانے کی تلقین کرتا ہے کہ #
ابن مریم مر گیا یا زندہٴ جاوید ہے
ہیں صفات حق، حق سے جدا یا عین ذات
ہیں کلام الله کے الفاظ حادث یا قدیم
امت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے
تا بساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
تو اس میں مستشرق ہی کا دل دھڑکتا دکھائی دیتا ہے۔
ایک اور مقصد جو اہل فکر سے مخفی نہیں، وہ یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کے ایسے گوشوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر زیر بحث لایا جائے جو مسلمانوں میں اتحاد ملی کے جذبات کو نشو ونما پانے سے روک دیں ، اس مقصد میں و ہ کام یاب بھی ہوئے او رکتنی ہی عداوتیں جو وقت کے ساتھ بے جان ہو گئی تھیں ان کو نئی زندگی بخش دی۔
مستشرقین کے حالات، ان کی تحقیقات او ران کے مقاصد کے متعلق یہ بہت ہی سر سری جائز ہ ہے ، دارالمصنفین نے اسلام اور مستشرقین کے نام سے سات جلدوں میں ان کی ایک ایسی تاریخ پیش کر دی ہے جو اس سلسلہ میں کام کرنے والوں کے لیے بہت مفید ہے ، زیادہ معلومات کے لیے ان کتابوں سے رجوع کیا جانا چاہیے او ران سے یہ پیغام لینا چاہیے کہ #
فرنگ سے بہت آگے ہے منزل مومن
قدم اٹھا، یہ مقام انتہائے راہ نہیں

Flag Counter