Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی محرم الحرام 1431ھ

ہ رسالہ

2 - 15
***
اطمینانِ قلب
مولانا سید زوار حسین شاہ 
آج دنیا کی ہر قوم اور قوم کا ہر فرد بے اطمینانی کا شکا راور افراتفری سے دو چار ہے ، امریکا ہو یا یورپ ، چین ہو یا جاپان ، مشرق وسطیٰ ہو یا برصغیر ہندوپاک ، آسٹریلیا ہو یا افریقا، ہر جگہ کے لوگ دولت کی فراوانی، صنعت وحرفت کی بلندی ، تخت وتاج کی عظمت، عیش وعشرت کی سہولتوں اور سیر وسیاحت کی کامرانیوں کے باوجود اطمینان قلب کی دولت سے عام طور پر محروم ہیں ، اس کی ضرورت کو نہایت شدت سے محسوس کرتے اور اس کی طلب میں اندھوں کی طرح اندھیرے میں ٹٹولتے پھر رہے ہیں۔ کچھ لوگ مختلف مذاہب میں اس گوہر مقصود کی جستجو کرتے ہیں تو کچھ لوگ متفرق نظریات حکمت وفلسفے میں اس دولت نایاب کو تلاش کرتے ہیں، لیکن محرومی وناکامی کے سوا ان کو کچھ نصیب نہیں ہوتا۔ فلسفے وحکمت نے اطمینان قلب کے حصول کے لیے جو نظریات مہیا کیے ہیں ، ان میں بے اطمینانی کے مرض کا کوئی مداوا نہیں ہے ، بلکہ وہ اس میں مزید اضافے کا باعث ہو تے ہیں۔
اسلام کے علاوہ دیگر مروجہ مذاہب عالم نے بھی عدم سکون اور بے اطمینانی کی بیماری کی لیے جو نسخے تجویز کیے ہیں وہ سب عملی طور پر ناکام ہو چکے ہیں ۔ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اس مرض کا تیربہ ہدف اور کام یاب نسخہ مرحمت فرمایا ہے۔ چناں چہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ الذین امنوا وتطمئن قلوبھم بذکر الله الا بذکر الله تطمئن القلوب﴾․
یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے او رجن کے دلوں کو الله تعالیٰ کے ذکر سے اطمینان حاصل ہوتا ہے ، خوب سمجھ لو کہ الله تعالیٰ کے ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں وضاحت فرما دی گئی ہے کہ اطمینان قلب نہ مال ودولت کی کثرت سے حاصل ہوتا ہے ، نہ ملوں، کارخانوں او رزمینوں سے اور نہ عہدوں اور جاہ ومراتب سے حاصل ہوتا ہے، بلکہ یہ صرف مؤمنوں کو حاصل ہوتا ہے جو ہر وقت الله تعالیٰ کی یاد کرتے رہتے ہیں ۔ مومنوں کے دل کی غذاالله تعالیٰ کا ذکر ہے ، جب وہ الله تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے دلوں کا الله تعالیٰ کے ساتھ انس بڑھتا ہے ، جس کی برکت سے ان کو اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے ۔ جس طرح مچھلی کوپانی میں ، خشکی کے جانور کو ہوا میں اور وحشی جانور کو جنگل میں رہ کر سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے ۔ اسی طرح مؤمن کو الله تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہ کر ہی اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے اور جو دل الله تعالیٰ کی ذکر سے محروم ہوتا ہے اس پر غفلت طاری رہتی ہے ۔ وہ اہل غفلت کی صحبت اختیار کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کے دل کو قلق واضطراب لاحق رہتا ہے ۔ جس طرح مچھلی جب پانی سے جدا ہو جاتی ہے، خشکی کا جانور جب پانی میں جاگرتا ہے اور جنگلی جانور جب پنجرے میں بند کر دیا جاتا ہے اس کو اضطراب لاحق ہو جاتا ہے، اسی طرح الله تعالیٰ کی یاد سے غافل دل بھی مضطرب وبے قرار رہتا ہے۔ مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ الله تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اور جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے وہ اس کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے ، اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ الله تعالیٰ بھی اس مؤمن سے محبت کرتا ہے او راس کو دوست رکھتا ہے ۔ جیسا کہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿الله ولی المؤمنین﴾ اورحدیث قدسی میں ہے :”انا جلیس من ذکرنی“ میں اس شخص کا ساتھی ہوں جو مجھے یاد کرتا ہے ۔
او رجب الله تعالیٰ کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو اس کو دنیا وآخرت میں اطمینان نصیب فرماتا ہے او رخوف وحزن کو اس سے دور فرما دیتا ہے ۔ ایسے خوش نصیبوں کے لیے الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿الا ان اولیاء الله لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون﴾ آگاہ ہو کہ الله تعالیٰ کے دوستوں پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ حزن وملال سے دو چار ہوتے ہیں ۔
حضرت ا بوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اس آیت مبارکہ کے بار ے میں دریافت کیا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ … تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو الله تعالیٰ کے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں ، حضرت جابر رضی الله عنہ سے بھی اسی معنی کی حدیث مروی ہے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ الله تعالیٰ کے ولی ہیں ، ان میں آپس میں محبت ہوتی ہے او رجب لله فی الله ان میں محبت ہوتی ہے تو وہ خلوص دل سے ایک دوسرے کی خدمت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، اتحاد وتعاون کا جذبہ ہر وقت ان میں کار فرمارہتا ہے، وہ کسی کی حق تلفی نہیں کرتے ،بلکہ ان سے ہر وقت ایثارو قربانی کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے ، جس کی وجہ سے خود ان کو بھی اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے او رمعاشرے کو بھی سکون واطمینان کی دولت میسر آتی ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو لو گ میرے لیے آپس میں محبت کرتے ہیں او رمیرے ہی لیے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں او رمیرے ہی لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں او رمیرے ہی لیے دوسرے پر خرچ کرتے ہیں ، ان کی محبت مجھ پر واجب ہو گئی۔
ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ تو اہل ذکر کے ساتھ بیٹھنے کو اختیار کر اورجب خلوت میں بیٹھے تو جہاں تک ہو سکے اپنی زبان کو الله تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ متحرک رکھ اور الله تعالیٰ ہی کے لیے محبت کر اور الله تعالیٰ ہی کے لیے دشمنی کر…۔ بات یہ ہے کہ الله تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والوں کو الله تعالیٰ کے ساتھ قرب ومعیت حاصل ہو جاتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ ان بزرگوں کی صحبت الله کی صحبت کا فائدہ دیتی ہے اور ان کے دیکھنے سے الله تعالیٰ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ جیسا کہ اولیاء الله کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب ان کو دیکھا جائے تو الله تعالیٰ یاد آجائے ، ایسے لوگوں کے لیے دنیاوی زندگی میں بھی خوش خبری ہے اور آخرت میں بھی : ﴿لھم البشری فی الحیٰوة الدنیا وفی الاٰخرة﴾ اور جب دنیا وآخرت میں ان کے لیے خوش خبری ہے تو ان کو دونوں جہان میں اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے اور ہر قسم کے خوف وحزن سے محفوظ رہتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا : ”لا یقعد قوم یذکرون الله الا حفتھم الملئکة، وغشیتھم الرحمة، ونزلت علیھم السکینة، وذکرھم الله فیمن عندہ“․
جب کوئی جماعت الله تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہوتی ہے تو فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں او ررحمت ڈھانپ لیتی ہے او ران پر سکینہ نازل ہوتا ہے اور الله ان کا ذکر فرشتوں کی جماعت میں فرماتا ہے ۔
امام نووی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ سکینہ کوئی ایسی مخصوص چیز ہے جو اطمینان قلب او ررحمت وغیرہ سب کو شامل ہے او ر ملائکہ کے ساتھ اترتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے، ابو موسیٰ رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”مثل الذی یذکر ربہ والذی لا یذکر: مثل الحی والمیت“․
”جو شخص الله تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے او رجو شخص الله تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا ان دونوں کی مثال زندہ او رمردہ شخص کی سی ہے ۔“
یعنی ذکر کرنے والا زندہ ہے او رذکر نہ کرنے والا مردہ ہے ، اس سے مراد دل کی زندگی اور موت ہے، یعنی دل کا اطمینان اور اضطراب ہے۔
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذا مررتم بریاض الجنة فارتعو قالوا: وما ریاض الجنة؟ قال: حِلق الذکر“․
جب تم جنت کے باغوں میں گزرو تو خوب میوے کھاؤ۔ کسی صحابی نے عرض کیا یا رسول الله! جنت کے باغ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا ذکر کے حلقے۔
ذکر کے حلقوں کو جنت کے باغ اس لیے فرمایا کہ ان کے سبب سے بہشت کے باغوں میں داخلہ ملے گا او راس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جنت کی طرح ذکر کی مجلسیں بھی ہر آفت سے محفوظ رہتی ہیں اور ”خوب کھاؤ“ فرمانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ دنیاوی تفکرات کے باوجود ذکر کے حلقوں میں شامل رہو ، اس کی برکت سے تمہارے تفکرات دور ہو کر اطمینان قلب حاصل ہو گا ۔ الله تعالیٰ کی اپنے ذاکر بندوں پر نہایت مہربانی اور بندہ پروری ہے کہ ان کو اپنی محبت کا مزا چکھاتا ، اپنی معرفت کا لباس پہناتا ، اپنی یاد میں مستغرق کرتا اور نیکی کو ان کا رفیق بناتا ہے ۔
الله تعالیٰ کے ذکر سے بے شمار برکیتں او رسعادتیں حاصل ہوتی ہیں۔ مثلاً جب بندہ خدا کا ذکر شروع کرتا ہے تو اس کا دل الله تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوتا ہے او را س کی برکت سے وہ اس مقام تک پہنچ جاتاہے کہ الله تعالیٰ کو دل کی آنکھ سے دیکھتا ہے ۔ ذکر الله کی برکت سے گناہوں سے دورو محفوظ رہتا ہے ۔ الله تعالیٰ کی عظمت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے ۔ الله تعالیٰ بھی اس کو یاد کرتا ہے ۔ اس کو اس دنیا میں بھی اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے، مرنے کے بعد قبر میں بھی الله تعالیٰ کا ذکر اس کو تسلی دیتا ہے او راس کا غم دورکرتا ہے اور حشر کے روز بھی وہ الله تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں رہتا ہے اور ہر قسم کے خوف وحزن سے محفوظ ہوتا ہے ۔ اس کا نفس مطمئنہ ہو جاتاہے اورنفس اس وقت تک مطمئن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی صفات رذیلہ ، حسد وبغض، کبر وکینہ اور بخل وغیرہ زائل ہو کر صفات حمیدہ وحسنہ ، ایثار وسخاوت، تواضع وخدمت خلق وغیرہ حاصل نہ ہو جائیں اور ان صفات حسنہ کا دار ومدار الله تعالیٰ کے ذکر پر موقوف ہے ۔ آں حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”ان فی الجسد مضغةً، اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ، الا وھی القلب“․
انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ۔ اگر وہ درست ہو جائے تو تمام جسم درست ہو جاتا ہے او راگر وہ خراب ہو جائے تو تمام جسم خراب ہو جاتا ہے ۔ آگاہ رہو کہ وہ دل ہے : #
دل کے بگاڑ ہی سے بگڑتا ہے آدمی
جس نے اسے سنبھال لیا وہ سنبھل گیا
ایک حدیث میں ہے کہ ہر چیز کے لیے صاف کرنے والی کوئی چیز ہوتی ہے ، دلوں کو صاف کرنے والی چیز الله تعالیٰ کا ذکر ہے #
ذکر گو ذکر تا ترا جان گست
پاکی دل زذکر رحمن ست
ہر انسان کے لیے جو اطمینان قلب کا طالب ہے ، اسلام کی یہ دعوت عام ہے کہ ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہو کر الله تعالیٰ کی یاد کثرت سے کرے او رذاکرین کی مجلس میں شامل ہو کر جنت کے باغوں سے میوے کھائے، الله تعالیٰ کی فضل وکرم سے وہ لوگ تھوڑے ہی عرصے میں اطمینان قلب کی دولت سے سرفراز ہوں گے اور ذکر کی دائمی طور پر پابندی سے اطمینان قلب میں بھی دوام حاصل ہو گا۔

Flag Counter