Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی محرم الحرام 1431ھ

ہ رسالہ

15 - 15
***
گناہوں کی بد بو اور نیکیوں کی خوش بو ہوتی ہی
ابو عبدالله حارث بن اسد محاسبی
یہ بات خوب سمجھ لو کہ گناہ زہر کی مانند ہیں، جو کم او رزیادہ ہر صورت میں نقصان دہ ہیں، جو ظاہر وخفی سب برابر ہیں، لہٰذا ان کو تدبیر کے ذریعہ چھپا کر دھوکے میں مبتلا نہ ہونا، کیوں کہ الله تعالیٰ ہر حال میں تمہیں دیکھ رہے ہیں ۔ یہ بات بھی خوب سمجھ لو کہ نیکیوں کی خوش بو ہوتی ہے کہ جو مہکتی ہے، اگرچہ ان کو چھپادیا جائے او رگناہوں کی بدبو ہوتی ہے، جو چھپانے کے باوجود سونگھی جاتی ہے ، جب تم کسی گناہ کی کجی سے بچو تو خالص الله تعالیٰ کی رضا کے لیے ایسا کرو کہ تمہیں اس پر ثواب ملے گا، حدیث شریف میں ہے : ”وإذا ھم بسیئة، فلم یعملھا۔ أی للہ۔ کتب لہ حسنة“․( جس نے کسی گناہ کا ارادہ کیا، پھر الله کی رضا کے لیے اس کو چھوڑ دیا تو اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہے۔
امام طبرانی حضرت انس رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :”ما رأیت مثل النار نام ھاربھا، ولا مثل الجنة نام طالبھا“ (میں نہیں سمجھتا کہ آگ جیسی چیز سے بھاگنے والا سو جائے اور جنت جیسی چیز کو طلب کرنے والا سو جائے ۔“ امام ہیثمی مجمع الزوائد میں فرماتے ہیں اس کی سند حسن ہے ۔(230/10 )امام مناوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : یعنی آگ انتہائی سخت ہے، جب کہ اس سے بچنے والے لوگ سو رہے ہیں ، غافل ہیں ، یہ طریق آگ سے بچنے والوں کا نہیں ، بلکہ اس کا راستہ یہ ہے کہ گناہوں سے نیکیوں کی طرف لوٹا جائے۔اس حدیث میں تعجب کے معنی ہیں، یعنی اس آگ کا کیا حال ہے کہ جو انتہائی سخت حالت والی ( ہولناک) ہے۔
اور اس سے بچنے والا اپنی نیند ، شدت غفلت اور لاپرواہی سے نشہ کی سی کیفیت میں ہے؟ اور کتنی تعجب خیز حالت ہے جنت کی، جوان صفات سے متصف ہے او راس کے طالبِ غافل کا یہ حال ہے؟
گناہوں کے نقصانات کا ذکر
حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : مجھے یقین ہے کہ آدمی حاصل کیے ہوئے علم کو ایسے گناہ کی وجہ سے بھول جاتا ہے جسے اس نے کیا ہوتا ہے۔ (ازجامع العلم وفضلہ ابن عبدالبرا:196/1)
امام ابوحنیفہ مسئلہ کے حکم تک پہنچنے کے لیے استغفار کرتے یا نماز پڑھتے
امام ابوحنیفہ رحمہ الله تعالیٰ کے لیے جب کوئی مسئلہ مشکل ہو جاتا تو آپ شاگردوں سے فرماتے : لازماً یہ میرے کسی گناہ کی وجہ سے ہوا ہے ۔ پھر استغفار کرتے او ربسا اوقات نماز پڑھتے تو وہ مسئلہ آپ پر منکشف ہو جاتا اورفرماتے : امید ہے کہ میری توبہ قبول ہو گئی ۔ یہ بات حضرت فضیل بن عیاض کومعلوم ہوئی تو آپ پر شدت گریہ طاری ہوگیا ، انہوں نے فرمایا کہ یہ ان کے گناہوں کی کمی کی وجہ سے ہے، آپ کے علاوہ اور لوگ ( گناہوں کی کثرت کی وجہ سے) اس پر متنبہ نہیں ہو پاتے۔ ( از” طبقات الحنفیہ“ ملاعلی قاری:487/2)
امام کبیر، حافظ وکیع بن جراح کوفی کے حالات میں ہے کہ لوگ تو تکلف ( ومحنت) سے یاد کرتے، لیکن آپ کوبغیر تکلف طبعاً یاد ہو جاتا۔ علی بن خشرم کہتے ہیں: میں نے وکیع کو ( بارہا) دیکھا لیکن کبھی ان کے ہاتھ میں کتاب نہیں دیکھی، ( وہ اس کے بغیر ہی ) یاد کر لیتے ہیں ، میں نے ان سے حافظہ ( تیز کرنے کی ) دوا پوچھی تو آپ نے فرمایا: گناہ چھوڑنا، اس جیسی دوا میں نے تجربہ کرکے بھی نہیں دیکھی ۔ امام شافعی نے اپنے اشعار میں یہی مراد لیا ہے، فرماتے ہیں : میں نے حضرت وکیع کو اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی ، تو انہوں نے مجھیگناہ چھوڑنے کی نصیحت کی اور بتلایا کہ علم نور ہے اور الله تعالیٰ کا نور گناہ گار کو نہیں ملتا۔
حضرت عبدالله بن عباس کا فرمان، نیکی کا نور اور گناہ کی تاریکی ہوتی ہے
جلیل القدر صحابی حضرت عبدالله بن عباس رضی الله تعالی عنہما نے نیکیوں او رگناہوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ان کا اثر انسان کے ظاہر اور باطن پر ہوتا ہے کہ نیکی سے دل میں نور ، چہرے پر خوب صورتی، بدن میں قوت، رزق میں وسعت ، مخلوق کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے او رگناہ سے دل میں تاریکی، چہرے پر بد صورتی، بدن میں کمزوری، رزق میں کمی اور مخلوق کے دلوں میں گناہ گار سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔
گناہوں سے بچنے اور ان کو کرنے کے نقصانات وفوائد کے بارے میں امام ابن القیم جوزی  کا بیان
امام ابن الجوزی کا بیان اس بارے میں بہت جامع ہے اورآپ نے گناہوں کے ارتکاب او ران سے بچنے کے آثار کے بارے میں بالکل صحیح باریک بینی سے موازنہ کیا ہے کہ جوہر صاحب عقل وہوش کو گناہوں کے چھوڑنے، ان کے اسباب سے دور بھاگنے، نیکیوں سے مزین ہونے او ران کے کرنے پر ابھارنے والا ہے ۔ 
لیجیے! میں ان کے بیان کو بالتفصیل یہاں نقل کرتا ہوں،اس بیان کے نفیس جامع اور سچا ہونے کی وجہ سے ، کان کھول کر سنیے، دل کو متوجہ کر لیجیے ، عقل کو اس کا تابع بنا دیجیے ، الله تعالیٰ نیک لوگوں کے ولی ومدد گار ہیں ۔ آپ رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں : گناہ ( مثل) زخم ہیں اور بعض زخم انسان کو قتل گاہ میں پہنچا دیتے اور انسان کو قساوت قلبی ( دلی سختی) اور الله تعالی( کی رحمت) سے دوری جیسی بڑی سزاؤں کا حق دار بنا دیتے ہیں ، الله تعالیٰ کی رحمت سے سب سے بڑھ کر دور، سخت دل انسان ہے او رجب انسان کا دل سخت ہو جائے تو اس کی آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں اور دل کی سختی جب پیدا ہوتی ہے کہ جب چار چیزیں اعتدال ( میانہ روی) سے بڑھ جائیں ، وہ چار چیزیں، کھانا، سونا، بات چیت کرنا اور اختلاط ہیں، جان لو ! شہوت سے صبر کرنا( یعنی رک جانا) آسان ہے بنسبت شہوت سے پیدا ہونے والی چیز سے رک جانے کے کہ یا تو شہوت تکلیف وسزا کا موجب بنے گی ، یا اس سے بڑھ کرلذت والی چیز سے محرومی کا سبب ہو گی ۔ یا اس کی وجہ سے وقت ضائع ہو گا کہ جس کا ضیاع شرمندگی وحسرت ہے یا اس سے عزت میں کمی ہوگی کہ جس کا بڑھناگھٹنے سے زیادہ مفید ( ومطلوب) ہے یا اس کی وجہ سے مال فنا ہو گا کہ اس کا باقی رہنا فنا سے بہتر ہے ، یا اس سے عزت ومرتبہ میں کمی ہو گی کہ جس کی زیادتی کمی سے زیادہ نفع مند ہے ، یا کوئی ایسی نعمت چھن جائے گی کہ جس کا حصول شہوت کے پورا ہونے سے زیادہ لذیز وپاکیزہ ہے۔یا اس کی وجہ سے کوئی ذلیل تم تک پہنچنے کا راستہ پالے گا کہ اس سے قبل تم اس کی پہنچ سے دور تھے ، یا تمہیں ایسا رنج والم پہنچے گا کہ لذت شہوت اس کا بدل نہ بن سکتی ہو گی ،یا تم کسی علم کو بھلا بیٹھوگے کہ جس کی یاد اس کے بھلانے سے بہرحال شہوت کے حصول سے زیادہ لذت والی ہے، یا اس کی وجہ سے دشمن کو گالی گلوچ او ردوست کو غمگین کروگے، یا تم میں ایسا عیب پیدا ہو جائے گا کہ جو ہمیشہ وصف( بد) بن کر تم میں رہے گا، کیوں کہ مختلف قسم کے کاموں سے انسان میں عیوب اور اوصاف(بد) پیدا ہو جاتے ہیں۔
سبحان الله رب العالمین․ اگر گناہوں اورمعاصی کے چھوڑنے میں صرف شرافت کا قیام، عزت کا بچاؤ، مرتبہ کی حفاظت، اس مال کا بچاؤ کہ جس کو الله تعالیٰ نے دین ودنیا کے منافع کے حصول کا سبب بنایا ہے ، مخلوق کی محبت ،ان کے درمیان بات کا اعتبار، معیشت کی درستگی، جسم کی راحت، دل کی مضبوطی ، نفس کی پاکیزگی، دل کی آسانی ، سینے کا انشراح، فاسقوں ، فاجروں کے ڈر سے امن ، پریشانی، غم وملال کی کمی، ذلت کے احتمال سے نفس کی بچت، گناہ کی تاریکی سے دل کے نور کے بجھ جانے سے تحفظ، ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ کہ جو گناہوں سے بچنے والوں کے لیے وسیع اور فاسقوں فاجروں کے لیے تنگ ہوتا ہے ، بن دیکھے رزق ملنے کی آسانی کہ جو گناہ گارو نافرمانوں کے لیے مشکل ہوتا ہے ، نیکی کا حصول آسان ہو جانا، حصول علم کی فراوانی، لوگوں میں اچھی شہرت او رکثرت دعا، ایمانی حلاوت جو اس کی ذات کو حاصل ہوتی ہے ،وہ رعب جو لوگوں کے دلوں میں ڈال دیا جاتا ہے ، لوگوں کی طرف سے اس کی مدد اور اس کے لیے غیرت کہ جب اس کو تکلیف پہنچائی جائے یا اس پر ظلم کیا جا ئے او رجب اس کی غیبت ہو تو لوگوں کی طرف سے اس کا دفاع، جلد دعا کی قبولیت، الله تعالیٰ او راس کے درمیان اجنبیت کا خاتمہ، فرشتوں کا قرب ، شیطان اور انسان نما شیطانوں سے دوری، لوگوں کے درمیان اس کی خدمت اور اس کی ضرورت پوری کرنے کے بارے میں ایک دوسرے سے سبقت، اس کی محبت اور ہم نشینی کی وجہ سے اس کو پیغام نکاح دینا، موت سے نہ ڈرنا، بلکہ اس کے آنے او ررب سے ملنے کی خوشی ، دنیا کا اس کی نظروں میں حقیر ہو جانا ، آخرت کا عظیم ہو جانا اور آخرت میں بڑ ی کامیابی اور بادشاہت کے حصول کا شوق ، نیکی کے مزہ کو چکھنا، ایمان کی حلاوت کو پانا، عرش اٹھانے والے اور اس کے ارد گرد رہنے والے فرشتوں کی اس کے لیے دعا، اعمال لکھنے والے فرشتوں کا اس سے خوش ہونا اور اس کے لیے ہر وقت دعا کرنا ، عقل وفہم ،ایمان ومعرفت کی زیادتی، الله کی محبت کا حصول ، الله تعالیٰ کی توجہ، اس کی توبہ پر الله تعالیٰ کا خوش ہونا ہی حاصل ہو تو گناہوں اور نافرمانیوں کے چھوڑنے پرا بھارنے کے لیے کافی ہے ۔
یہ تو گناہ چھوڑنے پر دنیا میں بعض حاصل ہونے والے فوائد ہیں، لیکن جب انسان مر جاتا ہے تو فرشتے اپنے رب تعالیٰ کی جانب سے اس کا جنت کی خوش خبری سے استقبال کرتے ہیں اور اس کو خوف وغم نہ ہونے اور دنیا کے قید خانے اور تنگی سے جنت کے باغات کہ جن میں قیامت تک نعمتیں حاصل ہوں گی کی طرف منتقل ہونے کا مژدہ سناتے ہیں ، پھر جب روز قیامت ہو گا تو لو گ گرمی اور پسینے میں شرابور ہوں گے اور یہ عرش کے سائے میں ہو گا ، پھر جب لوگ یہاں سے ہٹیں گے تواس کو الله جل جلالہ اپنے دائیں طرف نیک لوگوں اور اپنے کامیاب پر ہیز گار دوستوں کے ساتھ رکھیں گے۔ ﴿ذلک فضل الله یوتیہ من یشاء والله ذوالفضل العظیم﴾ (از کتاب الفوائد“ ص:151,150,139,97,41)
گناہوں کے آثار او ران میں مصائب وآلام
آپ رحمہ الله تعالیٰ نے اپنی نافع اور عجیب کتاب ”الجواب الکافی لمن سأل عن الدواء الشافی“ میں گناہوں او رمعاصی کے آثار جو ان کے کرنے والے پر پڑتے ہیں ،شمار کرائے ہیں،اور ان کے ہر ہر اثر کو تفصیل سے کھول کر، مدلّل اس کے سبب کے ساتھ بیان کیا ہے آپ فرماتے ہیں : گناہوں کے بد اور نقصان دہ اثرات جو انسان کے قلب وجسم پر دنیا وآخرت میں پڑتے ہیں ، اتنے زیادہ ہیں کہ سوائے الله تعالیٰ کے ان کو کوئی نہیں جانتا ۔ جن میں علم ورزق سے محرومی، گناہ گار اور الله جل جلالہ کے درمیان اجنبیت، اسی طرح گناہ گار او رمخلوق کے درمیان معاملات کا پیچیدہ ہو جانا، دل ، چہرہ اور قبر میں تاریکی، قلب وبدن کا ضعف، نیکی سے حرمان ، عمر کی کمی وغیرہ شامل ہے ، گناہ، گناہ کو جنم دیتا ہے اور اس کو بڑھاتا رہتا ہے ، دل کے ارادہ اوررجوع الی الله ( الله کی طرف میلان) کو کمزور کر دیتاہے اور اس کی وجہ سے گناہ کی برائی انسان کے دل سے مٹ جاتی ہے ۔
گناہ انسان کے الله تعالیٰ کے ہاں ذلیل ہونے کا سبب ہے۔ اسی طرح یہ الله تعالیٰ کے ماسوا انسان وجانور کا محتاج بنا دیتا ہے، ذلت کو جنم دیتا ہے، عقل کو بگاڑتا ہے اور گناہ گار کے دل پر نقش ہو جاتا ہے او راس کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی لعنت میں داخل کر دیتا ہے ، جب کہ آپ کی دعاؤں کے ضمن میں آنے سے روکتا ہے۔ اسی طرح فرشتوں کی دعاؤں سے کہ جو الله تعالیٰ کی حکم برداری اور کتاب وسنت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فرماں داری کرنے والوں کے لیے کرتے رہتے ہیں۔
یہ (گناہ) دوزخ کی مختلف قسم کی سزاؤں کا سبب ہے اور زمین میں مختلف قسم کے پانی، ہوا، کھیتیوں، پھلوں ،آبادیوں کے فسادات کاموجب ہے۔ حیا، غیرت، رب تعالیٰ کی تعظیم کو ( دلوں سے )ختم کرنے والا ہے ۔ الله تعالیٰ کے بندہ کو بھلانے کا متقاضی ہے ، جو کہ انسان کی ہلاکت ہے، انسان کو اخلاص کے دائرہ سے نکال کر مخلصین کے اجر سے محروم کر دیتا ہے ، نعمتوں کو فنا کرنے ، انتقام کو لازم کرنے اور گناہ گار کے رعب ودبدبہ کو دل سے نکالنے والا ہے ۔ جیسے کہ دل زندگی او رصحت کے بعد مریض یا مردہ بن جاتا ہے،انسان کی بصیرت وسمجھ کو اندھا کر دیتا ہے۔
گناہ گار، شیطان، برائی ڈالنے والے نفس اور شہوتوں کا اسیر رہتاہے ، اس کے مقام ومرتبہ کو ختم او رتعریف کے اوصاف چھین کر مذمت کے اسباب پیدا کردیتا ہے، علم ، عمل، رزق، عمر اور ہر چیز کی برکات کو معدوم کر دیتا ہے۔ ( اس کی وجہ سے) انسان کو سب سے زیادہ، جس ذات کی احتیاج ہے، اس سے خیانت کرتا ہے او رانسان کو اس کے دوست فرشتوں سے دور کر دیتا ہے، اس کے دشمن شیاطین کو اس سے قریب کر دیتا ہے ، دل میں اثرات بد ، میل ، گناہ کی پختگی، اس کے سبب سے دل پر مہر لگنا، نفاق پیدا ہونا ، بد اخلاقی ، شکوک وشبہات کو جلد قبول کرلینا اور دوسرے مہلک امراض پیدا کردیتا ہے۔ فی الجملہ دنیا وآخرت کی تمام وہ برائیاں جو دل او ربدن پر ہوتی ہیں عام ہوں کہ خاص، ان کا سبب گناہ او رنافرمانیاں ہیں۔ 
ان ہی معانی یعنی نیکی وبدی کے ارتکاب کے اثرات کو جلیل القدر تابعی ، امام، شیخ الاسلام، عابد بصرہ سلیمان بن طرخان تیمی بصری متوفی143ھ نے بڑے خوب انداز میں بیان کیا ہے، آپ کا قول ہے: نیکی دل کے نور او رعمل میں قوت کا باعث ہے او ربرائی دل کی تاریکی اور عمل کا ضعف ہے۔(حلیة الاولیاء20/3 )۔
گناہ کے نقصانات میں سے ایک بارش کا رک جانا ہے
اس بارے میں کہا گیا ہے:
یمر السحاب علی بلدة بماء معین من المعصرات 
یرید النزول فلا یستطیع لما حل بھا من المنکرات
خوش گوار پانی سے بھرے ہوئے نچڑنے والے بادل جب کسی شہر کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے گزرتے ہیں اور وہاں برسنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو وہاں پر ہونے والے گناہوں کی وجہ سے نہیں برس پاتے۔
اس مضمون کے اتنا لمبا ہونے پرمعذرت چاہتاہوں، لیکن یہ ایک بڑے مرض (گناہ) سے نجات کی ایک کوشش ہے ، ہم لوگ خوب گناہ اور بڑھ چڑ ھ کر نافرمانی کرتے ہیں اس لیے ہم حاجت مند ہیں کہ ہمیں خوب بھرپور نصیحت کی جائے، شاید کہ ہم لوگ ان سے رک جائیں اور علام الغیوب ذات کی طرف رجوع کر لیں۔
امام ابن الجوزی کا گناہوں سے ڈرانا
آئندہ سطور میں امام ابن الجوزی کا کلام ہے، جو انتہائی نافع، پاکیزہ اور گناہوں کے چھڑانے میں پرتاثیر ہے، آپ فرماتے ہیں : گناہوں سے بچو اور دور رہو ، کیوں کہ ان کا انجام برا ہے ، نافرمانی سے بچو اور دور رہو ، خاص کر تنہائی کے گناہوں سے ، کہ الله تعالیٰ سے جنگ کرنا(بذریعہ اس کی نافرمانی) بند ے کو الله تعالیٰ کی نظروں سے گرا دیتا ہے۔
گناہوں سے اسی کو لذت ملتی ہے کہ جو ہمیشہ غفلت میں رہے ، وہ مؤمن کہ جو ہر دم بیدار ہے وہ ان سے لذت حاصل نہیں کر سکتا، کیوں کہ جب وہ لذت حاصل کرنے لگتا ہے تو اس کا علم اس کے حرام ہونے کے بارے میں اس کے آڑے آجاتا ہے اور ا س کو اس کے انجام بد سے ڈراتا ہے۔ اگر اس کی پہچان قوی ہو تو الله تعالیٰ کی ذات کو، جو کہ گناہوں سے روکنے والی ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے ، تو اس کی لذت سے اس کی زندگی مکدر ہو جاتی ہے او راگر خواہش کا نشہ چھا جائے تو بھی دل اس قسم کے خیالات سے مکدر رہتا ہے او راگر اس کی طبیعت ہی شہوت بن جائے تو بھی وہ ایک لمحہ کو ہی حاصل ہو گی پھر ہمیشہ کی رسوائی ، دائمی پریشانی، ہر وقت کا رونا، ماضی پر افسوس، جو ہمیشہ کے لیے رہتا ہے۔ اگر معافی کا یقین بھی ہو جائے تب بھی ناراضگی کا خطرہ تو ہے ۔
گناہوں پر تف ہے، ان کا انجام کتنا قبیح ہے ؟ ان کی کہانی کس قدر بری ہے ؟!( صید الخواطر:185/1)
استاذ سباعی کا قول: گناہ پر اصرار کرنے والا حیوان ہے
استاذ ، مجاہد، داعی کبیر، شیخ مصطفی سباعی رحمہ الله تعالیٰ کہتے ہیں : جب تمہارے دل میں گناہ کا خیال پیداہو تو اسے الله تعالیٰ کی یاد دلاؤ، اگر باز نہ آئے تو انسانی اخلاق کو دہراؤ، پھر بھی نہ رکے تو لوگوں کے مطلع ہونے پر رسوائی اس کے سامنے لاؤ،پھر بھی اگر باز نہ آئے تو سمجھ لو کہ اب وہ انسان سے حیوان بن گیا ہے ۔ (از کتاب”ھکذا علمتنی الحیاة“ ص:32۔) اے دلوں اور نظروں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو دین پر قائم وثابت رکھ۔
مالک بن دینار نے حضرت حسن بصری رحمہ الله تعالیٰ سے پوچھا! اس عالم کی کیا سزا ہے جو دنیا سے محبت کرنے لگے؟ آپ نے فرمایا اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے ، جب اسے دنیا سے محبت ہے تو وہ اس کو آخرت والے اعمال سے طلب کرے گا، اس وقت اس سے علم کی برکات رخصت ہو جائیں گی ، محض علم کا نشان باقی رہ جائے گا۔ ( از ” البدایة والنہایة“ ابن کثیر268/9)

Flag Counter