***
لارڈ میکالے کا نظام تعلیم او راس کے اثرات ونتائج
ڈاکٹر نور حبیب اختر
برصغیر پاک وہند میں انگریزوں کی آمد نے جہاں نظام سیاست کے ساتھ ساتھ کم وبیش زندگی کاہر شعبہ تہہ وبالا کر دیا تھا ، وہاں تعلیم کے شعبہ کا متاثر ہونا ایک لازمی بات تھی ، تاہم یہ کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ نئی روشنی کے علم بردار اس موضوع پر بھی اپنی رعایا سے وہ بدترین انتقام لیں گے جس کی مثال صدیوں میں بھی نہیں ملے گی ۔ بقول ڈاکٹر احسن اقبال:
” انگریزوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ ہندوستانی باشندے زیادہ سے زیادہ جاہل رہیں۔ ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرکے یہ لوگ ہمارے اقتدار کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ اس لیے اگر تعلیم کا نظم کیا بھی تو وہ محض عیسائیت کے لیے، ورنہ اعلیٰ تعلیم کا ہندوستانی باشندوں کے لیے کوئی نظم نہ تھا۔“
دراصل انگریز اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اگر برصغیر میں مغربی طرز کے تعلیمی ادارے کھولے گئے تو اس سے عوام میں بیداری آئے گی اور جس طرح امریکا وغیرہ میں جدید علوم کی درس گاہیں قائم ہو جانے کے بعد ہمیں امریکیوں کو آزادی دینی پڑ گئی تھی اسی طرح برصغیر، جو کہ سونے کی چڑیا سے کم نہیں ہے، اگر ہم نے یہاں پر جدید تعلیمی ادارے قائم کر دیے تو ایک نہ ایک دن ہمیں یہاں سے لازماً بوریا بستر گول کرنا پڑے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھا جائے۔
تاہم وقت گرزنے کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنی رائے بدلنی پڑی، چناں چہ وائسرائے ہند لارڈمنٹونے اس مقصد کے لیے ایک طویل یادداشت کورٹ آف ڈائریکٹر ان کو بھیجی کہ علم کا روز بروز زوال ہو رہا ہے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کی مذہبی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے دروغ حلفی اور جعل سازی کے جرائم بڑھ رہے ہیں ، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم وتربیت پر زیادہ سے زیادہ روپیہ خرچ کیا جائے اور کالج وغیرہ کھولے جائیں۔ آخر بڑی تگ ودو کے بعد ہندوستانیوں کو تعلیم دینے کے لیے ایک کمیٹی قائم ہوئی ، جس کی سفارش پر تعلیم دینے کے لیے ایک لاکھ روپیہ کی سالانہ گرانٹ منظور کی گئی ۔ تاہم اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ چارلس گرانٹ کی طرح عیسائی مبلغین کو پہنچا، جو برصغیر کو بحیثیت مجموعی عیسائی بنانے کی آرزو رکھتے تھے۔ اس طرح حکومتی سرپرستی میں کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے، جہاں انگریزی کی آڑ میں عیسائیت کی تعلیم دی جاتی تھی ۔ مثلا کلکتہ کا اینگلوانڈین کالج (1817-18ء)، بنارس کا جے نرائن کالج (1821ء) اور آگرہ کالج (1823ء) وغیرہ وغیرہ۔
1833ء میں جب اتفاق سے یہی چارلس گرانٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بورڈ آف کنٹرول کے صدر منتخب ہوئے تو برطانوی دارالعوام (پارلیمنٹ) میں ہندوستان کی مذہبی اور اخلاقی ترقی کے متعلق ان کی تجویز کثرت رائے سے منظور ہو گئی ۔ اس طرح برصغیر میں پادریوں کی آمد اور عیسائیت کی نشرواشاعت کے لیے گویا وہ پورا پھاٹک ہی کھل گیا، جس کی پہلے صرف ایک کھڑکی کھلی تھی۔
ان پادری حضرات نے اہل ہند کے مذاہب خاص کر دین اسلام پر تابڑ توڑ حملے کرکے پورے ملک کو فرقہ وارانہ مناظروں کی آگ میں جھونک دیا ، جس کے نتیجے میں مولانا محمد قاسم نانوتوی ،مولانا رحمت الله کیرانوی ، مولانا منصور علی خان او رڈاکٹر وزیرخان کی طرح علما ئے حق نے میدان میں آکر اہل باطل کا مقابلہ کیا اور اسلام کی حقانیت پر عیسائیوں اور ہندووؤں سے فیصلہ کن مناظرے کرکے دنیا کو وہ علمی سرمایہ فراہم کیا، جو اپنی مثال آپ ہے اور ہماری ملی تاریخ کا جلی عنوان ہے۔
دوسری طرف یہ استعماری تعصب اس وقت مزید نمایاں ہوکر سامنے آیا جب ہندوستانیوں کے لیے ذریعہ تعلیم کا مسئلہ طے کیا جانے لگا اور برصغیر کے مستقبل کے متعلق اس اہم موضوع پر دو مختلف نظریات کے حامل افراد سامنے آئے ۔ ایک وہ جو انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنا کر ایک ایسا نظام تعلیم رائج کرنا چاہتا تھا جس کی جڑیں اس ملک کے عوام میں نہیں تھیں اور دوسرا وہ جو مشرقی علوم کو برقرار رکھ کر اس میں مغربی سائنس کی پیوندکاری کے حق میں تھا ۔ مؤخر الذکر گروہ کے پرجوش حامی پرنسپ صاحب سیکریٹری ایشیاٹک سوسائٹی تھے، جو ایک معتدل سوچ رکھنے والی شخصیت تھے ، جب کہ اول الذکر گروہ کے سرخیل لارڈ میکالے (T.B.Macaulay) تھے، جو نہ صرف یہ کہ انگریزی علوم کے زبردست حامی اور مؤید تھے، بلکہ اس حوالے سے خاصے متعصب بھی تھے اور مشرقی علوم وفنون کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
اس کی اس متعصبانہ ذہنیت کا اندازہ ان اقتباسات سے لگایا جاسکتا ہے جو اس نے ایک یادداشت کی شکل میں 3 فروری1835ء کو بیرک پور (کلکتہ) کے مقام پر گورنر جنرل ہندلارڈ ولیم بیٹنک کو پیش کی ، جس پر مباحثہ کے لیے جنرل کمیٹی برائے پبلک انسٹرکشن کا اجلاس7 مارچ1835ء کو منعقد ہوا ۔ وہ کہتے ہیں:
” ہمار ے پاس ایک رقم ( ایک لاکھ روپے) ہے، جسے گورنمنٹ کے حسب ہدایت اس ملک کے لوگوں کی ذہنی تعلیم وتربیت پر صرف کیا جانا ہے۔ یہ ایک سادہ سا سوال ہے کہ اس کا مفید ترین مصرف کیا ہے ؟ کمیٹی کے پچاس فیصد اراکین مصر ہیں کہ یہ زبان انگریزی ہے۔ باقی نصف اراکین نے اس مقصد کے لیے کوئی ایسا شخص نہیں پایا ہے، جو اس حقیقت سے انکار کر سکے کہ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں ہندوستان اور عرب کے مجموعی علمی سرمایہ پر بھاری ہیں، پھر مغربی تخلیقات ادب کی منفرد عظمت کے کماحقہ معترف تو کمیٹی کے وہ اراکین بھی ہیں جومشرقی زبانوں میں تعلیم کے منصوبے کی حمایت میں گرم گفتار ہیں …“۔
”ہمیں ایک ایسی قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، جسے فی الحلال اپنی مادری زبان میں تعلیم نہیں دی جاسکتی ہے ۔ ہمیں انہیں لازماً کسی غیر ملکی زبان میں تعلیم دینا ہو گی، اس میں ہماری اپنی مادری زبان کے استحقاق کا اعادہ تحصیل حاصل ہے ، ہماری زبان تو یورپ بھر کی زبانوں میں ممتاز حیثیت کی حامل ہے ، یہ زبان قوت متخیلہ کے گراں بہاخزانوں کی امین ہے … انگریزی زبان سے جسے بھی واقفیت ہے اسے اس وسیع فکری اثاثے تک ہمہ وقت رسائی حاصل ہے جسے روئے زمین کی دانشور ترین قوموں نے باہم مل کر تخلیق کیا ہے اوراگزشتہ نوے سال سے بکمال خوبی محفوظ کیا ہے ۔ یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اس زبان میں موجود ادب اس تمام سرمایہ ادبیات سے کہیں گراں تر ہے جو آج سے تین سو سال پہلے دنیا کی تمام زبانوں میں مجموعی طور پر مہیا تھا۔“
”اب ہمارے سامنے ایک سیدھا سادا سوال ہے کہ جب ہمیں انگریزی زبان پڑھنے کا اختیار ہے تو پھر بھی ہم ان زبانوں کی تدریس کی ذمہ داری قبول کریں گے جن کے بارے میں یہ امر مسلمہ ہے کہ ان میں سے کسی موضوع پر بھی کوئی کتاب اس معیار کی نہیں ہو گی کہ اس کا ہمار ی کتابوں سے موازنہ کیا جاسکے ، آیا جب ہم یورپئین سائنس کی تدریس کا انتظام کر سکتے ہیں تو کیا ہم ان علوم کی بھی تعلیمی دیں جن کے بارے عمومی اعتراف ہے کہ جہاں ان علوم میں اور ہمارے علوم میں فرق ہے تو اس صورت میں ان علوم ہی کا پایہ ثقاہت پست ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ آیا جب ہم پختہ فکر ، فلسفہ اور مستند تاریخ کی سرپرستی کرسکتے ہیں تو پھر بھی ہم سرکاری خرچ پر ان طبی اصولوں کی تدریس کا ذمہ لیں جنہیں پڑھانے میں ایک انگریز سلوتری بھی خفت محسوس کرے… ایسا علم فلکیات پڑھائیں جن کا انگریزی اقامتی اداروں کی چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی مذاق اڑائیں۔“
”بچے جو گاؤں کے مدرسے میں استاد سے حروف تہجی یا تھوڑی بہت ریاضی سیکھتے ہیں ، انہیں استاد کو بھی کچھ نہیں ادا کرنا پڑتا، استاد کوپڑھانے کی تنخواہ ملتی ہے تو پھر جو لوگ سنسکرت اور عربی پڑھتے ہیں، انہیں مالی اعانت دینے کا کیا جواز ہے؟“
”… عربی کالج اور سنسکرت کالج پر ہم جو خرچ کر رہے ہیں یہ حق ہے ، بلکہ غلط کاروں کی پرورش وتربیت کے لیے بے دریغ کی جانے والی اعانت ہے، اس مصرف سے ہم ایسی عافیت گاہیں تعمیر کر رہے ہیں، جن میں نہ صرف بے یارومدد گار ، بے ٹھکانہ لوگ پناہ لیتے ہیں ، بلکہ ان میں تعصبات اور ذاتی مفادات کے مارے وہ تنگ نظر لوگ بھی پل رہے ہیں، جو اپنے ذاتی فائدوں اورگروہی عصبیتوں کے سبب تعلیمی اصلاح کی ہر تجویز کے خلاف ہر زہ دراہوں گے، اگر میری سفارش کردہ تبدیلی کے خلاف ہندوستانیوں میں احتجاج ہو تو اس کا سبب ہمارا اپنا نظام اور طریق کار ہو گا۔ علم مخالفت بلند کرنے والوں کے قائدین وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے ہمارے وظائف پر پرورش پائی ہو گی۔“
” عربی اور سنسکرت کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اور دلیل بھی دی جاتی ہے جو اس سے بھی زیادہ کمزور اور غیر مستحکم ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عربی اور سنسکرت وہ زبانیں ہیں جن میں کروڑوں انسانوں کی مقدس کتابیں محفوظ ہیں اور اس لیے یہ زبانیں خصوصی حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں۔ یقینا حکومت برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے تمام مذہبی مسائل میں روا دار اور غیر جانب دار رہے، لیکن ایک ایسے ادب کی تحصیل کی حوصلہ افزائی کرتے چلے جانا جو مسلمہ طور پر معمولی قدر وقیمت کا حامل ہے او رمحض اس لیے کہ وہ ادب اہم ترین موضوعات پر غلط ترین معلومات ذہن نشین کراتا ہے، ایک ایسا رویہ ہے جس کی موافقت نہ تو عقل کرتی ہے نہ اخلاق… جو لوگ ہندوستانیوں کو حلقہ بگوش مسیحیت کرنے کے کام میں مصروف ہیں، ہم ان کی سرکاری طور پر ہمت افزائی سے اجتناب کرتے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی مجتنب رہیں گے۔ جب عیسائیت کے بارے میں ہمارا یہ رویہ ہے تو کیا مناسب اور درست ہو گا کہ ہم سرکاری خزانے سے رشوت دے کر لوگوں کو اس امر پر مستعد کریں کہ وہ اپنی جوان نسل کی زندگیاں یہ جاننے میں برباد کردیں کہ گدھے کو چھونے کے بعد وہ اپنے آپ کو کس طرح پاک کر سکتے ہیں یاوید کے کن اشلوکوں کو پڑھنے سے ایک بکرا مار دینے کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے ۔“
”… میرا خیال ہے کہ ایک بات واضح ہے کہ ہم پارلیمنٹ ایکٹ1813ء کے پابند نہیں ہیں ، نہ ہی کسی ایسے معاہدے کے جو ہم نے اس خصوص میں صراحتاً کیا ہو یا کنایةً اور یہ کہ ہم زیر بحث رقوم کو اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرنے میں آزاد ہیں اور یہ کہ ہمیں اس فنڈ کو اس علم کے حصول میں صرف کرنا چاہیے جو بہترین طور پر شایان مطالعہ ہو اور یہ کہ انگریزی زبان، عربی اور سنسکرت کے مقابلے میں مطالعہ کے لیے موزوں تر ہے اور یہ کہ خود ہندوستانی لوگ انگریزی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہیں ، انہیں عربی اور سنسکرت سیکھنے کے لیے کوئی طلب نہیں اور یہ کہ نہ تو قانونی زبان کی حیثیت سے اور نہ مذہبی زبان کے لحاظ سے سنسکرت یا عربی زبان کو ہماری خصوصی ہمت افزائی کا کوئی استحقاق ہے۔“
”… میں اس نظام ناکارہ کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتا ہوں جسے ہم نے ابھی تک سینے سے چمٹا رکھا ہے، میں فی الفور عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت روک دوں گا۔ میں کلکتہ کے مدرسہ اور سنسکرت کالج کو ختم کروں گا۔ بنارس برہمنی تعلیم کا بڑا مرکز ہے او ردلی عربی تعلیم کا ، اگر ہم ان دونوں ہی کوجاری رکھیں تو السنہ اشرقیہ کے فروغ کے لیے کافی ہوگا، بلکہ میرے خیال میں کافی سے زیادہ ہے، اگر بنارس اور دلی کے کالجوں کو برقرار رکھنا ہے تو میری کم سے کم یہ سفارش ہو گی کہ ان میں داخلہ لینے والے کسی طالب علم کو وظیفہ نہ دیا جائے۔“
وہ اس نظریہ تعلیم کاخلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”… فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرض وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہئیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین، جن پر ہم حکومت کر رہے ہیں، ترجمانی کا فریضہ سر انجام دے ۔ یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو، لیکن ذوق ، ذہن ، اخلاق اور فہم وفراست کے اعتبار سے انگریز ہو…“
تاریخ کا یہ عجیب المیہ ہے کہ آخر میں جب اس تجویز پر رائے شماری کا مرحلہ آیا تو اتفاق سے اس کے حامی اور مخالف اراکین کی تعداد برابر برابر تھی اور کوئی فیصلہ نہیں ہو پار ہا تھا، لارڈ میکالے نے ہی اس تجویز کے حق میں اپنا ووٹ ڈال کر بزعم خویش برصغیر میں انگریزی زبان کے اجرا کا راستہ ہمیشہ کے لیے ہموار کر دیا۔
ثمرات ونتائج
بالعموم ملک کے روشن خیال طبقہ کی طرف سے اس فیصلہ کی تعریف میں بڑے گن گائے جاتے ہیں کہ موصوف نے اس فیصلہ کے ذریعے دراصل ہندوستان کو آزادی کا پروانہ عطا کیا تھا، یعنی اس نظام نے علی گڑھ تحریک کو جنم دیا اور علی گڑھ تحریک نے پاکستان کو جنم دیا۔ بقول صلاح الدین احمد:
”آج ہم اس ملک میں ایک باوقار اور آزاد زندگی اس طرح بسر کر رہے ہیں ، گویا یہ ہمارا پیدائشی حق ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ اگر سر سید قومی وحدت اور قومی ہستی کی وہ بنیاد استوار نہ کرتے جس پر تحریک علی گڑھ کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی اور قومی احساس اور روشن خیال کی وہ شمع روشن نہ کرتے جو آج سے کم وبیش پون صدی پیشتر انہوں نے روشن کی اور ہمیں ملّا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلا کر زندگی کے صحیح انداز سے روشنا س نہ کراتے تو آج ظلمستان ہند میں اسی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرتے جس طرح نیم وحشی قبائل وسطی ہند کے جنگلوں میں اب بھی کرتے ہیں۔“
حالاں کہ یہ بات بدیہی طور پر غلط ہی نہیں۔ گمراہ کن بھی ہے، بلاشبہ قیام پاکستان کے حوالے سے علی گڑھ کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام، مسلم ایجوکیشنل کانفرس کے توسط سے علی گڑھ سے جا ملتا ہے ، لیکن کیا محض اس وجہ سے علمائے ہند اور ان ہزاروں مسلمانوں کی جدوجہد آزادی سے بیک جنبش قلم انکار کر دیا جائے جو مسلم لیگ کے شریک سفر نہ تھے یا بالفاظ دیگرتحریک علی گڑھ سے وابستہ نہ تھے ، جس نے بقول ان کے مسلمانان ہند کوملّا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلا کر زندگی کی صحیح اقدار سے روشناس کرایا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی تاریخ نہ تو عد ل وانصاف پر مبنی قرار دی جاسکتی ہے اور نہ ہی تحقیقی نکتہ نگاہ سے اس کی تائید کی جاسکتی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آزادی کی اس تحریک میں ہندوومسلم سب اقوام نے مل کر حصہ لیا تھا، جس میں مسلمانوں کی قربانیاں برصغیر کے باقی مذاہب کے لوگوں سے کسی طرح کم نہیں ہیں ۔ پھر مسلمانوں میں بھی علمائے ہند کی جدوجہد آزادی کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کی دل خراش داستانیں کالا پانی (خلیج بنگال) سے لے کر مالٹا ( بحیرہ روم) تک کے قیدخانوں سے مرتب کی جاسکتی ہیں ۔ جب کہ بدقسمتی سے مسلم لیگ کا دامنِ تاریخ اس قسم کی قربانیوں سے تقریباً خالی ہے، رہی موصوف کی یہ بات کہ ” سرسید کی تحریک نے ہمیں ملّا کے پنجے اور ذہنی استبداد سے نجات دلاکر زندگی کی صحیح اقدار سے روشناس کرایا، ورنہ ہم لوگ ظلمستان ہند میں اسی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرتے جس طرح نیم وحشی قبائل وسطی ہند کے جنگلوں میں اب بھی کرتے ہیں “ تو اس کا جواب صرف یہی دیا جاسکتاہے کہ امت کے سواد اعظم نے سلف صالحین کا دامن پکڑتے ہوئے سرسید کی مذہبی تعبیرات کو قطعاً رد کر دیا ہے۔ جو بقول مولانا ابوالکلام آزاد:
” یہ منزل مذہب کی طرف لے جانے والی نہیں، بلکہ مذہب سے انکار کی ایک نرم اور ملائم صورت ہے “۔
اب اگر کوئی روشن خیال سلف سے رو گردانی کرتے ہوئے سر سید کی ان تعبیرات کو اپنانا چاہتا ہے تو اسے مبارک ہو ۔
اس فیصلہ کی وجہ سے برصغیر کا فارسی خواں طبقہ، جو زیادہ تر مسلمان تھا، پس منظر میں چلا گیا اور انگریزی کے نئے مقام کی وجہ سے ایک قسم کا ناخواندہ شمار ہونے لگا، جب کہ ہندوؤں نے اپنے آپ کو نئے حالات کے مطابق ڈھالنے کے لیے زبردست جد وجہد کی ، جس کا اثر سرکاری ملازمتوں کے حصول پر بھی پڑا، جیسا کہ ڈبلیوڈبلیو ہنٹر نے اپریل1871ء میں صرف بنگال میں سرکاری ملازمتوں کی تقسیم کا جو نقشہ پیش کیا ہے ، نہایت ہی مایوس کن ہے ۔ واضح رہے کہ یہ فہرست صرف ان گزیٹیڈ ملازمتوں کی ہے جن پر ہندو، مسلمان اورانگریز سب فائز ہو سکتے ہیں ، اس کے مطابق کل2111 آسامیوں میں یورپئین کی تعداد1338، ہندو1681 اور مسلمان فقط 92 ہیں۔
ہائی کورٹ کے وکلا کی فہرست جن کا درجہ بیرسٹروں سے ذرا کم ہے اور بھی زیادہ عبرت ناک ہے اور یہ وہ شعبہ تھا جو تمام کا تمام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا ۔1851ء تک کل دو سو چالیس ہندوستانی داخل کیے گئے ہیں، جن میں فقط ایک ہی مسلمان تھا۔
ڈبلیوڈ بلیو ہنٹر مزید لکھتا ہے کہ:
”حقیقت یہ ہے کہ ہمارا طریقہ تعلیم جس نے ہندوؤں کو ان کی صدیوں کی نیند سے جگایا اوران کے کاہل عوام میں قومیت کے شریفانہ جذبات پیدا کر دیے ہیں ، مسلمانوں کی روایات کے بالکل خلاف اور ان کی ضروریات کے بالکل غیر مطابق ہے ، بلکہ ان کے مذہب کی تحقیر ہے ، ہندواسلامی حکومت میں بھی اپنی قسمت پر ایسے ہی مطمئن تھے جیسے کہ اب ہماری حکومت میں ۔ آج کل ترجیح صرف اس شخص کو دی جاتی ہے جو انگریزی زبان جانتا ہو اور ہندوانگریزی خوب سیکھتے ہیں ، اس سے پہلے ترجیح اس شخص کو دی جاتی تھی، جو فارسی زبان جانتا تھا۔“
سرسید احمد خان نے برصغیر پاک وہند میں لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو جس دلجمعی اور اخلاص سے متعارف کرانے کی کوشش کی ، تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ، جیسا کہ آپ لارڈ میکالے صاحب کی تعریف میں رطب اللسان ہیں:
”… ہم صاف صاف کہنا چاہتے ہیں کہ ہم کو مشرقی علوم کی ترقی کے پھندے میں پھنسانا ہندوستانیوں کے ساتھ نیکی کرنا نہیں ہے ، بلکہ دھوکہ میں ڈالنا ہے ۔ ہم لارڈ میکالے کو دعا دیتے ہیں کہ خدا اس کو بہشت نصیب کرے کہ اس نے اس دھوکے کی ٹٹی کو اٹھا دیا تھا۔“
علی گڑھ کالج کے مقاصد تعلیم اس ادارے کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کچھ یوں بیان کیے گئے ہیں:
”… ہم کو اس بات کی امید ہوتی ہے کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان جو اتحاد ہوا ہے وہ مدت دراز تک قائم رہے گا۔ پس اپنے ہم وطنوں کے دلوں پر ان باتوں کا روشن کرنا او ران کو اس پر تعلیم دینا کہ وہ ان برکتوں کی قدر شناسی کر سکیں اور زمانہ سلف کے دھوکا دینے والے خیالات کو باطل کرنا کہ جو ہماری ترقی کے مانع ہوتے ہیں… اور ہندوستان کے مسلمانوں کو سلطنت انگریزی کے لائق وکار آمد رعایا بنانا او ران کی طبیعتوں میں اس قسم کی خیر خواہی پیدا کرنا، جو ایک غیر سلطنت کی غلامانہ اطاعت سے نہیں، بلکہ عمدہ گورنمنٹ کی اصلی قدر شناسی سے پیدا ہوتی ہے…“
بد قسمتی سے آج کی طرح اس دور میں بھی مسلمانوں کی تنزلی کا واحد علاج انگریزی کے حصول میں سمجھ لیا گیا تھا۔ بقول شیخ اکرام:
”… مسلمانوں کے مصائب اگر تمام تر اقتصادی ہوتے تب بھی ان کا حل آسان نہ تھا، لیکن اس زمانے میں انہیں جو نئے مسائل پیش آرہے تھے، وہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق تھے۔ اقتصادی اور ذہنی پستی کی اصلاح کے لیے ضروری تھا کہ مسلمان انگریزی تعلیم حاصل کریں اور وہ اس سے بدکتے تھے …“
اور مشکلات کا یہ ہفت خوان سر سید احمد خان نے سر کیا جس میں حکومت برطانیہ نے دامے، درمے، سخنے ان کی مکمل مدد کی۔ لارڈ ناتھ بروک وائسرائے وگورنر جنرل ہند نے اپنی جیب سے دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کیا، سرولیم میورنے ( یوپی کے گورنر، جس نے ذات اقدس صلی الله علیہ وسلم پر رکیک حملے کیے تھے) ایک ہزار دیا اور دوسرے انگریز افسروں نے بھی مدد کی ، اس طرح بالآخر8 جنوری1877ء کو لارڈلٹن کے ہاتھ ایم اے او کالج علی گڑھ کا افتتاح ہوا۔