Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی محرم الحرام 1431ھ

ہ رسالہ

11 - 15
***
نماز،نماز، نماز… اے مسلمانو!
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
اللہ رب العزت نے کائنات کو وجود بخشا، بنی آدم کو اشرف الخلائق بنایا اور اشرف الخلائق کو ایک عظیم مقصد سے پیدا کیا اور وہ ہے عبادت : ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الإنْسَ إلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ﴾میں نے انسان اور جنات کو محض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔
حدیث میں ہے:﴿اَلدُّنْیَا خُلِقَتْ لَکُمْ وَأنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلآخِرَةِ﴾۔ دنیا تمہارے لیے بنائی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ 
اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں اللہ کی عبادت کرنے کے لیے کوئی نہیں تھا، اس لیے انسان اور جنات کو عبادت کے لیے پیدا کیا، بل کہ قرآن کے بیان کے مطابق﴿مَا مِنْ شَیْءٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ﴾کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی تسبیح و تحمید نہ کرتی ہو۔ حیوانات ہی نہیں ، نباتات و جمادات تک اللہ کے ذکر میں مشغول ہیں، مگر ان کے اذکار، تسبیحات و تحمیدات اختیاری نہیں تو اللہ نے انسان کو وجود دے کر اسے اختیار دیا کہ﴿فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوٴْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُر﴾ جس کو ایمان لانا ہو وہ ایمان لائے اور جسے کفر کرنا ہو کفر کرے۔ گویا انسان اپنے اختیار سے ذکر اور عبادات کرتا ہے۔
گویا سمجھ کر عاجزی اور اختیار کے ساتھ اللہ کو یاد کرنا، یہی اصل عبادت ہے اور اس کا صدور انسان اور جنات ہی سے ہوسکتا ہے، گویا انسان اور جنات کی عبادت اور ذکر دیگر مخلوقات کے مقابلہ میں ممتاز ہے، اسی لیے ان دونوں جماعتوں کو عبادات میں کامیابی کی صورت میں جنت اور اللہ کی خوش نودی و رضامندی جیسی انتہائی عظیم نعمتیں دی جائیں گی اور عقل، سمجھ دینے کے باوجود ناکامی کی صورت میں انتہائی خطرناک سزا جہنم اور اللہ کی ناراضگی کی صورت میں بطور سزا دی جائے گی۔ جب کہ ان دونوں کے سوا دوسری مخلوق کو نہ جزا بصورت جنت اور سزا بصورت جہنم میں مبتلا کیا جائے گا۔ اور عبادتوں میں ام العبادات اور اصل العبادات نماز ہے، مگر امت کا ایک بڑا طبقہ اس سے اعراض کر رہا ہے، لہٰذا قرآن و حدیث اور علمائے مسلمین کے اقوال کی روشنی میں ہم ترک صلوٰة کی سزا پر امت کو باخبر کرنے کی کوشش کرنے جارہے ہیں، اللہ ہم سب کو موت تک اسلام و ایمان پر قائم و دائم رکھے اور ایمان و اسلام کے تقاضوں کو اخلاص کے ساتھ بجا لانے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین!
اسلام اور ایمان
ایک ہے اسلام اور ایک ہے ایمان، ایمان کے ارکان ہیں:”ایمان باللہ، ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتب السماویہ، ایمان بالرسل، ایمان بالآخرة، ایمان بالقدر، ایمان بالبعث“․یعنی ان تمام چیزوں کا دل سے اقرار کرنا اور زبان سے اس کا بولنا۔
ان چھ چیزوں کو ارکان ایمان کہا جاتا ہے۔ ایمان بالآخرة اور بالبعث کو ایک گردانا گیا ہے، آخرت کے بعد بعث بعد الموت کا تکرار اس لیے ہے کہ عام طور پر مرنے کے بعد زندہ ہونے کو لوگ نہیں تسلیم کرتے، لہٰذا یوم آخرت کے بعد اخیر میں والبعث بعد الموت کا اضافہ تاکید کی غرض سے کیا گیا ہے، اگر ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کردیا جائے، تو انکار کرنے والا اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ، مثلاً کوئی اللہ کو ایک مانے اور نبی کا انکار کردے، یا بعث بعد الموت کا انکار کردے، یا ملائکہ کے وجود کا انکار کردے، یا قدر کا انکار کردے تو وہ موٴمن نہیں ہوسکتا، اگر ان میں سے کسی چیز کے بارے میں شک بھی کرے تو دین سے خارج ہو جاتا ہے۔
ایمان کا تعلق قلب سے ہوتا ہے، اسی لیے کوئی آدمی اپنے موٴمن ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا، قرآن کہتا ہے: ﴿قَالَتِ الاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُوٴْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا﴾ اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور موٴمن ہوگئے، آپ کہہ دیجیے کہ تم ایمان تو نہیں لائے، البتہ یہ کہو کہ اسلام لے آئے۔ حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں: سچا مسلمان ہونے کے لیے صرف کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں ہے، بلکہ دل سے اسلامی عقائد کو ماننا اور اپنے آپ کو اسلامی احکام کا پابند سمجھنا ضروری ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن:ص1586)
اسلام کے ارکان پانچ ہیں: (بُنِیْ الإسْلامُ عَلٰی خَمْسٍ: شَہادَةُ اَنْ لاَّاِلَہَ اِلاَّ اللہُ، وَ اِقامُ الصَّلوٰةِ، وِ اِیْتَاءُ الزَّکوٰةِ، وَ صَوْمُ رَمْضَانَ وَحَجُّ الْبَیِْتِ) کلمہٴ شہادت کا تلفظ کرنا، نماز کی پابندی اور خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنا، زکوٰة ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔
ان میں تین میں عموم ہے، یعنی ہر کس و ناکس مسلمان پر فرض عین ہیں اور دو اصحاب استطاعت کے ساتھ خاص ہیں، نطق بالشہادة، اقامة الصلوٰة اور صوم رمضان یہ عام ہیں۔ زکوٰة اورحج ،صرف اغنیا کے اوپر فرض عین ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام اور ایمان میں فرق ہے یا نہیں؟ تو حقیقت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ، البتہ ایمان کا اطلاق عام طور پر تصدیق قلب اور احوال باطنی پر ہوتا ہے اور اسلام کا اطلاق عموماً ظاہری اطاعت اور عمل بالجوارح پر ہوتا ہے، خاتم المحدثین علامہ انور شاہ کشمیری تحریر فرماتے ہیں کہ: تصدیق قلبی جب پھوٹ کر جوارح پر نمودار ہو جائے تو اس کا نام اسلام ہے اور اسلام جب دل میں اتر جائے تو ایمان کے نام سے موسوم ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام اور ایمان کی ایک ہی حقیقت ہے، لیکن اختلاف مواطن سے اس کے نام مختلف ہوگئے اور اگر ایمان صرف قلب ہی میں ہو اور اسلام محض اعضا پر نمایاں ہو تو یہ مغائر حقیقتیں ہیں، اب ان میں اتحاد نہ ہوگا۔(فیض الباری:ص69) بحوالہ اسلامی عقیدے: ص157,156)
بہرحال ارکان ایمان اور ارکان اسلام دونوں میں سے کسی ایک رکن کا بھی انکار موجب کفر ہوتا ہے، البتہ انکار کی دو صورتیں ہیں: ایک زبان سے صراحتاً اور ایک عمل نہ کرکے، یہ بھی انکار کی صورت ہے، مگر اس پر صریح کفر کا حکم نہیں لگایا جاتا، البتہ اگر بندہ استمرار کے ساتھ کسی فریضہ میں کوتاہی کرتا رہے اوراسی حالت میں موت واقع ہو جائے تو ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے، لہٰذا ایمان کی تجدید کے لیے باربار کلمہٴ شہادت ”اشہد ان لاالہ الا اللہ و اشہد ان محمدا رسول اللہ ۔اور۔ لاالہ الا اللہ اور ایمان مفصل اٰمنت باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر والقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالیٰ والبعث بعد الموت“ وغیرہ کا ورد کرتے رہنا چاہیے، اسی طرح ”رضیت باللہ ربا، و بالاسلام دینا، و بمحمد نبیا و رسولاً“ کو بھی وقتاً فوقتاً پڑھتے رہنا چاہیے، اور اسلام کو بچانے کے لیے نماز، روزہ، زکوٰة، حج کا خوب اہتمام کرنا چاہیے خاص طور پر نماز کو تو کسی بھی صورت میں نہیں چھوڑنا چاہییے، نماز کی خاطر جان و مال، عزت کسی کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔کیوں کہ موٴمن کے لیے سب سے بڑی پونجی ایمان ہے، جو اسے اس کی جان و مال ، آبرو اور عزت سب سے زیادہ محبوب ہونی چاہیے۔
ترک صلوٰة اور قرآن
ترک صلوٰة اکبر الکبائر میں سے ہے، کیوں کہ قرآن و حدیث میں اس کی انتہائی تاکیدواقع ہوئی ہے، اللہ کا ارشاد ہے: ﴿یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَیُدْعَوْنَ اِلٰی السُّجُوْدِ فَلا یَسْتَطِیْعُوْنَ﴾جس دن (یعنی قیامت کے دن) ساق سے پردہ اٹھایا جائے گا اور لوگوں کو (اللہ) کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا جائے گا تو (مجرمین) سجدہ نہ کرسکیں گے۔ (سورہٴ قلم:42)
ابن القیم تحریر فرماتے ہیں کہ اس آیتِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ نماز نہ پڑھنے والوں کا شمار قیامت کے دن مجرمین میں ہوگا اورقرآن کی اصطلاح میں مجرمین کا اطلاق کفار پر ہوتا ہے اوروہ اللہ کے سامنے باوجود ہزار کوششوں کے سجدہ ریز نہ ہو سکیں گے؛ گویا ترک صلوٰة کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے۔ (کتاب الصلوٰة:ص34)
ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے: ﴿کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَةٌ اِلاَّ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِ فِیْ جَنّٰتٍ یَتَسَائَلُوْنَ عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ0 مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَر قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ﴾. ہر شخص اپنے کرتوت کی وجہ سے گروی رکھا ہوا ہے، سوائے داہنے ہاتھ والوں کے، جنت میں وہ گنہگاروں کا حال دریافت کریں گے کہ تم کو کون سی چیز نے جہنم میں پہنچایا تو کہیں گے، ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔
معلوم ہوا کہ جہنم میں انسان کوسب سے زیادہ جس چیز کے دنیا میں نہ کرنے کا افسوس ہوگا وہ ہے نماز نہ پڑھنے کا؛ اسی لیے وہ کہے گا، جہنم میں آنے کے منجملہ اسباب میں ایک نماز کا ترک ہے اور وہ اس کو مقدم رکھے گا۔لہٰذا اے لوگو! آوٴ! نماز کا اہتمام کرتے ہیں، قبل اس کے کہ ہمیں جہنم میں جانے کے بعد اس پر افسوس کرنا پڑے، جب کہ افسوس بے سود ہوگا۔ لہٰذا موقعہ ہے اس کو غنیمت جانیے اور آج سے پختہ عہد اور عزم مصمم کرلیجیے کہ انشاء اللہ نماز ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔
اور ایک مقام پر ارشاد خداوندی ہے:
﴿فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوْا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ فَإخْوٰنُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ﴾․(التوبہ:11)پس اگر وہ لوگ توبہ کرلیں اور نماز قائم کرنے لگیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں، صاحب اضواء البیان علامہ شنقیطی فرماتے ہیں کہ توبہ کے ساتھ نماز پڑھنے کو لازم قرار دیا ہے، لہٰذا اگر کوئی نماز نہ پڑھے تو دینی بھائی ہی نہیں ، گویا کافر ہوگیا، عمداً تغافلاً تساہلاً نماز ترک کرنا گویا باعث کفر ہے۔ (اضواء البیان:4/311)
ہم کہتے ہیں کہ اگرچہ کافر تو نہ ہوگا البتہ کفر کے قریب پہنچ جائے گا، اور ہوسکتا ہے کہ موت سے پہلے پہلے قضا اور توبہ نہ کرنے کی صورت میں بغیر ایمان کے رخصت ہو جائے، اور کل قیامت کے دن اس بے نمازی کا کفار کے ساتھ حشر ہو۔
ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے: 
﴿فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوْا الصَّلٰوةَ وَاتَّبَعُوْا الشَّہْوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا﴾.(سورة المریم:59)
اَلْغَیُّ، جہنم کی ایک وادی ہے جو خاص طور پر ان کے لیے بنائی گئی ہے جو عمداً نماز کو ترک کرتے ہیں۔ صاحب تعظیم قدر الصلوٰة فرماتے ہیں: ﴿الامن تاب واٰمن و عمل صالحًا﴾کہا تو معلوم ہوا کہ عمداً نماز کو ترک کرنے والا کافر ہو جاتا ہے، کیوں کہ توبہ اور ایمان کے ساتھ ہی عمل صالح کی بھی شرط لگائی گئی ہے۔ (ہم کہتے ہیں البتہ کافر تو نہ ہوگا، مگر گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا، اسے توبہ بھی کرنی ہوگی اور آئندہ اس پر مداومت بھی)۔ (تعظیم قدر الصلوٰة:119)
ایک جگہ خداوندقدوس کا ارشاد ہے: 
﴿فَلا صَدَّقَ وَ لا صَلّٰی﴾․
ابن القیم فرماتے ہیں کہ قرآن کریم نے اس آیت میں ایمان کی دو ضدیں بیان کی ہیں: ایک نبی کی تصدیق نہ کرنا اور دوسرے نماز نہ پڑھنا۔ گویا عمداً نماز کو ترک کرنا کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ (کتاب الصلوٰة:38)
﴿وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِکَةِ اسْجُدُوْا لآدَمَ فَسَجَدُوْا اِلاَّ اِبْلِیْسَ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنْ الَکَافِرِیْن﴾․(بقرہ:44)
امام اسحاق ابن راہویہ فرماتے ہیں کہ جب ابلیس کو ایک سجدے کا حکم ہوا اور انکار پر اور سجدہ نہ کرنے پر کافر قرار دیا گیا تو جو شخص دن رات میں متعدد (فرائض و واجب نمازوں کے تقریباً چالیس اور سنن موٴکدہ کے چوبیس یعنی کل 64 ) سجدے ترک کرے اس کے بارے میں بھی کفر کے علاوہ اور کونسا حکم لگایا جاسکتا ہے۔ (التمہید:4/226)
ذرا غور کیجیے! ہم موٴذن کے بار بار بلانے اور اللہ کے بار بار ﴿اقیموا الصلوٰة﴾ کہنے کے باوجود بھی نماز ادا نہ کریں۔ ایک ایک دن میں 64,64 سجدے کرنے سے انکار کردیں تو کل ہمارا کیا حشر ہوگا؟ یاد رکھو! قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
ایک مقام پر اللہ کا ارشاد ہے:
﴿وَ اَقِیْمُوْا الصَّلٰوةَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْن﴾۔(روم:31)
علامہ ابن نصر فرماتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ شرک کی علامت نماز کو چھوڑنا ہے۔
﴿فویل للمصلین﴾ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت سعد ابن وقاص فرماتے ہیں کہ جب وقت پر نماز ادا نہ کرنے کی صورت میں ہلاکت کی بددعا دی جارہی ہے تو چھوڑنے کی صورت میں تو کفر کے سوا اور کیا ہوگا؟
تو معلوم ہوا کہ نماز کو اس کے وقت پر جماعت کے ساتھ پڑھنے کا مکمل اہتمام کرنا فرض اور واجب ہے، مگرافسوس عصر حاضر کے مسلمانوں پر کہ انہوں نے مادیت کے پیچھے دین کو اور دین کے اہم ستون نماز کو بھی خیر آ بادکہہ دیا۔ میرے دوستو! نماز چھوڑ کر ہم نہ دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہیں اورنہ آخرت میں سرخ رو ہو سکتے ہیں، ہماری دارین کی کامیابی کا مدار ہی نماز ہے، کوئی کچھ بھی کہے میرے خیال میں ہماری ذلت و نکبت اور تنزلی کا سبب رئیسی اجتماعیت کا نماز سے تغافل اور تساہل ہے۔
ترک صلوة اور احادیث
ایک حدیث شریف میں ہے کہ ایمان اور کفر کے درمیان حد فاصل نماز ہے۔ ( مسلم)
ایک روایت میں ہے کہ جو نماز کا اہتمام نہیں کرے گا اس کا حشر کل قیامت کے دن ہامان، فرعون اور اُبَّی ابن خلف کے ساتھ ہوگا۔ ( احمد، دارمی) یعنی جس طرح روٴسائے کفار کو سخت سزا ہوگی اسی طرح نماز ترک کرنے والے روٴسائے عُصات ٹھہرے، لہٰذا انہیں بھی سخت سزا ہوگی، یعنی مسلمانوں میں سب سے زیادہ سخت سزا نماز ترک کرنے والوں کو ہوگی۔
ڈاکٹر عبد الحی عارفی فرماتے ہیں : اگر ہم اپنے ایمان اور اسلام کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور دنیا وآخرت کے خسران سے بچنا چاہتے ہیں تو جو طریقہ اللہ تعالی نے اپنی رحمت کاملہ سے ہمارے دین کی حفاظت کے لیے بنادیا ہے اور اسے ہمارے لیے قوی ومستحکم قلعہ بنا دیا ہے، اس کو عمل میں لاوٴ اور وہ نماز ہے۔
نماز دین کا ستون ہے، نماز ہی ایسی چیز ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی قوت رکھی ہے کہ جس سے تقاضائے ایمانی پیدا ہوتے ہیں اور شرف انسانیت کا شعور پیدا ہوتاہے، مگر ہم لوگوں نے اسے روز مرہ کا ایک معمول سمجھ لیا ہے اور اس کی کوئی قدر اور اہمیت ہمارے اندر نہیں اور یہ ہماری بڑی محرومی ہے۔
نماز کی اہمیت کا انداز اس سے بھی ہوتاہے کہ وصال کے وقت آخری وصیت جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے فرمائی تووہ یہ ہے: ”الصلوة الصلوة وما ملکت ایمانکم“۔
یعنی نماز کی پابندی کرو اور اپنے ماتحتوں کا خیال رکھو۔ یہ بات دو مرتبہ ارشاد فرمائی۔ اسی سے نماز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ آخری وقت بھی نماز ہی کی تاکید فرمارہے ہیں، معلوم ہوا کہ ہمارا ایمان، صلوة ہی کی پابندی سے محفوظ ہے، اس کی بڑی قدر کرو۔
نماز ترک کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے، یہ اللہ جل شانہ کی حکم عدولی ہے کہ دنیا میں بھی اس کا وبال بھگتنا پڑتاہے اور آخرت میں بھی اس کی بڑی سنگین سزا ہے، اپنے وقت کا انضباط کرلو۔ ان شاء اللہ اس سے بڑی برکت ہوتی ہے اور سب ضروری کام آسان ہوجاتے ہیں اور دل میں سکون رہتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ نماز سے زیادہ اہم ایمان کے بعد کوئی چیز نہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ آج ہماری مسجدیں ویران ہیں، امت کا ایک فیصد طبقہ بھی نمازی نہیں، جب ہم نے نماز جیسی اتنی بڑی عبادت ہی کو، جو ایمان کا ستون ہے، ترک کردیا تو ہم سے بڑا کون مجرم ہوسکتاہے، حالاں کہ امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام مالک، امام ابن قیم جوزیہ، امام عبد اللہ بن المبارک، امام اسحق بن راہویہ، امام ابن تیمیہ ، امام ابن منصور (رحمہم اللہ) کی تحقیق کی مطابق علماء متقدمین کی اکثر اور موٴخرین کی بڑی تعداد جان بوجھ کر اور سستی کی وجہ سے فرض نماز کے ترک کرنے والے کو کافر اور مرتد قرار دیتے ہیں، اگر توبہ کریں تو ٹھیک، ورنہ اسے سزا میں قتل کردینے کو لازم قرار دیتے ہیں، البتہ امام ابوحنیفہ اور اصحابِ رائے اور امام سفیان ثوری، امام مزنی وغیرہ اسے کافر اور واجب قتل نہیں قرار دیتے ،مگر یہ لوگ اسے سخت سزا دینے کے قائل ہیں، عبد اللہ شنقیطی فرماتے ہیں: عمدا تساہلاً وتغافلاً نماز کو ترک کرنے والا کفر اصغر کا شکار ہوجاتا ہے، یعنی کفر کے قریب قریب پہنچ جاتاہے۔ ( حکم تارک الصلوة :21)
بے نمازی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بد نصیب کہا ہے، حدیث میں ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا بد نصیب کون ہے؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں تین مرتبہ کہا، اور پھر فرمایا بدنصیب بے نمازی ہے، کیوں کہ اس کو دنیا اور آخرت سے کوئی حصہ نہیں۔ ( قرة العیون)
اے مسلمانو! نما ز،نما ز،نما ز،نما ز کا مکمل اہتمام آج ہی سے شروع کردیجیے، اپنے پچھلے گناہوں پر توبہ کیجیے آج ہی قضا نمازوں کا اندازہ لگا کر پڑھنا شروع کردیجیے، اپنے متعلقین و متوسلین کو بھی نماز پر آمادہ کیجیے، رب کعبہ کی قسم !اگر ہم سب مل کر آج یہ عہد کریں گے کہ تو اپنی مسجدوں کو آباد کردیں گے، خشوع و خضوع اور پورے اہتمام کے ساتھ نماز باجماعت کا آغاز کردیں گے، تو ہمارے معاشرے کی دیگر چھوٹی بڑی برائیاں خود بہ خود فرو اور ختم ہونا شروع ہو جائیں گی، کیوں کہ قرآن کا اعلان ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَر﴾ (عنکبوت:45)نماز بے حیائیوں اور برائیوں سے روکتی ہے۔
عزیزو! ایک نماز کو درستگی سے پڑھنا شروع کردیجیے، دنیا و آخرت کی کامیابیاں قدم بوسی کریں گی، ذلت و نکبت چھٹ جائے گی، سربلندی وعزت میسرآ جائے گی، اللہ اور اس کے رسول راضی ہو جائیں گے، جو سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ذالک ہو الفوز العظیم!
اے اللہ! تو ہمیں خشوع و خضوع کے ساتھ نماز کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرما اور ایسی نمازپڑھا دے جس سے تو راضی ہو جائے اور اس کی برکت سے جنت کو ہمارے لیے مقدر کردے اور جہنم کو ہم پر حرام کردے۔
اللہم وفق، اللہم وفق، اللہم وفق․

Flag Counter