Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی محرم الحرام 1431ھ

ہ رسالہ

4 - 15
***
آدم خوری کی لذت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
کراچی یونی ورسٹی سے ایک پروفیسر صاحب نے اپنے ایک خط میں مجھے لکھا ہے:
” غیبت کے متعلق حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات اور قرآن مجید، سب سے میں متفق ہوں کہ غیبت ایسی چیز ہے جیسے بھائی اپنے بھائی کا گوشت کھائے ، لیکن میری الجھن نفسیاتی ہے ( میں نفسیات، فلسفہ او رعمرانیات کا طالب علم ہوں) انسان اگر غیبت سے اپنے آپ کو روکے رکھے تو یہ گویا تقویٰ ہے ، لیکن عام زندگی میں ہم جب ایک دوسرے کا اس کی غیر حاضری میں ذکر کرتے ہیں تو ہمیں اس کا احساس نہیں ہوتا ، عورتیں اس معاملے میں بہت آگے ہیں، کسی دعوت سے آنے کے بعد تنقید کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ، کھانے ، کپڑے، سب پر تنقید ہوتی ہے ، سوال یہ ہے کہ اگر ہم دوسروں کے متعلق بات نہ کریں تو پھر کیا کریں ؟ خاموشی یقینا سب سے بہتر ہے ، لیکن وہ کسی ولی الله یا بزرگ کو زیب دیتی ہے ، ہم کو نہیں ، اگر دوسروں کے ذکر کو نکال دیا جائے تو ہماری روزانہ کی گفتگو میں کچھ نہ رہے گا ، ہم تمام وقت خاموش بیٹھے رہیں گے ، مختصراً غیبت ایک بہت بڑی نفسیاتی الجھن ہے ، ہم تقویٰ اختیار کریں تو نہ کسی کی برُائی کریں اور نہ کسی کی بُرائی سنیں، ایسا کرنے کے لیے ہمیں بہت جدوجہد کرنی ہو گی جو عام زندگی میں ممکن نہیں ہے، غیبت کے بغیر ہماری زندگی ایسی ہو گی، جیسے ساز کے بغیر موسیقی، اس موضوع پر اگر آپ جنگ ہی میں لکھ دیں تو شاید میری طرح بہت سے لوگوں کی الجھن دور ہو سکے۔“
پروفیسر صاحب نے جو سوال اٹھایا ہے اس کے جواب کے لیے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ” غیبت“ کیا چیز ہے ؟ اسے سمجھنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ، خود آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے بڑے مختصر اور جامع لفظوں میں ” غیبت“ کی نپی تُلی حقیقت بیان فرما دی ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ : 
” غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا تذکرہ ( اس کی غیر حاضری میں ) اس انداز سے کرو کہ ( اگر اسے پتہ چلے تو ) اسے ناگوار ہو۔“
”غیبت“ کی اس تعریف میں بنیادی اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ کسی کا تذکرہ اس طرح کیا جائے کہ وہ اس کے لیے ناگواری کا موجب ہو ، اگر اس بات کا یقین ہے کہ اس تذکرے سے اسے ناگواری نہیں ہو گی تو وہ غیبت نہیں ہے ، خواہ وہ اس کی کسی بُرائی ہی کا بیان ہو ، لہٰذا اگر کچھ دوست آپس میں بے تکلف ہیں اور ان کے درمیان ہنسی مذاق اس طرح چلتا رہتا ہے کہ اس میں کسی شخص کی واقعی بُرائی کا بیان اسے ناگوار نہیں گزرتا اور ایسی صورت میں وہ اپنے کسی غیر حاضر دوست کا تذکرہ اسی بے تکلفی کے ماحول میں کرتے ہیں اور اس میں اس کی کوئی بُرائی بھی بیان کر دیتے ہیں جس کے بارے میں غالب گمان ہوتا ہے کہ وہ اس غائبانہ تذکرے کو ناگوار نہیں سمجھے گا ، تو یہ ”غیبت“ نہیں ہے ، لیکن اگر وہی بات اس دوستانہ ماحول سے ہٹ کر کسی ایسی جگہ کہیں جاتی ہے جہاں وہ اس دوست کی خفت ، تذلیل یا تحقیر کا موجب ہو ، تو ظاہر ہے کہ یہ بات اسے ناگوار ہو گی اور ” غیبت“ میں داخل ہو جائے گی، اس کی وجہ ظاہر ہے کہ پہلی صورت میں دوستوں کا مقصد اپنے دوست کی بدخواہی ، تحقیر یا تذلیل نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے ساتھ بے تکلفی کا اظہار ہوتا ہے، جو محبت ہی کا ایک شعبہ ہے ، اس لیے ایسا تذکرہ نہ اس کے لیے مضر ہے ، نہ اس سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور نہ اسے ناگوار ہوتا ہے ، ہاں! بعض لوگ دوستی میں بھی زیادہ حساس ہوتے ہیں اور اس قسم کے بے تکلف ماحول میں بھی برُائی سے اپنا تذکرہ انہیں ناگوار ہوتا ہے ، ایسا تذکرہ پھر غیبت میں داخل ہو جائے گا۔
اس تشریح سے یہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ کسی کی غیر موجودگی میں اس کا کوئی تذکرہ اسی وقت غیبت بنتا ہے جب وہ اس شخص کی ناگواری یادل آزاری کا سبب ہو ، اس کے بغیر نہیں، پھر غیبت اسی وقت ناجائز اور حرام ہے جب اس کا کوئی جائز مقصد نہ ہو ، لیکن اگر ” غیبت“ کسی جائز او رمعقول وجہ سے کی جائے ، تو وہ حرام نہیں ، مثلاً ایک مظلوم شخص کسی کے ظلم کا نشانہ بنا ہو اور وہ ظالم کی غیر موجودگی میں اپنی مظلومیت کا ذکر کرے تو یہ جائز ہے ، خواہ ظالم کو ناگوارہی کیوں نہ ہو ، اسی طرح اگر کسی شخص کی کوئی بُرائی اس لیے بتانی ضروری ہو کہ لوگ اس کی بُرائی کا شکار نہ ہوں اور اس کی دھوکا بازی یا اس کے کسی اور شر سے محفوظ رہیں تو یہ غیبت بھی ناجائز نہیں ہے ، بلکہ بعض اوقات واجب ہو جاتی ہے ، لیکن اس قسم کی کسی وجہ کے بغیر کسی شخص کی بُرائی محض تفریح طبع کے لیے یا اس کی تذلیل کے لیے اس طرح اس کے پیچھے بیان کرنا ضرور حرام ہے اورسخت حرام ہے ، جس سے اس کی دل شکنی اور دل آزاری ہو یا اسے تکلیف پہنچے، جس غیبت کو قرآنِ کریم نے حرام قرار دے کر اسے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تعبیر کیا ہے ، وہ یہی غیبت ہے۔
”غیبت“ کی یہ حقیقت واضح ہو جانے کے بعد اب ہر شخص کو خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھنا چاہیے کہ اگر ہمیں یہ اطلاع ملے کہ فلاں مجلس میں ہمارا اس طرح مذاق اڑایا گیا ہے ، یا مزے لے لے کر ہماری بُرائیاں بیان کی گئی ہیں ، تو کیا یہ خبر ہمارے لیے دل آزاری، دل شکنی یا تکلیف کا موجب نہیں ہو گی ؟ او رکیا ہمیں ان لوگوں سے شکایت پیدا نہیں ہو گی جو محض مجلس آرائی کی خاطر ہماری تحقیر کرتے رہے ؟ اگر ہو گی اور ہم ان کے اس عمل کو اچھا نہیں سمجھیں گے تو دوسروں کے لیے ہم اسی عمل کو کس طرح جائز او ربرحق قرار دے سکتے ہیں جوان کی ناگواری کا باعث ہے؟
آپ فرماتے ہیں کہ ہم نے کسی کی جس برُائی کا تذکرہ کیا ، واقعةً اس میں موجود تھی، ہم نے اس پر کوئی غلط الزام نہیں لگایا۔ٹھیک ہے! آپ نے جھوٹ نہیں بولا، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ کی واقعی بُرائیاں اس طرح بر سرِ عام بیان کی جایا کریں تو یہ آپ کو ناگوار ہو گا یا نہیں ؟ اگر ناگوار نہیں ہو گا تو یہ غیبت ہی نہیں اور اگر ناگوار ہو گا تو جو چیز اپنے لیے ناگوار ہے ، وہ دوسروں کے لیے کس منطق یا فلسفے سے گوارا کی جاسکتی ہے؟
بات دراصل یہ ہے کہ جس شخص میں کوئی عیب ہو ، اگر وہ اس کا اختیاری عیب ہے ، مثلاً کوئی گناہ، کوئی بد عملی، تو نرمی اور خیر خواہی سے خود اسی کو متنبہ کرنا چاہیے ، نہ یہ کہ دوسروں کے سامنے اسے رسوا کیا جائے ، الایہ کہ اس بدعملی سے کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہو ، تو ایسے میں دوسروں کے سامنے بیان کرنا بھی جائز ہے او راگر وہ عیب غیر اختیاری ہے ، مثلاً کوئی پیدائشی جسمانی عیب ، تو اس میں اس بے چارے کا کیا قصور کہ اس کی وجہ سے اس کا تذکرہ حقارت یا استہزا کے انداز میں کیا جائے؟
پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ ” غیبت“ ایک نفسیاتی الجھن ہے ، میں اس میں ذرا اسی تبدیلی کرکے یہ عرض کروں گا کہ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے، جس غیبت کو قرآن وسنت نے حرام قرار دیا ہے ، اس پر جب کبھی انصاف کے ساتھ غور کیا جائے گا ، اس کی تہہ میں کوئی نہ کوئی ایسا محرک ضرور نکلے گا جوکسی نہ کسی نفسیاتی روگ کی نشان دہی کرے گا ، بض اوقات اس کا محرک حسد ہوتا ہے ، ہم کسی شخص کو آگے بڑھتا دیکھتے ہیں یا لوگوں سے اس کی تعریف سنتے ہیں تو دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی برائی کرکے اپنے حسد کو تسکین دی جائے ، بعض اوقات غیبت کا محرک احساس کمتری یا تکبر ہوتا ہے ، ہم اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا باور کرانا چاہتے ہیں اور اس شوق میں کسی کی برائی کرتے ہیں کہ ہمیں اس برائی سے پاک سمجھا جائے ، کبھی اس کا محرک صرف یہ ہوتا ہے کہ دوسروں کا مذاق اڑا کر ہم مجلس میں مقبولیت حاصل کریں ، یعنی ہم اپنی مقبولیت کی عمارت دوسرے کی آبرو پر کھڑی کرنا چاہتے ہیں ، امام غزالی  نے احیاء العلوم میں اس طرح کے گیارہ نفسیاتی اسباب کا ذکر فرمایا ہے ، جن کی وجہ سے انسان حرام غیبت میں مبتلا ہوتا ہے ، یہ تمام اسباب درحقیقت کسی نہ کسی اندرونی روگ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہ تو غیبت کے اسباب تھے، نتائج کا معاملہ یہ ہے کہ اسی غیبت کی بدولت باہمی رنجشوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اس سے دلوں میں بغض کی گرہیں پڑتی ہیں ، محبت اور خلوص کی جگہ منافقت اور عداوت پیداہوتی ہے اور ملاپ کی ہزار رسمی کارروائیوں کے باوجود اندر ہی اندر کینے کالاوا پکتا رہتا ہے اور بالآخر کسی وقت باقاعدہ لڑائی جھگڑے کی صورت میں پھوٹ پڑتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اگر غیبت کا رواج عام ہے تو اس کے یہ نتائج بھی عام اور واضح ہیں، جنہیں ہر شخص کھلی آنکھوں دیکھ سکتا ہے، اب خود دیکھ لیجیے کہ غیبت زندگی کی موسیقی کا ساز ہے یا محبت وخلوص کے لیے جنگ کا نقارہ؟
پروفیسر صاحب نے درست فرمایا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اکثر وبیشتر مجلسیں غیبت کے گناہ سے ملوث ہوتی ہیں ۔ لیکن اگر صرف رواج عام کی بنیاد پر برائیوں کو سندِ جواز دینے کی طرح پڑ جائے تو پھر رشوت ، خیانت، جھوٹ اور مکروفریب وغیرہ میں سے کوئی چیز بھی بری نہیں رہے گی ۔ کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ اس بات سے نہیں ہوتا کہ معاشرے میں اس کا کتنا رواج ہو گیا ہے ؟ بلکہ اس چیز کا ذاتی حسن وقبح ہی اس کا فیصلہ کرتا ہے ، جب آپ خود یہ تسلیم فرماتے ہیں کہ غیبت بھائی کا گوشت کھانے جیسی چیز ہے، تو ظاہر ہے کہ محض رواجِ عام کی بنیاد پر آدم خوری کو جائز نہیں کہا جاسکتا ہے۔
رہا یہ سوال کہ ” اگر ہم دوسروں کے متعلق بات نہ کریں تو پھر کیا کریں ؟“ یا یہ خیال کہ ” اگر دوسروں کے ذکر کو نکال دیا جائے تو ہماری روزانہ کی گفتگو میں کچھ نہ رہے گا“ تو ظاہر ہے کہ یہ باتیں مبالغے پر مبنی ہیں ، کیا واقعی دوسروں کی برائی کے سوا ہمارے پاس بات کرنے کے لیے کوئی موضوع نہیں ہے ، اصل بات تو یہ ہے کہ اگر الله تعالیٰ ہمیں خود اپنے عیوب کی اصلاح کی فکر عطا فرما دے تو شاید ہمارے پاس بولنے ہی کے لیے نہیں ، سوچنے کے لیے بھی کوئی او رموضوع نہ رہے ، جو شخص خود کسی شدید درد یا مہلک بیماری میں مبتلا ہو وہ دوسروں کے نزلے کھانسی کا تذکرہ کرے گا یا اپنے درد اور تکلیف کا ؟ لیکن اگر اس اعلی مقام سے بھی تھوڑی دیر کے لیے صرفِ نظر کر لیں تب بھی ”غیبت“ کو چھوڑنا دو وجہ سے مشکل معلوم ہوتا ہے ، ایک تو اس لیے کہ غیبت کی صحیح حقیقت معلوم نہیں ہوتی اور بعض مرتبہ اس بات کو بھی غیبت سمجھ لیا جاتا ہے جو در حقیقت غیبت نہیں ہے ، یا غیبت تو ہے لیکن حرام نہیں ہے ، جس کی تھوڑی سی تفصیل میں ابھی عرض کر چکا ہوں ، دوسروں پر ہر تنقید غیبت نہیں ہوتی ، صرف وہ تنقید غیبت ہے جو کسی جائز وجہ کے بغیر اس طرح کی جائے کہ وہ متعلقہ شخص کو ناگوار ہو یا اس کی د ل آزاری کا سبب بنے، لوگ ہر قسم کی تنقید کو غیبت اور حرام سمجھ کر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ غیبت کو چھوڑنا قابلِ عمل نہیں ہے اور پھر ہر قسم کی غیبت کا بے محابا ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ جب کسی بیماری کی وجہ سے ذائقہ خراب ہو جائے ( یا کسی فکری یا نفسیاتی بیماری سے ذوق بگڑ جائے ) تو کڑوی چیز میٹھی اورمیٹھی چیز کڑوی معلوم ہونے لگتی ہے ، پھر کڑوی چیز کو چھوڑنا مشکل معلوم ہوتا ہے ، اس کا علاج یہ نہیں کہ کڑوی چیز کو میٹھی ثابت کرنے کی کوشش کی جائے ، بلکہ اس کا علاج یہ ہے کہ اس بیماری کے ازالے کی فکر کی جائے جس نے ذوق یا ذائقہ بگاڑ رکھا ہے ۔ اس کے لیے کسی ایسے ماہر طبیب کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے جو بیماری کی صحیح تشخیص کرکے اس کا علاج کرے اور یہ بھی سوچنا پڑتا ہے کہ بیماری کی وجہ سے فیصلہ میرا صحیح نہیں ، صحیح فیصلہ اس ماہر طبیب ہی کا ہے ، خواہ وہ مجھے بظاہر کتنا غلط یا مشکل معلوم ہوتا ہو ، جب انسان اس طبیب کے کہنے پر عمل کرتا ہے تو رفتہ رفتہ بیماری دور ہو جاتی ہے۔
انسان کا حال یہی ہے کہ مختلف بیرونی عوامل سے اس کا ذوق اور ذائقہ بگڑتا رہتا ہے اور وہ مہلک چیزوں کو لذیذ سمجھنے لگتا ہے، ایسے ہی مواقع پر قرآن وحدیث اس کے لیے طبیب کا کام کرتے ہیں ، جوان کی بات مان کر عمل کر لیتا ہے ، اس کی بیماری دور ہو جاتی ہے او رپھر اسے زندگی کا لطف گناہوں میں نہیں ، گناہوں سے بچنے میں حاصل ہوتا ہے اور اسے پتہ چلتا ہے کہ گناہوں کی لذت درحقیقت ایسی لذت ہے جیسے ایک خارش زدہ شخص کو اپنی خارش کی جگہ کھجانے میں لذت محسوس ہوتی ہے ، لیکن وہ محض دھوکے کی لذت ہے، جو صحت اور تن درستی کی لذت کے آگے کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔

Flag Counter