Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی محرم الحرام 1431ھ

ہ رسالہ

5 - 15
***
شرعی پردہ کیا ہے؟
مفتی عبدالرحمن، کراچی
عورتوں کا عاملوں کے پاس جانا
آج کل یہ مرض بھی بہت عام ہو گیا ہے کہ عاملوں وغیرہ کے پاس تعویذات اور دم وغیرہ کروانے کے سلسلے میں عورتوں کابے پناہ رش ہوتاہے اور ان میں سے اکثر عورتیں بے پردہ ہوتی ہیں ۔ حالاں کہ ایسی ضرورت کے وقت اپنے محرم مردوں کو عاملوں کے پاس تعویذات وغیرہ کے لیے بھیجنا چاہیے، ضرورتاً اپنے محرم مردوں کے ساتھ خود بھی جاسکتی ہیں ۔ لیکن کبھی کوئی ایسی اضطراری حالت پیش آجائے کہ گھر میں کوئی محرم مرد موجود نہ ہو اور مریضہ وغیرہ کی تکلیف ناقابل برداشت ہو تو کسی عورت کو بھی ساتھ لے جاسکتی ہیں، لیکن پردے کے اہتمام کے ساتھ تمام امور کی انجام دہی ہونی چاہیے اور لازم ہے کہ غیر محرم عامل کے ساتھ خلوت ( تنہائی) نہ ہونے پائے۔
عورتوں کو قبروں پر جانے او ران پر چراغ جلانے اور مسجدہ گاہ بنانے کی ممانعت
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کے لیے ( دیکھنے کے لیے ) جانے والی عورتوں پر او ران لوگوں پر لعنت کی جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور جو قبروں پر چراغ جلائیں۔ ( مشکوة ص:71 از ابوداؤد وترمذی)
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ابتدائے اسلام میں قبروں کی زیارت کرنے سے منع فرمایا تھا ،پھر بعد میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی تھی ، چناں چہ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں عورتوں دونوں کے حق میں تھی لہٰذا عورتوں کو پہلے تو قبروں کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں تھی، مگر اب اس عام اجازت کے پیش نظر درست وجائز ہے۔
بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس اجازت کا تعلق صرف مردوں سے ہے، عورتوں کے حق میں یہ ممانعت اب بھی ہے اور وجہ اس کی یہ بیان کرتے ہیں کہ عورتیں چوں کہ کمزور دل اور غیر صابر ہوتی ہیں ، نیز ان کے اندر جزع وفزع کی عادت ہوتی ہے ،اس لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ قبروں پر جائیں۔ چناں چہ یہ حدیث بھی بظاہر ان ہی علماء کی تائید کرتی ہے ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت جمہور علماء کے نزدیک اس حکم سے مستثنیٰ ہے، یعنی آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت مرد ہو یا عورت سب کے لیے جائز ہے ۔ قبر پر چراغ جلانا اس لیے حرام ہے کہ اس سے بیجا اسراف اور مال کا ضیاع ہوتا ہے۔ البتہ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر قبر کے پاس کوئی گزر گاہ ہو تو راہ گیروں کی آسانی کے لیے چراغ جلانا یا وہاں روشنی میں کوئی کام کرنے کے لیے چراغ جلانا جائز ہے، کیوں کہ اس سے قبر پر چراغ جلانا مقصود نہیں ہو گا، بلکہ دوسری ضرورت وحاجت پیش نظر ہو گی ۔مولانا شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی کی تحقیق یہ ہے کہ صحیح او رمعتمد قول کے مطابق عورتوں کو قبر کی زیارت کرنا ( دیکھنا) مکروہ تحریمی ہے، چناں چہ مستملی میں لکھا ہوا ہے کہ قبر کی زیارت مردوں کے لیے مستحب ہے اور عورتوں کے لیے مکروہ ہے۔
نصاب الاحتساب میں منقول ہے کہ عورتوں کے قبروں پر جانے کے جواز او را س کی خرابی وقباحت کے بارے قاضی رحمہ الله سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ” اس کا جواز اور اس کا فساد نہ پوچھو بلکہ یہ پوچھو کہ اس پر جو لعنت وپھٹکار برستی ہے اس کی مقدار کیا ہے ؟ ( چناں چہ ) جان لو ! کہ جب عورت قبر پر جانے کا ارادہ ہی کرتی ہے تو الله تعالی اور فرشتوں کی لعنت میں گرفتار ہو جاتی ہے او رجب وہ قبر پر جانے لگتی ہے تو اس کو ہر طرف سے شیاطین چمٹ جاتے ہیں او رجب قبر پر پہنچ جاتی ہے تو مردہ کی روح اس پر لعنت بھیجتی ہے او رجب قبر سے واپس ہوتی ہے تو الله تعالیٰ کی لعنت میں گرفتار ہوتی ہے۔
حدیث میں وارد ہے کہ جو عورت قبر پر جاتی ہے ساتوں زمینوں اور ساتوں آسمانوں کے فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں چناں چہ وہ الله تعالیٰ کی لعنت میں مقبرہ ( قبر) کا راستہ طے کرتی ہے او رجو عورت اپنے گھر میں بیٹھ کر میت کے لیے دعائے خیر کرتی ہے تو الله تعالیٰ اس کو حج اور عمرہ کا ثواب دیتا ہے ۔
حضرت سلمان او رحضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن آں حضرت صلی الله علیہ وسلم مسجد سے نکل کر اپنے مکان کے دروازے پر کھڑے تھے کہ ( باہر سے ) حضرت فاطمہ زہرہ رضی الله تعالیٰ عنہا آئیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کہاں سے آرہی ہو ؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں عورت کا انتقال ہو گیا ہے، اس کے مکان پر گئی تھی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم اس کی قبر پر بھی گئی تھیں ؟ فاطمہ رضی الله عنہا نے فرمایا معاذ الله! کیا میں اس عمل کو کرسکتی ہوں جس کی (ممانعت) کے بارے میں آپ سے میں سن چکی ہوں؟ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم فرمایا( تم نے یہ اچھا ہی کیا کہ اس کی قبر پر نہ گئیں، کیوں کہ ) اگر تم اس کی قبر پر چلی جاتیں تو تمہیں جنت کی بو (بھی) میسر نہ ہوتی… حضرت قاضی ثناء الله پانی پتی رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب مالا بدمنہ میں لکھا ہے کہ زیارت قبور مرداں راجا ئز است ،نہ زناں را۔ ( یعنی قبروں کی زیارت مردوں کے لیے جائز ہے، عورتوں کے لیے نہیں ۔)
(بحوالہ مظاہر حق جدید، شرح مشکوة شریف اردو، ج1ص513)
البتہ فتویٰ اس بات پر ہے کہ جوان عورت کو تو جانا جائز ہی نہیں اور بوڑھی عورت کو اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ پردے کے ساتھ جائے ۔ بن سنور کر یا خوش بو لگا کر نہ جائے اور اس بات کا یقین ہو کہ کوئی کام خلاف شریعت نہ کرے گی ، مثلا رونا، پیٹنا، قبروالوں سے ضرورتیں مانگنا یا قبر والے کی نذر ماننا اور اسے پورا کرنے کے لیے اس کی قبر پر جانا، نیز الله تعالیٰ کو چھوڑ کر صاحب قبر ( قبر والے ) سے اولاد مانگنا اور دوسری ناجائز باتیں اور بدعتیں جو قبروں پر کی جاتی ہیں ۔ ان سب سے پرہیز کیا جائے۔ ( شامی ص843 ج1، امداد الافتاوی ص530، ج1 ،امداد الاحکام ص720، ج1)
حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قبروں کو بت بنانا اور وہاں میلہ کے طریقہ پر اس طرح جمع ہونا جیسے عید میں جمع ہوتے ہیں الله رب العزت اور نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک سخت گناہ ہے۔ قبروں پر عرس کے نام سے جو میلے لگتے ہیں ان میں بے شمار گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ مثلاً قبروں کے چاروں طرف طواف کرنا (حالاں کہ طواف صرف بیت الله کے لیے مخصوص ہے یعنی بیت الله کے علاوہ کسی قبر وغیرہ کا طواف جائز نہیں مزاروں پر چراغ جلانا ، طوائفوں کا ناچ ہونا، ہارمونیم اورطبلہ پر گانا بجانا، قبروں پر چڑھاوے چڑھانا، نمازوں کو چھوڑنا اور قبر پر پھولوں یا کپڑے کی چادریں چڑھانا، قبروں پر اگر بتیاں جلانا اور قبروں کو غسل دلانا اور اس طرح کے بہت سے بڑے بڑے گناہوں اور بہت سی شرک وبدعت کی باتوں اور بدترین خرافات کا ارتکاب کیا جاتا ہے ، الله تعالیٰ سمجھ دے ۔ آمین۔
پردہ لازم ہونے کی عمر
اب رہا سوال کہ لڑکی کو کس عمر سے پردہ شروع کرنے کا حکم ہے اور لڑکے پر پردہ کے احکام کب عائد ہوتے ہیں اس کی تفصیل اور اس میں پائی جانے والی کوتاہیوں کو بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔
لڑکی پر پردہ فرض ہونے کی عمر
جہاں تک لڑکی پر پردہ فرض ہونے کا تعلق ہے تو اس بارے میں فقہائے کرام نے دلائل وتجارب ( تجربات) کی روشنی میں یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ لڑکی نو سال کی عمر میں حد شہوت کو پہنچ جاتی ہے، اس لیے نو سال کی لڑکی پر پردہ فرض ہے ۔ نو سال کی عمر میں لڑکی بالغہ ہو سکتی ہے تو اس عمر میں قریب البلوغ ( بالغ ہونے کے قریب) بطریق اولیٰ ہو سکتی ہے او رقریب البلوغ پردہ کے حکم میں بالغ کی طرح ہے۔
”قال العلامة الحصکفی رحمہ الله تعالیٰ: وقدر بتسع، وبہ یفتی، وبنت احدی عشرة مشتھاة اتفاقا زیلعی․وقال العلامة ابن عابدین رحمہ الله تعالیٰ: بل فی محرمات وبنت تسع فصاعدا مشتھاة اتفاقا․ سائحانی“․ ( رد المحتار ج2)
رہی یہ بات کہ لڑکی کو کتنی عمر سے پردہ شروع کروانا چاہیے تو حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ الله تعالی نے فرمایا کہ ” اس زمانے میں بچیوں کو غیر محارم رشتہ داروں سے سات سال کی عمر میں اوراجنبیوں سے سات سال سے بھی پہلے پردہ شروع کروا دینا چاہیے۔“
یہ آج سے 70/60 سال پہلے کی بات ہے ، آج کے پرفتن دور میں تو اس کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے، لہٰذا عادت ڈالنے کے لیے سات سال کی عمر سے پردہ شروع کروا دینا بہتر ہے ۔تفصیل بالا سے معلوم ہوا کہ نو سال کی لڑکی اور دس سال کا لڑکا احکام پردہ کے مکلف ہیں، اگر وہ خود کوتاہی کریں تو ان کے سرپرستوں پر فرض ہے کہ وہ ان سے ان احکام پر عمل کروائیں اور اس میں ہر گز تساہل ( سستی) سے کام نہ لیں۔
لڑکے پر احکام پردہ لازم ہونے کی عمر
احکام پردہ سے مقصود مردوں اور عورتوں کو بدنظری اور برے خیالات کے گناہ سے محفوظ رکھنا ہے ، لہٰذا جس عمر سے بچوں میں اس گناہ میں مبتلا ہونے کا احتمال( شبہ) ہو گا۔ وہ اس عمر سے احکام پردہ کے مکلف ہوں گے اور پردے کے سلسلے میں ایسے بچوں کا وہی حکم ہو گا جو بالغ مردوں کا ہے۔ چناں چہ اس بارے میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿اوالطفل الذین لم یظھروا علی عورات النساء ﴾․ ( سورة النور) اس آیت کی تفسیر میں امام خازن رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں : لم یبلغوا حدالشھوة ․( تفسیر الخازن ص:349 ج3) ” یعنی جو بچہ شہوت کی عمر کو نہ پہنچا ہو، اس سے پردہ فرض نہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ جو بچہ حدشہوت کو پہنچ جائے اس سے پردہ فرض ہے۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دس سال کی عمر کو حد شہوت قرار دیا ہے ۔ قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: مروا اولادکم بالصلوة وھم ابناء سبع سنین واضربوھم علیھا وھم ابناء عشر سنین وفرقوا بینھم فی المضاجع․ (رواہ ابوداؤد (مشکوة ص:57) اس حدیث میں دس سال کی عمر میں بچوں کے بستر الگ کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے، اس حکم کی علت (وجہ ) احتمال شہوت ( نفسانی خواہش کا شبہ ) ہے۔ اور اس عمر میں نماز نہ پڑھنے پر ضرب یعنی مارنے کا حکم فرمانا بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر کے بچے بعض احکام میں بالغین کے حکم میں ہیں ۔ اس حدیث کی تشریح میں شارح مشکوة ملاعلی قاری رحمہ الله تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں : لانھم بلغوا أوقاربوا البلوغ․ ( مرقات ص 115،ج2) یعنی دس سال کی عمر میں یا تو وہ بالغ ہو گئے یا قریب البلوغ ہو گئے۔ نیز اس حدیث کی تشریح میں علامہ طیبی شارح مشکوة تحریر فرماتے ہیں : لان بلوغ العشر مظنة الشھوة․ ( مرقات ص116 ج2)کہ دس سال کی عمر میں شہوت پیدا ہونے کا احتمال ہے۔
حدیث مذکور کہ مطابق فقہائے کرام رحمہم الله تعالیٰ نے بھی اس لڑکے کو مراہق یعنی قریب البلوغ او رمشتھی قرار دیا ہے۔
”قال العلامة الحصکفی رحمہ الله تعالی: ولو مراھقا یجامع مثلہ، وقدرہ شیخ الاسلام بعشر سنین“ یعنی مراہق اور قریب البلوغ ( بالغ ہونے کے قریب) کی عمر شیخ الاسلام رحمہ الله تعالیٰ نے دس سال بتلائی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ دس سال کے لڑکے اور نو سال کی لڑکی پر پردے کے احکام پر عمل کرنا ضروری ہے، نو سال کی لڑکی مشتہاة( کہ جسے دیکھ کر شہوت پیدا ہونے لگے) ہو جاتی ہے، نشو ونما اور ماحول کے پیش نظر لڑکے اور لڑکی کے لیے پردے کی عمر مذکور میں کچھ کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
لہٰذا نو سالہ بچیوں کو اسکولوں وغیرہ میں غیر محرم اساتذہ کرام کے پاس تعلیم حاصل کرنا جائز نہیں ہے، اس طرح نو سالہ یا اس سے زائد عمر کی بچیوں کے لیے دینی مدارس میں غیر محرم اساتذہ کے پاس حفظ ، ناظرہ یا کوئی اور دینی تعلیم حاصل کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔اور اساتذہ کرام کے لیے بھی ایسی نو سالہ یا اس سے زائد عمر کی بچیوں کو پڑھانا جائز نہیں ہے۔ البتہ مکمل پردے کی پابندی اور خلوت ( تنہائی) سے اجتناب (بچنے) کی شرط کے ساتھ استاد صاحب سے دینی تعلیم حاصل کرنے کی فی نفسہ گنجائش ہے۔ اور اسی طرح دس سال یا اس سے زیادہ عمر کے لڑکوں کو اسکولوں یا ٹیوشن وغیرہ میں غیر محرم استانی صاحبہ سے پڑھنا جائز نہیں اور کسی غیر محرم استانی صاحبہ سے قاعدہ، ناظرہ، حفظ یاکوئی اور دینی تعلیم حاصل کرنا بھی جائز نہیں او راسی طرح اسکولوں یا مدرسوں میں نو سالہ یا اس سے زائد عمر کی بچیوں اور دس سال یا اس سے زائد کے لڑکی کو بھی آپس میں مل بیٹھ کر اکٹھا پڑھانا جائز نہیں ہے۔
عام طو رپر دیکھا گیا ہے کہ دس سال یا اس سے زائد عمر کے لڑکے اساتذہ کرام کے گھروں میں سودا سلف وغیرہ لاتے ہیں اور دیگر خدمات بھی انجام دیتے ہیں، جب کہ استاد صاحب کی بیوی ( غیر محرم) گھر پر موجود ہوتی ہے اور وہ ان شاگرد لڑکوں کو چھوٹا یا اپنی اولاد کی طرح سمجھ کر شاگرد لڑکوں سے پردہ نہیں کرتی ۔ یہ ناجائز اور حرام ہے۔
عام طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض مدرسة البنات( لڑکیوں کے دینی مدرسے) میں تعلیم حاصل کرنے والی نو سالہ یا اس سے کچھ زائد کی لڑکیاں جب پڑھنے جاتی ہیں تو وہ پردے کے ساتھ ( سادہ برقعے یا بڑی موٹی یا گہرے رنگ والی چادر اوڑھ کر ) نہیں جاتی ہیں ۔جس کی وجہ سے ان کا چہرہ ، لباس وغیرہ نظر آتا ہے اور بعض فیشنی برقعے ( جس کی تفصیل پیچھے بیان ہوئی ) میں جاتی ہیں ۔ لہٰذا بدنظری کے عادی فساق وفجار مرد اپنی ہوس بھری نگاہوں سے انہیں راستے میں آتا جاتا دیکھتے رہتے ہیں ۔ یہ دینی مدرسے تو اس لیے ہیں کہ دین کی اشاعت وحفاظت کا فریضہ انجام دیا جائے اور منکرات(گناہوں ) کی روک تھام ہو ۔ لیکن افسوس کہ ایسی بچیاں لوگوں کو عملاً دعوت گناہ ( بدنظری) دیتی ہیں۔ اور بجائے خیر پھیلانے کے شر کے پھیلانے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ دینی مدرسے کی انتظامیہ اس انتہائی اہم معاملہ میں تساہل ، سستی اور چشم پوشی سے کام لیتی ہے ۔ یاد رکھیں کہ ایسی بچیوں کو شرعی پردے کے اہتمام کے بغیر آنے سے نہ روک کر شرعاً مدرسے کی انتظامیہ بھی مجرم اور گناہ گار ہو گی ۔ اورخود ایسی بچی کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شرعی پردے کے ساتھ آئے، جائے۔
او راگر لڑکی پردے کے معاملے میں کوتاہی کرے تو اس کے سرپرستوں پر فرض ہے کہ وہ اس سے احکام پردہ پر عمل کروائیں او راس میں ہر گز تساہل( سستی) سے کام نہ لیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی سمجھ لیں کہ غیر محرم اجنبی شخص ( خواہ وہ 70 سالہ بوڑھا استاد ہی ہو ) کے ساتھ خلوت ( تنہائی میں ) اور بغیر پردہ کے بیٹھنا جائز نہیں۔ خواہ وہ بیٹھنا دین کے سیکھنے سکھانے کے لیے ہی ہو۔ بوڑھے استاد صاحب سے بھی پردہ کرنا ضروری ہے۔ علامہ ابن حجر مکی رحمة الله تعالیٰ علیہ نے شرح منہاج میں فرمایا ہے کہ ” اگر مرد بہت بوڑھا ہو تو بھی اس سے پردہ واجب ہے۔“ (معارف القرآن ص:405، ص:6)
مکمل پردے کی پابندی اور خلوت ( تنہائی) سے بچنے کی شرط کے ساتھ اس استاد صاحب سے پڑھنے کی فی نفسہ گنجائش ہے۔
شادیوں میں دیر مت کریں
اب آخر میں جلد نکاح کرنے کی ترغیب کے بارے میں میں کچھ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کیوں کہ شادیوں میں تاخیر کا ہونا بدنظری ، بے حیائی ، بے پردگی ،زنا اور فحاشی وعریانی کے عام ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ نوجوانو! تم میں سے جو نکاح کی ذمہ داریاں اٹھانے کی طاقت رکھتا ہو ، اسے نکا ح کر لیناچاہیے، کیوں کہ اس سے نگاہیں نیچی رہتی ہیں اور شرم گاہوں کی حفاظت ہوتی ہے اور جو نکاح کی ذمہ داریاں نہ اٹھا سکتا ہو اس کو چاہیے کہ شہوت ( نفسانی خواہش) کا زور توڑنے کے لیے روزے رکھے۔ ( بخاری ومسلم)
اس پر ائمہ مجتہدین تقریباً سبھی متفق ہیں کہ جس شخص کو نکاح نہ کرنے کی صورت میں فعل حرام ( بد نظری ،جلق بازی ، زنا وغیرہ) میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اور نکاح کرنے پر اس کو قدرت ( طاقت) بھی ہو کہ اس کے وسائل موجود ہوں تو ایسے شخص پر نکاح کرنا فرض یا واجب ہے ۔ اور اگر ضرورت نکاح کا درجہ نہیں لیکن بیوی کے حقوق ادا کرنے پر قدرت ہو تب بھی نکاح کرنا سنت ہے ۔
اسی طرح اس پر بھی تقریباً سبھی فقہا کا اتفاق ہے کہ جس شخص کو بظن غالب ( زیادہ خیال کے مطابق) یہ معلوم ہو کہ وہ نکاح کرنے کی وجہ سے گناہ میں مبتلا ہو جائے گا مثلاً بیوی کے حقوق زوجیت ( حق نفس یاحق مال) ادا کرنے پر قدرت ( طاقت) نہیں رکھتا ، اس پر ظلم کا مرتکب ہو گا یا اس کے لیے نکاح کرنے کی صورت میں کوئی دوسرا گناہ یقینی طور پر لازم آجائے گا ایسے شخص کو نکاح کرنا حرام یا مکروہ ہے اور اگر نکاح کی ضرورت ہو اور وسعت (مال) نہ ہو تو اس میں اقوال مختلف ہیں، احقر قول وجوب کو راجح ( افضل) سمجھتا ہے او روسعت کا تدارک محنت مزدوری یا قرض لے کر کرے۔
جس کے ادا کی نیت پکی رکھے اور ادا کی کوشش بھی کرے اور اگر اس پر بھی ادا نہ کر سکے توامید ہے کہ حق تعالیٰ اس کے قرض خواہ کو راضی فرما دیں گے، کیوں کہ اس نے دین کی حفاظت کے لیے نکاح کیا تھا اس میں مقروض ہو گیا تھا ۔ مگر فضولیات کے لیے یہ قرض جائز نہیں، بلکہ صرف نان نفقہ کے لیے یا مہر کے لیے جہاں کہیں مہر کل یا بعض ( پورا یا اس کا کچھ حصہ) فوراً لیا جاتا ہو ۔ بہرحال کلام اس مقام پر اس میں ہے کہ جب ضرورت اور وسعت دونوں ہوں تو نکاح واجب یا فرض ہو گا۔ (اصلاح انقلاب ج2، ص:40)
حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے علی! تین چیزوں میں تاخیر ( دیر) نہ کرو، ایک تو نماز جب اس کا وقت آجائے ، دوسرے جنازے میں جب وہ تیار ہو جائے ، تیسرے بے نکاحی لڑکی اور لڑکے کی شادی میں جب کہ جوڑ مل جائے ۔ ( رواہ الترمذی)
حضرت ابو ذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس عکاف بن بشر تمیمی نامی ایک شخص آئے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا اے عکاف! کیا آپ کی بیوی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: باندی بھی نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : باندی بھی نہیں ۔ آپ نے فرمایا: آپ مال دار ہیں ؟ عرض کیا جی میں مال دار ہوں ۔ آپ نے فرمایا: تو پھر تم شیطان کے بھائیوں میں سے ہو ، اگر نصاری ( عیسائیوں) میں ہوتے تو ان کے رہبان( تارک دنیاوخلوت نشین) میں سے ہوتے۔بلاشک وشبہ ہمارا طریقہ سنت نکاح کرنا ہے نہ کہ خلوت نشینی) تم میں سب سے بُرے وہ ہیں جو بیویوں کے بغیر ہیں اور تمہارے مردوں میں کمترین وہ ہیں جنہوں نے نکاح نہ کیا ہو ۔ کیا تم لوگ شیطان کے چکر میں پھنستے ہو ؟ شیطان کے لیے صلحاء ( نیک لوگوں) کو گناہ میں مبتلا کرنے میں عورتوں سے زیادہ موثر کوئی ہتھیار نہیں ۔ ہاں! شادی شدہ لوگ کہ وہ پاک باز ہوتے ہیں ، دوسروں کی آبروریزی سے بری ہوتے ہیں ، اے عکاف! تمہاری ہلاکت ہو ، شادی کرو ، ورنہ گنہگاروں میں سے ہو۔“ (رواہ احمد فی مسندہ( اعلاء السنن ص5 ج11)
حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ” جس شخص نے عورت سے اس کی عزت کی وجہ سے شادی کی … الله تعالیٰ اسے (مرد کو ) ذلت کے اعتبار سے بڑھائیں گے اور جس شخصنے شادی کی اس کے مال کی وجہ سے الله اس کو فقر ( تنگ دستی) کے اعتبار سے بڑھائیں گے۔ جس شخص نے کسی عورت سے شادی کی اس کے حسب ( خاندان) کی وجہ سے … اس کو الله تعالیٰ کمینگی کے اعتبار سے بڑھائیں گے اورجس شخص نے کسی عورت سے شادی صرف اس ارادہ سے کہ اپنی نگاہ کو نیچے رکھے ( یعنی بدنظری سے محفوظ رہے ) اور اپنی شرم گاہ کی ( حرام کاری ) سے حفاظت کرے۔ الله تبارک وتعالیٰ اس ( مرد ) کے لیے عورت کو بابرکت بنائیں گے اور اس ( عورت ) کے لیے مرد کوبابرکت بنا دیں گے ۔“ ( شامی ج2، ص:360)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” عورتوں سے ان کے حسن وجمال کی بنیاد پر نکاح نہ کرو، ہو سکتا ہے ان کا حسن وجمال ان کو تباہی کی راہ پر ڈال دے اور نہ ان کے مال ودولت کی وجہ سے شادی کرو، ہو سکتا ہے کہ ان کو ان کا مال سرکشی اور طغیانی میں مبتلا کر دے ، بلکہ دین کی بنیاد پر ان سے شادی کرو اور کالی کلوٹی باندی جو دین اور اخلاق سے آراستہ ہو وہ بہت بہتر ہے اس خاندانی حسینہ سے ،جو بد اخلاق ہو۔ ( ابن ماجہ)
یہ حکم جیسے مرد کے لیے ہے اسی طرح عورت کے لیے بھی ہے کہ وہ اور اس کے والدین دین دار لڑکے کو ترجیح دیں ۔ لڑکی والوں کو حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔ جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص( بیٹی یا کسی عزیزہ کے ) نکاح کا پیغام دے جس کی دین داری اور اخلاق تمہیں پسند ہوں تو (جس لڑکی کے تم متولی ہو) اس ( لڑکی) کا نکاح اس ( لڑکے) سے کر دو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں لمبا چوڑا فساد ہو گا ،حضرت ابو حاتم مزنی کی روایت میں ہے کہ صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم نے عرض کیا اگرچہ اس میں کچھ ہو (مال کی کمی یا حسب نسب اور خاندانی اعتبار سے برابری نہ ہو ) نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کا دین او راخلاق تمہیں پسند ہو اس سے نکاح کر دو، اگر نہ کرو گے تو زمین میں لمبا چوڑا فساد ہو گا۔ ( آپ صلی الله علیہ وسلم نے تاکیداً) یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔ (ترمذی ج2 ص128)
حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کی اولاد پیدا ہو اس کو چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اچھی تعلیم دے، پھر جب وہ بالغ ہو جائے اس کی شادی کرادے۔ سواگر بالغ ہونے کے بعد والد نے اس کی شادی نہیں کرائی اور اولاد کسی گناہ میں مبتلاہو گئی تو اس کا گناہ ( سبب کے درجہ میں ) صرف باپ پر ہی ہو گا ( گو مباشرت کے درجے میں خود اس پر ہو گا)۔ ( مشکوٰة شریف باب الولی)
حضرت عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے ، وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ تورات میں لکھا ہے کہ جس کی لڑکی بارہ سال کو پہنچ جائے ( اور لڑکی کے انداز وغیرہ سے نکاح کی ضرورت معلوم ہو ) اور یہ شخص اس کا نکاح نہ کرے ،پھر وہ ( لڑکی) کسی گناہ میں مبتلاہو جائے تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہو گا (بارہ سال کی عمر میں چوں کہ لڑکیاں عموماً بالغ ہو جاتی ہیں اس لیے اس عمر کا ذکر کر دیا گیا )
(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
ہمارے ملک میں باطل رسموں نے نکاح کو ایک مشکل مسئلہ بنا دیا ہے ۔ لڑکیوں کو ایک طویل عرصہ تک بی اے ، ایم اے تک تعلیم کے نام پر اور پھر خود ساختہ معیار کا رشتہ نہ ملنے کا بہانہ بنا کر یا اونچے خاندان کی تلاش او ر مروجہ جہیز جیسی ہندوانہ اور غیر شرعی رسم کی تیاری وغیرہ میں جوان لڑکیوں کو سالوں گھربٹھائے رکھتے ہیں، جو کہ انتہائی ظلم او رنا انصافی ہے ۔ اسی طرح زیورات کی فرمائش اور حق مہر کی زیادتی کی وجہ سے نکاح میں بلاوجہ دیر ہو جاتی ہے۔ حاصل یہ کہ لڑکی ( جو کہ شرم وحیا کی وجہ سے) اپنی شادی کی خواہش ومظلومیت کا اظہار بھی نہیں کرسکتی اور کڑھ کڑھ کر نفسیاتی مریضہ بن جاتی ہے یا اس کی جوانی ڈھل جاتی ہے )
(لڑکی) کا نکاح کرانے میں بغیر کسی معقول وجہ کے محض مال ودولت کی ہوس یا حسن وجمال یا غیر شرعی رسموں کوپورا کرنے کی غرض سے تاخیر کرنا ہر گز جائز نہیں ، البتہ شریعت کی رو سے پسندیدہ اور معتدل ( درمیانے) معیار کا رشتہ ملنے میں یا لڑکی کو گھریلو کام کاج اور سلیقہ شعاری سکھانے میں کچھ تاخیر ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
نبی صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں کم سے کم خرچہ وغیرہ ہو ۔ ( مشکوٰة)
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایاکہ: عورتوں میں سب سے زیادہ برکت والی عورت وہ ہے ہے جس کا مہر کم ہو ۔ جتنا مہر کم ہو گا اتنی وہ عورت برکت والی ہو گی۔ ( رواہ البیہقی فی السنن الکبری)
نبی صلی الله علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ دنیا میں سب سے بڑی نعمت نیک بیوی ہے ، یہ تو شوہر کے حق میں ہے اور بیوی کے حق میں سب سے بڑی نعمت نیک شوہر ہے۔ ( مسلم)۔ بعض لوگ نکاح میں اس لیے پس وپیش ( ٹال مٹول) کرتے ہیں کہ نکاح ہو جانے کے بعد بیوی بچوں کے اخراجات (خرچے ) وغیرہ کہاں سے پورے کروں گا؟ قرآن کی اس آیت ﴿ان یکونوا فقراء یغنھم الله من فضلہ﴾ ( سورة النور آیت 32 میں ان غریب فقیر مسلمانوں کے لیے بشارت ( خو ش خبری) ہے جو اپنے دین کی حفاظت اور پاک دامنی حاصل کرنے اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم پر عمل کرنے کی نیت صالحہ سے نکاح کریں گے تو الله تعالیٰ ان کو مالی غنا بھی عطا فرمائیں گے ۔اور اس میں ان لوگوں کو بھی ہدایت ہے (لڑکی والوں کو ) جن کے پاس ایسے غریب لوگ ان کی بیٹی یاکسی عزیزہ کے لیے شادی کا پیغام بھیجیں تو وہ محض ان کے فی الحال غریب فقیر ہو نے کی وجہ سے رشتہ سے انکار نہ کر دیں۔ مال آنے جانے والی چیز ہے، اصل چیز صلاحیت عمل ہے، اگر وہ ان میں موجود ہے تو ان کے نکاح سے انکار نہ کریں ۔ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایاکہ اس آیت (32 سورة النور) میں حق تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس میں آزاد وغلام سب کو داخل فرمایا ہے او رنکاح کرنے پر ان سے غنا ( مال دار کرنے کا) وعدہ فرمایا ہے ۔( ابن کثیر)
اور ابن ابی حاتم نے حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے سب مسلمانوں کوخطاب کرکے فرمایا کہ تم نکاح کرنے میں الله تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو تو الله تعالیٰ نے جو وعدہ غنا (مال) عطا فرمانے کا کیا ہے وہ پورا فرما دیں گے پھر یہ آیت پڑھی ﴿ان یکونوا فقرآء بغنھم الله﴾․
اور حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم غنی (مال دار) ہونا چاہتے ہو تو نکاح کر لو، کیوں کہ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿ان یکونوا فقرآء یغنھم الله﴾۔ (رواہ ابن جریر وذکر البغوی عن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نحوہ۔ ابن کثیر)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں تین قسم کے لوگوں کی مدد الله تعالیٰ کے ذمہ حق ہے ۔
1. نکاح کرنے والا جو حرام کاری سے بچنے کی نیت سے نکاح کرے۔
2. وہ (مکاتب) لکھت لکھ دینے والا غلام ،جس کا ارادہ ادائیگی کا ہو۔
3. وہ غازی جو خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلا ہو ۔ (ترمذی وغیرہ)
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم․
اے ہمارے رب! ہماری کوششوں کو قبول فرما۔ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔
وآخردعوانا ان الحمدلله رب العالمین․
وماعلینا الا البلاغ المبین․

Flag Counter