Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

8 - 16
***
راہبر کے روپ میں راہزن
مولانا سعید احمد جلال پوری
اسی طرح نبوت کے جھوٹے دعویدار یوسف کذاب کی کہانی پر مشتمل کتاب ”کذاب“ میں بھی بیس مقامات پر مختلف عنوانات اور خدمات کے ذیل میں بایں الفاظ ان کا تذکرہ ملتا ہے، پڑھیے اور سر دھنیے:
1… ”اس جلسے میں کذاب کا چیلا زید زمان جسے کذاب نے ”صحابی“ قرار دیا تھا، اسٹیج پر براجمان تھا۔“ (ص:24)
2… ”کذاب کو کم از کم اپنے ان دو ”صحابیوں“ عبدالواحد اور زید زمان ہی کو اپنی صفائی میں عدالت میں لانا چاہیے تھا۔“ (ص:25)
3… ”اپنی تقریر کے دوران اپنے دو چیلوں عبدالواحد خان اور زید زمان کو ”صحابی“ کی حیثیت سے متعارف کروایا، وہ دونوں اس محفل میں موجود تھے۔“ (ص:50)
4… ”سب سے پہلے وابستہ اور وارفتہ ہونے والے سیّد زید زمان ہی تھے، آئیں سیّد زید زمان!“(ص:52)
5… ”کراچی سے عبدالواحد، محمد علی ابوبکر ، سیّد زید زمان، سروش، وسیم، امجد، رضوان، کاشف، عارف اورنگزیب خان اور شاہد نے شرکت کی۔“ (ص:64)
6… ”راولپنڈی کا خلیفہ زید زمان، پشاور کا خلیفہ سابق ایئر کموڈور اورنگزیب تھا۔“ (ص:91)
7… ”اس دوران اس کے خاص کارندے زید زمان، جو راولپنڈی میں برنکس نامی ایک سیکورٹی کی فرم میں آفیسر ہے، نے کذاب یوسف کے گھر پر سیکورٹی کا عملہ تعینات کردیا۔ “ (ص:94)
8 … ”پھر اسی محفل میں ، میں نے دو افراد عبدالواحد خان اور زید زمان کا بطور صحابی تعارف کروایا۔“ (ص:95)
9… ”...حتی کہ عبدالواحد خان اور زید زمان بھی گواہی کے لیے نہ آئے، جنہیں اس نے یتیم خانہ لاہور، بیت الرضا میں نعوذباللہ خلفائے راشدین کا درجہ دیا تھا۔“ (ص:125)
10… ”اس نے دو افراد زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:175)
11… ” اس ...یوسف علی...نے دو افراد، جن کے نام زید زمان اور عبدالواحد تھے، کو آگے بلایا اور ان کا تعارف صحابی رسول کی حیثیت سے کرایا۔“ (ص:179)
12… ”میں نے اجلاس میں شرکت کی تھی، جہاں آڈیو اور ویڈیو کیسٹ تیار کی گئی تھی...ملزم یوسف نے عبدالواحد اور زید زمان کا اپنے صحابیوں کی حیثیت سے تعارف کرایا۔“ (ص:187)
13… ”یہ درست ہے کہ ملزم یوسف نے عبدالواحد اور زید زمان کو اصحاب رسول کہا، اپنے صحابی نہیں کہا۔“(ص:196)
14… ”پھر دوران تقریر یوسف علی ملزم نے دو اشخاص کو، جن کے تعارف زید زمان اور عبدالواحد کرائے، ان کو بطور صحابی پیش کیا۔“ (ص:211)
15… ”حافظ ممتاز مذکورہ اجتماع میں موجود تھے...جس میں تم نے اپنے دو مریدوں زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:230)
16… ”کیا یہ درست ہے کہ...تم نے عبدالواحد اور زید زمان کو اپنے صحابی کی حیثیت سے متعارف کرایا اور ان دونوں افراد نے کسی حد تک خود بھی تقریریں کیں؟۔“ (ص:238)
17… ”...میں نے جس اجتماع میں اپنے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا، وہاں بیٹھے افراد میں سے اپنے مریدوں زید زمان اور عبدالواحد کے صحابی ہونے کا اعلان کیا۔ “ (ص:297)
18… ”مثال کے طور پر آڈیو کیسٹ بی، ا۔کاٹرنسکرپٹ ایگزیبٹ پی۔10 یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے عبدالواحد اور زید زمان کے صحابی رسول ہونے کا اعلان کیا۔“ (ص:334)
19… ”یہاں موجود سو افراد اصحاب رسول ہیں، اس نے عبدالواحد اور زید زمان نامی دو افراد کا تعارف صحابی کی حیثیت سے اور اپنا پیغمبر اسلام کی حیثیت سے کرایا۔“ (ص:340)
20… ”ملزم یوسف نے مسجد میں اپنے ایک سو صحابیوں کی موجودگی کا ذکر کیا اور اس نے دو افراد عبدالواحد اور زید زمان کا اپنے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا۔“ (ص:343)
خلاصہ یہ کہ کیا اس کتاب میں بھی مختلف عنوانات اور خدمات کے سلسلہ میں ان کا نام درج نہیں ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے اور یقینا اثبات میں ہے تو یہ سب کچھ بغیر کسی تعلق اور تعارف کے ہے؟
5… اسی طرح کل کے زید زمان اور آج کے زید حامد صاحب!اس آڈیو اور ویڈیو کیسٹ کے مندرجات کا انکار کرسکیں گے؟ جس میں ملعون یوسف کذاب نے لاہور کی مسجد بیت الرضا میں نام نہاد اپنے سو صحابہ کی موجودگی کا اعلان کیا اور ان میں سے دو خاص الخاص صحابہ اور خلفاء کا تعارف بھی کرایا، پھر اس موقع پر آپ نے اور عبدالواحد نے حق نمک ادا کرتے ہوئے مختصر سا خطاب بھی کیا تھا۔ لیجیے! اس کیسٹ کے مندرجات اور اپنی تقریر بھی ملاحظہ کیجیے:
”کائنات کے سب سے خوش قسمت ترین انسانو! اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے خوش نصیب صاحبانِ ایمان۔ حضور سیّدنا محمد رسول اللہ سے وابستہ ہونے والو! ان پر وارفتہ ہونے والو! ان
پر تن من دھن نثار کرنے والو! صاحبانِ نصیب انسانو! آپ کو مبارک ہو کہ آج آپ کی اس محفل میں القرآن بھی موجود ہے، قرآن بھی موجود ہے، پارے بھی موجود ہیں، آیات بھی موجود ہیں، آپ میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ ایک آیت ہے، کچھ خوش نصیب اپنی اپنی جگہ ایک پارہ ہیں، جن کو اپنے پارے کا احساس ہے، ان کو قرآن کی پہچان ہے اور جن کو قرآن کی پہچان ہے ان کو القرآن کی پہچان ہے، آج نور کی کرنیں بھی نچھاور کرنی ہیں اور نور کے اس سفر میں جو لوگ انتہائی معراج پر پہنچ گئے ہیں، ان سے بھی آپ کا تعارف کروانا ہے، آج کم از کم یہاں اس محفل میں100 صحابہ موجود ہیں، 100 اولیاء اللہ موجود ہیں، ہر عمر کے لوگ موجود ہیں۔
بھئی صحابی وہی ہوتا ہے ناں ،جس نے صحبت رسول میں ایمان کے ساتھ وقت گزارا ہو اور اس پر قائم ہو گیا ہو؟ اور رسول اللہ ہیں ناں؟ اور اگر ہیں تو ان کے صاحب بھی ساتھ ہیں، اس صاحب کے جو مصاحب ہیں وہی تو صحابی ہیں۔
ان صحابہ کے ذریعے کائنات میں ربط لگا ہوا ہے، ان کے صدقے کائنات میں رزق تقسیم ہورہا ہے، ان کے صدقے شادی بیاہ ہورہے ہیں، ان کے صدقے پانی مل رہا ہے، ان کے صدقے ہوا چل رہی ہے، ان کے صدقے چاند کی چاندنی ہے، ان کے صدقے سورج کی روشنی ہے، یہ نہ ہوں تو اللہ بھی قسم اٹھاتا ہے کہ کچھ بھی نہ ہو گا۔ حتی کہ یہ جو سانس آرہا ہے یہ بھی ان کے صدقے ہے۔یہ ہیں وہ صحابہ، ان کا آپ کو علم ہے کہ دنیا کے کتنے بڑے ولی کیوں نہ ہوں، لاکھوں کروڑوں ان کے مرید کیوں نہ ہوں، ان صحابہ کے گھوڑے، الفاظ یہ ہیں: خدا کی قسم! ان کی سواری کے پیچھے جو گرد اڑتی ہے، اس کے برابر بھی وہ پیر، وہ ولی نہیں ہوسکتا، جس کے لاکھوں کروڑوں مرید ہیں، کیوں وہ پیر ولی ہیں، اللہ کو دیکھے بغیر، یہ ہیں دیکھ کر۔
ان صحابہ میں ایک ایک اپنی جگہ نمونہ ہے اور ایک ایک کا تعارف کروانے کو جی چاہتا ہے، لیکن ہم صرف دو کا تعارف کروائیں گے، عمر کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں، حقیقت کے لحاظ سے دونوں نوجوان ہیں، ایک وہ خوش نصیب ہستی ہے، کائنات میں وہ واحد ہستی ہے، نام بھی ان کا عبدالواحد ہے، محمد عبدالواحد، ایک ایسے صحابی، ایک ایسے ولی اللہ ہیں کہ جن کا خاندان پوری کائنات میں سب سے زیادہ تقریباً سارے کا سارا وابستہ ہے رسول اللہ سے، وارفتہ ہے اور محمد الرسول اللہ سے وابستہ ہو کر محمد رسول اللہ کے ذریعے ذات حق سبحانہ و تعالیٰ تک پہنچا ہے۔ نعرئہ تکبیر کے ساتھ ان کا استقبال کیجیے! اور میں ان کو کہوں گا ،کچھ ہمیں کہیں؟ بسم اللہ !
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم!
آج سے 25 سال پہلے مکہ معظمہ میں ایک بزرگ سے ایک شعر سنا، جو صبح سے میرے کانوں میں گونج رہا ہے، انہوں نے فرمایا تھا:
”میں کہاں اور یہ نکہت گل!
نسیم صبح یہ تیری مہربانی“
یہ شعر تو بہت پسند آیا، مگر اب پتہ لگا کہ ذاتِ حق کا کرم اور اس کی رحمت، اس کا خالص کرم کہ یہ نکہت گل بھی اور نسیم سحر بھی اور حصول بھی، وہ سب اندر ہی اندر موجود ہیں، یہ ایک لباس میں چھپے ہوئے ہیں، ایک اور ہے، بہت عرصہ پہلے علامہ اقبال نے بڑے تڑپ کے ساتھ ایک شعر کہا تھا:
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزار سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
مبارک ہو کہ اب انتظار کی ضرورت نہیں، علامہ اقبال تو منتظر تھے، الحمدللہ ذات حق مل گیا، مبارک ہو۔
دوسرا تعارف اس نوجوان صحابی، اس نوجوان ولی کا کرواؤں گا جس کے سفر کا آغاز ہی صدیقیت سے ہوا ہے اور جس رات ہمیں نیابت مصطفی عطا ہوئی تھی، اگلی صبح ہم کراچی گئے تھے اور سب سے پہلے وابستہ ہونے اور وارفتہ ہونے والے سیّد زید زمان ہی تھے۔ آئیں سیّد زیدزمان نعرئہ تکبیر:
برسوں ایک سفر کی آرزو رہی، کتابوں میں پڑھا تھا چالیس چالیس سال، پچاس پچاس سال چلے کیے جاتے تھے، ریاضت اور مجاہدہ ہوتا تھا، میرے آقا سیّدنا علیہ الصلوٰة والسلام کی انتہا سے انتہائی شدید، انتہائی محبت کے بعد ایک طویل سفر، ریاضت کا مجاہدے کا گزارا جاتا تھا تو آقا کی زیارت ہوتی تھی، ایک سفر کا آغاز، ہمیشہ سے یہ پڑھا اور سنا اور خوف یہ کہ کہاں ہم! کہاں یہ ماحول! کہاں یہ دور! کس کے پاس وقت ہے کہ برسوں کے چلے کرے، کس کے پاس وقت ہے کہ صدیوں کی عبادتیں کرے اور پھر صرف دیدار نصیب ہو، تڑپ تو تھی کہ صرف زیارت و دیدار ایسا نصیب ہو کہ صرف اس جہاں میں نہیں، صرف آخرت میں نہیں، صرف لامکاں میں نہیں، ثم الوریٰ، ثم الوریٰ، ثم الوریٰ، وصل قائم رہے، تو ایک راز سمجھ میں آیا کہ : ”نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں“ زہد ہزاروں سال کا اور پیار کی نگاہ ایک طرف،اپنے کسی ایسے پیارے کو دیکھو جو پیار کی نگاہ سے کہ صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہوجائے۔ نعرئہ تکبیر۔“ ( منقول از کیسٹ بیت الذکر، لاہور و کذاب، ص:50 تا 53)
6… اگر زید زمان المعروف زید حامد کا، ملعون یوسف کذاب کے ساتھ تعلق نہیں تھا، تو اس نے مولانا محمد یوسف اسکندر کے بار بار کے استفسار پر یہ اقرار کیوں کیا کہ جی ہاں! یوسف علی کے مقدمہ میں میرا بہرحال کسی قدر کردار رہا ہے؟ 
7… اگر زید زمان المعروف زید حامد کامدعی نبوت یوسف علی کذاب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ اس کو نہیں جانتا تو اس نے 13/اگست 2000ء کے روزنامہ ڈان میں مدعی نبوت ملعون یوسف علی کذاب کے خلاف عدالتی فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کیوں کہا کہ :”یہ عدل و انصاف کا خون ہے؟“
8… نوفل شاہ رخ کا کہنا ہے :”میں زید حامد کو گزشتہ بیس سال سے جانتا ہوں، میری سب سے پہلی ملاقات زید حامد سے 1989ء میں حکمت یار کے کراچی کے دورے میں ہوئی، جب وہ اس کے ترجمان تھے۔ میں اس روشن چہرے والے متحرک نوجوان، این ای ڈی کے گریجویٹ انجینئر سے، جو بیک وقت روانی سے فارسی، انگریزی، پشتو اور اردو بول سکتا تھا ،بہت متاثر ہوا، اس وقت یہ زید حامد نہیں، بلکہ زید زمان تھا، اسی زمانہ میں زید زمان نے قصص الجہاد نامی ویڈیو تیار اور تقسیم کی، جس میں افغان مجاہدین اور روسی افواج کا دوبدو مقابلہ دکھایا گیا تھا، یہ ویڈیو اپنی قسم میں جدا اور یکتا تھی، اس زمانہ میں زید زمان ایک سحر انگیز شخصیت تھے، مگر پھر کچھ عجیب سی باتیں ہوئیں، زید زمان ایک برطانوی بیس این جی اوز” مسلم ایڈ“ کے مالی اسکینڈل کا مرکزی نقطہ بنے، بعدازاں انہوں نے حکمت یار اور حقانی سے رابطہ توڑ کر احمد شاہ مسعود کے ساتھ تعلقات استوار کرلیے اور پھر بعد میں جہاد کو یکسر فراموش کرکے ”صوفی“ بن گئے، اسی دوران جب ملعون یوسف علی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو یہ اس سے منسلک ہوگیا اور اس کا صحابی اور خلیفہ اول قرار پایا اور کئی دفعہ اخبارات ورسائل میں اس کا نام یوسف علی کذاب کے صحابی اور خلیفہ کے نام سے چھپا۔“ (کاشف حفیظ، روزنامہ امت کراچی) اگر زید زمان المعروف زید حامد کا مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب کے ساتھ کوئی دینی، مذہبی عقیدت و محبت، پیری، مریدی یا نبوت و خلافت کا کوئی رشتہ نہیں تھا تو اس نے ملعون یوسف کذاب کی بھر پور وکالت کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر بے شمار سائلین کے جواب میں ملعون یوسف کذاب کی صفائیاں کیوں دیں اور اس کے خلاف مقدمہ کو جھوٹا مقدمہ کیوں کہا؟ اور یہ کیوں کہا کہ دراصل خبریں گروپ کے ضیاء شاہد اور یوسف کذاب کے درمیان جائیداد کا تنازعہ تھا، جس کی بنا پر اس کے خلاف سازش کی گئی تھی ،ورنہ وہ تو بڑا درویش صفت اور صوفی اسکالر تھا؟ 
9… زید زمان کی ویب سائٹ براس ٹیکس پر جاکر زید حامد سے یوسف کذاب سے متعلق سوالات کرنے والے بیسیوں سائلین کا کہنا ہے کہ اگر زید زمان المعروف زید حامد کا یوسف کذاب کے ساتھ کوئی دینی اور مذہبی رشتہ نہیں تھا یا نہیں ہے تو وہ یوسف کذاب کے غلیظ عقائد کے بارے میں صاف صاف جواب کیوں نہیں دیتا اور یہ کیوں نہیں کہتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا ہر دعویدار دجال و کذاب اور ملحد و مرتد ہے؟ اور وہ اس دجال کے عقائد سے متعلق پوچھے گئے ہر سوال کے جواب میں یہ کیوں کہتا ہے کہ اس کی کوئی بات تصوف کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے؟
10… جو بھولے بھالے مسلمان اور مخلص و دین دار افراد زید زمان المعروف زید حامد کے دفاعی تجزیوں، جہاد و مجاہدین کے حق میں اور یہود و امریکا کے خلاف بولنے اور کھلی تنقید کرنے کی بنا پر ان کو طالبان اور مسلمانوں کا نمائندہ یا ترجمان سمجھتے ہیں ان کو زید حامد کی ویب سائٹ براس ٹیکس پر انگریزی میں جاری کردہ رپورٹ: "What Really Happened"کا مطالعہ بھی کرلینا چاہیے، اگر کوئی شخص اس کی اس انگلش رپورٹ کو پڑھ کر سمجھ لے تو اس کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ طالبان، دین، دینی مدارس اور علماء کے بارے میں کتنا مخلص ہے؟ یا جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے شہداء اور اس قضیہ کے کرداروں کے بارے میں ان کے دلی اور قلبی کیا جذبات و احساسات ہیں؟ چنانچہ اس رپورٹ کے آغاز میں انہوں نے اپنی 8/جولائی2007ء کی تحریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:
”(لال مسجد کے معاملے میں) حکومت کی ناموری، ستائش اور تذلیل کے درمیان ایک پاگل مولوی (Psychopath Cleric) اور دہشت گردوں کا ایک گروپ کھڑا ہے، جس نے لوگوں کو پاکستانی دارالحکومت کے قلب میں یرغمال بنایا ہوا ہے۔“ (رپورٹ اس طرح کے زہریلے الفاظ اور تجزیوں سے پُر ہے)۔
#… (لال مسجد کے علماء اور طلبا و طالبات) منکرِ دین، بے وفا، فراری، اوباش (Renegade) جنگجوؤں کا گروپ ہے، جو ”تکفیری“ کہلاتے ہیں، یہ ان مسلمانوں پر جنگ مسلط کردیتے ہیں جو ان کے نظریات سے اتفاق نہیں کرتے، یہ نظریاتی طور پر حکومت دشمن، بدنظمی پسند، انتشاری اور شورش طلب (Anarchist) اور معروف جہادی گروپس کے درمیان بے خانماں اور خارجی (Outcastes)لوگ ہیں۔
#… میرے خیال میں (سانحہ میں) ہلاک و زخمی ہونے والوں کی کل تعداد 200سے250 ہوسکتی ہے، بشمول 75جنگجوؤں کے، اس تعداد کو حکومت نے بھی تسلیم کیا ہے، ملا دباؤ بڑھا رہے ہیں یہ منوانے کے لیے کہ اندر 1000لوگ تھے، یہ بے معنی اور فضول بات ہے، جیسا کہ ان کے مرحوم لیڈر کہتے رہے کہ اندر 1800لوگ ہیں ،یہ (Bluff) تھا۔
#… جی ہاں! میڈیا کو جو ہتھیار دکھائے گئے، ان کا تعلق ان جنگجوؤں سے تھا اور ان عمارتوں میں اسلحے کا بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا، جن میں مشین گنیں، راکٹ لانچرز، بارودی سرنگیں، ہینڈ گرنیڈز، گیس ماسک، مولوٹووکوک ٹیلز اور خودکش حملے کی جیکٹس شامل تھیں، ہمیں کوئی شبہ نہیں کہ اس معاملے میں حکومتی موقف بالکل درست ہے، لال مسجد ایک عارضی اسلحہ (Weapons Dump) تھی اور بلاشبہ ایک طویل جنگ اور مسلح بغاوت (Armed Rebellion)کے لیے تیار مقام۔
#… باوجود اس کے کہ مولوی مصر ہیں کہ مدرسے میں 1000سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، ہمارے پاس اس بات کو تسلیم کرنے کی کوئی وجہ نہیں، یہ محض بڑے پیمانے پر پھیلائی جانے والی ڈس انفارمیشن ہے، کوئی ایک ،جی ہاں! ایک بھی کسی ثبوت کے ساتھ آگے نہیں آیا، جس میں مدرسے میں داخل طلبا و طالبات کے نام، رول نمبر اور پتے درج ہوں اور نہ ہی کوئی حاضری رجسٹر پیش کیا گیا جس سے پتا چل سکے کہ مدرسے میں داخل طلبا و طالبات کی اصل تعداد کیا تھی۔
#… ہمارے اپنے ذرائع سے حاصل کردہ مفصل شہادتیں موجود ہیں، جن سے پتا چلتا ہے کہ آپریشن کے دوران صرف چند سویلین (خواتین اور بچوں) کی ہلاکتیں ہوئیں، شاید صرف چند درجن، اس تعداد کو حکومت نے بھی اب تسلیم کرلیا ہے۔“ (کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا، از ڈاکٹر فیاض عالم)
11… مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی فرماتے ہیں: یوسف کذاب نے نہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا، بلکہ اہانت رسول کا بھی ارتکاب کیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے قائدین کے حکم پر بندہ نے کذاب کے خلاف کیس رجسٹرڈ کرایا۔ کذاب کے چیلوں میں سرفہرست دو نام تھے: ایک کا نام سہیل احمد خان ،دوسرے کا نام زید زمان تھا، جنہیں کذاب اپنا صحابی کہتا تھا۔ کذاب کے ساتھ عدالت میں جو لوگ آتے تھے ان میں بھی سرفہرست مذکورہ بالا دونوں افراد تھے۔ مذکورہ بالا افراد نے ترغیب و ترہیب، غرض ہر لحاظ سے کوشش کی کہ بندہ کیس سے دستبردار ہوجائے۔ اللہ پاک کی دی ہوئی استقامت کے ساتھ مقابلہ جاری رکھا۔ موبائل ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے، بندہ چھٹی پر شجاع آباد آیا ہوا تھا۔ زید زمان نے کسی طریقہ سے میرا رابطہ نمبر حاصل کیا، جو ہمارے پڑوس کے گھر کا نمبر تھا، ایک دن عصر سے تھوڑی دیر پہلے میرے پڑوسی نے دروازہ کھٹکھٹاکر پیغام دیا کہ آپ کا فون آنے والا ہے۔ بندہ نے گھنٹی بجنے پر ریسور اٹھایا کہ دوسری طرف سے آواز آئی کہ راولپنڈی سے زید زمان بول رہا ہوں۔ میں نے کہا فرمایئے! زید زمان نے کہا کہ آپ نے ہمارے حضرت (یوسف کذاب) کے خلاف کیس کیا ہوا ہے، وہ واپس لے لیں۔ میں نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا، اس کا انجام آپ کو معلوم ہے ؟ بندہ نے کہا کہ نفع و نقصان سوچ کر کیس کیا ہے۔ اس نے کہا کہ ہماری طرف سے پیشکش ہے، فرمایئے آپ کی ضروریات کیا ہیں؟ میں نے کہا کہ میری ضرورت میرا اللہ پوری کررہا ہے، اب اس نے پینترا بدلتے ہوئے کہا کہ ہمارے حضرت کی جماعت اگرچہ تھوڑی ہے، لیکن کمزور نہیں ہے، میں نے جواب میں کہا کہ ہمارے حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جماعت بہت بڑی ہے اور بہت مضبوط ہے، اس نے مزید گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنا چاہا تو بندہ نے کہا کہ بات عدالت میں ہوگی۔ چنانچہ کیس کی سماعت کے دوران زید زمان یوسف کذاب کے محافظین میں رہا، بلکہ کیس کی سماعت کے دوران جب بندہ کا بطور مدعی بیان جاری تھا اور کذاب کا وکیل بندہ پر تابڑ توڑ حملے کررہا تھا اور وہ کیس سے غیر متعلقہ سوال کررہا تھا تو بندہ نے کہا کہ آپ کیس سے متعلق سوال کریں، غیر متعلقہ سوال نہ کریں تو عدالت نے مجھے کہا کہ وکیل جو سوال کرے آپ کو اس کا جواب دینا ہوگا۔ اس دوران ایک سوال صحابی سے متعلق بھی ہوا کہ صحابی کی کیا تعریف ہے؟ بندہ نے تعریف بتلائی، اتفاقاً اس روز زید زمان سوٹ میں تھا، پینٹ، شرٹ اور ٹائی زیب تن کی ہوئی تھی، بندہ نے عدالت سے کہا کہ آپ نے صحابہ کرام کی سیرت کا مطالعہ کیا ہوگا، ایک رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام تھے، جو آپ کی سیرت طیبہ کا پر تو تھے، ان کی وضع قطع، چال ڈھال، لباس میں سیرت طیبہ نظر آتی تھی۔ نعوذباللہ! ایک یہ صحابی ہیں جن کا لباس اور وضع قطع دیکھ کر علامہ اقبال یاد آتے ہیں، علامہ نے فرمایا:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
اس پر زید زمان بہت شرمندہ ہوا ،زید زمان یوسف کذاب کی موت تک اس کا چیلہ بنا رہا، حتی کہ جب کذاب کی میت کو اسلام آباد کے مسلمانوں کے قبرستان سے نکالا گیا، تب بھی اس کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں۔
12… الغرض اگر زید زمان المعروف زید حامد، مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب سے اپنی برأت کرنا چاہتا ہے یا اس سے اپنا رشتہ برقرار نہیں رکھنا چاہتا تو وہ روزنامہ جسارت کراچی، روزنامہ امت کراچی، ماہنامہ بینات کراچی اور ہفت روزہ ختم نبوت میں شائع شدہ مضامین اور راقم الحروف سعید احمد جلال پوری، جناب کاشف حفیظ، جناب این خان، جناب ابو سعد، جناب نوفل شاہ رخ، جناب سعد موٹن، ڈاکٹر فیاض عالم وغیرہ کے کالموں اور جناب رانا اکرم اور منصور طیب، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی وغیرہ کی شہادتوں کی تردید میں کھل کر یہ کیوں نہیں کہہ اور لکھ دیتا کہ میرا اب مدعی نبوت ملعون یوسف کذاب کے ساتھ دینی، مذہبی اعتبار سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، اور اس کے عقائد و نظریات اور ملحدانہ دعاوی کی بنا پر میں اس کو کافر و مرتد سمجھتا ہوں، بے شک میرا اس سے کبھی تعلق تھا، یا میں اس کا خلیفہ تھا، لیکن اب میں نے ان تمام کفریہ اور ملحدانہ عقائد سے رجوع کرکے ان سے توبہ کرلی ہے لہٰذا آئندہ میرا اس کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہ جوڑا جائے اور کسی آدمی کے کفریہ عقائد سے توبہ کرلینے کے بعد اس کو توبہ سے قبل کے کفریہ اور ملحدانہ عقائد و نظریات کا طعنہ دینا قانوناً، اخلاقاً اور شرعاً ناجائز ہے، اللہ تعالیٰ میرے اس جرم کو معاف فرمائے، نیز میں تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے اس جرم کو معاف فرمائے اور مجھے اس رجوع و توبہ پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
ہمارے خیال میں اگر زید زمان المعروف زید حامد اس طرح کی ایک تحریر یا اس طرح کا بیان مجمع عام میں لکھ کر یا بیان کرکے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردے یا کسی اخبار میں شائع کرادے تو اس سارے نزاع کا خاتمہ اور اس قضیہ کا بآسانی فیصلہ ہوسکتا ہے اور آئندہ اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی بدگمانی بھی راہ نہیں پاسکے گی، بلکہ اس تحریر و بیان کے بعد ان کے خلاف جو کوئی لب کشائی کرے گا وہ خود منہ کی کھائے گا، لیکن اگر وہ ان تمام شواہد و قرائن اور دلائل و براہین کے باوجود …جن سے اس کا یوسف کذاب کے ساتھ مریدی، خلافت، صحابیت اور عقیدت کا گہرا تعلق ثابت ہوتا ہے…گومگو کی کیفیت میں رہے گا یا اس کی وکالت کرتے ہوئے اس کو صوفی اسکالر اور عاشق رسول ثابت کرنے کے ساتھ یہ کہتا رہے گا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا یا نہیں ہے، تو اس کی اس بات کا کیا وزن ہوسکتا ہے؟ یا اس کی بات کو کوئی عقلمند تسلیم کرسکتا ہے؟
13… خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ زید زمان المعروف زید حامد کو ملعون یوسف کذاب کے ساتھ دیکھ چکے تھے یا ان کو معلوم تھا کہ یوسف کذاب نے اس کو اپنا خلیفہ بنایا تھا اور نعوذباللہ اس کو حضرت ابوبکر صدیق کا خطاب دیا تھا اور ان حضرات نے اسی دور میں اس کی تقریریں بھی سُنی تھیں، انہوں نے جب اس کی حقیقت سے پردہ اٹھانا چاہا یا علمائے کرام سے اس کے تعاقب کی درخواست کی اور ہماری طرح دوسرے حضرات نے اس کی عیاری کی نشاندہی کرنا چاہی تو اس نے صاف انکار کردیا کہ میں کسی یوسف کذاب کو نہیں جانتا، کیونکہ یوسف کذاب کا خلیفہ زید زمان تھا اور میرا نام تو زید حامد ہے، اس پر جب مزید تحقیق کی گئی تو بحمدللہ اس کی وہ کیسٹ بھی مل گئی، جس میں اس نے اپنی خلافت کے موقع پر تقریر کی تھی ...جس کا مضمون اوپر نقل ہوچکا ہے... اور یوسف کذاب کے دام تزویر سے نکلنے والے متعدد حضرات مثلاً :ڈاکٹر اسلم، رانا محمد اکرم، ابوبکر محمد علی، سعد موٹن، نوفل اور منصور طیب صاحب وغیرہ نے یقین کے ساتھ باور کرایا کہ یہ ملعون وہی ہے۔ ان میں سے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ زید حامد کا فتنہ یوسف کذاب کے فتنہ سے بڑھ کر خطرناک ثابت ہوگا، کیونکہ یوسف کذاب میڈیا پر نہیں آیا تھا اور لوگ اس کے اتنے گرویدہ نہیں ہوئے تھے، جتنا اس سے متاثر ہیں، یا یہ اپنا حلقہ بناچکا ہے۔ 
شُنید ہے کہ زید زمان المعروف زید حامد آج کل لوگوں کو وضاحتیں پیش کرتا پھر رہا ہے کہ میرا یوسف کذاب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میں چیلنج کرتا ہوں کہ جن لوگوں کے پاس ایسے کوئی ثبوت ہوں وہ میرے سامنے لائیں۔ 
اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہم اس کا چیلنج قبول کرتے ہیں اور ایسے تمام حضرات، جو اِس کو اُس دور سے جانتے ہیں، جب وہ افغانستان میں پہلے حکمت یار اور بعد ازاں احمد شاہ مسعود کے ساتھ تھا اور پاکستان میں ان کی ترجمانی کرتا تھا اور پھر یوسف کذاب کے ساتھ وابستہ ہوگیا، اس دور کی تمام باتیں یاد دلا کر اس کے جھوٹ اور دجل کو آشکارا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 
افسوس تو یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اور بعض دین دار اس کے سحر میں گرفتار ہیں، بہرحال ہمارا فرض ہے کہ ہم امت کو اس کی فتنہ سامانی سے بچائیں۔
مکرر عرض ہے کہ جہاد افغانستان کے حق میں یا امریکا اور یہودیوں کے خلاف تقریریں کرنا، کسی ملحد کے مسلمان ہونے کی دلیل نہیں، اس لیے کہ ایسے ملحدین اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے دور رس منصوبے ترتیب دیتے ہیں، چنانچہ اہل ِ بصیرت خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ شروع شروع میں مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ہندوؤں، آریوں اور عیسائیوں کے خلاف تقریریں، مناظرے اور مباحثے کرکے اپنی اہمیت منوائی تھی اور اپنے آپ کو اسلام اور مسلمانوں کا ترجمان باور کرایا تھا، لیکن جب اس کی شہرت ہوگئی اور اس کا اعتماد بحال ہوگیا تو اس کے بعد اس نے مہدی، مسیح اور نبی ہونے کے دعوے کیے تھے، ٹھیک اسی طرح یہ بھی اسی حکمت عملی پر گامزن ہے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو ایسے فتنہ پروروں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔
وصلی اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین

Flag Counter