Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

11 - 16
***
قرابت داری اور ہمسائیگی کے حقوق
امام عبدالرحمن ابن جوزی
مسلمانوں کاحق یہ ہے کہ جب ملو تو سلام کہو۔ جب بلائے تو جاؤ اور وہ چھینکے تو جواب دو۔ وہ بیمار ہو تو اُس کی عیادت کرو ۔ مر جائے تو اُس کے جنازے میں جاؤ ۔ اُس کی قسم کو پورا کرو۔ جب تم سے خیر خواہی چاہے تو خیر خواہی کرو۔ غائبانہ طور پر اُس کی حفاظت کرو اور اُس کے لیے وہ کچھ پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو ۔ جواپنے لیے ناپسند کرتے ہو اُس کے لیے بھی ناپسندکرو۔
یہ تمام باتیں احادیث میں ہیں اور ان میں سے یہ بھی ہے کہ کسی مسلمان کواپنے قول اور فعل سے تکلیف نہ دو ۔ مسلمانوں کے لیے متواضع رہو۔ متکبر نہ بنو بعض کے متعلق بعض کی باتیں نہ سنو۔ اگر کوئی بات کان میں پڑ جائے تو دوسروں تک نہ پہنچاؤ۔
اور ان میں سے یہ بھی ہے کہ اگر جھگڑا ہو تو تین دن سے زیادہ مسلمان سے قطع تعلق نہ کرو ، کیوں کہ اس سلسلے میں مشہور حدیث ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :” کسی مومن کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے مومن بھائی سے قطع تعلق کرے۔ جب تین دن گزر جائیں تو اس سے ملے او راس پر سلام کہے اگر وہ سلام کا جواب دے تو دونوں اجر میں شریک ہو گئے اور اگر اس نے جواب نہ دیا تو سلام کرنے والا قطع تعلق کے گناہ سے بچ جائے گا۔“
معلوم ہونا چاہیے کہ قطع تعلق کا یہ مسئلہ دنیاوی امور میں ہے ۔ اگر دین کا حق ہو تو اہل بدعت ، خواہش پرست اور معصیت کے رسیا سے ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرے، جب تک کہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے یا توبہ نہ کرے ۔
اس میں سے یہ بھی ہے کہ جس سے بھی اچھا سلوک کر سکتا ہو اپنی ہمت کے مطابق اچھا سلوک کرے۔ کسی کے گھر اُس کی اجازت کے بغیر نہ جائے۔ دروازے پر رُک کر تین دفعہ اجازت مانگے۔ اگر اجازت نہ ملے تو واپس آجائے۔
اور اس میں سے یہ بھی ہے کہ لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آئے اور یہ اس طرح ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اُس کے شایان شان طریقہ کے مطابق معاملہ کرے ۔ جاہل سے علم کی، کھلنڈرے سے فقہ کی اور کُند ذہن سے علم بیان کی باتیں کرے گا تو خود بھی تکلیف میں ر ہے گا او راُن کو بھی تکلیف دے گا۔
اور اس میں سے یہ بھی ہے کہ بڑوں کی عزت کرے اور بچوں پر شفقت اور تمام لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی اور نرم دلی سے پیش آئے اُن سے کیے ہوئے وعدے پورے کرے اور اپنی طرف سے لوگ سے انصاف کرے اوراُن کے ساتھ وہی سلوک کرے جو سلوک رکھنا ضروری ہو۔
حضرت حسن نے کہا:” الله تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی طرف چار باتوں کی وحی کی اور فرمایا، ان میں سے ایک میرے لیے اور ایک تیرے لیے اور ایک تیرے اور میرے درمیان او رایک تیرے اور مخلوق کے درمیان ہے۔
میرے لیے یہ ہے کہ تو میری عبادت کر اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا۔تیرے لیے یہ ہے کہ میں تیرے اعمال کا بدلہ تجھے اس وقت دوں گا جب تجھے اس کی بڑی ضرورت ہو گی ۔او رجو تیرے اور میرے درمیان ہے وہ تیری دعا ہے ۔ تو دعا کر، میں قبول کروں گا۔ اور جو تیرے اور لوگوں کے درمیان ہے وہ یہ ہے کہ تو ان کے ساتھ اس طرح رہ جیسا کہ تو چاہتا ہے کہ وہ تیرے ساتھ رہیں۔
اور اس میں سے یہ بھی ہے کہ باوقار لوگوں کی زیادہ عزت کرے ۔ باہمی تعلقات کی اصلاح کرے اور مسلمان کی پردہ پوشی کرتا رہے۔
معلوم ہونا چاہے کہ جو آدمی دنیا میں گنا ہ گاروں کی پردہ پوشی کرے گا وہ الله کی منشا پوری کرے گا کہ اُس نے زنا میں چار عادل آدمیوں کی گواہی رکھی ہے ، جو یہ گواہی دیں کہ اُنھوں نے اس طرح دیکھا ہے جیسے سُرمہ دانی میں سُرمچو اور ایسا اتفاق نہیں ہوتا ۔ دنیا میں اس کے کرم ہی کا یہ اثر ہے کہ آخرت میں بھی بخشش کی امید رکھی جاسکتی ہے ۔
اور اس میں سے یہ بھی ہے کہ تہمت کی جگہوں سے بچے۔ لوگوں کے دلوں کو بدظنی اور اُن کی زبانوں کو غیبت سے بچائے۔
اور اس میں سے یہ بھی ہے کہ جس مسلمان کو بھی سفارش کی ضرورت ہو ، اُس کی سفارش کرے اور ان کی حاجت پوری کرنے کی کوشش کرتا رہے۔
اور اس میں سے یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان کو کلام کرنے سے پہلے سلام کہے۔ مصافحہ کرنا بھی سنت ہے ۔ حضرت انس رضی الله عنہ نے کہا، نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” دو مسلمان آدمی ملاقات کریں اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیں تو الله تعالیٰ کا حق ہے کہ اُن کی دعا قبول کرے اور ہاتھ الگ کرنے سے پہلے ان کو بخش دے۔“
ایک اور حدیث میں ہے:” جب مومن سے مومن مصافحہ کرتا ہے تو سو درجے رحمت نازل ہوتی ہے اور اُس میں سے ننانوے درجے اسے ملتی ہے جو زیادہ خندہ رُو اور اچھے خُلق والا ہو۔“
بزرگ عالمِ دین کے ہاتھوں کو بوسہ دینے میں کوئی حرج نہیں اور نہ گلے ملنے میں کوئی حرج ہے ۔ علما کی تعظیم کے لیے ان کی رکاب کو تھامنا جائز ہے۔ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے زید بن ثابت رضی الله عنہ کی رکاب تھامی۔ اسی طرح اہل فضل کی عزّت افزائی کے لیے اُٹھ کر کھڑا ہو جانا اچھا ہے، البتہ جھکنا منع ہے۔
اور اس سے یہ بھی ہے کہ مسلمان بھائی کی عزت، مال او رجان کو دوسروں کے ظلم سے بچائے اور اُس کی حمایت اور مدد کرتا رہے۔
اور یہ بھی ہے کہ جب کسی متکبر سے واسطہ پڑے تو حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کے مطابق اُس سے بھی اچھا سلوک کرے، البتہ اس کے شر سے بچتا رہے۔
محمد بن حنفیہ نے کہا:” وہ آدمی عقل مند نہیں جو ایسے آدمی سے بھلا سلوک نہ کرے جس کے ساتھ رہنا لازمی ہو ، یہاں تک کہ الله تعالیٰ اس کے لیے کوئی کشادگی پیدا کردے۔“
اور یہ بھی ہے کہ امیروں کے ساتھ رہنے سے پرہیز کرے۔ زیادہ تر مسکینوں کے ساتھ رہے اور یتیموں سے اچھا سلوک کرے۔ جو بیمار ہوں اُن کی بیمار پُرسی کرے۔ بیمار پُرسی کے آداب یہ ہیں کہ اپنا ہاتھ مریض پر رکھے اور اس سے پوچھے تمہارا کیا حال ہے ؟ تھوڑی دیر اس کے پاس بیٹھے ۔ نرمی کا اظہار کرے۔ اس کے لیے تندرستی کی دعا کرے اور مکان میں پڑی ہوئی چیزوں کونہ دیکھے ، نگاہ نیچی رکھے۔
او رمریض کے لیے مستحب ہے کہ دعا اور الله کے کلام سے فائدہ اٹھائے ۔ حضرت عثمان بن ابوالعاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی کہ جب سے مسلمان ہوا ہوں جسم میں درد کی تکلیف ہے، تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جہاں تیرے جسم میں درد ہے وہاں ہاتھ رکھ اور بسم الله تین مرتبہ اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھ ”اعوذبعزة الله وقدرتہ من شرما اجد واحاذر“( ہر اُس چیز کی برائی سے جسے میں پاتا ہوں اور جس کا مجھے خوف ہے الله تعالیٰ کی عزت اور قدرت کی پناہ لیتا ہوں)۔
مریض کے لیے ضروری ہے کہ اچھی طرح صبر کرے۔ خدا کا شکوہ شکایت نہ کرے، دعا خشوع سے کرے اور الله تعالیٰ پر بھروسا رکھے۔
اور یہ بھی ہے کہ مسلمان کے جنازہ کے ساتھ جائے اور قبروں کی زیارت کرے۔ جنازے کے ساتھ جانے کا مقصد مسلمانوں کا حق پورا کرنا اورعبرت حاصل کرنے ہے۔ حضرت اعمش نے کہا: ” ہم جنازہ میں حاضر ہوتے تو ہمیں معلوم نہ ہوتاکہ کس سے تعزیت کریں، کیوں کہ سب ہی لوگ سوگوار ہوتے۔“ اور قبروں کی زیارت کا مقصد دعا ، عبرت اور دل کا نرم کرنا ہے۔
جنازے کے ساتھ جانے کے آداب یہ ہیں کہ پیدل چلے، پُر خشوع ہو ، خاموش رہے، میت کو دیکھتا جائے۔ موت کے متعلق سوچے او راس کی تیاری کرے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ ہمسائیگی اخوت اسلامی کا تقاضا پورا کرنے کے علاوہ اور حقوق کا بھی مطالبہ کرتی ہے یعنی ہمسایہ، اسلام کے سارے حقوق کے علاوہ اور بھی کچھ حق رکھتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ہمسائے تین ہیں ۔ ایک جس کا ایک حق ہے او رایک وہ جس کے دو حق ہیں اور ایک وہ جس کے تین حق ہیں۔ جس کے تین حق ہیں وہ مسلمان قرابت دار ہمسایہ ہے۔ اُس کے لیے ایک حق ہمسائیگی کا ہے۔ ایک اسلام کا اور ایک حق قرابت کا ۔اور وہ جس کے دو حق ہیں یہ مسلمان ہمسایہ ہے جس کا ایک حق اسلام کا ہے او رایک ہمسائیگی کا اور جس کا صرف ایک حق ہے وہ مشرک ہمسایہ ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ ہمسائے کا حق صرف یہی نہیں کہ اس کو تکلیف نہ دی جائے ، بلکہ اس کی طرف سے دی گئی ایذا کو برداشت کرنا، اُس سے نرمی کرنا، بھلائی میں ابتدا کرنا اور پہلے سلام کرنا بھی ہے ۔ ہاں اس سے طویل گفتگو نہ کرے، بیماری میں اس کی عیادت کرے۔ مصیبت میں اُس کو صبر کی تلقین اورخوشی میں اس کو مبارک باد کہے۔ نیز اس کی لغزش سے درگزر کرے۔ اُس کے گھر میں نہ جھانکے۔ اپنی دیوار پر اس کو شہتیر رکھنے سے نہ روکے ۔ اپنے پر نالے میں اس کا پانی بہنے سے ناراض نہ ہو اور کبھی صحن میں مٹی یاکوڑا گر جائے تو ناراض نہ ہو اور جو چیز وہ گھر میں لے جائے اُس کو دیکھتا نہ رہے۔ اس کی کوئی بُری بات معلوم ہو تو اس پر پردہ ڈال دے اور اس کی گفتگو سننے کی کوشش نہ کرے۔ اس کی بیوی کو نہ دیکھے۔ او رجب ہمسایہ کہیں جائے تو اس کے گھر والوں کی ضروریات کا خیال رکھے۔ اقارب اور رحم کے حقوق کے متعلق صحیح حدیث میں تاکید آئی ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” رحم عرش سے چمٹا ہوا ہے او رکہتا ہے کہ جو مجھ سے تعلق جوڑے گا الله اس سے تعلق جوڑے گا اور جو مجھ سے تعلق منقطع کرے گا اور الله اُس سے تعلق منقطع کرے گا۔“
صحیح بخاری کے افراد میں ایک اور حدیث ہے ”بدلہ دینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں۔ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی قرابت کا خیال نہ رکھا جائے تو بھی صلہ رحمی کرے۔“
مسلم کے افراد میں ایک اور حدیث ہے کہ ایک آدمی نے کہا : ” اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم، میرے قرابت دار ہیں۔ میں اُن سے جُڑتا ہوں ، لیکن وہ کٹے رہتے ہیں۔ میں اُن سے اچھا سلوک کرتا ہوں، لیکن وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں ۔ میں ان کی بات پر صبر کرتا ہوں، لیکن وہ مجھ سے جہالت سے پیش آتے ہیں ، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” اگر ایسا ہے جیسا تو کہتا ہے تو گویا تو ان کے منھ پر راکھ چھڑکتا ہے او رجب تک تو ایسا ہی سلوک کرتا رہے گا تیرے لیے الله کی طرف سے ان کے مقابلہ میں ایک مدد گار ہو گا۔“ مطلب یہ کہ تو ان پر غالب رہے گا اور قرابت کے حقوق پورے کرنے پر ان کی حجت ختم ہو جائے گی جیسے کہ اُس آدمی کی گفتگو ختم ہو جاتی ہے جس کے منھ پر گرم راکھ چھڑک دی جائے۔

Flag Counter