Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

3 - 16
***
ڈاڑھی کا وجوب
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا 
بسم الله الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
اس سال یعنی1395ھ میں سفر ہند کے موقع پر ایک نئی بات پیش آئی، اس ناکارہ کی روانگی جدہ سے ہندوستان کے لیے 6 اگست1975ء مطابق28 رجب1395ھ چہار شنبہ کو ہوئی اور اسی روز بمبئی پہنچنا ہوا۔ خیال بمبئی میں دو تین روز قیام کا تھا۔ مگر بمبئی جاکر معلوم ہوا کہ مولانا انعام الحسن صاحب کو مالیر کوٹلہ کا تبلیغی سفر درپیش ہے۔ انہوں نے بمبئی کے احباب کو لکھ رکھا تھا کہ بمبئی میں زکریا کا قیام زیادہ نہ کرایا جائے۔
اس لیے یہ ناکارہ ایک دن بمبئی ٹھہر کر جمعہ کو بمبئی سے دہلی روانہ ہو گیا اور ایک شب قیام کے بعد مولانا انعام الحسن صاحب مالیر کوٹلہ کے لیے اور یہناکارہ سہانپور کے لیے روانہ ہو گیا، سہارنپور سے امسال واپسی بجائے طیارہ کے بارڈر کے راستے ہوئی اور 2 ذیقعدہ جمعہ کے دن صبح کو پاکستانی بارڈر پر پہنچنا ہوا۔ پاکستان کا تبلیغی اجتماع، جو شنبہ (ہفتہ) سے شروع ہو رہا تھا، سہ روزہ تھا، پاکستان میں چند مواقع پر ٹھہرنے کے بعد21 نومبر16 ذیقعدہ کو مکہ مکرمہ واپس پہنچا ،وہ نئی بات سہارنپور کے زمانہ قیام میں اس مرتبہ خلاف معمول ڈاڑھی کے مسئلہ پر مجھے بہت ہی اشتعال رہا۔ مجھے خود بھی خیال آتا رہا اور دوستوں نے بھی کہا کہ اس شدت کی نکیر تو میرے مزاج میں پہلے نہیں تھی، ہر موقع پر مقطوع اللحیہ کو دیکھ کر طبیعت میں جوش پیدا ہوتا تھا اور ہر مجمع میں اس پر نکیر کرتا۔ بیعت میں بھی قطع لحیہ (ڈاڑھی) سے بچنے کی تاکید کرتا تھا۔ اس شدت کی کوئی خاص وجہ تو میرے ذہن میں نہیں آئی۔ بجز اس کے کہ یہ مرض بہت بڑھتا جارہا ہے اور موجودہ دور میں اس پر نکیر بالکل متروک ہو گئی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی نورالله مرقدہ کے آخر ی تین چار سال بھی اس پر بہت ہی شدت نکیر کے گزرے۔ مجھے ایسے لوگوں کو دیکھ کر، جو حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی صورت کے خلاف اپنی صورت بناتے اورڈاڑھی منڈاتے ہیں، یہ خیال ہوتا تھا کہ موت کا مقرر وقت کسی کو معلوم نہیں اور اس حالت میں اگر موت واقع ہوئی تو قبر میں سب سے پہلے سید الرسل صلی الله علیہ وسلم کے چہرہٴ انور کی زیارت ہو گی تو کس منھ سے چہرہٴ انور صلی الله علیہ وسلم کا سامنا کریں گے؟
اس کے ساتھ ہی بار بار یہ خیال آتا تھا کہ گناہ کبیرہ زنا ، لواطت، شراب نوشی، سودخوری وغیرہ تو بہت سے ہیں ۔ مگر وہ سب وقتی ہیں کہ ہر وقت ان کا ظہور اور صدور نہیں ہوتا ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
”لایزنی الزانی حین یزنی وھو مؤمن․“ (الحدیث) یعنی زنا کار جب زنا کرتا ہے تو وہ اس وقت مؤمن نہیں ہوتا۔ مطلب اس حدیث کا مشائخ نے یہ لکھا ہے کہ زنا کے وقت ایمان کا نور اس سے جدا ہو جاتا ہے ۔ لیکن زنا کے بعد وہ نورا یمانی پھر مسلمان کے پاس آجاتا ہے۔ مگر قطع لحیہ ایسا گناہ ہے جس کا اثر اور ظہور ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے، نماز پڑھتا ہے تو بھی یہ گناہ ساتھ ہے ۔ روزے کی حالت میں ، حج کی حالت میں ، غرض ہر فرض، ہر عبادت کے وقت یہ گناہ اس کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ اس وقت بار بار یہ خیال آیا کہ ایک رسالہ ڈاڑھی کے متعلق مختصر سا لکھوں۔
مگر ہندوستان کے قیام میں اس کا بالکل وقت نہ ملا۔ ہندوستان سے واپسی پر وہ جوش تو اگرچہ باقی نہیں رہا۔ مگر رسالہ لکھنے کا خیال بدستور دامن گیر ہے۔ اس لیے آج 29 ذی الحجہ1395ھ یوم چہار شنبہ بوقت ظہر مسجد نبوی میں اس کی بسم الله تو کرا دی اور الله تعالیٰ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، کیوں کہ اس وقت حجاج کرام کی رخصت اور ملاقات کی وجہ سے احباب کا ہجوم رہتا ہے ۔ والله الموفق لما یحب ویرضی․
اس رسالہ میں دو فصلیں لکھوانے کا خیال ہے ۔ فصل اوّل میں حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات اور حضرات صحابہ کے آثار مذکور ہیں۔ اور دوسری فصل میں مشائخ اور علماء کے اقوال نقل کیے گئے ہیں۔
فصل اوّل
عن عائشة رضی الله تعالی عنہا قالت: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: عشر من الفطرة: قص الشارب، واعفاء اللحیة، الحدیث، رواہ ابوداود، وعزاہ فی رسالة حکم اللحیة فی الاسلام للشیخ محمد الحامد الشامی الی مسلم واحمد والترمذی وابن ماجة․
حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں سے ہیں ۔ جن میں مونچھوں کا کٹوانا اور ڈاڑھی کا بڑھانا ذکر فرمایا ہے۔
فائدہ: بذل المجہود میں لکھا ہے کہ فطرت کے معنی سنن انبیاء ہیں، یعنی یہ دس چیزیں جن میں مونچھوں کا کٹوانا اور ڈاڑھی کا بڑھانا بھی ہے جملہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی سنتوں سے ہیں، جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ( یہ اشارہ ہے قرآن پاک کی آیة شریفہ ﴿اولئک الذین ھدی الله فبھداھم اقتدہ﴾ کی طرف) یہ آیت شریفہ ساتویں پارہ کی ہے۔
جس میں اوپر سے انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے اسمائے گرامی ذکرکرنے کے بعد الله تعالیٰ نے حضو راقدس صلی الله تعالی علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرمایا ہے کہ یہ حضرات ایسے تھے جن کو الله تعالیٰ نے ہدایت کی تھی، سو آپ بھی ان ہی کے طریقہ پر چلیے۔ (بیان القرآن)
بذل میں میں لکھا ہے کہ فطرت کے یہ معنی اکثر علماء سے نقل کیے گئے ہیں اور بعض نے فطرت کے معنی سنت ابراہیمی بیان کیے ہیں۔ یعنی حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام کی سنت ۔اور بعض علماء نے فطرت کے معنی یہ کیے ہیں کہ طبائع سلیمہ ان کو طبعاً قبول کرتی ہیں۔ یعنی جو طبیعتیں ٹیڑھی نہ ہوں ان کو یہ سب چیزیں پسند ہیں۔ او رمراد فطرت سے دین ہے جس کی طرف قرآن پاک کی دوسری آیت ﴿فطرة الله التی فطر الناس علیھا﴾ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ یعنی الله تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کو الله تعالیٰ نے سب سے اول انسان کے لیے پسند فرمایا ہے۔ اور یہ دس چیزیں بھی دین کے توابع میں سے ہیں۔
بذل کے اس قول میں جس آیة کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ قرآن پاک کی دوسری آیت ہے، جو اکسیویں پارہ میں ہے۔
﴿فطرة الله التی فطر الناس علیھا لاتبدیل لخلق الله ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون﴾․
ترجمہ: الله تعالیٰ کی دی ہوئی قابلیت کااتباع کرو جس پر الله تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔الله تعالیٰ کی اس پیدا کی ہوئی چیز کو، جس پر اس نے تمام آدمیوں کو پیدا کیا ہے، بدلنا نہ چاہیے۔ پس سیدھا دین یہی ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (بیان القرآن)
شیطان مردود نے جب وہ راندہٴ درگاہ ہوا تھا تو کہا تھا۔
﴿ولاضلنھم ولامنینھم ولآمرنھم فلیبتکن اذان الانعام ولامرنھم فلیغیرن خلق الله ومن یتخذ الشیطان ولیا من دون الله فقد خسر خسرانا مبینا﴾․
جس کا ترجمہ یہ ہے: ”اور میں ان کو گمراہ کروں گا او ران کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا ۔ جس سے چار پاؤں کے کانوں کو تراشا کریں گے اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ الله تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنا دے گا وہ صریح نقصان میں واقع ہو گا۔“( بیان القرآن)
حضرت تھانوی نور الله مرقدہ نے فوائد میں تحریر فرمایا ہے کہ ﴿ولآمرنھم فلیغیرن خلق الله﴾ میں ڈاڑھی منڈانا بھی داخل ہے۔ اور بھی متعدد روایات میں ڈاڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم ہے۔ رسالہ حکم اللحیہ فی الاسلام میں صحیح ابن حبان کے حوالہ سے بہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ ، حضور اقدس صلی الله تعالی علیہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا ہے، جو درج ذیل ہے۔
قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من فطرة الاسلام: اخذ الشارب واعفاء اللحی؛ فان المجوس تعفی شواربھا، وتحفی لحاھا، فخالفوھم،خذوا شواربکم واعفوالحاکم․
ترجمہ: حضو راقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اسلام کی فطرت سے مونچھوں کا لینا( کٹوانا) ہے اور ڈاڑھی کا بڑھانا ہے۔ اس لیے کہ مجوس لوگ اپنی مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور ڈاڑھی کو کٹواتے ہیں ۔ لہٰذا ان کی مخالفت کرو ، مونچھوں کو کٹوایا کرو اور ڈاڑھی کو بڑھایا کرو۔“
فائدہ: اس حدیث پاک میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے ڈاڑھی رکھنے کو اسلام کی فطرت ( خصلت ومقتضی) قرار دیا ہے اور ڈاڑھی کٹانے کو مجوس کا شعار فرمایا ہے ۔نیز” من تشبہ بقوم فھو منھم“ مشہور حدیث ہے۔ یعنی جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان ہی میں شمار ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے حدیث بالا میں مخالفت مجوس کا حکم دیا ہے۔
پس اس سے صاف معلوم ہو گیا کہ ڈاڑھی رکھنا ایک شرعی حکم ہے۔ او راس میں تمام انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کی موافقت ہے، جیسا کہ حدیث نمبر ایک میں گزرا ہے، لہٰذا جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عرب میں چوں کہ ڈاڑھی رکھنے کا دستور تھا، اس لیے آپ نے عادت کے طور پر اس کا حکم فرمایا ہے ، یہ خیال بالکل غلط اور بے اصل ہے، حق تعالیٰ شانہ اپنے فضل وکرم سے ہم سب کو اپنے حبیب پاک علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات پر عمل اور وعیدات سے بچنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔
حضرت ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہما سے بھی حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ مشرکین کی مخالفت کرو۔ ڈاڑھیوں کو بڑھایا کرو اور مونچھوں کے کٹوانے میں مبالغہ کرو۔ اور بھی متعدد احادیث میں یہ مضمون کثرت سے نقل کیا گیا ہے کہ مشرکین کی مخالفت کرو، ڈاڑھی کو بڑھایا کرو او رمونچھوں کے کٹوانے میں مبالغہ کیا کرو۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے حضو راقدس صلی الله علیہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ ڈاڑھی بڑھاؤ، مونچھوں کو کٹواؤ اور اس میں یہود اور نصاری کی مشابہت اختیار نہ کرو۔
افسوس ہے کہ ہمارے اس زمانے میں نصاری ہی کی اتباع اور ان کی مشابہت اختیار کرنے کے لیے حضور پاک صلی الله علیہ وسلم او رجملہ انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کی اس مبارک سنت کو ختم کیا جارہا ہے، اس ناکارہ کو خوب یاد ہے کہ میرے بچپن میں ہندوؤں میں بھی جو بڑے لوگ ہوتے تھے وہ ڈاڑھی رکھا کرتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت نقل کی ہے کہ ایک مجو سی حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جس نے ڈاڑھی منڈا رکھی تھی اور مونچھیں بڑھا رکھی تھی تو حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ یہ کیا بنا رکھا ہے؟ اس نے کہا یہ ہمارا دین ہے ۔ حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہمارے دین میں یہ ہے کہ مونچھوں کو کٹوا دیں اور ڈاڑھی کو بڑھائیں۔ ( حکم اللحیہ فی الاسلام) ابن عساکر وغیرہ نے حضرت حسن سے مرسلاً حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا ہے کہ دس خصلتیں ایسی ہیں جو قوم لوط میں تھیں جن کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے۔ ان دس چیزوں میں ڈاڑھی کا کٹوانا اور مونچھوں کا بڑھانا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ حارث بن ابی اسامہ نے یحییٰ بن کثیر سے مرسلاً نقل کیا ہے کہ ایک عجمی (کافر) مسجد میں آیا۔ جس نے ڈاڑھی منڈا رکھی تھی اور مونچھیں بڑھا رکھی تھیں۔ حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا کرنے پر تجھے کس چیز نے ابھارا؟ تو اس نے کہا کہ میرے رب ( بادشاہ) نے یہ حکم دیا ہے۔
حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے الله تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ ڈاڑھی کو بڑھاؤں اور مونچھوں کو کٹواؤں ۔ ایک دوسری روایت میں زید بن حبیب سے نقل کیا ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ڈاڑھی منڈائے ہوئے دو شخصوں کی طرف جو شاہ کسری کی طرف سے قاصد بن کر آئے تھے ان کی طرف نگاہ فرمانا بھی گوارا نہ فرمایا۔ اور فرمایا کہ تمہیں ہلاکت ہو ، یہ حلیہ بنانے کو کس نے کہا ۔ انہوں نے کہا ہمارے رب نے (شاہ کسریٰ نے) حکم دیا ہے تو حضور اکرم صلی الله تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لیکن مجھے میرے رب نے ڈاڑھی کے بڑھانے اور مونچھوں کے کٹوانے کا حکم دیا ہے۔ (حکم اللحیہ) یہ قصہ آگے مفصل آرہا ہے مرنے کے بعد قبر میں سب سے پہلے سید الکونین صلی الله تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہو گی، کس قدرحسرت اور مایوسی کا وقت ہو گا اگر خدا نخواستہ اس ذاتِ اقدس نے جس سے سفارشوں کی اُمیدیں ہیں پہلے ہی وہلہ میں ایسے خلافِ سنت چہرے اور صورت کو دیکھ کر منھ پھیر لیا؟
عن زید بن ارقم رضی الله تعالی عنہ عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ”من لم یأخذ شاربہ فلیس منا․“ اخرجہ احمد والترمذی والنسائی الضیاء․ (حکم اللحیة فی الاسلام)
ترجمہ:۔ زید بن ارقم حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص مونچھیں نہ کٹوائے وہ ہم سے نہیں ہے۔
فائدہ: کس قدر سخت وعید ہے! لمبی لمبی مونچھوں والے اپنے آپ کو شریف سمجھیں اور سرکاری کاغذات میں اپنے کو مسلمان بھی لکھوا دیں، مگر سید الکونین صلی الله علیہ وسلم ان لوگوں کو اپنی جماعت میں شمار کرنے سے انکار فرما رہے ہیں ۔ حضرت واثلہ رضی الله تعالیٰ عنہ سے بھی حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کا رشاد نقل کیا گیا ہے کہ جو اپنی مونچھوں کو نہ کاٹے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
طبع سلیم بھی مونچھوں کے بڑھانے سے کراہت کرتی ہے ، پانی ، چائے وغیرہ پینے کی جتنی بھی چیزیں منھ میں جائیں گی وہ مونچھوں کے دھووَن کے ساتھ جائیں گی۔ اگر کوئی شخص مونچھوں کو دھو کر پیالی میں رکھ لے او راس کو پی لے تو کس قدر گھن آوے گی۔ لیکن پانی اور ہر پینے کی چیز کا ہر گھونٹ اس دھووَن کے ساتھ اندر جارہا ہے، مگر ذرا بھی گھن نہیں آتی۔
امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب الزہد میں عقیل بن مدرک سلمی سے نقل کیا ہے کہ الله جل شانہ نے بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ایک نبی کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی قوم سے کہہ دو کہ وہ میرے دشمنوں کا کھانا ( یعنی جوان کے ساتھ مخصوص ہو جیسے نصاری کا کھانا سور) نہ کھاویں۔ اور میرے دشمنوں کاپانی نہ پئیں ( جیسے شراب) او رمیرے دشمنوں کی شکل نہ بنائیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ بھی میرے دشمن ہوں گے، جیساکہ وہ لوگ حقیقی میرے دشمن ہیں۔ (دلائل الاثر)
پہلے کئی روایتوں میں گزر چکا کہ ڈاڑھی کا منڈانا اعاجم کا یعنی مشرکین کا شعار ہے ،جس کی مخالفت کا حکم کئی حدیثوں میں گزر چکا ہے۔ یہاں ایک امر نہایت اہم اور قابل تنبیہ یہ ہے کہ بہت سے حضرات ایسے ہیں کہ جو ڈاڑھی منڈانے کو تو معیوب سمجھتے ہیں اور اس ے بچتے بھی ہیں ۔ لیکن ڈاڑھی کے کم کرنے او رکتروانے کو معیوب نہیں سمجھتے، حالاں کہ شریعت مطہرہ میں جس طرح ڈاڑھی رکھنے کا حکم ہے۔ اسی طرح اس کی ایک مقدار بھی متعین ہے۔
چناں چہ اس سے کم کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے اور وہ مقدار ایک قبضہ (مٹھی) ہے، اس سے کم رکھنا بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک ناجائز اور حرام ہے، گو اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ اگر ایک قبضہ پر بڑھ جائے تو اس کو کم کرنا چاہیے یا نہیں؟
حضرت مدنی نورالله مرقدہ اپنے رسالہ” ڈاڑھی کے فلسفہ“ میں، جو ایک صاحب کے خط کے جواب میں لکھا گیا تھا، تحریر فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم ڈاڑھی کے طول اور عرض سے کتراکرتے تھے، اس لیے اس کی حد معلوم کرنی ضروری سمجھی گئی ۔ چوں کہ صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اقوال وافعال کا مشاہدہ کرنے والے ہیں،اس لیے ان کے عمل کو اس بارے میں امام بخار ی نے ترازوبنایا ہے اور حضرت عبدالله بن عمر  جو کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بڑے فدائی ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی میں نہایت زیادہ پیش پیش رہنے والے ہیں ۔ ان کے عمل کو بطور معیار پیش کیا ہے ۔ چناں چہ امام بخاری صحیح بخاری میں فرماتے ہیں۔
”کان ابن عمر رضی الله تعالی عنہما اذا حج او اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل اخذہ“․
ترجمہ: ”حضرت ابن عمر جب حج یاعمر کرتے تھے تو اپنی ڈاڑھی کو مٹھی میں لے کر ایک مشت سے زائد کو کتروادیتے تھے۔“
جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا عرض وطول میں ڈاڑھی کا کترنا اس مقدار اور کیفیت سے ہوتا تھا ۔ علاوہ ابن عمر حضرت عمر اور حضرت ابوہریرہ بھی ایسا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر شرح بخاری میں طبری سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کہتی ہے کہ ڈاڑھی جب ایک مشت سے زائد ہو جائے تو زائد کو کتر دیا جائے۔
پھر طبری نے اپنی سند سے حضرت ابن عمر او رحضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اور حضرت عمر  سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ اسی عمل اور طریق کو فقہا ئے حنفیہ وشافعیہ وغیرہ نے کتب فقہ وغیرہ میں ذکر کیا ہے ۔ا سی طرح ابوداؤد شریف میں ہے۔
”عن جابر قال: کنا نعفی السبال الا فی حجة او عمرة․“ (ابوداؤد)ترجمہ: ” ہم لوگ ڈاڑھی کے اگلے اور لٹکنے والے حصہ کو بڑھا ہوا رکھتے تھے، مگر حج او رعمرہ سے فارغ ہو کر کتروا دیا کرتے تھے۔“
جس کی توضیح حضرت ابن عمر کے عمل سے معلوم ہو گئی ہے، جوبخاری شریف سے ابھی اوپر مذکور ہوا۔ (جاری ہے)

Flag Counter