Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

16 - 16
***
مطالعہ ۔۔ کیوں، کیا، کیسے؟
مولوی فاروق اعظم عاجز قاسمی
ایک شہسوار قلم کے لیے مطالعہ اتنا ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقا کے لیے دانا اور پانی کی ضرورت ہے ، مطالعہ کے بغیر قلم کے میدان میں ایک قدم بھی بڑھانا بہت مشکل ہے ، علم انسان کا امتیاز ہی نہیں ،بلکہ اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے ، جس کی تکمیل کا واحد ذریعہ یہی مطالعہ ہے، ایک پڑھے لکھے شخص کے لیے معاشرے کی تعمیر ترقی کا فریضہ بھی اہم ہے، اس لیے مطالعہ ہماری سماجی ضرورت بھی ہے۔ اگر انسان اپنے اسکول ومدرسہ کی تعلیم مکمل کرکے اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ جائے تو اس کے فکر ونظر کا دائرہ بالکل تنگ ہو کر رہ جائے گا۔ مطالعہ استعداد کی کنجی اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہے۔ یہ مطالعہ کا کرشمہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اپنی معلومات میں وسعت پیدا کرتا رہتا ہے اور زاویہ فکر ونظر کو وسیع سے وسیع تر کرتا رہتا ہے۔
مطالعہ ایک ایسا دور بین ہے جس کے ذریعے انسان دنیا کے گوشہ گوشہ کو دیکھتا رہتا ہے ، مطالعہ ایک طیارے کی مانند ہے جس پر سوار ہو کر ایک مطالعہ کرنے والا دنیا کے چپے چپے کی سیر کرتا رہتا ہے او روہاں کی تعلیمی ، تہذیبی، سیاسی اور اقتصادی احوال سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ شورش نے کہا:” کسی مقرر کا بلا مطالعہ تقریر کرنا ایسا ہی ہے جیسا بہار کے بغیر بسنت منانا، یا لو میں پتنگ اڑانا۔ یہ تو ایک مقرر کے سلسلے میں بات تھی، لیکن ٹھیک یہی صورت ایک قلم کار کی بھی ہے، مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب فرماتے ہیں: ” آج لوگ لکھنے والے زیادہ اور پڑھنے والے کم ہو گئے، جس کے نتیجے میں تحریر کی اثر آفرینی ختم ہو گئی ہے، اس لیے تحریر کو موثر بنانے کے لیے ضرورت ہے کہ ایک ایک صفحہ کو لکھنے کے لیے سو صفحات کا مطالعہ ہو۔“ پروفیسر عبدالمغنی کہتے ہیں:”مطالعہ کی غرض علم کا حصول اور راہ عمل کی تلاش ہے۔“
شیشی کے اندر اگر مشک ہو تو کھولنے کے بعد خوشبو ضرور پھیلتی ہے، اسی طرح جب ایک قلم کار کا مطالعہ وسیع او رگہرا ہوتا ہے تو اس کی تحریر میں قوت اور اثر ہوتا ہے، ورنہ تحریر کمزور ، پھسپھسی اور بے جان ہوتی ہے۔
عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے : ” زمانے کا بہترین دوست کتاب ہے۔ “ اسی کو شورش مرحوم نے اس طرح کہاہے:” کتاب سا مخلص دوست کوئی نہیں۔“ اسی طرح ایک مفکر کہتاہے : ” کتابوں کا مطالعہ انسان کی شخصیت کو ارتقا کی بلند منزلوں تک پہنچانے کا اہم ذریعہ ، حصول علم ومعلومات کا وسیلہ اور علمی تجرباتی سرمایہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے اور ذہن وفکر کو روشنی فراہم کرنے کا معروف ذریعہ ہے۔“
کتابوں سے جہاں معلومات میں اضافہ اور راہ عمل کی جستجو ہوتی ہے وہیں اس کا مطالعہ ذوق میں بالیدگی، طبیعت میں نشاط ، نگاہوں میں تیزی اور ذہن ودماغ کو تازگی بھی بخشتا ہے۔
مطالعہ کن کتابوں کا ہو؟
مطالعہ ایسی کتابوں کا ہو جو نگاہوں کو بلند،سخن کو دل نواز اور جاں کو پرسوز بنادے، اگر مطالعہ فکر کی سلامت روی، علم میں گیرائی اور عزائم میں پختگی کے ساتھ ساتھ فرحت بخش او ربہار آفریں بھی ہو تو اسے صحیح معنوں میں مطالعہ کہا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کا دور انتہائی ترقی پذیر او رمسابقہ کا دور ہے ، ذرائع ابلاغ وترسیل کی بہتات ہے او رسہولیات کی بھی کمی نہیں ہے، ایسے ہی طرح طرح کے اخبارات ورسائل او رکتابوں کی بھی فراوانیاں ہیں۔ اب ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کتابوں کی اس ریل پیل او رجنگل میں کن کا مطالعہ کیا جائے اور کن کو چھوڑا جائے ؟ اس کا سیدھا سا جواب یہی ہے کہ یہ ممکن نہیں، اس لیے کہ نہ ہر کتاب قابل مطالعہ ہے اور نہ ہی تمام کتابوں کے مطالعہ کرنے کی انسانی زندگی میں گنجائش ۔ اس لیے انتہائی چھان پھٹک کر کتابوں کا انتخاب ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی انتہائی ضروری ہے کہ کتاب ایمان سوز اور اخلاق سو زنہ ہو، اس لیے کہ مطالعہ ہی کے غلط رخ نے عبدالماجد کو ارتداد کے گڑھے میں دکھیل دیا تھا، لیکن بعد میں اسی شخص کے مطالعہ کی سمت جب درست ہوئی تو عبدالماجد مولانا عبدالماجد ہو گئے اور مفسر قرآن اس شخص کے نام کا جزولاینفک بن گیا، صحت مند مواد او رمستند مصنفین کی کتابوں کے مطالعہ ہی کا کرشمہ کہنا چاہیے کہ امام انقلاب مولانا عبیدالله سندھی (نومسلم) دس بارہ سال ہی کی عمر میں اسلام کی طرف مائل ہو گئے تھے ۔ اس لیے معتبر ومستند مصنفین ہی کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ کتابوں کے انتخاب کے سلسلے میں مولانا یعقوب کے حوالہ سے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی شاہ ولی الله کا ایک مقولہ نقل کرتے ہیں : ” جب کسی کتاب کے مطالعہ کا ارادہ کر و تو پہلے اس کے نام کو دیکھو، اگر نام ہی اصل مضمون کے مناسب نہ ہو تو اس کو چھوڑ دو ، پھر تمہید کو دیکھو، اگر وہ کتاب کے مضمون کے مناسب نہیں ہے تو چھوڑ دو ، اس کے مطالعہ میں وقت ضائع نہ کرو، جب نام او رتمہید میں مناسبت دیکھ لو تب آگے بڑھو۔“
اس سلسلے میں ایسے اساتذ ہ کی رہنمائی بھی بڑی کار آمد ہوتی ہے جن پر مطالعہ کرنے والے کو مکمل اعتماد ہو ، رہنما ایسا ہونا چاہیے جو بذات خود ہر اعتبار سے ایک پیاسے کی تشنہ لبی کو دور کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو ۔ مفکر اسلام ممتاز عالم دین مولانا علی میاں ندوی فرماتے ہیں : ” مطالعہ کووسیع کیجیے اور اس کے لیے اساتدہ سے ، خاص طور پر مربی اصلاح سے اور ان اساتذہ سے جن سے آپ کا رابطہ ہے ، ان سے مشورہ لیجیے۔“ اسی طرح اس پگڈنڈی پر انتہائی سبک روی سے چلنے کی ضرورت ہے ۔ مولانا ندوی مزید فرماتے ہیں : ”یہ ایک پل صراط ہے، اس پر سبک روی اور بہت احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے ۔“ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر جیسے عظیم شخص کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے توریت جیسی عظیم المرتبت آسمانی کتاب کے مطالعہ سے منع فرما دیا تھا۔
مطالعہ کے بنیادی مواد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر یسٰین صدیقی ندوی کہتے ہیں:” مطالعہ میں ہدایت نبوی کے مطابق سب سے اچھی چیزیں لے لیں اور بری چیزیں چھوڑ دیں ، اس میں انصاف سے کام لیں کہ یہی خیر کا دروازہ ہے۔“ ایسے ہی انسانی زندگی کے محدود ہونے کی وجہ سے تمام موضوعات کا احاطہ مشکل ہے ، البتہ ہر موضوع سے کچھ نہ کچھ واقفیت ضروری ہے ۔ چناں چہ نعیم صدیقی صاحب رقم طراز ہیں:” بنیادی طور پر قرآن وحدیث اور ان سے متعلق علوم پر جس حد تک ممکن ہو نگاہ ہونی چاہیے… پھر حضو رنبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کے سیر پر نظر ہونی چاہیے … ضروری ہے مطالعہ کا سفر کرنے والا ہر شخص کم از کم اپنے ملک اور اپنی قوم ، بلکہ اپنی تہذیب کے ادبیات سے واقف ہو۔“ جس طرح کتابوں کے انتخاب کا مرحلہ بڑا نازک ہے اسی طرح مطالعہ میں ترتیب کی رعایت بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے، اس لیے مطالعہ کے معیار کو بتدریج بڑھایا جائے، ایسا نہ ہو کہ نورانی قاعدہ پڑھا نہیں اور قرآن شریف ہی پڑھنا شروع کر دیا۔
طریقہ کار
مطالعہ ایک خوب صورت گلشن کی مانند ہے، اس میں خوشبو بھی ہے ، دل آویزی بھی ہے اور خاردار شاخیں بھی ہیں۔ ایک طر ف جہاں مطالعہ کی اہمیت مسلم او رافادیت قابل ذکر ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کے مواد میں انتہائی چاق وچوبندی ناگزیر ہے۔ اسی طرح اس کے طریقہ کار سے بھی واقفیت بہت ہی ضرور ی ہے اس لیے کہ کسی بھی کام کو اگر اس کے اصول وضابطہ سے کیا جائے تو وہ کار آمد ثابت ہوتا ہے،ورنہ نفع تو درکنار نقصان ضرور ہاتھ آتا ہے۔ فرض کیجیے ! آپ کے پاس وقت بھی ہے ، کتابیں بھی اچھی ہیں، لیکن ذہن پریشان ، آنکھوں میں درد اور روشنی بھی مد ہم تو آپ مطالعہ نہیں کرسکتے، اگر اسی صورت حال میں مطالعہ کی کوشش کریں گے تو صحت پر اس کابہت برا اثر پڑے گا۔ اس لیے صحت کاخیال بھی بہت ضروری ہے ، بطور خاص آنکھوں کا خیال۔
یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ اس خیال سے مطالعہ کوہر گز ترک نہیں کرنا چاہیے کہ یا دنہیں رہتا،بلکہ مطالعہ ضرو رکرے، کہیں نہ کہیں اس کا فائدہ ضرور ظاہر ہوتا ہے، اس لیے کہ مہندی میں سرخی پتھر پر بار بار گھسنے کے بعد ہی آتی ہے۔ مولانا عبدالسلام خاں لکھتے ہیں : ” مطالعہ جتنا زیادہ ہو گا اتنا ہی جلد محفوظ ہو گا او رتیز ہو گا ، اس لیے کتب بینی کوسست روی یا یادنہ رہنے کی وجہ سے ترک نہ کرنا چاہیے۔“
حاصل مطالعہ
مطالعہ کے ساتھ ساتھ حاصل مطالعہ کو ذہن نشین کرنے کی تدبیر بھی ضروری ہے۔ علم ومعلومات کی مثال ایک شکار کی سی ہے۔ لہٰذا اسے فوراًقابو میں کرنا چاہیے ۔ امام شافعی فرماتے ہیں : ” علم ایک شکار کی مانند ہے، کتابت کے ذریعے اسے قید کر لو“۔ اس لیے مطالعہ کے دوران قلم کاپی لے کر خاص خاص باتوں کو نوٹ کرنے کااہتمام کرنا چاہیے، ورنہ بعد میں ایک چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور وہ نہیں ملتی ہے ۔ اب یا تو سرے سے بات ہی ذہن سے نکل جاتی ہے یا یادتو رہتی ہے لیکن حوالہ دماغ سے غائب ہو جاتا ہے ، ڈاکٹر صمت جاوید کا کہنا ہے کہ : ” یاد رکھنے کے قابل بات پر دوران مطالعہ اہم مقامات پر نشان لگانے اور کتاب کی پشت پر سادہ اوراق میں اہم نکات کو کاپی یا کسی کاغذ کے پرزے پر ہی نوٹ کر لیں ۔“ اسی طرح ڈاکٹر احمد سجاد کہتے ہیں : ” بعض صفحات کے نمبروں کو لکھنے کی عادت ہنوز قائم ہے۔ مطالعہ کے معاً بعد بعض کتابوں پر ذاتی تاثرات تبصرے بھی اختصار کے ساتھ لکھنے کی عادت ہے۔“ حاصل مطالعہ کیسے ذہن نشین ہو؟ یہ بھی ایک اہم عنصر ہے۔ اس سلسلے میں نعیم صدیقی رقم طراز ہیں : ” میری ذہنی ساخت یوں بنی کہ میں حاصل مطالعہ کو دماغ میں ڈال دیتا اور میرے اندر اس پر غور وبحث کا ایک سلسلہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، کھانا کھاتے جاری رہتا، یہاں تک کہ اس کا مثبت یا منفی اثر میرے عالم خیال پر رہ جاتا ۔“
معلوم ہوا کہ مطالعہ کے بعد حاصل مطالعہ کی بھی بڑی اہمیت ہے، ورنہ تو بات لاحاصل ہی رہے گی ۔ مطالعہ کے دوران جہاں اچھی کتابوں، خوش گوار فضا، مناسب مقام، موزوں روشنی اور وقت کی تنظیم ضروری ہے وہیں صحت کا بھی خاص خیال رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

Flag Counter