Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

10 - 16
***
دینی تعلیم سے روکنے کی سازشیں
محترم عبدالله خالد قاسمی خیر آبادی
خالق کائنات جل جلالہ نے انسان کو تمام مخلوقات پر شرف وفضلیت عطا کی ہے اور اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے، ﴿ولقدکرمنا بنی آدم﴾ (اور ہم نے بنی نوع انسان کو مکرم و محترم بنایا) یہ شرف و امتیاز اور یہ تکریم و تعظیم انسان کو زیور علم سے آراستہ ہونے کی بنا پر ہے۔
علم ایک ایسا اعزاز ہے جس نے ابتدائے آفرینش ہی سے انسانیت کو معزز اور قابل صد احترام بنایا ہے، جب حضرت آدم علیہ السلام کو مسجود ملائکہ بنایا گیا تو اس موقع پرملائکہ اور رب کائنات کے درمیان مکالمہ، پھر حضرت آدم علیہ السلام کی برتری،اس سے علم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
علم ایک زیور ہے، جو انسانیت کو سجا سنوار کر حسن کائنات بناتا ہے،تہذیب و تمدن اور آداب معاشرت اور طرز معیشت کے ایسے انداز بتاتا ہے جس سے انسانیت کو معراج حاصل ہوتی ہے اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے۔
علم سیکھنا اور اس کے حصول میں مسلسل کوشاں رہنا اسلامی تعلیمات کا ایک اہم جز ہے، اس لیے کہ علم کے بغیر انسان اور چوپایوں میں فرق نہیں رہ جاتا۔ خود فراموشی کے ساتھ انسان خدا فراموشی کا مرتکب ہوتا ہے، اپنے مقصد تخلیق کی معرفت سے محروم رہتا ہے۔ علم آدمی کو اللہ کی معرفت عطا کرتا ہے اور اسے اس کی تخلیق کے مقصد حقیقی سے آگاہ کرتا ہے، وہ احکام خداوندی کی مکمل پاسداری کرتا ہے تو دنیاوی فوز و فلاح اس کا مقدربنتی ہے اور وہ زمانے میں سرخ رو ہوتا ہے، تہذیب و تمدن سے معاشرے کی تعمیر و ترقی کا ضامن بنتا ہے، اسی لیے اسلامی تعلیمات میں حصول علم کے لیے بے شمار ترغیبی مضامین ملتے ہیں۔
تاریخ عالم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانانِ عالم جب تک علم کی تحصیل میں لگے رہے، دینی علوم سے خود کو آراستہ رکھا،دنیاوی علوم ان کے تابع رہے اور پھر دونوں کے امتزاج سے ملک و ملت کی تعمیر کے ایسے ایسے نمایاں کردار و جود میں آئے جو آج تک پوری دنیا سے خراج تحسین پارہے ہیں۔
آج ہر طرف سے آواز آرہی ہے کہ مسلمان ترقی کی راہ میں بہت پیچھے ہیں ، زمانہ کی رفتار کا ساتھ نہیں دے پارہے ہیں، دقیانوس ہیں، رجعت پسند ہیں اور نہ جانے اس انداز کے کتنے آوازے کسے جارہے ہیں، اس میں ایک طرف تو دشمن کی سازش ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اتنا زہر اگلاجائے کہ انہیں خود اپنے وجود سے گھن آنے لگے، دوسری طرف ”ہم اپنے گھر میں آگ خود لگارہے ہیں“ والا معاملہ ہے، اس لیے کہ دینی علوم کی تحصیل کوآج ہم نے بیکار سی چیز تصور کررکھا ہے، ہمارے ذہن و دماغ اس کی افادیت کو نہیں سمجھ پاتے اور پھر دینی علوم سے بے بہرہ ہوکر صرف دنیاوی علوم حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ عصری علوم کی کچھ شدبد تو ہوجاتی ہے لیکن متاع ایمان واسلام کا ایک بڑا حصہ دینی علوم سے عدم آگاہی کی وجہ سے گنوا بیٹھتے ہیں۔
آج ایک خاص ذہنیت رکھنے والے کچھ افراد، جو آج اقتدار کی کرسیوں تک بھی جاپہنچے ہیں، مسلسل اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ مسلمانوں کو ہر طرح کے علوم سے (دینی وعصری) محروم رکھا جائے اور علم کا زیور ان سے اتار کر ان کی وہ آب وتاب، فطرت کی وہ چمک دمک چھین لی جائے جو اب بھی نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے اور اقوام وطن کے دلوں کو مسحور کرتی ہے۔ دینی علوم کی درسگاہیں جس طرح سے ان کے نشانے پر ہیں اسی طرح عصری علوم کی درسگاہیں اسکول اور کالج بھی ان کے زہریلے اثرات سے محفوظ و مامون نہیں ہیں۔ ایک طرف رات و دن یہ پروپیگنڈا کہ مدارس دہشت گردی کی تعلیم دیتے ہیں، یہاں سے دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں، ملک و قوم کی ترقی میں حائل افراد یہاں سے پروان چڑھتے ہیں، جیسی حقیقت سے بے بہرہ باتیں بڑے زور و شور سے پھیلائی جارہی ہیں ،وہیں اسکول و کالج میں یہ زہر پھیلایا جارہا ہے کہ نصاب کی کتابوں میں ایسی ترمیم اور تبدیلی کی جارہی ہے جو مسلم مخالف اور اسلام دشمنی کی تعلیم پر مبنی ہوتی ہیں،تاکہ برادران وطن کو ایک خاص ذہنیت دے دی جائے اوروہ مسلم بچے جو ان اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں انہیں خود اپنے مذہب اور اپنی تاریخ اور اپنے اکابرکے تاریخ ساز کردارسے نفرت ہونے لگے اور پھر وہ اسی تہذیب اور اسی کلچر کو اپنی ترقی اور اپنی فلاح وکامیابی کا ضامن سمجھنے لگیں، اس انداز کی مذموم کوششیں شخصی اور انفرادی پیمانے پر نہیں ہیں، بلکہ حکومتی اور ریاستی پیمانے پر جاری کی گئی ہیں ۔
حالات کے جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لیے بڑی منظم اور منصوبہ بند سازش کی جارہی ہے اور مسلمان صرف اپنے داخلی مسائل میں الجھ کر ان سازشوں کا آسانی سے شکار ہوتا آرہا ہے۔
دینی تعلیم کے حصول سے روکنے کے لیے مدارس سے مسلمانوں کو برگشتہ کرکے پوری پلاننگ کے ساتھ عصری تعلیم گاہوں کی طرف لے جایا گیا۔ پھر عصری تعلیم گاہوں کا طرز تعلیم اور انداز تعلیم یہ ہے کہ مسلمان خود اپنے سے متنفر، اپنے مذہب اور اپنے دین سے برگشتہ ہوجاتا ہے۔
اس لیے ایسے حالات میں مسلمان ہوش و خرد سے اگر کام نہ لیں گے تو تاریخ کا یہ اتنا بڑا خسارہ اور نقصان ہوگا کہ (خدا نہ کرے) صحیح اسلام اور پکے مسلمان کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔ مسلمانوں کے لیے اصل اللہ و رسول کی تعلیمات اور ان پر عمل پیرا ہونا ہی ہے ،نجات اسی میں ہے اور ترقی و معراج کے سبھی دروازے اسی راستے پر چل کر کھل سکتے ہیں۔ عصری علوم آج کے حالات میں بہت ضروری ہیں، لیکن سب سے پہلے ضروری ایک سچا اور پکا مسلمان ہونا ہے ،اسلامی تعلیم اور تاریخ کا ایسا گہرا رنگ پہلے سے ہونا چاہیے جس پر کوئی اور رنگ اثر انداز نہ ہوسکے۔

Flag Counter