Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

15 - 16
***
اسلام ،سرمایہ داری اور اشتراکیت
مولانا حذیفہ وستانوی
دنیا کے تمام مذاہب میں الحمدلله اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے دین کو صرف عبادات میں منحصر نہیں کیا، بلکہ زندگی کے ہر ہر گوشہ کو دین سے وابستہ کیا، چاہے وہ معاشرت ہو، چاہے معیشت ، غرض کہ انسان صحیح معنی میں زندگی کیسے گذارے اور اس کے لیے وہ کن کن چیزوں اور کس کس طرح کے مسائل سے دوچار ہوسکتا ہے؟ ہر ایک کے سلسلے میں چند جامع اور معنی خیز اصول پوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیے جن کی روشنی میں قیامت تک پیش آنے والے مسائل کو مسلمان حل کرتا چلا جائے گا، اسی لیے قرآن کریم نے اسلام کی مثال ایک ایسے درخت سے دی جس کی جڑیں زمین میں پیوست اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہوں۔
اسلامی نظام ہی وہ نظام ہے جس نے دنیا سے ظلم و جبروت کا قلع قمع کیا، انسان کو زندگی بسر کرنے کے اصول سکھائے۔ چنانچہ فاتح ایران حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے جب ایرانیوں نے پوچھا کہ آپ رضی الله عنہ ہمارے علاقے میں کیوں آئے ہیں؟ تو آپ نے جواباً دیگر باتوں کے ساتھ فرمایا: 
”ہمیں بھیجا گیا ہے کہ ہم لوگوں کو باطل ادیان کے ظلم سے نجات دلا کر عدل اسلام سے روشناس کرائیں۔“
اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تعالیٰ نے اپنے پہلے ہی خطبہ میں اس اسلامی اصول کی تعیین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے ہر قوی میرے نزدیک ضعیف ہے، جب تک اس سے حق وصول نہ کرلوں اور تم میں سے ہر ضعیف میرے نزدیک قوی ہے، جب تک اس کا حق نہ دلادوں۔“
جو مذہب دنیا میں ظلم ختم کرنے اور انصاف کو قائم کرنے کے لیے انسانوں کے لیے رحمت بن کر نازل ہوا آج اسی دین کو دہشت گرد اور کیسے کیسے بُرے القاب سے یاد کیا جارہا ہے آج ہم اسی کا تقابل کرنا چاہیں گے کہ جو لوگ انسانی حقوق کی پاس داری کے بے بنیاد نعرے کستے چلے جارہے ہیں ان کے اور اسلامی تعلیمات کے درمیان کیا فرق ہے؟ ان کے نظام سے دنیا کو کیا نقصان ہو رہا ہے اور اسلامی نظام میں انسانیت کے لیے کتنی سلامتی اور امن ہے؟
اس سے پہلے کہ ہم اشتراکیت اور اور سرمایہ داریت پر ایک سرسری نظر ڈالیں یہ بات ذہن نشیں کرلیں کہ یہ دونوں نظام اگرچہ بظاہر ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں، ایک مشرق ہے تو دوسرا مغرب، لیکن اسلام کے مقابلہ میں یہ دونوں مشترک ہیں اور اسلام کے مقابلے میں اپنے پس منظر کے ساتھ ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں، اسلام جہاں مادیت کے مقابلے میں روحانیت اور دنیوی زندگی کے مقابلے میں آخرت کی دعوت دیتا ہے، وہیں یہ دونوں نظام صرف اور صرف مادہ پرستی کی بنیاد پر قائم ہیں اور اسی مادیت کی ترویج کے لیے جب کوئی نظام ان کے راستے میں رکاوٹ بنتا دکھائی دیا تو انہوں نے اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی انتھک کوششیں کیں، یہ بات الگ ہے کہ وہ کامیاب نہ ہوسکے، اب ظاہر بات ہے کہ یہ روڑا اور رکاوٹ ان کے لیے اسلام کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا، اسی لیے آپ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اشتراکیت نے جب روس میں سر اٹھایا تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیسا ظلم کیا کہ قلم اس کو معرض تحریر میں لانے سے کپکپا اٹھتا ہے، لاکھوں مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اتنے مسلمانوں اور علما کو ایک ساتھ شہید کیا جاتا تھا کہ ٹیلوں کی مانند لاشوں کا انبار لگ جاتا تھا، جس کسی کے چہرے پر ڈاڑھی دیکھی توبس گولی… یہاں تک کہ بعض مرتبہ علما کو اور مسلمانوں کو ٹرین میں بٹھایا جاتا اور کہا جاتا ہم تمہیں کسی جگہ چھوڑ آتے ہیں، پھر راستہ میں مال گاڑی کے ساتھ اسے ٹکرا دیا جاتا، اگر کوئی عورت لمبے بال والی نظر آتی تو سرِ عام اس کے سر کو مونڈھ دیا جاتا، جو کوئی قرآن کا یا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے لیتا اسے اسی وقت پھانسی پر چڑھا دیا جاتا، جس بچہ کو سلام بولنا آجاتا اس کے باپ کو پھانسی دے دی جاتی، جگہ جگہ لکھا ہوتا کہ مسلمانوں کا خدا بوڑھا ہو چکا ہے۔ (العیاذ باللہ) بڑے بڑے پوسٹر جگہ جگہ چسپاں تھے، جن پر نحیف اور کمزور بوڑھا بنا ہوتا اور ایک موٹا تازہ انسان ہوتا، نحیف پر لکھا ہوتا اسلام اور وہ موٹا کک مارتا دکھایا جاتا کہ اب اسلام بوڑھا ہوچکا، اس کو لاتیں مار مار کر دنیا سے نکال دیا جائے گا، مگر
فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
غرض یہ اشتراکی نظام کا حال تھا کہ اس نے انصاف کے نام پر کیسے کیسے خونریز واقعات کو تاریخ کے صفحات پر رقم کیا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے انصاف کے نام پر انسانیت پر کیا ظلم ڈھائے اور اب بھی ڈھاتا چلا جارہا ہے، اس کا بھی جائزہ لیتے چلیں۔
روز آفرینش سے انسانی تہذیب و تمدن میں قدرتی وسائل کی جتنی ریل پیل اور بہتات آج ہے، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی، دنیا مشینی نظام پر آگئی اور سپرفاسٹ بن گئی، لیکن یہ بات بھی فراموش نہ ہونے پائے کہ اسی مشینی صنعت کی وجہ سے تمام افراد میں پیسوں کے متعلق ناخوشگوار جذبات کا ایک سیلاب اور طوفان برپا ہوگیا ہے اور یہی وسائل آج کل انسانوں کے لیے مایوسی، آشفتہ حالی اور جذباتی نفسیاتی ذہنی امراض کا سبب بن گئے ہیں، جب یہ صنعتی نظام انگلستان میں رائج ہوا تو اس نے پہلے صرف مزدور طبقہ کی زندگی کوتباہی کے دہانے لاکھڑا کیا، پھر لامتناہی کاروبار کو بڑھا چڑھا کر تقابل اور تفاخر کے ساتھ فروغ دینے والے ،اپنے اپنے شعبہ کار کو پروا ن چڑھانے والے اور اپنی کارکردگی کی گھات میں ترقی اور منافع کا رجحان اور رُخ پہچاننے والے ماہرین صنعت وحرفت، کم سے کم سود دے کر زیادہ سے زیادہ نفع کمانے والے مشاق ماہرین اقتصادیات ، تمام صنعتوں اورکاروبار کو گھمانے، چکر دینے اور الٹ پلٹ کر رکھ دینے والے شاطر عناصر مل کر صنعتی نظام کو عظیم سے عظیم تر بنانے میں ایسے مشغول اور منہمک ہیں کہ نہ کسی جان کی پروا، نہ عزت کا خیال اور نہ اخلاقی قدروں کی نگہداشت ،بس مال مال، نفع نفع اور نفع کے خواب میں مست ہیں۔ اسی سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا میں سود کی لعنت عام کی اور پوری دنیا پر اجارہ داری قائم کردی، اسی لیے جو لوگ معیشت پر نظر رکھے ہوئے ہیں، وہ کہتے کہ دنیا کی ساری دولت و قسمت کو ترقی یافتہ، دولت مند گروپ جو آٹھ ممالک پر مشتمل ہے( امریکا، کنیڈا، روس، جاپان، برطانیہ، فرانس اٹلی، جرمنی) نے اپنے پنجہٴ استبداد میں جکڑ رکھا ہے، اس لیے کہ دنیا کے چار سو ستانوے (497) دولت مند ترین کھرب پتی افراد ان ہی ملکوں سے وابستہ ہیں ۔ Forbes میگزین کی رپورٹ 2002ء کے مطابق سال 2001ء میں ان 497 امراء کی مجموعی دولت 1544.20 بلین ڈالر تھی، جب کہ دنیا کی پوری آبادی کی تمام بنیادی ضرورتوں کے لیے درکار رقم صرف 80 بلین ڈالر سالانہ ہے، جو پوری ہی نہیں ہوتی ۔2005ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ان آٹھ ملکوں کے سوا دوسرے 19ملک( انڈورا، آسٹریلیا، بلجیم، ڈنمارک، فن لینڈ، یونان، آئس لینڈ، آئرلینڈ چٹنسٹین، لکسمبرگ، موناکو، ہائی لینڈ، نیوزی لینڈ، ناروے، پرتگال، اسپین، سویڈن، سوئزرلینڈ، اورچند دیگر غریب ممالک جن میں بدقسمتی سے ہمارے جنوبی ایشیائی ممالک بھی شامل ہیں)، 45/ہزار بلین ڈالر سے زیادہ کے مقروض تھے۔ یہ ممالک ہر سال ایک سوپچیس ارب ڈالر سود ادا کر رہے تھے اور سود کی شکل میں اصل سے کہیں زیادہ رقم ادا کرچکے تھے، لیکن قرض کی اصل رقم ابھی واجب الادا ہے۔
اب ذرا آپ اوپر کی رپورٹ پڑھ کر غورکیجیے کہ اس سودی لعنت نے دنیا میں غربت کو عام کرنے میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے، اب اس پر بھی ایک رپورٹ پڑھتے چلیں، 1999ء کی UNDP کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سب سے غریب اور سب سے مال دار کے درمیان آمدنی کا فرق 1820ء میں 3.1 تھا اور 1913ء میں 11.1 ہوا اور پھر 1970ء میں 60.1 اور1997ء میں 86.1 ہوگیا تھا۔ گویا 1997ء میں آبادی کا سب سے امیر طبقہ جو 20 فی صد ہے، دنیا کی مجموعی پیداوار کے 86% پر قابض تھا ، جب کہ 1850 ء میں عالمی پیداوار کے35 فی صد پر ترقی یافتہ ممالک قابض تھے، 1980ء میں ان کا حصہ 86 ہوگیا، 1800ء سے 1980ء کے درمیان ترقی یافتہ اور غریب ممالک کی فی کس آمدنی کا فرق 1000 فی صد بڑھ گیا۔ ایک سروے کے مطابق دنیا کا ایک طبقہ35 / ارب ڈالر کا منر ل واٹر پی جاتا ہے، جب کہ ایک ارب انسان ایسے ہیں کہ جوبیچا رے صاف ستھرے پانی سے محروم ہیں۔ یہی اجارہ دار اور سود خور یورپ ایک سال میں گیارہ ارب ڈالر کی آئس کریم کھاجاتا ہے، یورپ میں 17/ارب ڈالر پالتو جانور پر خرچ کیے جاتے ہیں، جب کہ لاکھوں افریقی اور غریب باشندے بھوک سے مر جاتے ہیں، اسی یورپ نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے جال میں ایک بڑے طبقے کو پھنسا کر بے روزگار بنا دیاہے ۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، تیسری دنیا کے ملک اپنی سستی اور اچھی زرعی پیداواراور ڈیری کا سامان امیر ملکوں کے بازار میں فروخت نہیں کرسکتے، لیکن تیسری دنیا کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ امیر ملکوں کا غیر ضروری سامان بلکہ کوڑا کرکٹ اور Junk بھی اپنے بازاروں میں آزادی کے ساتھ بیچنے کی اجازت دیں، ڈبلیوٹی او کا یہ دعویٰ صد فیصد جھوٹ ہے کہ جب اس کی شرطوں پر دنیا میں تجارت ہونے لگے گی تو تیسری دنیا کی غریبی بھی دور ہوگی، کیوں کہ ابھی تک ڈبلیوٹی او نے غریب ملکوں کی قیمت پر صرف امیر ملکوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ گیٹ (Gatt) مذاکرات سے لے کر ڈبلیوٹی او کے قیام تک پچھلے بیس پچیس برسوں میں دنیا میں غربت گھٹنے کے بجائے اور زیادہ بڑھی ہے، نیوزویک (21/نومبر2005ء) میں شائع شدہ ڈیوڈروٹ کوف کی ایک رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ صرف گذشتہ پانچ چھے برسوں کے دوران (1991ء سے تا حال) دنیا کے امیر ترین ملکوں کی آمدنی میں پینتیس گنا اضافہ ہوا ہے۔ یعنی جن امیر ملکوں کی آمدنی 1999ء تک غریب ملکوں کی مجموعی آمدنی سے محض سولہ گنا زیادہ تھی، وہ2005ء میں بڑھ کر25گنا زیادہ ہو چکی ہے۔
عالمی بینک کے ایک ماہر اقتصادیات برینکومیلا نووچ (Branko Milanovic) کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ”منقسم دنیا“ (Worlds Apart) کے حوالے سے ڈیوڈروٹ کوف نے لکھا ہے کہ1960ء تک دنیا میں اکتالیس ایسے امیر ممالک تھے جن کی آمدنی ’اطمینان بخش‘ کے زمرے میں آتی تھی۔ پینتالیس سال بعد (2005ء میں) دنیا کے اطمینان بخش آمدنی والے ملکوں کی تعداد گھٹ کر محض اکتیس (31) رہ گئی ہے۔ 1960ء میں امریکہ اور یورپ کے باہر غیر مغربی امیر ممالک کی تعداد انیس (19) تھی۔ آج 2005ء میں غیرمغربی امیر ملکوں کی تعداد محض نو (9) ہے۔ کوئی ہمیں بتائے کہ یہ معاشی آزادی لبرلائزیشن اور عالم گیر گلوبلائزیشن کا نتیجہ نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
ہانگ کانگ ڈبلیوٹی او چوٹی کانفرنس کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے اتحاد (الائینس) کی سربراہ الزبتھ تانگ نے غلط نہیں کہا ہے کہ ڈبلیوٹی او دنیا سے غریبی دور کرنے میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے۔1989ء میں بیجنگ کے تیانمن اسکوائر میں طلبا کے مظاہروں کی قیادت کرنے والی لیڈر ہانگ ڈانگ فانگ نے گیارہ دسمبر کو ہانگ کانگ میں WTO کے خلاف مظاہرہ کرنے والے چینی باشندوں کی قیادت کرتے ہوئے کہا کہ2001ء میں ڈبلیوٹی او میں شمولیت کے بعد سے چین کی حکومت اور حکمراں ٹولہ تو ضرور پہلے سے کہیں زیادہ امیر ہوگیا ہے ،لیکن چینی عوام کی اکثریت پہلے سے کہیں غریب ہوگئی ہے اور چینی مزدوروں کے حقوق سلب ہوچکے ہیں!
اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس سودی نظام نے دنیا میں غریبی اور امیری کے درمیان فاصلوں کو کتنا بڑھا دیا۔ یہ تو ہوا مادی پہلو،اب سرمایہ داریت کی تصویر کے دوسرے رُخ کو دیکھا جائے کہ اس نے اپنے اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے کتنے ملکوں پر بے جا حملے کیے اور لاکھوں انسانوں کو قتل کرکے اپنے اوپر ایک سیاہ تلک لگایا، غریب اور مفلس افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی، پیٹرول سے مالامال عراق جیسے پُرامن ملک میں امن وسلامتی کو عنقا کردیا اور بھی بے شمار منصوبے بنا چکا ہے، جس کی تکمیل کے درپے ہے اور جیسا کہ اشتراکیت (Communism) نے اسلام کی بیخ کنی اور استحصال کے منصوبے بنائے تھے، اللہ نے اسے ملیامیٹ کرکے چھوڑ دیا، ایسے ہی ان شاء اللہ بہت جلد امریکہ اور اس کے ہم نو ا بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے، اللہ کے یہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ 
یہ تو ہوئی اسلام کے مدمقابل دو باطل نظاموں کی تاریخ پرایک سرسری نظر ،اب آپ اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے کہ حضرت ابوبکر کا زمانہ خلافت کیسی خوشحالی کا زمانہ تھا، پھر حضرت عمر فاروق کے زمانہ پر نظر کیجیے تو عدل وانصاف اور سود کی لعنت سے پاک کیسا خوشحال موسم گذرا۔ اسی طرح حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضیٰ کا زمانہ کہ معیشت کے اعتبار سے مسلمان کسی پریشانی میں مبتلا نہیں تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور کے بارے میں بتلایا جاتا ہے کہ آپ کے زمانہ میں لوگ اتنے آسودہ اور صاحب ثروت ہوچکے تھے کہ اگر کوئی آدمی زکوٰة نکالنا چاہتا تو کوئی زکوٰة لینے والا ہی نہیں ملتا تھا۔
قبل اس کے کہ آپ اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اور اساسی اصول سے واقف ہوں سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں کی بنیاد کس پر قائم ہے اور ان میں کیا کیا بگاڑ اور خرابی ہے، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تو اولاً ہم سرمایہ داری ہی کے اصول کو معلوم کریں کہ اس کا نظام کس بنیاد پر قائم ہے تو معلوم ہوا کہ اس کی بنیاد آزادی پر قائم ہے، یعنی ہر شخص کو میدان تجارت میں بے مہار چھوڑ دیا جائے، اس پر کسی طرح کی کوئی پابندی عائد نہ کی جائے، نہ دینی پابندی، نہ ملکی پابندی اور نہ اخلاقی پابندی، بس ایک قدرتی قانون Law of Demand and Supply پر سب کچھ چھوڑ دیا جائے، چاہے وہ ترجیحات کا تعیین ہو (Determination of Priorities) یا وسائل کی تخصیص ہو (Allocation of Resources) یا آمدنی کی تقسیم (Distribution of income) یا ترقی (Development) ہو، کچھ بھی ، بس اسی قانون رسد و طلب پر چلتا رہے گا، زمین کا کرایہ بھی اسی کو سامنے رکھ کر متعین کیا جائے گا۔ اسی طرح محنت کرنے والے مزدور کی مزدوری کا تعین، سرمایہ لگانے والے کا شرح سود سب کچھ اسی پر موقوف۔ اب چونکہ فرد پر کسی طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں تو وہ سرمایہ دار ہونے کی صورت میں بیٹھا بیٹھا لوگوں سے سود کھاتا رہے گا، اگر تاجر ہے تو احتکار و ادخار یعنی قیمت بڑھانے کے لیے ذخیرہ اندوزی کرے گا، اگر وہ خوبصورت عورت ہے تو ایڈورٹائزنگ کے لیے اپنے جسم کی نمائش کرے گی، اگر آواز اچھی ہے تو گلوکار بن جائے گا، اگر خوبصورت ہے تو ہیرو ہیروئن، مضبوط ہے توکھلاڑی، شہرت یافتہ ہے تو اشتہاربازی میں بڑھ کر حصہ لے گا۔ غرض مادیت اور پیسے کے لیے جو چاہے کرے گا، نہ اس کے دل میں معاشرے کے بارے میں کوئی ہمدردی، نہ اخلاق کا کوئی پاس و لحاظ۔ گویا انسانیت کے دائرے سے نکل کر بہیمیت کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ بہرحال اس نظام سے دنیا کو بہت نقصان پہنچا اور اب بھی پہنچ رہا ہے، اب دیکھنا ہے کب تک دنیا اس نظام کو لے کر چلتی ہے اور کب یہ ملعون نظام اوندھے منہ گر کر ختم ہوتا ہے، ویسے اب قرائن کچھ ایسا بتلارہے ہیں کہ اس کی موت قریب ہی آپہنچی ہے۔
اشتراکیت (Socialism) کایہ نظام دنیا میں سرمایہ داری کے ظلم کو رفع کرنے کا نعرہ لگا کر میدان میں آیا اور انسانیت کو انصاف دینے کا دھوکہ دیا ،یا پھر اچھے جذبہ کے ساتھ کھڑا تو ہوا، مگرسرمایہ داری کا نعم البدل مہیا نہ کر سکا، بجائے اس کے کہ ظلم کو رفع کرتا اس سے بھی بڑا ظالم ثابت ہوا،کیوں کہ اس نے اپنے نظام کی بنیاد اجتماعی ملکیت پر استوار کی، یعنی کوئی فرد کسی چیز کی ملکیت نہیں رکھے گا، سب حاکم کے تحت منصوبہ بندی کے ساتھ کام میں لائے جائیں گے۔ گویا اشتراکیت نے بالکل جکڑ کر رکھ دیا اور ظاہر بات ہے کہ جکڑنے کے لیے ظالم و جابر حکمرانی کی ضرورت پڑی تو اس نے اس سے بھی دریغ نہ کیا اور اجتماعی مفاد (Collective Interest) اور آمدنی کی منصفانہ تقسیم Equilable Distribution of Income)) کے کھوکھلے دعوے کیے، جب کہ دونوں میں ایک بھی صحیح طور پر ذرا برابر بھی پورا نہیں کر سکا، خیر یہ نظام تو روس کے ٹوٹ جانے کے بعد مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوا البتہ ختم جیسا ہو چکا ہے اور اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔
یہ تو ہوئی دونوں نظاموں کی تاریخ اور ان کے اصول اور اس پر تبصرے۔ اب آیئے اسلامی نکتہٴ نظر کی طرف کہ وہ معیشت کے بارے میں کیا فلسفہ پیش کرتا ہے۔ جان لیجیے کہ اسلام کا راستہ بالکل متوسط، نہ افراط پر مبنی نہ تفریط، نہ توفرد کو بالکل آزاد بے مہار چھوڑ دیتا ہے، جیسا کہ سرمایہ داری نے کیا اور نہ بالکل انسان کو جکڑ کر رکھ دیتا ہے بلکہ اس کی نفسیات اورطبیعت کا پورا خیال رکھتے ہوئے آزادی کی ضرورت کی صورت میں آزادی فراہم کرتا ہے اور پابندی کی ضرورت کی صورت میں پابندی عائد کرتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ مذکورہ دونوں نظاموں نے درحقیقت انسان کے مقصد پیدائش کو مدنظر نہیں رکھا، انہوں صرف مادیت کو مدنظر رکھا اور دنیا کے سامنے دین بیزار، خدا بیزار، انسانیت بیزار ،آخرت بیزار نظام پیش کیا، گویا دوسرے جانوروں کی طرح انسان بھی کھانے پینے، سونے اور کمانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، ایک بار مر جاتا ہے، پھر گویا اسے زندہ ہی نہیں ہونا ، نہ رب کے حضور حساب و کتاب دینا ہے اور نہ برائیوں پر سزا پانا ہے۔ بالکل بے فکر ہو کر دنیا کے پیچھے لگ جانا ہے اور بس۔ جب کہ اسلام نے اولاً انسانی تخلیق کے مقصد کو مدنظر رکھا اور بتایا کہ ﴿وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون﴾ کہ انس و جن کو دنیا میں نہ تو زیب و زینت کے لیے پیدا کیا، جیسا کہ آج کا انسان سمجھ بیٹھا ہے، نہ زراعت کے لیے، نہ تجارت کی غرض سے، نہ کسی اور غرض سے، بلکہ تخلیق انس و جن محض عبادت و بندگی کے لیے کی گئی ہے لہٰذا انسان کو اپنی ساری صلاحیتوں کو کسب و معاش میں صرف کر دینا کسی بھی حالت میں زیبا نہیں۔ بقدر ضرورت انسان دنیا کمانے کے پیچھے لگے، جیسے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بیت الخلا جاتا ہے اور ضرورت پوری ہوتے ہی فوراً واپس ہو جاتا ہے، بس اسی طرح دنیا کا حال ہونا چاہیے مگر افسوس ہے کہ مسلمان مال کے پیچھے ایسا دیوانہ ہو گیا ہے کہ نہ اسے نماز کی، فکر، نہ روزے کی، نہ حج کی، نہ اپنی آخرت کی کوئی فکر۔ اللہ ہی رحم فرمائے، اللہ رب العزت نے بے شمار مقامات پر عبادت و بندگی کا حکم دیا ہے، جیسے فرمایا: 
ترجمہ:” عبادت کرو لوگو! اس پروردگار کی، جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔“
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
”یہی اللہ تمہارا رب ہے، ہر چیز کا پیدا کرنے والا، لہٰذا تم اسی کی عبادت کرو۔“
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا:
”آپ کہہ دیجیے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ ہی کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراوٴں۔ “
ایک جگہ ارشاد فرمایا: 
عبادت کر اپنے رب کی یہاں تک کہ تجھے موت آجائے، یعنی موت تک عبادت میں مشغول رہ اور بھی کئی آیتیں ہیں، تو معلوم ہوا کہ انسان کا ہر کام عبادت ہو۔ اگر آپ واقعةً اسلام کے مطالبات پورے کریں اور حلال حرام کی پوری تمیز کے ساتھ کاروبار کرتے رہیں تو کاروبار بھی عبادت بن جائے گا، بلکہ مفتی اعظم مفتی شفیع صاحب نے حافظ نعیم کے حوالے سے ایک عجیب روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ بہت سے گناہ ایسے ہیں جو نہ نماز پڑھنے سے معاف ہوتے ہیں اور نہ روزہ و صدقہ سے معاف ہوتے ہیں مگر وہی گناہ حلال کمائی کے راستے میں پیش آنے والی پریشانیوں سے معاف ہو جاتے ہیں، اللہ اکبر۔ خلاصہ کلام یہ کہ اسلام نے اپنے معاشی مسائل میں مادیت کے ساتھ روحانیت کو بھی پورے پورے طور پر مدنظر رکھا تو آیئے! اب ہم اسلامی نظام معیشت پر ایک اچکتی ہوئی نگاہ ڈالتے چلیں۔
اسلامی معیشت کے بنیادی اصول
(1) جس شے کو فروخت کیا جائے وہ مال کی تعریف میں آتا ہو، جیسے کپڑا جوتا وغیرہ، نہ کہ گوبر مینگنی وغیرہ۔
(2) دھوکا دہی اور مکرو فریب سے مکمل اجتناب۔
(3) مجہول و معدوم چیز کی خرید و فروخت سے اجتناب۔
(4) غیر مقبوضہ چیز جو دوسرے کے ضمان میں ہو، اس کی خرید وفروخت کی ممانعت۔
(5) تجارت اور کاروبار میں سچائی کا پورا لحاظ اور جھوٹ سے مکمل اجتناب۔
(6) تمام معاملات کا سود سے مکمل طور پر پاک ہونا۔
(7) کوئی ایسی شرط بیع میں لگانا جس کی وجہ سے بائع یا مشتری دونوں میں کسی کو زائد فائدہ حاصل ہو اس سے مکمل پرہیز۔
(8) کاروبار میں قمار یعنی جوا کا معاملہ نہ کرنا۔
(9) ناپ تول میں پورا انصاف ذرا برابر بھی کمی نہیں ہونی چاہیے۔
(10) ذخیرہ اندوزی کسی بھی حالت میں جائز نہیں۔
(11) حرام اشیا کی خریدوفروخت سے مکمل طور پر اجتناب۔
(12) جھوٹی قسم سے اجتناب۔
(13) کوئی ایسا معاملہ کرنا جو جھگڑے کا باعث ہو، اس سے اجتناب۔
بہرحال اسلام نے قانون رسد و طلب کو تسلیم کیا، مگر مطلق نہیں ۔ تین طرح کی پابندیوں کے ساتھ: خدائی پابندیاں، جیسے سود، قمار
عارضی حکومتی پابندیاں، جیسے کسی بیماری کے پھیلنے سے حکومت کا عارضی طور پر پابندی عائد کرنا۔
اخلاقی پابندیاں یعنی اخلاق عمدہ ہونے چاہئیں جیسے عورتوں کو تشہیر کے لیے سامنے لانا۔
یہ اسلامی اصول ہیں جو انتہائی جامع اور دل کو بھاتے ہیں، پچھلے چند سالوں سے دنیا کے بڑے بڑے ماہر اقتصادیات جو غیرمسلم ہیں، مگر اس بات کو سراہتے ہیں کہ دنیامیں غربت کو ختم کرنے اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے اگر کوئی نظام موزوں ہے تو وہ اسلام کا نظام ہے، سودی نظام کو دنیا سے ختم کیا جائے اور شریعت کے بتائے ہوئے حقیقی قوانین کے مطابق مضاربہ مشارکہ کے طریقوں پر تجارت کی جائے۔ ورنہ یہ سودی نظام ساری دنیا کو بھوک اور تنگ دستی کے دہانے لاکر کھڑا کر چکا ہے، اب جب میں نے تفصیل کے ساتھ تینوں کو ذکر کر دیا ہے تو آپ ہی فیصلہ فرمایئے کہ ہم مسلمان ہو کر اس پر کتنا عمل کرتے ہیں اور اغیار کے طریقوں کو کیوں نمونہ بناکر چل رہے ہیں۔ یاد رکھیے! رزق میں کمی زیادتی کرنا اللہ کے قبضہٴ قدرت میں ہے، لہٰذا اس کے منشا کے مطابق کام کیا جائے اور تجارت کی جائے تو کتنی خوش کن بات ہوگی کہ اللہ کی ذات راضی ہو جائے 
دعا فرمایئے کہ اللہ رب العزت ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور حرام خوری، سود خوری اور شیطانی راستہ سے ہماری پوری حفاظت فرمائے اور دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہم سب کو ہم کنار فرمائے۔آمین!

Flag Counter