Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

7 - 16
***
دھوبی کی دکان سے قاضی القضاة کے منصب تک
محترم قیصر حسین
امام ابویوسف امام اعظم ابوحنیفہ کے مایہ ناز شاگرد رشید ، ان کے علم ومسلک کے ناشر اور تین خلفائے عباسی کے قاضی رہے ، ان کو سب سے پہلے قاضی القضاة کے لقب سے ملقب کیا گیا، وہ قاضی قضاة الدنیا کہلاتے ہیں ، آپ کوفہ میں 113ھ میں پیدا ہوئے ، آپ فقیہ، عالم او رحافظ تھے ، آپ نے ابواسحاق شیبانی، سلیمان تمیمی، یحییٰ بن سعید انصاری، اعمش، ہشام، عطا اورمحمد بن اسحاق سے حدیثیں سنیں، آپ پر امام اعظم کا مسلک غالب تھا ، لیکن بہت سے مسائل میں آپ نے ان سے اختلاف بھی کیا ہے ، آپ سے محمد بن حسن شیبانی، بشربن ولید کندی، علی بن الجعد، احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین وغیرہ نے روایت کی ہے ، آپ بغداد میں مقیم رہے ، خلیفہ ہارون رشید آپ کی بہت زیادہ تعظیم وتکریم کرتے تھے ، آپ باکمال، شعلہ بیان مقرر تھے، آپ ہی نے علماء کے لباس میں تبدیلی کی، ان سے پہلے علماء وغیر علما کے لباس میں کوئی فرق وامتیاز نہیں تھا۔
ابوعمرو بن عبدالله صاحب الاستیعاب نے اپنی کتاب ” الانتقاء فی فضل الثلاثة الفقھاء“ میں لکھا ہے کہ ابویوسف حافظ تھے اور محدثین کے پاس حاضر ہو کر پچاس ساٹھ حدیثیں سنتے تھے اور پھر وہاں سے اٹھ کر لوگوں کواملا کروادیتے تھے۔ (الانتقاء :172)
محمد بن جریر الطبری نے لکھا ہے کہ کچھ محدثین ان پر غلبہٴ رائے، احکام وفروع کی تفریع ، خلیفہ کی صحبت او رقاضی القضاة ہونے کی وجہ سے ان سے حدیث روایت کرنے میں احتیاط برتتے تھے، آپ کے بچپن ہی میں والد ماجد الله کو پیارے ہو گئے تھے ،آپ نے ابتدا میں بڑی عسرت وتنگی کی زندگی گزاری ہے ، معیشت میں تنگی کی وجہ سے آپ کی والدہ نے آپ کو ایک دھوبی کے یہاں اجرت پر رکھ دیا تھا، لیکن آپ بچپن ہی سے علم کے بڑے شوقین تھے، اس لیے آپ دھوبی کے یہاں نہ جاکر امام اعظم کی مجلس درس میں شریک ہو جایا کرتے تھے ، جیسا کہ خطیب تاریخ بغداد میں علی بن الجعد کے حوالہ سے رقم طراز ہیں ، قاضی ابویوسف  نے بیان کیا کہ میرے بچپن میں والد کا انتقال ہو گیا اور میری ماں نے ایک دھوبی کے پاس اس کی خدمت کے لیے مجھ کو پہنچا دیا، میں دھوبی کے یہاں نہ جاکر امام اعظم کی مجلس درس میں شریک ہو کر درس سنتا تھا، میری ماں میرے پیچھے آتی تھی، امام صاحب میری حاضری او رمیرا علمی ذوق وشوق دیکھ کر میرا خوب خوب خیال فرماتے تھے، جب میں بار بار دھوبی کی خدمت سے بھاگنے لگاتو ایک دن میری ماں غصہ میں بھری ہوئی امام صاحب  کے پاس آئی اورکہاکہ آپ کے علاوہ کسی اور نے اس بچہ کو نہیں بگاڑا ہے، یہ ایک یتیم بچہ ہے اس کے پاس کچھ نہیں ہے، میں روئی کات کر اسے پالتی ہوں اور امید رکھتی ہوں کہ آئندہ یہ اپنے پیر پر کھڑا ہو جائے گا ، امام صاحب نے فرمایا: تو نادان ہے ، یہ توپستہ کے تیل سے فالودہ کھانے کا علم حاصل کر رہا ہے۔ میری ماں اس پر بہت برا فروختہ ہوئی، ایک دوسری روایت میں ہے کہ میں امام صاحب کی مجلس میں حدیث وفقہ کا علم حاصل کر رہاتھا، میں مالی اعتبار سے خستہ حال تھا، میرے والد صاحب امام صاحب کے مجلس میں میرے پاس آئے، کہا، میرے بیٹے! تم پیران کی طرح نہ پھیلاؤ،کیوں کہ وہ خوش حال ہیں او رتم مفلس ہو ، میں والد صاحب کی اطاعت وفرماں برداری میں کئی روز تک مجلس درس سے غائب رہا ، پھر درس میں آنا شروع کیا، جب امام صاحب نے کئی روز کے بعد مجھے اپنی مجلس میں دیکھا تو پوچھا کہ تم کئی روز سے کہاں غائب تھے ؟ میں نے جواب دیا کہ والد صاحب کی اطاعت وفرماں برداری اور معاش کی طلب میں ، جب سارے لوگ مجلس سے چلے گئے تو امام صاحب نے مجھے سو درہم کی ایک تھیلی دی او رکہا اسے خرچ کرو اور جب یہ ختم ہو جائے تو مجھے بتاؤ۔ میں نے امام صاحب کو ختم ہونے کی کبھی اطلاع نہیں دی، لیکن وہ ختم ہونے سے پہلے ہی دوسری تھیلی عنایت فرما دیتے تھے ، میں برابر آپ کی مجلس درس اور علمی صحبت سے مستفید ہوتا رہا ، الله تعالیٰ نے مجھے علم کے ذریعہ نفع پہنچایا اورمجھے قاضی القضاة بنا دیا، میں ہارون رشید کی مجلس میں رہتا تھا او ران کے ساتھ ان کے دستر خوان پر کھاتا تھا،ایک دن ہارون رشید کے کھانے میں فالوودہ لایا گیا تو انہوں نے کہا یعقوب! فالودہ کھاؤ، یہ کھانے میں روز روز نہیں ہوتا ہے ۔ میں نے پوچھا امیر المومنین! یہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ پستہ کے تیل کے ساتھ فالودہ ہے، یہ سن کر مجھے ہنسی آگئی ، خلیفہ نے پوچھا آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ کوئی خاص بات نہیں ہے ۔ جب انہوں نے بہت اصرار کیا تو میں نے پورا قصہ سنا دیا تو انہیں بہت تعجب ہوا اور انہوں نے کہا کہ میری زندگی کی قسم! علم دنیا وآخرت دونوں جگہوں میں نافع او رمفید ہوتا ہے، پھر امام صاحب کے حق میں رحمت ومغفرت کی دعا کی او رکہا کہ امام صاحب اپنی عقل کی آنکھ سے وہ کچھ دیکھ لیتے تھے جو ہم اپنی حقیقی آنکھ سے نہیں دیکھ پاتے ۔ (تاریخ بغداد ، ج14 ص:244)
طلحہ بن محمد جعفر کا مقولہ ہے کہ امام ابویوسف بہت ہی مشہور ومصروف، صاحب علم وفضل، امام صاحب کے شاگرد رشید او راپنے زمانہ کے سب سے بڑے فقیہ وعالم تھے ، فضل وکمال اور علم وحکمت میں ان سے بڑا کوئی بھی نہیں تھا ، سب سے پہلے انہوں نے ہی امام صاحب کے مسلک کے مطابق اصول الفقہ لکھی، مسائل کی نشرواشاعت کی اور پوری دنیا میں امام صاحب نے علم وفضل کو عام کر دیا ۔
عمار بن ابی مالک کہتے ہیں، امام کے شاگردوں میں امام ابویوسف کی طرح کوئی نہیں تھا ، اگر امام ابویوسف نہ ہوتے تو امام صاحب اور امام محمد کا کوئی ذکر و چرچہنہ ہوتا ، انہوں نے ہی ان دونوں کے اقوال کو پھیلایااور علم کو عا م کیا۔
امام صاحب کے شاگرد امام محمد بن الحسن فرماتے ہیں کہ امام صاحب کے زمانہ میں امام ابویوسف ایسا بیمار ہوئے کہ ان کے بارے میں اندیشہ ہونے لگا تو امام صاحب اور ہم لوگوں نے ان کی عیادت کی ، امام صاحب عیادت سے فارغ ہو کر جانے لگے توان کے گھر کے دروازہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرمایا، اس نوجوان کی موت ایک ایسے آدمی کی موت ہو گی جو روئے زمین کا سب سے بڑا عالم ہے۔ (تاریخ بغداد، ج14 ص:246)
امام ابویوسف فرماتے ہیں کہ اعمش نے کسی مسئلہ کے بارے میں مجھ سے پوچھا ،میں نے جواب دیا تو انہوں نے پوچھا کہ تم نے یہ بات کہاں سے کہی ؟ میں نے جواب دیا کہ آپ کی روایت کی ہوئی حدیث سے ، پھر وہ حدیث بیان کی ، تو انہوں نے کہا یعقوب !میں تمہاری پیدائش سے پہلے سے اس حدیث کا حافظ ہوں، لیکن اس کی تاویل آج سمجھ میں آئی۔ (تاریخ بغداد)
ہلال بن یحییٰ تاریخ الخطیب میں لکھتے ہیں کہ امام ابویوسف تفسیر، مغازی اور ایام عرب کے حافظ تھے، سارے علوم کے مقابلہ میں ان کا سب سے کم علم علم فقہ ہی تھا۔ (تاریخ الخطیب)
حماد بن ابی حنیفہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں امام ابوحنیفہ کے دائیں ابویوسف کو اور بائیں امام زفر کو کسی مسئلہ میں بحث ومباحثہ کرتے ہوئے دیکھا، دونوں ایک دوسرے کے قول کو دلائل وبراہین کی روشنی میں اداکر رہے تھے، یہی سلسلہ ظہر کی نماز تک جاری رہا، جب ظہر کی اذان ہوئی تو امام صاحب نے اپنا ہاتھ امام زفر کی ران پر مارا او رکہا کہ اس شہر میں ریاست کی امید نہ رکھو جس میں امام ابویوسف موجود ہوں۔ (تاریخ بغداد:247)
داؤد بن رشید سے مروی ہے کہ اگر امام اعظم کا امام ابویوسف کے علاوہ او رکوئی بھی شاگرد نہ ہو تا تب بھی ان کے فخر کے لیے امام ابویوسف کافی تھے، کیوں کہ میں نے علم کے ہر باب میں انہیں اس طرح بات کرتے ہوئے دیکھا گویا کہ وہ علم کلام، فقہ او رحدیث کے بحر بیکراں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ (مناقب ابی حنیفہ:410)
آپ بلاکے ذہین تھے اور آپ کا قوت حافظہ بڑا قوی تھا ،ابونجدہ سے مروی ہے کہ جب آپ نے رشید کے ساتھ حج کیا او رمدینہ منورہ تشریف لائے تو رشید نے کہا کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے آثار قدیمہ کو دیکھنا چاہتا ہوں، تو امام ابویوسف نے واقدی کورات میں بلوایا او رتاریخی مقامات کا مشاہدہ کیا،پھر صبح رشید او ردوسرے فقہا کے ساتھ سوار ہو کرزیارت کے لیے گئے او رکہنے لگے یہ فلاں تاریخی جگہ ہے ، اس جگہ کی یہ تاریخی اہمیت ہے۔واقدی کہتے ہیں کہ میں ان کے قوت حافظہ اور ذہانت پر حیران وششدررہ گیا کہ رات میں مجھ سے معلومات حاصل کی اور دن میں اس کو رائج کر دیا۔ (مناقب ابی حنیفہ:414)
امام ابو یوسف کے ملفوظات میں سے ہے: اس شخص کی صحبت جو عار سے نہیں ڈرتا ہے قیامت کے دن باعث عار ہوتی ہے۔
اصل نعمتیں تین ہیں:
نعمت اسلام جس کے بغیرکوئی نعمت مکمل نہیں ہوتی۔
نعمت عافیت جس کے بغیر زندگی پر لطف نہیں ہوتی۔
نعمت غنیٰ جس کے بغیر زندگی ادھوری رہتی ہے، علم اپنابعض حصہ اس وقت تک نہیں دے گا جب تک تم اسے اپنا پورا حصہ نہ دے دو، اگر تم اپنا پورا حصہ دو گے تو تم اس کے بعض حصہ کے حصول میں بھی خطرہ میں رہو گے۔ (مناقب ابی حنیفہ:404)
محمد بن سماعہ سے مروی ہے کہ وہ عہدہٴ قضا پر فائز ہونے کے بعد بھی روزانہ سو رکعت نفل پڑھا کرتے تھے ۔ (مناقب ابی حنیفہ:409)
آپ کی وفات6 ربیع الاول182ھ کو بغداد میں ہوئی۔

Flag Counter