Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

4 - 16
***
کاش ہم کو بھی ندامت کے یہ آنسو نصیب ہوتے
محترم شمس الحق ندوی
حضرت شاہ وصی رحمة الله علیہ نے اپنے ایک رسالہ میں حضرت عمر رضی الله عنہ کا، جو حاکم وقت ہیں، اپنی غلطی کا برملا اعتراف کرتے ہوئے خوف وخشیت خداوندی کے تصور سے رونے کا درج ذیل واقعہ ذکر فرمایا ہے :
حضرت عمر رضی الله عنہ ایک مرتبہ حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ کے ساتھ رات میں گشت لگا رہے تھے، ایک دروازہ کے سوراخ سے جھانکا تو ایک بوڑھے کو دیکھا،جس کے سامنے شراب تھی اور گانے والی لڑکیاں تھیں، پس یہ دونوں حضرات دیوار پھلانگ کر بڈھے کے پاس گئے اور فرمایا کہ تم جیسے بوڑھے کا اس حال پر ہونا کیا ہی برا ہے ؟! تو وہ بوڑھا کھڑا ہوا او رکہا اے امیر المومنین! آپ کو میں قسم دیتا ہوں کہ آپ میرے متعلق کوئی فیصلہ نہ فرمائیں یہاں تک کہ میں کلام کر لوں، حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ کہو کیا کہتے ہو ؟ بوڑھے نے کہا کہ اگر میں نے ایک امر میں الله تعالیٰ کی نافرمانی کی تو آپ نے تین باتوں میں معصیت کی ، حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا وہ کون کون ہیں ؟ اس نے کہا (پہلی بات یہ کہ ) آپ نے تجسس کیا اور اس سے الله تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے﴿ولا تجسسوا﴾ (حجرات:12)
(اور دوسری معصیت یہ کہ ) آپ گھر کے پیچھے سے کود کر گھر میں آئے، حالاں کہ الله تعالیٰ نے ارشا د فرمایا ہے کہ: ﴿واتوا البیوت من ابوابھا﴾․ (بقرہ:189)
( گھروں میں ان کے دروازے سے آؤ یعنی ان کے پیچھے سے نہ داخل ہو۔) اور الله تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: ﴿لیس البر بان تاتوا البیوت من ظھورھا﴾․ (بقرہ:189)
یعنی نیکی یہ نہیں ہے کہ گھروں میں ان کے پیچھے سے داخل ہو، (اور تیسری غلطی یہ کہ) بغیر اجازت کے آپ گھر میں تشریف لائے۔
حالاں کہ الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :﴿ لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا وتسلموا علی اھلھا﴾․(نور:27)
یعنی اپنے گھروں کے علاوہ گھروں میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ اجازت لے لو اور اہل خانہ کو سلام کر لو۔
حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم نے سچ کہا! پس کیا تم مجھ کو معاف کر دوگے؟ اس بوڑھے نے کہا الله تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے ۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ باہر تشریف لائے اس حال میں کہ آپ رو رہے تھے اور یہ فرمارہے تھے کہ ہلاکت ہے عمر کے لیے، اگر الله تعالیٰ نے مغفرت نہ فرمائی۔
اپنے کو مخاطب کرکے فرماتے تھے کہ ” تم جانتے ہو کہ آدمی ایسی حالت کو اپنے اہل وعیال سے بھی چھپانا چاہتا ہے اور یہ اب کہے گا کہ مجھ کو امیر المومنین نے دیکھ لیا“۔
ہم اپنے مضامین میں ، وعظ وتقریروں میں ایسے واقعات کا ذکر تو کرتے ہیں، مگر تاثر اور رونے کا ذکر نہیں کیا جاتا ، کیا بھی جاتا ہے تو وہ خود مضمون نگار اور مقرر کی زندگی میں کوئی جھر جھری نہیں پیدا کرتا، بلکہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ اگر ہماری اس طرح کی غلطی پر ٹوک دیا جائے یا کتاب یا کسی مضمون کی کسی غلطی کا تبصرہ میں ذکر کر دیا جائے تو ہم اعتراف قصور کے بجائے مزید غصہ او رجھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں او رپارہ اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ الٹے غلطی پر آگاہ کرنے والے پر برس پڑتے ہیں کہ تم ہم پر اعتراض کرتے ہو، ہم کو سبق پڑھاتے ہو ؟ کاش! ہمارے اندر خوف خدا اور یوم الحساب کا وہ شعور بیدار ہو جاتا، جس نے امیر المومنین کو رلادیا اور فرمارہے تھے کہ ہلاکت ہے عمر کے لیے اگر الله تعالیٰ نے مغفرت نہ فرمائی۔
اگر ہمارے اندر یہ بات ہوتی تو شاید امت کو اتنے برے دن نہ دیکھنے پڑتے، جن سے وہ آج دو چار ہے ، الله کے کچھ مخلص اور ربانی علما واولیا کو چھوڑ کر، جن سے دین وملت کا کچھ بھرم قائم ہے، ہم اپنے منصب سے بہت نیچے اترکر، بکاؤ مال بن گئے ہیں، جو چاہے اور جس عنوان سے چاہے ہماری بولی لگا سکتا ہے اور ہم بآسانی خریدے جاسکتے ہیں ، یہ سیاسی سطح پر بھی ہوتا ہے، شہرت وناموری اور نیتاگیری کی سطح پر بھی ہوتا ہے او راس بے تکلفی او ر بے باکی کے ساتھ ہوتا ہے، جیسے ہماری دینی وملی غیرت ہم سے سلب کر لی گئی ہو ، اقبال مرحوم نے کچھ اسی طرح کے حالات او ردین وملت کا سودا کرنے والوں سے متاثر ہو کر کہا تھا اور اس باخبری کے ساتھ کہا تھا کہ عرب اور اسلامی ممالک کا نقشہ بھی ان کے سامنے تھا #
تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الہ الا
لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی
جاہ طلبی اور سستی شہرت کی ہوس وحرص نے ہمارے بہت سے خواص کو اس سطح تک پہنچا دیا ہے جس سطح پر ہمارے بہت سے ان پڑھ اور سادہ دل ، دینی وایمانی غیرت رکھنے والے عام مسلمان بھی جانا پسند نہ کریں گے ، وہ اپنی بے راہ روی او رکمزوریوں کے باوجود اتنا نیچے اترنا گوارا نہیں کرسکتے، اقبال ہماری اسی دکھتی رگ اور حد سے زائد فکرِ معاش ، ناروا مصلحت بینی پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنے پر مجبور ہوئے #
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ہم اپنے اس زمانہ میں عزت وشہرت اور مال ودولت کے پجاریوں کو پے بہ پے پانی کے بلبلوں کی طرح پھٹتے اور گم نامی کے غار میں جاتے دیکھ رہے ہیں ، پھر بھی اس کی طرف بھوکوں کی طرح لپکتے اور دوڑتے ہیں اور اپنے اس دینی وملی کردار کو داغ دار کرتے ہیں جو دوسروں کے لیے قطب نما کا کام دیتا ہے، کچھ اسی طرح کے مشاہدات سے متاثر ہو کر اقبال نے کہا تھا #
تو مردِ میدان تو میرِ لشکر
نوری حضوری تیرے سپاہی
کچھ قدر اپنی تم نے نہ جانی
یہ بے سوادی یہ کم نگاہی
الله تعالیٰ ہی اپنے فضل سے ہماری اس حالتِ زار پر رحم فرمائیں اور اس آیت کریمہ کو وردزبان بنانے اور اس دن کے تصور وخیال سے کانپ جانے او راپنے مقام کو پہچاننے کی توفیق دیں۔
﴿واشرقت الارض بنور ربھا ووضع الکتاب وجيء بالنبیین والشھداء وقضی بینھم بالحق وھم لا یظلمون، ووفیت کل نفس ماعملت وھو اعلم بما یفعلون﴾․ (زمر:70-69)
”اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اٹھے گی اور ( اعمال کی) کتاب (کھول کر ) رکھ دی جائے گی اور پیغمبر(اور) گواہ حاضر کیے جائیں گے او ران میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور بے انصافی نہیں کی جائے گی او رجس شخص نے جو عمل کیا ہو گا اس کا پورا پورا بدلامل جائے گا اور جو کچھ یہ کرتے ہیں اس ( الله) کو سب کی خبر ہے۔“
ہم میں سے بہتوں کا حال یہ ہے کہ بعض اوقات مباحات کے استعمال میں احتیاط کرتے ہیں کہ یہ ہماری وضع کے خلاف ہے، لیکن بے تکلف ایک مسلمان کی پردہ دری کریں گے، فساد ذات البین اور تفریق بین المسلمین میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ، اس میں کوئی حرج نہیں کہ دو ذمہ داروں کو ایک دوسرے سے لڑا دیں۔ آگے کچھ لکھوں تو کیا لکھوں ، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے دردِدل اور خواص امت کی حالت زار پر جلن وکڑھن، کرب وبے کلی، جو گویا آنسو بن کر کاغذ پر ٹیک پڑی ہے، اسی کا خلاصہ نقل کرکے بات ختم کرتا ہوں ، فرماتے ہیں:
” جن چیزوں کی حرمت منصوص ہے ، مثلاً غیبت، چغل خوری، اتہام، دروغ بافی، او ر وہ ہماری مجلسوں میں دن رات ہو گی ، یہ کیا ہے ؟ یہ ظاہر داری خدا کے یہاں نہیں چلتی ، وہ عالم السرائر وعالم الغیب ہے، وہ ظاہر سے دھوکا نہیں کھاتا، مسلمان کی توہین اور عالم کی تذلیل حرام، بے تحقیق وبے ثبوت بات کہنا یاسن کر اس کو فوراً مان لینا اور اس کی اشاعت کرنا حرام۔“
”ہم ایک عرف دین کے پابند ہو گئے ہیں اور جو چیزیں ہمارے عرف میں ناپسندیدہ نہیں ہیں، ہم بے تکلف ان چیزوں کا ارتکاب کر لیتے ہیں، جن سے بعض وقت پوری امت کو نقصان پہنچتا ہے ، جن سے ایک متحد اور ہم مسلک جماعت میں سخت انتشار پیدا ہو جاتا ہے او را س سے ان تمام مقاصد اور مسلک کو نقصان پہنچتا ہے جن کی یہ جماعت حامل اور داعی او ران کی ایک علامت بن گئی ہے۔“

Flag Counter