Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

6 - 16
***
مجالس حکیم الامت
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع 
باہمی اتفاق تواضع سے پیدا ہوتا ہے
فرمایا کہ حضرت حاجی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اتفاق کی جڑ تواضع ہے ، دو متکبروں میں کبھی اتفاق نہیں ہوتا۔ کیوں کہ جب کسی شخص میں تواضع ہوتی ہے تو اس کو یہ کچھ مشکل نہیں معلوم ہوتا کہ اپنے آپ کو دوسرے کا تابع بنا دے اوراپنی رائے پر دوسرے کی رائے کے مقابلہ میں اصرار نہ کرے اور متکبر سے یہ کام کبھی نہیں ہوتا۔
ایک حدیث پر اشکال اور اس کا جواب
حدیث میں ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” مجھے یونس بن متی نبی پر فضیلت نہ دو۔“ مولانا فخر الحسن صاحب گنگوہی نے اپنے استاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے اس کے متعلق یہ سوال کیا کہ سب مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہمارے رسول صلی الله علیہ وسلم تمام انبیائے کرام سے افضل ،سب کے سردار، سب کے امام ہیں ، پھر اس حدیث میں حضرت یونس علیہ السلام پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت بیان کرنے کو کیوں منع فرمایا ہے؟یہ اشکال حدیث کے تمام شارحین نے نقل کیا او راپنے اپنے طرز کے مختلف 
جوابات دیے ہیں ۔
حضرت گنگوہی نے اصحاب ذوق کے انداز پر یہ جواب دیا کہ خود یہی حدیث آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی افضیلت کی دلیل ہے کہ اپنے کو افضل کہنے سے منع فرمایا، جو لوگ افضل ہوتے ہیں ،ان کا یہی طریق ہے۔
مولانا فخر الحسن صاحب کا اس جواب سے اطمینان نہ ہوا تو حضرت گنگوہی نے فرمایا کہ اچھا! یہ بتاؤ کہ تم مجھے اپنی نسبت سے کیسا سمجھتے ہو، مجھے اپنے سے افضل کہتے ہو یا نہیں ؟ سب نے کہا اس میں تو ذرا بھی شبہ کی گنجائش نہیں ، حضرت گنگوہی نے یہ سن کر فرمایا کہ اگر میں آپ سے کوئی بات قسم کھا کر کہوں تو آپ اس کو سچ سمجھو گے یا نہیں؟ سب نے کہاکہ بلاکسی شبہ اور تردد کے اس کو سچ سمجھیں گے۔
اس پر حضرت گنگوہی نے فرمایا کہ خدا کی قسم! میں تم میں سے ہر ایک کو اپنے سے افضل سمجھتا ہوں ۔ حضرت کی اس قسم پر سارا مجمع محو حیرت رہ گیا اور حضرت مجلس سے اُٹھ کر اپنے حجرے میں تشریف لے گئے۔
حضرت گنگوہی کا اپنے اوپر تنقید کرنے والوں کے ساتھ معاملہ
فرمایا کہ ایک معاملہ میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی نے ایک فتوی لکھا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے مشہور مرید امیر شاہ خاں صاحب نے اس پر کچھ اعتراض کیا اور لکھ کر ڈاک میں ڈال دیا۔ اس کے بعد خیال آیا کہ میں نے بے ادبی کی تو دوسرا خط معذرت او رمعافی کے لیے لکھا۔ حضرت گنگوہی نے جواب میں تحریر فرمایا کہ مجھے آپ کا پہلا خط ،جس میں اعتراض تھا، پسند آیا ،یہ دوسرا پسند نہیں آیا، کیوں کہ پہلے خط میں آپ نے جوکچھ لکھا وہ خالص دین کے لیے تھا اور مجھے یقین ہے کہ آپ کی نیت بے ادبی کرنے کی نہیں تھی، اس لیے ذرہ برابر ناگواری نہیں ہوئی ۔ بقول مولانا رومی #
گفتگوئے عاشقاں در کار رب
جوشش عشق است نے ترک ادب
اس کے برعکس ایسا ہی ایک واقعہ اور پیش آیا کہ جس شخص نے حضرت سے کوئی فتوی لیا تھا اس نے اس پر مناظرانہ انداز میں اعتراضات لکھ کر بھیجے۔ اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ” ہم نے اپنی معلومات کے مطابق آپ کو جواب لکھ دیا ہے ۔ اگر پسند نہیں تو جس عالم پر اعتماد ہواس سے رجوع کرو۔ ”فوق کل ذی علم علیم۔“
مثنوی رومی کا خلاصہ دو چیزیں ہیں 
توحید اور ضرورت شیخ
حضرت حاجی صاحب  نے فرمایا کہ میں نے جتنا مثنوی مولانا رومی کا مطالعہ کیا یہ ثابت ہوا کہ ساری مثنوی کا خلاصہ ایک توحید کو بیان کرنا ہے۔ دوسرے اصلاح نفس اور وصول الی الله کے لیے شیخ کامل کی ضرورت ہے۔
حضرت حکیم الامت کی کتب بینی
ارشاد فرمایا کہ مجھے کبھی زیادہ کتب بینی کا ذوق نہیں ہوا، کیوں کہ نفس علم کو مقصود نہیں سمجھا، عمل کے لیے جتنے علم کی ضرورت ہے اُس میں اپنے بزرگوں پر مکمل اعتماد واعتقاد تھا، جو کچھ قرآن وسنت کی تعبیر میں انہوں نے فرمایا تھا اس پر دل مطمئن تھا۔
ایک صاحب نے حضرت کی تصانیف جوایک ہزار کیقریب ہیں ، ان کا ذکر کرکے عرض کیا کہ آپ نے اتنی تصنیفات فرمائی ہیں تو ہزاروں کتابیں دیکھی ہوں گی؟ حضرت نے فرمایا کہ ہاں !چند کتابیں دیکھی ہیں جن کے نام یہ ہیں ۔ حاجی امداد الله، حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب  ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی۔ ان کتابوں نے مجھے سب دوسری کتابوں سے بے نیاز بنا دیا ۔ شاید ایسے ہی حضرات کے متعلق کسی کاشعر ہے #
وانت الکتاب المبین الذی
باحرفہ یظہر المضمر
توہی وہ واضح کتاب ہے جس کے حروف سے مخفی مضامین ظاہر ہو جاتے ہیں۔
نیت صحیح ہو تو عملی کوتاہیاں اکثر معاف ہو جاتی ہیں
فرمایا کہ حق تعالیٰ کی نظر انسان کے قلب اور اس کی نیت وارادہ پر ہوتی ہے، اگر وہ خالص الله کے لیے ہو مگر عمل میں کوتاہی ہو جائے تو وہ اکثر معاف ہو جاتی ہے ۔
مدارس دینیہ عربیہ کی خاص اہمیت
فرمایا کہ جوں جوں آزادی اور الحاد وبے دینی پھیلتی جاتی ہے اسی طرح میرے خیال میں مدارس دینیہ کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے کہ یہ منجانب الله ہے کہ مجھے مدرسہ دیوبند سے ایسی محبت اور تعلق بڑھ گیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا نہ تھا، اسی طرح دوسرے مدارس دینیہ کی بھی اہمیت دل میں بڑھ گئی ہے، یہاں تک کہ فنون عقلیہ، منطق، فلسفہ، ریاضی وغیرہ جو ان مدار س میں پڑھائے جاتے ہیں ، ان کو بھی مفید اور ضروریسمجھنے لگا۔ کیوں کہ موجودہ دہریت اور سائنس پر ستی کا علاج اس کے سوا نہیں کہ علماء خود ان فنون سے واقف ہوں، تاکہ تعلیم یافتہ لوگوں کے شبہات کا جواب ان کی نفسیات کے مطابق دے سکیں اور ان کی نظروں میں کم حیثیت نہ سمجھے جائیں ۔ یہ فنون خود کوئی دین نہیں، مگر ان سے دین کی خدمت بھی کی جاسکتی ہے ۔ حال میں ایک صاحب نے قرآن کریم کی دو آیتوں کے ظاہری تعارض کے متعلق مجھ سے سوال کیا تو ریاضی کی مدد سے ہی اس کا جواب دیا اور ان کی تسلی ہو گئی۔
سوال یہ تھا کہ قیامت کے دن کا طویل ہونا ایک آیت میں بقدر ایک ہزار سال کے آیا ہے، دوسری آیت میں خمسین الف سنہ یعنی پچاس ہزار سال کے برابر آیا ہے اور دونوں میں بڑا فرق ہے ۔ حضرت نے ریاضی کے اصول پر فرمایا کہ اس میں کیا بعد ہے کہ ایک افق کے اعتبار سے ایک ہزار سال کے برابر ہو اور دوسرے افق کے اعتبار سے پچاس ہزار سال کے برابر ہو۔ اس کی پوری تفصیل بیان القرآن میں لکھ دی گئی ہے ۔ ( ملفوظ19 شعبان،1348ھ)
عبادت کے اظہار او راخفا میں اعتدال
فرمایا کہ اپنی نفلی عبادات اور دینی کمالات کے اظہار جوعموماً نفس کے تقاضے سے ہوتا ہے اس کا مذموم ہونا تو سبھی جانتے ہیں بہت زیادہ اخفا کااہتمام بھی کچھ اچھا نہیں ،کیوں کہ اس میں بھی غیر الله کی طرف ایک گونہ التفات تو پایا جاتا ہے اگرچہ منفی انداز سے سہی ۔ محققین کا مذاق یہ ہے کہ اپنے کام سے کام رکھے، نہ اظہار کا قصد کرے نہ اخفا کا ۔ صوفیا کرام میں جو ایک فرقہ ملامتیہ کے نام سے معروف ہے درحقیقت اُن کا مقصد اخفائے اعمال کا اہتمام تھا ،نہ کہ ارتکاب معاصی کا ،عوارف میں ملامتیہ کی یہی تعریف لکھی ہے۔
خواب اور تعبیر خواب
ایک صاحب نے خط میں اپنا خواب لکھا تھا۔ حضرت  نے جواب میں تحریر فرمایا ۔ جاگنے کی باتیں لکھو، خوابوں کے پیچھے مت پڑو۔ پھر فرمایا اگر کوئی یہ شبہ کرے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تو خواب سننے اور تعبیر دینے کا اہتمام فرماتے تھے تو جواب یہ ہے کہ اب نہ ایسے خواب دیکھنے والے ہیں، نہ ایسے تعبیر دینے والے۔
کسی کو قبلہ کعبہ کہنا
حضرت سے سوال کیا گیا کہ لوگ اپنے بڑوں کو قبلہ کعبہ لکھتے ہیں ، یہ کیسا ہے؟ فرمایا کہ مجاز ہے، اس لیے کوئی حرج نہیں، مگر ترک اس کا اولیٰ ہے۔
سنت نبوی صلی الله علیہ وسلم پر عمل بلانیت وارادہ بھی ہوتوبرکت سے خالی نہیں
سوال کیا گیا کہ ایک شخص ایک کا م سنت کے مطابق کرتا ہے، مگر اس کو نہ اس کا سنت ہونا معلوم ہے نہ اس نے اتباع سنت کی نیت کی ہے تو کیاپھر بھی اس کو ثواب ملے گا۔ فرمایا کہ ثواب تو بغیر نیت کے نہیں ملے گا، مگر موافقت سنت کی برکت سے پھر بھی محروم نہ رہے گا۔
دل کے متعلق چند اشعار
حضرت شاہ ولی الله قدس سرہ کا ایک فارسی شعر ہے #
دلے دارم جواہر خانہ عشق است تحو یلش
کہ دارو زیر گردوں میر سامانے کہ من دارم
خواجہ عزیز الحسن صاحب  نے حضرت کی مجلس میں یہ شعر پیش کیا تو حضرت  نے بہت پسند فرمایا اور فرمایا کہ دل کے متعلق بزرگوں کے مختلف مذاق ہیں، قدوسی کے اشعار بھی اس بارہ میں خوب ہیں ۔
دارم دلے اما چہ دل صد گونہ حرماں در بغل
چشمے وخوں درآستیں اشکے وطوفاں در بغل
روز قیامت ہر کسے آید بد ستش نامہ
من نیز حاضر میشوم تصویر جاناں در بغل
اس کے آخری شعر کو حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب قدس سرہ تصرف کرکے اس طرح پڑھا کرتے تھے #
”من نیز حاضر میشوم تفسیر قرآں در بغل“
ارشاد
میں بے ادبی کو معاصی سے زیادہ مضر سمجھتا ہوں ۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ مشائخ اور علماء کی شان میں بے ادبی کرنے سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے، کیوں کہ اس کے عواقب او رنتائج بہت خطرناک ہیں
رشوت کی تعریف
فرمایا کہ رشوت کی جامع تعریف، جو تمام اقسام رشوت پر حاوی ہے، یہ ہے کہ کسی غیر متقوم چیز کاعوض لینا۔
طریق صوفیاء کی اصل
فرمایا کہ اس طریق میں اصل چیز صحبت شیخ او رمحبت شیخ ہے ۔ تعلیم وتلقین اس کے بغیر کا رگر نہیں ہوتی اور صحبت بلا تعلیم وتلقین کے بھی مفید ہوتی ہے ۔ پہلے بزرگوں کی عام عادت زیادہ تعلیم وتلقین کی نہ تھی، ان کی صحبت کی برکت ہی سے اصلاح ہو جاتی تھی ۔ غالباً حضرت مولانا محمد اسماعیل شہید نے منصب امامت میں لکھا ہے کہ بزرگوں کا فیض صحبت آفتاب کے مشابہ ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے، خواہ استفادہ کرنے والے کو اس کی خبر بھی نہ ہو اور قصد استفادہ کرے یا نہ کرے آفتاب کا فائدہ سب کو برابر ملتا ہے، اسی طرح خاص خاص بزرگوں کا فیض صحبت بھی ایسا ہی عام ہوتا ہے اور علامت ایسے بزرگوں کی یہ ہوتی ہے کہ ان کی وفات کے وقت عام قلوب میں ایک ظلمت وکدورت محسوس ہونے لگتی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کی تائید اس جملہ سے ہوتی ہے، جو صحابہ کرام نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات پر فرمایا تھا :” والله ما انفضنا ایدینا من التراب حتی انکرنا قلوبنا“․
یعنی خدا کی قسم ! ہم نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دفن کرنے کے بعد اپنے ہاتھ بھی مٹھی سے نہیں جھاڑے تھے کہ ہمارے قلوب میں تغیرمحسوس ہونے لگا۔
فرمایا مشائخ کی صحبت میں رہنے والا ہر وقت اُس سے نفع حاصل کرتا رہتا ہے، خواہ اس کو نفع کا احساس اور استحضار ہو یا نہ ہو۔
خرچ میں ضرورت او ربے ضرورت کا فرق
فرمایا کہ اگرکسی کام میں ایک ہزار روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت ہو او رمیرے پاس موجود بھی ہو تو قلب میں تقاضا ہوتا ہے کہ فوراً خرچ کردوں ۔ دیر لگنے سے الجھن ہوتی ہے اور جس جگہ ضرورت نہ ہو وہاں ایک پیسہ خرچ کرنے سے بھی گرانی ہوتی ہے ، اگر میرا ایک پیسہ کہیں گر جائے توکم از کم ایک دو منٹ تو اس کو ضرور تلاش کرتا ہوں کہ حق نعمت ہے۔ اسی کو لوگ مولویوں کی کنجوسی کہہ دیتے ہیں۔
اہل علم کی رسم پرستی کا شکوہ
ایک عالم کا لکھا ہوا ایک فتوی میرے پاس بغرض تصدیق آیا، مجھے اس میں شبہ اور اشکال نظر آیا، اس لیے میں نے دستخط نہ کیے ۔ پھر ایک مرتبہ میں نے اپناایک فتوی تصدیق کے لیے ان کے پاس بھیجا تو انہوں نے جواب دیاکہ حق تو یہ تھا کہ میں بھی تمہارے فتوے پر دستخط نہ کرتا، خالی واپس کر دیتا، جیسیتم نے میرے فتوے کے ساتھ معاملہ کیا تھا، مگر دستخط کیے دیتا ہوں ۔
حضرت نے فرمایا کہ افسوس اہل علم کا یہ حال ہو گیا کہ فتوؤں میں بھی نوتہ کی رسم جاری کرنا چاہتے ہیں۔ پھر بطور مزاح فرمایا مگر ہم تو نا نوتہ کے قائل ہیں، ہمیں نو تہ سے کیا کام؟
کسی شخص سے عوام کے اعتقاد یا بغض وعدوات کا درجہ
فرمایاایسے عوام ،جن کو کسی شخص سے نہ کوئی ایذاء وعداوت کا واسطہ پڑا، نہ احسان وعقیدت کا، بلکہ وہ بالکل خالی الذہن ہیں، ایسے لوگ اس کو بکثرت اچھا سمجھیں تو یہ علامت مقبولیت عندالله کی ہے اور یہی معنی ہیں حدیث انتم شہداء الله کے، ورنہ مطلق عوام کی عداوت تو انبیاء واولیاء کے ساتھ معروف ومشہور ہے۔
نماز میں خشوع وخضوع
لاہور سے کسی صاحب نے بذریعہ خط نماز میں خشوع وخضوع حاصل کرنے کا مفہوم او راس کا طریقہ دریافت کیا تھا ،حضرت نے جواب میں فرمایا خشوع کے معنی ہیں سکون اور سکون مقابل ہے حرکت کا اور حرکت سے مراد حرکت فکریہ ہے تو خشوع کا حاصل سکون فکری ہوا اور فکر فعل اختیاری ہے تو خشوع بھی فعل اختیاری ہوا۔ یعنی اپنے ارادے سے حدیث النفس کوذہن میں حاضر نہ کرنا۔ اس سے حقیقت بھی معلوم ہو گئی اور طریقہ بھی۔

Flag Counter