Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

5 - 16
***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
حرام آمدنی والے شخص کا ہدیہ لینا اور مال حرام سے قرض وصول کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علما کرام اور مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں:
الف: بینک ملازم سے ہدیہ قبول کرنا کیسا ہے؟ ٹی وی ریپئر کا ہدیہ قبول کرنا کیسا ہے۔
ب: اگر یہ افراد کسی سے رقم قرض لے کر اس مال سے ہدیہ دیں تو کیسا ہے ؟
ج: اگر یہ افراد کسی دکان دار سے ادھار مال خریدتے ہوں مثلاً کریانہ کی دکان سو دا سلف خریدتے ہوں اور مہینے بعد پیسے دیتے ہوں تو اس ادھار خریدے ہوئے مال میں سے یہ ہدیہ دیں تو قبول کرنا کیسا ہے؟
د: جس بندے نے ان کو قرض دیا اس کو واپسی اسی حرام مال میں سے ہو گی تو کیا اس میں کوئی قباحت تو نہیں؟ یعنی قرض واپس وصول کرنے والے کے لیے اس مال سے واپس لینے میں کوئی قباحت تو نہیں۔
جواب… الف، ب، ج۔ حرام آمدنی والے شخص سے ہدیہ یا تحفہ لینے یا اس کی دعوت کھانے کے بارے میں کئی صورتیں ہو سکتی ہیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
اس شخص کی آمدنی خالص حرام ہو اور اسی حرام کمائی سے ہدیہ دے یا دعوت کھلائے۔
وہ حرام آمدنی سے ہدیہ دینے یا دعوت کھلانے کے بجائے ، کسی دوسرے شخص سے حلال قرض لے کر ہدیہ دے یا دعوت کھلائے۔
اس شخص کی آمدنی حلال بھی ہو او رحرام بھی ، لیکن دونوں آپس میں ایسی مخلوط ہو کہ ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہو، البتہ حلال آمدنی زیادہ ہے اور حرام کم۔
دونوں قسم کی آمدنی ہو اور غیر ممتاز طور پر مخلوط ہو ، لیکن بیشتر آمدنی حرام کی ہو۔
ان چارصورتوں میں سے دوسری اور تیسری صورت میں ایسے شخص کا ہدیہ اور دعوت قبول کرنا جائز ہے، لیکن تیسری صورت میں احتیاط اسی میں ہے کہ ہدیہ اور دعوت قبول نہ کیا جائے جب کہ پہلی اور چوتھی صورت میں ایسے شخص کی دعوت کھانا یا ہدیہ قبول کرناجائز نہیں۔
د۔ اگر قرض وصول کرنے والے (دائن) کو یہ معلوم ہو کہ مدیون کے پاس جو حرام مال ہے، وہ اصل مالک کی رضا اور شریعت کی اجازت کے بغیر حاصل کیا گیا ہے مثلاً چوری ، غصب، ڈکیتی وغیرہ سے حاصل کیا گیا ہے، تو ایسی صورت میں دائن کے لیے مال سے قرض وصول کرنا اور نفع اٹھانا جائز نہیں۔
اور اگر اصل مالک کی رضا سے تو حاصل کیا گیا ہو، لیکن شریعت کی اجازت کے بغیر یعنی غیر مشروط طریقہ سے حاصل کیا گیا ہو ، جیسے سود، قمار، جوا وغیرہ تو اگر اس صورت میں مالک متعین نہ ہو، تو اس مالِ حرام سے قرض وصول کرنا اور نفع اٹھانا مکروہ ہے۔
زندگی میں جائیداد تقسیم کرنا
سوال… ہمارے علاقے میں یہ رواج ہے کہ جب کوئی آدمی اپنی اولاد میں زمین وجائیداد تقسیم کرتا ہے تو بیٹوں کو برابر برابر حصے دیتا ہے اورایک حصہ اپنے لیے چھوڑتا ہے جب وہ خود مر جائے تو اس کا وہ حصہ بھی بیٹوں کے درمیان تقسیم ہوتا ہے اور بیٹیوں کو بالکل حصہ نہیں دیتا، نہ والد کی زندگی میں اور نہ وفات کے بعد۔
دوسرا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ والد کی زندگی کے دوران ان کے بیٹوں میں سے کوئی وفات ہو جائے تو تقسیم کے وقت جیسے حصے دوسرے بیٹوں کو ملتے ہیں ایسا ہی ایک حصہ اس فوت شدہ بیٹے کے بیٹوں ( یعنی صاحب جائیداد کے پوتوں) کو بھی ملتا ہے۔
کیا شرعاً ان کو یہ حصہ دینا جائز ہے جب کہ صاحب جائیداد کے بیٹے موجود ہوں۔
تیسرا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ جب کسی آدمی کے بیٹے موجود ہوں اور دوسری شادی کرے اب اس دوسری عورت سے بھی بچے پیدا ہوتے ہیں تو پہلی بیوی کے بیٹے جلدی جلدی والد سے جائیداد تقسیم کرواتے ہیں تاکہ سوتیلے بھائی تقسیم میں شریک نہ ہو سکیں۔
بعد میں بھی والد کے مرنے کے بعد اس کا حصہ دوسری بیوی کے بیٹوں کو ملتا ہے تو کیا یہ تقسیم صحیح ہے ؟ اگر صحیح نہیں ہے تو صحیح طریقہٴ تقسیم کیا ہو گا؟
جواب…اگر کوئی شخص اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد کو اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہے تو اس کے لیے بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر حصہ دینا مستحب ہے اور اولاد میں سے بعض کو ضرر پہنچانے کے لیے بعض کوزیادہ حصہ دینا یا تمام مال بعض کو دے کر دوسروں کو محروم کر دینا ناجائز ہے ۔ اس کے علاوہ بیٹیوں کو میراث سے محروم کرنا سراسر ناجائز اور بے انصافی ہے۔
میت کے بیٹوں کی موجودگی میں اس کے پوتے میراث کے حق دار نہیں ہوں گے۔
سوتیلے بھائیوں کو والد کی جائیداد سے محروم کرکے تمام جائیداد کو آپس میں تقسیم کر لینا جائز نہیں، جائیداد کی تقسیم کا درست طریقہ یہ ہے کہ اگر والد اپنی زندگی میں تقسیم کرے تو تمام اولاد کو برابر حصہ دے جیسا کہ اوپر ذکر کر دیا گیا او راگر والد کی موت کے بعد جائیداد کو تقسیم کیا جائے تو شرعی حصوں کے مطابق تمام وارثوں کو ان کا حق دیا جائے۔
گناہ سے توبہ کرنے کے بعد اس گناہ کے مرتکب کو عار دلانا
سوال… کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ہذا میں کہ زید نے گناہ کا خفیةً ارتکاب کیا ، عمر اس گناہ پر مطلع ہوا،اب عمر اس کا مذاق اڑاتا ہے اور لوگوں کی درمیان زید کی تذلیل کرتا ہے ، تو کیا زید پر مظلوم ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے ، یا نہیں؟
جواب… زید جب اپنے گناہ سے توبہ کر چکا ہے تواب کسی کے لیے زید کا مذاق اڑانا اور لوگوں میں ذلیل کرنا جائز نہیں ہے ، زید یقینا اس بارے میں مظلوم ہے۔
ایسے شخص کے بارے میں ”جو مسلمانوں کی آبرو ریزی کرے“ بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اس لیے عمر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے توبہ کرے اور زید سے معافی مانگے۔
حدیث پاک میں ہے کہ جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کو اس کے ایسے گناہ پر عار دلائی جس سے وہ توبہ کرچکا ہو تو مرنے سے پہلے پہلے اس گناہ کے اندر خود مبتلا ہو جائے گا۔
اولاد کے فاسق فاجر ہونے کی صورت میں اپنی جائیداد کو وقف کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی شخص کی اولاد نا فرمان، بد زبان، بدکردار اور احکام شرعیہ کی پابندی نہ کرنے والی ہو اور علمائے کرام کو برا بھلا کہنی والی ہو ، والد کو گالیاں دینے والی والدکے مکان میں ہی وہ رہی ہو اور نیچے کی منزل کا تقریباً 20 ہزار روپے کرایہ وصول کر رہی ہو اور والد کو ایک وقت کا کھانا بھی کھانے کو نہ دیتی ہو کیا ایسی اولاد یعنی ورثہ روز محشر والد سے اپنی وراثت کا سوال کر سکے گی؟ اگر والد اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کسی فلاحی ادارے یا مدرسے کو وقف کر دے تو ایسی صورت حال میں والد کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب… حق وراثت الله تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس حق سے کس کو محروم نہیں کیا جاسکتا، البتہ جہاں کوئی شرعی مانع موجود ہوتو پھر وہ جائیداد سے محروم ہو گی ، جب کہ آپ کے ذکر کردہ سوال میں کوئی ایسا مانع نہیں جس کی وجہ سے اولاد کو حق وراثت سے محروم کیا جاسکے، ہاں اگر واقعةً آپ کی اولاد فاسق فاجر ہے،جن کی نسبت یہ گمان غالب ہے کہ اگر ان کے ہاتھ مال آئے گا تو وہ معصیت میں صرف کریں گے تو ایسی صورت میں اگر آپ اپنا سارا مال صحت اور تندرستی کی حالت میں وقف یا کسی کو بطور تحفہ دینا چاہیں تو آپ کے لیے جائز ہے، لیکن مرض الموت ( وہ بیماری جس میں موت واقع ہو جائے ) میں آپ کا کوئی بھی تصرف صرف ایک تہائی مال میں نافذ ہو سکتا ہے، اس سے زیادہ میں نہیں۔
فلاحی ادارے کا زکوٰة وصدقات کی رقم لینا
سوال… کیا فرماتے ہیں علما ئے دین اس بارے میں کہ ہم نے ایک فلاحی ادارہ کھولا ہے جو غریبوں یتیموں او ربیواؤں کی کفالت کرتا ہے، دواؤں اور راشن کی صورت میں، کیا ہمارا اس ادارے کے لیے لوگوں سے زکوٰة ، صدقات اور عطیات لینا جائز ہے؟
مزید یہ بھی بتا دیجیے کہ ہم کس رقم کو کون سی مد میں خرچ کر سکتے ہیں؟ تعین فرما دیجیے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دے کر رہ نمائی فرما دیجیے۔
جواب…زکوٰة ایک اہم مالی عبادت ہے او را سکے ہر ہر پہلو میں احتیاط کی بہت سخت ضرورت ہے ، لہٰذا اگر فلاحی ادارے کے منتظمین اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ صحیح مستحقین تک امداد مکمل دیانت داری اور ذمہ داری سے پہنچائی جائے اور ان فقراء ومساکین (مستحقین زکوٰة) کی طرف سے وکیل بن کر زکوٰة وصدقات کی رقم لیتے ہیں تو یہ لینا جائز ہے، پھر اس کے بعد کسی بھی رقم سے دوائیں ، راشن اور اس قسم کی دیگر ضرورت کی اشیاء لے کر مستحقین کو دے سکتے ہیں کسی قسم کی رقم کو کسی مد کے ساتھ خاص کرنے کی ضرورت نہیں ۔
البتہ اس بات کا خوب خیال ہو کہ رقم غیر مصرف میں استعمال نہ ہو او رمستحقین کی امداد کسی غیر مستحق کو نہ ملے تاکہ زکوٰة دینے والے کی زکوٰة کی ادائیگی میں کسی قسم کا نقص نہ آئے۔

Flag Counter