Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شوال المکرم 1430ھ

ہ رسالہ

14 - 16
***
ذکر سے انسان کو کیا فائدہ ہوتا ہے
محترم ابوعبدالله حارث بن سد محاسبی
امام ابن القیم جوزیہ نے اپنی کتاب”الوابل الصیب من الکلم الطیب“ میں ذکرکے فوائد کو ایک ایک کرکے بڑے اچھے طریقہ سے بیان کیا ہے، جو ( درحقیقت ) ذکر کے بارے میں ایک نہایت جامع ومبسوط بیان ہے، جس ( کے مطالعہ) سے ذاکرین اور ذکر سے غفلت برتنے والے دونوں قسم کے لوگ ذکر سے محبت کرنے لگیں گے اور ذکر ان کا محبوب مشغلہ بن جائے گا انہوں نے ہر ہر فائدہ کو دلیل وتوجیہ کے ساتھ بیان کیا ہے ، ہم ان تمام فوائد کوجن کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے ،بیان کرتے ہیں۔ توجہ سے پڑھیے، تاکہ آپ بھی بہت زیادہ ذکر کرنے والے مردوں اور عورتوں میں شامل ہو جائیں۔
آپ فرماتے ہیں : الله تعالیٰ کے ذکر میں ایک سو سے زائد فائدے ہیں ، ذکر الله تعالیٰ کو خوش کرتا ہے، شیطان کو بھگاتا ہے، غموں سے نجات دلاتا ہے، خوشی کا سبب ہے۔ قلب وبدن کو تقویت بخشتا ہے، دل اور چہرے کی نورانیت اس سے پیدا ہوتی ہے ۔ رزق میں فراوانی لاتا ہے ۔ رعب ودبدبہ اور (ایمانی) حلاوت اس سے حاصل ہوتی ہے ۔ دل میں الله تعالیٰ کی محبت میں اضافے کا سبب ہے، جو کہ اسلام کی روح اور اصل ہے ۔ حق تعالیٰ کی معرفت، ان کی طرف جھکاؤ اور قرب حاصل ہوتا ہے۔ دل کی زندگی اسی سے ہے۔ نیز یہ الله تعالیٰ کے بندہ کو یاد کرنے کا سبب بھی ہے۔
ذکر دل او رروح کی غذا ہے، دل کا درد وغم اس سے ہلکا ہوتا ہے، گناہ معاف اور درجات بلند ہوتے ہیں، انسیت پیدا ہوتی ہے اور وحشت کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ ذکر الله تعالیٰ کی عنایات کا مرجع ہے اور ذکر اس کے لیے الله تعالیٰ کے عذاب سے نجات کا باعث ہے ۔ الله تعالیٰ کی طرف سے سکینہ (تسلی) کے نزول ، رحمت کے عموم، ذاکر کو ملائکہ کا محیط ہونے جیسی نعمتوں کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ ذاکر نقصان دہ کلام سے مامون رہتا ہے ، اس کاشمار نیک بخت لوگوں میں او را س کا ہم نشین بھی خوش بختی سے ہم کنار ہوتا ہے، جب کہ ذکر ذاکر کو قیامت کے روز ندامت وحسرت سے محفوظ کر دے گا اور اگر ذکر میں بکا ( رونا) بھی ہو تو یہ ذاکر کے لیے الله تعالیٰ کا سایہ ہے ،ا سے الله تعالیٰ کے مختلف قسم کے انعامات ودرجات ملتے ہیں۔
ذکر تمام عبادات میں سب سے آسان اور سب سے افضل ہے ، یہ جنت کی کھیتی ہے، بندہ اپنے رب کو نہیں بھول پاتا، ذکر تمام اوقات واحوال میں ہو سکتا ہے ۔ طاعات میں اس جیسی کوئی طاعت نہیں ، یہ بندے کے لیے دنیا، قبر وحشر میں روشنی ہے۔ اس کے وسیلہ سے بندہ کے اقوال واعمال نورانی بن جاتے ہیں۔ یہ ولایت وطریق ولایت کا منبع وچشمہ فیاض ہے، یہ دل کے فقر کو دور، اس کے ہموم وغموم کو منتشر اور غفلت سے بیدار کرتا ہے ۔ قسمہا قسم کے معارف واحوال عالیہ سے نوازتا ہے۔ ذاکر مذکور (الله) سے قریب او رالله اس کے ساتھ ہوتا ہے، الله تعالیٰ کو اپنی تمام مخلوق سے عزیز وہ ہے جس کی زبان اس کے ذکر سے تروتازہ رہے۔
دل کی سختی کو دور اور الله کی نعمتوں کو کھینچ لاتا ہے۔ ذکر الله تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ ہے۔ ذاکر کے لیے الله تعالیٰ کی رحمت اور فرشتوں کی دعا کا سبب ہے ۔ ذکر کی مجالس گویا کہ فرشتوں کی مجالس او رجنت کے باغیچے ہیں۔ تمام کے تمام اعمال الله کے ذکر ہی کے لیے لازم کیے گئے او راعمال میں سب سے بلند درجے کا عمل وہ ہے جس میں ذکر کا حصہ زیادہ ہے ۔ ذکر پر مداومت بہت سی عبادات بدنیہ ومالیہ ومرکبہ کے قائم مقام ہے۔
ذکر الله تعالیٰ کی اطاعت پر مدد گار، ہر مشکل کو آسان او رتمام امور کو سہل کرنے والا ہے ، ذاکر کو قوت قلب وبدن کی نعمت سے مالا مال کر دیتا ہے۔ ذکر کرنے والے آخرت کے میدانوں میں سب سے سبقت کرنے والے ہیں۔ یہ ذکر ہی ہے کہ جو بندے اور آگ کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے۔
فرشتے ذاکر کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔ زمین کے قطعات اور پہاڑ (جن پر ذکر کیا جائے دوسرے حصوں کے مقابلہ میں ) ذاکر پر فخر ومباہات کرتے ہیں اور اس کے لیے گواہ ہیں ۔ جب کہ ذکر نفاق سے برأت کا پروانہ ہے۔
” ذکر الله“ میں الله تعالیٰ کے تمام اسماء وصفات اور الله تعالیٰ کی حمد وتعریف اور نالائق باتوں سے تنزیہ وتقدیس ( پاکی) اس کے احکام کی تبلیغ، اس کی مامورات ( حکم کردہ احکام) ومنہیات ( ممنوعہ احکام) کا تذکرہ سب ہی شامل ہیں۔ ذکر دل وزبان دونوں سے ہوتا ہے ،یہ اس کا کامل درجہ ہے، اس کے بعد وہ ذکر کہ جو صرف دل سے ہو ، پھر وہ ذکر کہ جو صرف زبان سے ہو، ذکر کی سب سے اعلیٰ قسم قرآن پاک کی تلاوت، پھر الله تعالیٰ کا ذکر وتعریف اور پھر دعا ہے۔ انتہی کلام ابن القیم۔
ذکر کی انواع کثیرہ
حافظ ابن حجر فتح الباری23/14 میں حدیث مبارکہ:”یعقدُ الشیطان علی قافیة رأس أحدکم إذا ھو نام ثلاث عُقَد… فإن استیقظ فذکر الله انحلت عقدة…“ ” جب تم میں سے کوئی سوتا ہے تو شیطان اس کے سر پر تین گرہیں لگا دیتا ہے … پھر اگر وہ بیدار ہو کر الله کے ذکر میں مشغول ہو جاتا ہے تو وہ گرہیں کھل جاتی ہیں “ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ذکر کے لیے کوئی مخصوص الفاظ ایسے نہیں ہیں کہ ان کے بغیر ذکر نہ ہو سکے، بلکہ ہر وہ کلمات وکلام جس پر ”ذکر الله“ بولا جاتا ہے کافی ہے ، خصوصاً الله تعالیٰ کے ذکر میں ” تلاوت قرآن، حدیث نبوی کی قرأت اور علوم شرعیہ سے اشتغال“ سب شامل ہیں۔ انتہی کلام الحافظ۔
امام ابن تیمیہ رحمة الله تعالیٰ کے ہاں ذکر کی قوت وبرکت
شیخ ابن القیم رحمہ الله تعالیٰ اپنی مذکورہ کتاب صفحہ108 پر ”ذکر کے فوائد“ سے بحث کرتے ہوئے اور گنواتے ہوئے فرماتے ہیں : ذکر کا 61 واں فائدہ یہ ہے کہ ذکر ، ذاکر کو قوت وتوانائی بخشتا ہے، حتی کہ ذکر کرنے والا انسان ذکر کرتے ہوئے ایسے کام انجام دیتا ہے کہ جو وہ بغیر ذکر کے انجام نہیں دے سکتا۔ بلکہ ان کا گمان بھی نہیں ہو سکتا، میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله تعالیٰ میں ان کی عادات، کلام، کسی کام کے انجام دینے اور تصانیف کے لکھنے میں ، عجیب قسم کی قوت وطاقت کا مشاہدہ کیا ہے ۔ وہ ایک دن میں تصنیف کے دوران اتنا لکھ لیتے کہ ایک کاتب اس کے لکھنے میں ایک ہفتہ لے اور لشکر نے تو دوران جنگ ان کی بہت عظیم قوت کا مشاہدہ کیا ہے۔
قلب کے لیے ذکر ایسا ہے جیسا مچھلی کے لیے پانی
نیز صفحہ59,58 پر فرماتے ہیں: میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ قدس روحہ سے سنا، آپ فرماتے تھے: ذکر دل کے لیے ایسا ہی ہے جیساکہ مچھلی کے لیے پانی ، تو مچھلی کا کیا حال ہوتا ہے جب کہ پانی سے نکل آئے؟
ابن تیمیہ کی غذا ذکر سے 
میں ایک مرتبہ ان کے ہاں موجود تھا، آپ نے فجر کی نماز ادا کی تو وہیں ذکر میں مصروف ہوئے اور قریباً نصف دن تک مشغول رہے۔ پھرمیری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہ میرا ناشتہ ہے او راگر میں یہ ناشتہ نہ کروں تو میری طاقت وقوت جاتی رہے۔ یہ ، یا اس طرح کی بات ارشاد فرمائی۔ نیز ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا میں کبھی ذکر کو نہیں چھوڑتا، ہاں! مگر یہ کہ کبھی راحت ودلجمعی کی خاطر ترک کر دیتا ہوں، تاکہ اس راحت سے میں دوسرے وقت ذکر کے لیے مزید مستعد ہو جاؤں۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ذکر کی اقسام
شیخ ابن القیم اپنی کتاب” زاد المعاد“ ”فصل فی ھدیہ فی الذکر“37/2 پر فرماتے ہیں : نبی کریم صلی الله علیہ وسلم الله کا ذکر کرنے میں تمام مخلوق سے کامل ومکمل تھے۔ بلکہ آپ کا تو نراہی کلام ذکر او راس کے متعلقات میں ہوتا، آپ کا اپنی امت کو کسی کام کا حکم دینا ، روکنا، مسائل بتلانا یہ سب الله تعالیٰ کا ذکر ہی تو ہے ۔ اسی طرح آپ کا الله تعالیٰ کے ناموں ، آپ کی صفات ، احکام، افعال، وعدے، وعیدیں بتلانا بھی تو ذکر ہی تھا، اسی طرح الله تعالیٰ کی حمد ، نعمتوں پر شکر، اس کی بزرگی ، تعریف وپاکی بھی تو اس کا ذکر ہے۔ اسی طرح الله تعالیٰ سے مانگنا، پکارنا،رغبت دلانا، ڈرانا، بھی ذکر ہے ۔ اور آپ کا سکوت بھی ذکر قلبی میں شامل ہے۔
تو گویا آپ ہر وقت، ہر حالت اور ہر سانس میں ذکر فرماتے ، کھڑے، بیٹھے، لیٹے، چلتے، سواری فرماتے ، اس پر چلنے، اترنے، سفر کرنے اور ٹھہرنے میں بھی ۔ 
ذکر مشروع وذکر ممنوع کا بیان
الله تعالیٰ کا ذکر سراً ہو یا جہراً ،اکیلے میں یامجلس میں، ہرایک کے لیے کچھ شرائط وآداب ہیں، لیکن بعض لوگ جو مخصوص قسم کی حرکات، طرب آمیز گنگناہٹ، اچھل کود، پھیلاؤ وسمٹاؤ، آگے پیچھے جھکنے ، کھینچا تانی، مجلس میں حلقے لگا کر ، ہتھیلیوں کے ساتھ پاؤں جھکا کر اور آوازیں نکال کر ، ذکر کرتے ہیں سلیم الفطرت لوگ اس سے انکاری اور متواضع دل اس سے بری ہے (حقیقت یہ ہے کہ ) اس طرح سے ذکر کرنے والے کے دل میں خشوع وخضوع ہوتا تو لازماً اس کے اعضا وجوارح میں سکون وٹھہراؤ ہوتا، جیسا کہ جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن المسیب نے فرمایا ہے۔
اس سے بڑھ کر قابل نفریں،وانکار بات یہ ہے کہ یہ لوگ ابتداءً الله تعالیٰ کا نام سکون واطمینان سے مجلس میں بیٹھ کر لیتے ہیں پھر اس میں رفتہ رفتہ تیزی کے ساتھ ساتھ اچھل کود کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے، پھر سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں؟ بس ان کے منھ سے محض آوازوں کا شور سنائی دیتا ہے ،جو گھٹتا بڑھتا ہے اور پھولا ہوا سانس جو چڑھتا اترتا محسوس ہوتا ہے۔
جانوروں کی سی گلو گرفتہ اصوات (آوازیں) جو پھرتی اور حرکات ہر لحظہ بڑھنے لگتی ہیں او رما بدولت اس کو ”ذکر الله“ کا نام دیتے ہیں ”إنا الله وإنا الیہ راجعون“ یہ الله تعالیٰ کی کس قدر بے ادبی ہے۔
امام احمد ٰ کی قرآن پاک سُر لگا کر پڑھنے سے ممانعت
ایک آدمی امام احمد رحمہ الله تعالیٰ کے پاس آیا او رآپ سے قرآن پاک کو سر لگا کر پڑھنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے اس کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ اس آدمی نے وجہ دریافت کی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے بتلایا:”محمد“ تو حضرت نے فرمایا کہ کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہارے نام میں سُر لگاتے ہوئے ” محمد“ کے بجائے ” موحامد“ کہوں؟ ( فتح القدیر173/1 ،باب الاذان)
تو ذکر، مذکور یعنی الله تعالیٰ کی عظمت، آپ کے نام کے عزت وتوقیر، کبریائی وبڑائی پر دلالت کرتا ہے۔
البتہ اس میں شبہ نہیں کہ اکثر لوگ مذکورہ طریقہ سے ذکر کرتے ہیں، کیوں کہ وہ لوگ دین کی سمجھ اور رب العالمین کے ادب میں عامی لوگوں کی طرح ہیں ، (جن کا اعتبار نہیں کیا جاتا) اس امر کا خیال کرنا چاہیے کہ وہ لوگ جس سرکو اپنے نام میں برداشت نہیں کرسکتے الله تعالیٰ کے نام میں ایسا کیوں کرتے ہیں۔
ایسی حرکات وافعال سلف صالحین وزمانہ خیر القرون سے بالکلیہ منقول نہیں ہیں او را سباب میں جو عذر بیان کیا جاتا ہے کہ دل کو دوسرے خیالات سے بچانے اور صرف الله تعالیٰ کی طرف لگانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے، یہ بات بالکل قابل انکار ورد ہے۔ سلف صالحین ہم سے بڑھ کر قلب وفکر کی خیالات فاضلہ سے حفاظت اور الله تعالیٰ کی طرف دل لگانے والے تھے، لیکن ان حضرات نے ایسے افعال پر شدید نکیر فرمائی ہے، جب کہ وہی لوگ دین میں مقتدیٰ ، مرجع وامام ہیں، اس باب میں ہم ان کا کچھ کلام نقل کرتے ہیں۔
ذکر غیر مشروع میں امام شاطبی کی تصریح
مشہور اصولی، فقیہ، صوفی، صاحب نظر ، امام ابواسحاق شاطبی غرناطی اپنی کتاب ”الاعتصام“ باب رابع کی آخری فصل میں ذکر ممنوع ومذموم شرعی کے تذکرہ میں بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یہ لوگ صراط مستقیم سے ہٹ چکے ہیں، یہ لوگ اکٹھے ہوتے ہیں، پھر ان میں کاایک قرآن پاک کی تلاوت اچھی آواز سے سر لگا کر گنگنا کر کرتاہے، جس سے اس کی تلاوت گانے کے مشابہ ہو جاتی ہے اور دوسرے قسم کے لوگ وہ ہیں کہ جو بیک وقت ہم آواز ہو کر گانے کی طرح ذکر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ ذکر مستحب کی مجالس ہیں، حالاں کہ وہ جھوٹے ہیں، اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو سلف صالحین سے لازماً یہ منقول ہوتا اور وہ لوگ حق سمجھ کر اسی پر عمل کرتے۔ انتہی کلام الشاطبی
امام بخار ی رحمہ الله تعالیٰ صحیح بخاری، کتاب العیدین ”باب سنة العیدین لاھل الاسلام“ میں حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں، آپ فرماتی ہیں : میرے پاس حضرت ابوبکر تشریف لائے اور دو بچیاں انصار میں سے میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں اور انصار کے اشعار جنگ ”بعاث“ کے دن والے گا رہی تھیں، لیکن وہ پیشہ ور مغنیہ نہیں تھیں ۔ اس پر علامہ (طاہر) پٹنی مجمع بحار الانوار42/3 پر فرماتے ہیں: صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کے ہاں عرب کے طرز پر محض شعر اور حدی (اونٹوں کو تیز چلانے کے لیے اشعار) پڑھنے کی اجازت تھی۔
ذکر غیر مشروع سے حافظ ابن حجر کی ممانعت
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں : محدث کبیر ابوالعباس احمد بن عمر قرطبی( مصنف تفسیر قرطبی) حضرت عائشہ کا قول ( مذکورہ حدیث ) میں کہ ” وہ پیشہ ور گانے والیاں نہیں تھیں “ کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی وہ لڑکیاں پیشہ ور گانے گانے والی عورتوں کی طرح غناء سے واقف نہ تھیں اور نہ انہوں نے سیکھا ہوا تھا۔ اور یہ حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا کا مبنی بر احتیاط جملہ ہے کہ جس طرح گوئیے بعض حرکات کو کھینچتے ہیں، بعض کو ساکن کرتے ہیں، بعض حروف کو بڑھا لیتے ہیں، وہ ایسی نہیں تھیں۔ اس قسم کے اشعار کو پڑھنا اگر ان میں عورتوں کے محاسن، شراب کا تذکرہ اور امور محرمہ کا ذکر ہو تو بالاتفاق وبلاکسی نزاع کے حرام ہے۔
رہا وہ غناء جس کو صوفیاء نے گھڑ لیا ہے ،یہ بھی بالاتفاق حرام ہے، لیکن بہت سے شہوانی جذبات سے مغلوب طبائع اس کو اچھائی کا محور گردانتی ہیں، حتی کہ اس کے شغل میں یہ لوگ جنون وبچپنے کے حالات کو چھو چکے ہیں ۔ ہم آواز، حرکات وسکنات اور قافیہ بند کلام میں یہ لوگ جھومنے او ررقص کرنے لگتے ہیں، ان کی بے ہودگی کی انتہا یہ ہے کہ اس کو تقرب الی الله اور اعمال صالحہ کا حصہ سمجھتے ہوئے احوال رفیعہ کا سبب تصور کرتے ہیں۔
تحقیقی بات یہی ہے کہ یہ زندقہ اور شعبدہ بازی کے آثار سے ہے۔ والله المستعان انتھی۔ حافظ ابن حجر اس کے بعد فرماتے ہیں : ان صوفیاء کے کلام ”اچھے احوال کا سبب“ کے بجائے برے احوال کا سبب کہنا چاہیے۔ (فتح الباری368/2)
ذکر ممنوع کے بارے میں امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کا کلام
امام قاضی عیاض رحمہ الله تعالیٰ امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کے حالات بیان کرتے ہوئے” ترتیب المدارک“54/2 پر فرماتے ہیں : تنیسی کہتے ہیں کہ ہم امام مالک کی خدمت میں حاضر تھے اور ان کے آس پاس ان کے شاگرد حلقہ بنائے ہوئے بیٹھے تھے ۔ نصیبین کے ایک آدمی نے عرض کیا : ہمارے ہاں کچھ لوگ ہیں جن کو صوفیاء کہا جاتا ہے، کھاتے بہت ہیں ، پھر قصائد پڑھ کر ناچتے ہیں۔ امام مالک رحمہ الله تعالیٰ نے پوچھا کیا وہ بچے ہیں ؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ پھر امام نے فرمایا کیا وہ دیوانے ہیں ؟ اس نے کہا بلکہ وہ ”پیر“ اور اصحاب عقل ہیں۔ امام نے فرمایا میں نے مسلمانوں میں سے کسی کے بارے میں نہیں سنا کہ وہ ایسا کرتے ہوں۔
اس آدمی نے مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا: کھانے کے بعد وہ لوگ کھڑے ہو کر چوپایوں کی طرح ناچتے ہیں اور ایک ددسرے کے چہروں اور سروں کو پیٹتے ہیں، امام مالک ہنستے ہوئے اٹھے او رگھر میں تشریف لے گئے۔ امام مالک کے شاگردوں نے اس آدمی سے کہا کہ تم ہمارے استاذ محترم کے لیے نحوست ثابت ہوئے کہ ہم ان کی خدمت میں تیس سال سے زائد عرصہ سے ہیں، لیکن ہم نے ان کو آج سے پہلے کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ انتہی
امام ابوبکر خلال رحمہ الله تعالیٰ کی کتاب ” الحث علی التجارة والصناعةالعمل کے “ صفحہ24 پر ہے: اسحاق بن یسار نصیبی عبدالملک بن زیادہ نصیبی کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں : ہم امام مالک رحمہ الله تعالیٰ کی خدمت میں تھے کہ ان کے سامنے ہمارے علاقے کے صوفیاء کا تذکرہ ہوا تو میں نے عرض کیا: وہ لوگ (صوفیاء) یمن کا شاندار لباس زیب تن کرتے اور ایساایسا کرتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کیا وہ مسلمان ہیں ؟ عبدالملک کہتے ہیں کہ امام اتنا ہنسے کہ چت ہو گئے۔ آپ کے شاگردوں میں سے ایک نے کہا ہے ( امام کے گھر پر تشریف لے جانے کے بعد) یہ کیا ہے کہ ہم نے استاد محترم کے لیے اس سے زیادہ تعجب خیز بات نہیں دیکھی کہ آپ ا س سے قبل کبھی اتنا نہیں ہنسے۔
امام قرطبی رحمہ الله تعالیٰ کا ذکر ممنوع کے بارے میں بیان
امام قرطبی اپنی تفسیر365/7 میں آیت:
﴿انما المؤمنون الذین اذا ذکر الله وجلت قلوبھم وإذا تلیت علیھم آیاتہ زادتھم إیمانا وعلی ربھم یتوکلون﴾․(سورة الانفال: پارہ9)
ترجمہ:” ایمان والے وہی ہیں کہ جب نام آئے الله کا توڈر جائیں ان کے دل او رجب پڑھا جائے ان پر اس کا کلام تو زیادہ ہو جاتا ہے ان کا ایمان اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔“
کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: الله تعالیٰ نے اس آیت میں مؤمنین کا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ الله کے ذکرکے وقت ڈر اور خوف سے سہم جاتے ہیں اور یہ ان کے قوت ایمان، رب تعالی کے حقوق کی انتہائی رعایت ، پر دال ہے، گویا کہ وہ اپنے رب کے حضور دست بستہ کھڑے ہیں، اس سے ملتی جلتی دوسری آیت ہے:﴿وبشر المخبتین الذین اذا ذکر الله وجلت قلوبھم﴾․
ترجمہ:” او ربشارت سنا دے عاجزی کرنے والوں کو وہ کہ جب نام لیا جائے الله کا ،ڈر جائیں ان کے دل۔“
﴿وتطمئن قلوبھم بذکر الله﴾․
”اور ان کے دل الله کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔“
یہ کمال معرفت اور اعتماد قلبی کی دلیل ہے۔
”وجل“ کے معنی الله تعالیٰ کے خوف سے ڈرنے کے ہوتے ہیں۔ لہٰذا معرفت کے ساتھ خوف کے پائے جانے میں کوئی عجیب بات نہیں، ان دونوں باتوں کو الله تعالیٰ نے یکجا مندرجہ ذیل آیت میں بیان فرمایا ہے:﴿الله نزل أحسن الحدیث کتابا متشابھا مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم وقلوبھم الی ذکر الله﴾․
ترجمہ:” الله نے اتاری بہتر بات، کتاب آپس میں ملتی، دہرائی ہوئی، بال کھڑے ہوئے ہیں اس سے کھا ل پر ان لوگوں کے، جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے، پھر نرم ہوتی ہیں ان کی کھالیں او ران کے دل الله کی یاد پر ۔“ (الزمر:23)
یعنی ان کے نفوس کو تسکین ہوتی ہے الله تعالیٰ پر یقین کی وجہ سے، اگرچہ وہ لوگ الله تعالیٰ سے ڈرتے بھی رہتے ہیں، یہ حالت عارفین کی ہے (کہ الله تعالیٰ کی ذات معرفت بھی ان کو حاصل ہوتی ہے) اور وہ لوگ اس کے عذاب وعظمت سے گھبراتے بھی ہیں۔
جاہل عوام اور بے وقوف بدعتیوں کی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ جو بھیڑیوں کی طرح چلاتے او رگدھوں کی طرح آواز نکالتے اور خوش ہوتے ہیں، جوایسا کرتا ہے اور اس کو ” وجد“ وعاجزی بتلاتا ہے اس سے ہم کہیں گے، کیوں کہ تمہاری حالت رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم اجمعین کی سی نہیں کہ الله تعالیٰ کا خوف ان پر طاری ہوتا اور اس کی تعظیم سے ان پر رعب طاری ہوتا۔ الله تعالیٰ نے اہل معرفت کی حالت الله تعالیٰ کے ذکر او رتلاوت قرآن کے وقت یہ بیان کی ہے : ﴿ واذا سمعوا ما انزل إلی الرسول تری اعینھم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق یقولون ربنا اٰمنا فاکتبنا مع الشاھدین﴾․ (سورة المائدہ:83)
ترجمہ:” او رجب سنتے ہیں اس کو جو اترا رسول پر تو دیکھے تو ان کی آنکھوں کو کہ اُبلتی ہیں آنسوؤں سے ،اس وجہ سے کہ انہوں نے پہچان لیا حق بات کو، کہتے ہیں اے رب ہمارے! ہم ایمان لائے، سو تو لکھ ہم کو ماننے والوں کے ساتھ ۔“
یہ ان کی حالت او ران کی بات کا بیان ہے اور جو ایسا نہیں کرتا وہ ان کے راستہ پر نہیں ، جو کوئی راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہیے کہ ان کا راستہ اختیار کرے اور جو دیوانوں کا سا بنے، تو وہ بدترین حالت ہے او رجنون کی بھی اقسام ہیں ( جن میں سے ایک یہ ہے)۔
امام مسلم رحمہ الله تعالیٰ حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے ایک مرتبہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے بہت زیادہ سوالات کیے تو آپ ایک دن منبر پر تشریف لائے اور آپ نے فرمایا: ”سلونی، لا تسئلونی عن شیء إلا بینت لکم ما دمت فی مقامی ھذا“ جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو جب تک میں اس منبر پر موجود ہوں تو تمہاری ہر بات کا جواب دوں گا۔ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین آپ کا یہ ارشاد سن کر ڈر گئے اور سوالات سے رک گئے کہ کوئی خاص امر الله تعالیٰ کی طرف سے (عذاب وغیرہ) پیش آنے والا ہے۔ حضرت انس کہتے ہیں: میں نے دائیں بائیں دیکھا، ہر آدمی سرجھکائے کپڑا لپیٹے رو رہا ہے ۔اس کے بعد حدیث ذکر فرمائی۔
امام ترمذی صحیح حدیث حضرت عرباض بن ساریہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے بہت ہی بلیغ، ڈرا دینے والی نصیحت فرمائی، جس سے لوگوں کے دل دہل گئے، لیکن انہوں نے یہ نہیں فرمایا : ہم نے شور مچایا اور رقص کیا اور زمین پر اپنے پاؤں زور زور سے مارے اور ہم ( شدت جذبات سے) کھڑے ہو گئے۔ انتہی
ذکر کے منکرات کا بیان امام شاطبی کی زبانی
بہت پہلے یعنی آٹھویں صدی ہجری میں اس مسئلے پر بحث ہو چکی ہے کہ ذاکرین کا حلقہ بنا کر ،اونچی آواز سے ذکر کرنا، سر کے انداز سے اشعار وغیرہ سننا، اچھلنا ، کودنا، چکر لگانا، کیسا ہے ؟ امام شاطبی ( جو کہ خود بہت بڑے اصولی، فقیہ محدث، صوفی، محقق، صاحب بصیرت، ذکی الحس انسان تھے) نے اس سوال کو اپنی عظیم الشان کتاب ”الاعتصام“ میں ذکر کیا ہے اور 264/1 سے 285/1 تک مفصلاً مکملاً وضاحت کے ساتھ بیان کیاہے ، ہر ناجائز امر کو دلیل وعلت کے ذریعہ بالکل کھول کر بیان کر دیا ہے ۔ آپ کو چاہیے کہ اس کا مطالعہ کر لیں، کیوں کہ یہ دلوں کو جلا اور ذہنوں کو روشن کرنے والے علم کا لب لباب ہے۔
شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں: کاش کہ یہ ذاکرین جو یہ بات کہتے ہیں کہ ہمارے یہ افعال وحرکات افعال مباح میں داخل ہیں، اگر ان ائمہ کے فتاوی کے سامنے، جوان امو رکوحرام فرما رہے ہیں، نہیں جھکتے تو یہی سمجھ کر ان سے باز آجاتے کہ علما نے ( ایک قول پر ) ان کو حرام کہا ہے، لہٰذا ان میں شبہ پیدا ہو گیا تو اس شبہ سے بچتے اور اور اس کے قریب بھی نہ جاتے، کیوں کہ صوفی تو وہ ہوتا ہے کہ جوشبہات سے بھی پرہیز کرتا ہے اوربعض مباح کاموں کو بھی چھوڑ دیتا ہے کہ کہیں ان کی وجہ سے مکروہات میں نہ مبتلا ہو جائے چہ جائیکہ محرمات میں جاگرے، لیکن الله تعالیٰ اسی کو ہدایت سے نوازتے ہیں جو کہ ہدایت کا طالب ہو، الله تعالیٰ ہمیں وہی راستہ دکھلا دیں جسے وہ پسند فرماتے ہیں۔
لفظ ” الله“ سے ذکر کا غیر مشروع طریقہ
ایک چیز رہ رہی ہے جس پر تنبیہ کرنا ضروری ہے اور وہ ہمارے زمانہ میں اکثر ذکر کے حلقوں میں پائی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ بعض لوگ صرف ”الله، الله، الله“ مکرر کہتے جاتے ہیں ، اولاً تو لفظ”الله“ سمجھ میں آتا ہے لیکن رفتہ رفتہ وہ تیزی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں، حتی کہ انتہائی تیزی سے لفظ”الله“ کے بعض حروف بعض دوسروں میں اس طرح مل جاتے ہیں کہ لفظ ” الله“ ایک مبہم سی آواز بن کر رہ جاتا ہے، پھر وہ لوگ اس کو منھ میں ہی جلدی سے دہراتے رہتے ہیں کہجس سے کچھ سمجھ نہیں آتا، یہ بھی ذکر ممنوع میں داخل ہے، الله تعالیٰ ایسے ذاکرین سے بھی محفوظ رکھیں۔

Flag Counter