Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1430ھ

ہ رسالہ

9 - 14
***
اس کٹھن رستے پہ چلنا بھی ضروری ہے مگر...
عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی
انسانی تاریخ کا یہ بہت بڑا المیہ اور خسارہ ہے کہ ہردور اور ہر زمانے میں اسلام اور اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں رہی ہیں اور اس کے بڑھتے قدم کو روکنے کی ہرممکن کوشش اور اس کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی رہی ہے ۔دراصل اسلام ایک آفاقی مذہب ہے ،اس کی تعلیمات فطری ہیں، جو بنی نوع انسان کی تمام ضروریات کا مکمل تکفل کرتی ہیں اور تمام شعبہ ہائے حیات میں مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں اور یہ محض دعوی نہیں، بلکہ اس کی عملی شہادت بھی تاریخ میں موجود ہے ،جو صحیح عقل وفہم اور سلیم الطبع اہل علم حضرات پر مخفی نہیں ہے ،اسلام کا یہی امتیاز اور خصوصیت ہر دور اور ہر زمانہ میں دشمنان اسلام کی آنکھوں کا کانٹا بنا رہا ، لہٰذا اس مذہب کو مٹانے اور اس کو فرسودہ باور کرانے کے لیے ہر دور میں اس کے خلاف سازشیں رچی گئیں اور بڑے منظم اور منصوبہ بند طریقہ سے اسلامی تعلیمات کو ”انسانیت کی ترقی میں رکاوٹ“اور نہ جانے اسی انداز کے کن کن القاب وخطابات سے نوازا گیا۔لیکن اسلام کے بڑھتے قدم کو روکا نہیں جا سکا،اسلام کا یہ کاروان دعوت وعزیمت آگے ہی بڑھتا رہا ۔
امت مسلمہ علمی ، تہذیبی، سماجی، معاشی، دفاعی اور سیاسی شعبوں میں اپنی برتری ایک ہزار سال تک برقرار رکھنے کے بعد جب زوال پذیر ہوئی تو اس کے دو بنیادی اسباب تھے۔ ایک اس کی اپنے نظریہ حیات سے مستحکم وابستگی میں کمزوریاں در آئیں اور دوسرے اس کی حریف صلیبی اور یہودی قوتوں کی سازشیں ،جنہوں نے نہ صرف مسلم معاشرے کو مغلوب کیا، بلکہ اس پر قبضہ کرکے اسے اپنے فکر و نظر کے مطابق قوت سے بدل ڈالا، تاکہ مسلما ن آئندہ کبھی سرنہ اٹھاسکیں اور ہمیشہ ان کے غلام رہیں، استعماری طاقتیں اپنے اس منصوبہ میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئیں اور مسلمانوں کی عملی کمزوری سے انھوں نے فائدہ اٹھاکر اپنے نظریہ اور فکر کی ترویج کی ،دینی مزاج اور صحیح الفکر افراد اور جماعتوں نے اس دام ہمرنگ زمین کو سمجھنے اور امت مسلمہ کو سمجھانے کی کوششیں اور اس سے ممکنہ حد تک بچنے کی تدابیر بھی اختیار کرکے امت کو اس سے روشناس کرایا ،لیکن مغرب کا یہ ریلا اتنی تیزی سے آیا کہ تمام تر کوشش اور جدوجہد بے کار تو نہیں البتہ کم اثر ثابت ہوئیں۔ 
اہل مغرب نے ایک حکمت عملی تو یہ اپنائی کہ مسلم ممالک کو آزادی دیتے وقت وہاں اقتدار اپنے تربیت یافتہ آدمیوں کے سپردکردیا، پھر اپنا سیاسی اثر و رسوخ باقی رکھنے کے لیے پر امن ذرائع سے (جیسے میڈیا اور جدیدتعلیم و تربیت وغیرہ) مسلم اجتماعی اداروں کی تشکیل اورانھیں اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوششیں کیں اور ان کوششوں میں انہیں عموماً کامیابی ملی۔ اس کے باوجود بعض مسلم ممالک اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں کامیاب ہوگئے اور مغرب کی خواہشات کے برعکس اپنی پالیسیاں خود مختاری سے وضع کرنے کی کوشش کرنے لگے، جیسے پاکستان، عراق، افغانستان، ملائیشیا، ترکی اورا یران وغیرہ۔
سرد جنگ کے خاتمے اور روس کے ٹوٹ جانے کے نتیجے میں امریکہ دنیا کی سپر پاور کے طور پر ابھرا اور اسے من مانی سے روکنے کے لیے کوئی طاقت موجود نہ رہی۔ دوسری طرف بعض مسلم ممالک کے کچھ ترقی کرنے اور اپنی مرضی چلانے کے نتیجے میں بعض مغربی مفکرین نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا، کیونکہ ان کی رائے میں مذہبی اختلافات اور دیگر مسائل اب ثانوی حیثیت اختیار کرچکے ہیں (”تہذیبی“ تصادم کی بات انہوں نے اس لیے کی کہ ”مذہب“ کو اہل مغرب رد کرچکے ہیں اور اس کی جگہ ان کے ہاں ”تہذیب“ لے چکی ہے) اور انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام ہی اب ایک ایسی بڑی نظریاتی قوت ہے جس کے مغربی فکر و تہذیب کے مد مقابل آنے کا امکان ہے ۔پھر ان کی نظریں اسلام، مسلم معاشروں اور خصوصاً ان جماعتوں اورتحریکوں پر پڑتی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کی متمنی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا اور دنیا کی بد قسمتی یہ کہ پچھلے کئی سالوں سے امریکی اقتدار پر قابض حکمراں جماعت نے اسے قبول کرلیا۔ چنانچہ پر امن ذرائع سے مسلم ممالک کو قابو میں رکھنے کی پالیسی ترک کرکے امریکہ نے یورپ اور اقوام متحدہ کو ساتھ ملا کر اور جہاں انہوں نے ساتھ نہ دیا وہاں اکیلے ہی، اپنی فوجی قوت سے مسلم ممالک پر چڑھائی کردی۔ اس نے افغانستان اور عراق کو تباہ برباد کردیا اور ایران اور پاکستان کو روندنے کے حیلے بہانے تلاش کیے جارہے ہیں اور دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔
ان حالات میں کہ اسلامی فکرو تہذیب کی بقا واستحکام خطرے میں ہے اور مغربی فکر و تہذیب کا غلبہ و استیلا جاری ہے اور مسلم دینی عناصر کی اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے بنائی جانے والی پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں، یہ ناگزیر ہوچکا ہے کہ اس معاملے پر از سر نو غور کیا جائے اور اس صورت حال سے عہدہ برآہونے کے لیے نئی حکمت عملی وضع کی جائے۔
تعلیم و تربیت اور میڈیا 
تعلیم ایک خاموش انقلاب لاتی ہے، اس کے لیے نعروں کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کے لیے کسی اسلحے اور ایٹم بم کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے حکومتی امداد کی بھی ضرورت نہیں۔ مقامی مسلم آبادی کو متحرک کیا جائے اور انہیں تعلیم و تربیت کی اہمیت بتائی جائے تو یقیناً اتنے وسائل مہیا کیے جاسکتے ہیں جن سے مقامی اسکول و کالج کوچلایا جاسکے۔ ہاں! اس کی ضمانت دینا ہوگی کہ اس اسکول کا نصاب مغربی تعلیم کا چربہ نہ ہو، بلکہ آزاد مسلم سوچ کا نتیجہ ہو، یہ نصاب اسلامی نظریہٴ علم اور اسلامی کلچرپر مبنی ہو۔ مغرب کے تعلیمی تجربات کو سامنے ضرور رکھا جائے، لیکن ان کی اندھی پیروی نہ کی جائے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے اداروں کے لیے چونکہ بھاری فنڈز درکار ہوتے ہیں، جو حکومتوں ہی کے بس میں ہوتے ہیں، اس لیے مجوزہ تعلیمی اداروں میں سوشل سائنس یا عمرانی علوم پر توجہ مرکوز کی جائے۔ ان اسکولوں میں مسلم طلبہ وطالبات کو نہ صرف صحیح خطوط پر تعلیم دی جائے، بلکہ ان کی تربیت بھی کی جائے،یعنی تعمیر سیرت اور کردار سازی اس کا لازمی حصہ اور نتیجہ ہو، اس سے بڑی تعداد میں ایسے افراد تیار ہونا شروع ہوجائیں گے جو اپنی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوں گے اور وہ اسلامی اقدار کے پشتیبان ہوں گے۔ یہ لوگ زندگی میں جہاں بھی جائیں گے مثبت انداز میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیراہوں گے۔ وہ اگر اجتماعی اداروں کی تشکیل میں حصہ لیں گے تو ان کی بنا اسلامی اصولوں پر رکھیں گے اور جہاں ضروری ہوگا مغربی تجربات سے استفادہ بھی کرلیں گے،یہ کام مسلم معاشرے میں وسیع پیمانے پر کیا جائے تو اس سے اسلامی فکر و تہذیب کو یقیناً فروغ حاصل ہوگا، اس کا تشخص بحال ہوگا اور مسلم معاشرہ بحیثیت مجموعی مستحکم ہوگا۔
فرد پر توجہ
معاشرہ چونکہ افراد ہی سے مل کر بنتا ہے لہٰذا اگر فرد کی صحیح تعلیم وتربیت کا فعال اور موٴثر نظام وضع ہوجائے تو معاشرے کے سدھرنے اور صحیح سمت میں اس کی پیش رفت کے امکانات غالب ہوجائیں گے۔ معاشرے کی ترقی اور عروج کے لیے فرد کی اصلاح اور ترقی نہ صرف فطری اصول کے عین مطابق ہے، بلکہ یہ اسلامی اصول کے مطابق بھی ہے۔
فکری جارحیت
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو فکر ی لحاظ سے کسی دست گیری کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے دینی مآخذ (قرآن و سنت) الحمدلله محفوظ و مامون ہیں، اسی لیے مسلمانوں کا سماجی ڈھانچہ مغربی تسلط کے باوجود ابھی تک قائم ہے۔ لہٰذا ہم اب بھی مغرب کو بہت کچھ دینے کے قابل ہیں، جیسے مستحکم خاندانی نظام، پرسکون زندگی، اعلیٰ اقدار، اطمینان ذہن و قلب وغیرہ۔ لہٰذا مسلمانوں کو مغرب سے فکری مرعوبیت کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور مدافعانہ اسلوب اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے رد کرتے ہوئے اس پر فکری و علمی تنقید کرکے اسے ناقص اور انسانیت کے لیے مضر ثابت کیا جائے۔ اس سے بالواسطہ یہ فائدہ بھی ہوگاکہ نوجوان مسلم نسل اپنے ماضی پر فخر کرنا سیکھے گی، اپنے مستقبل کے بارے میں پر امید ہوجائے گی اور اس کی ملّی انا مستحکم ہوگی اور یہ تاثر پختہ ہوگا کہ ہم بھی کچھ چیز ہیں، ہماری بھی کچھ اہمیت ہے اور دنیا میں ہمارا بھی کچھ کردار ہے۔
تیز رفتار ترقی
در اصل جس چیز کی مسلم امت کو ضرورت ہے وہ یہ کہ کسی تصادم اور چپقلش میں پڑنے کے بجائے اسے موقع ملے کہ وہ خاموشی سے مسلم عوام کی ترقی اور بہبود کے لیے تیز رفتار اقدامات کرسکے، جس کی اساس صحیح اسلامی تعلیم و تربیت ہی ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم معاشرے میں شرح خواندگی سو فیصد ہوجائے، غربت کا خاتمہ ہو، سیاسی نظام مستحکم ہو، سماجی اقدار پر عمل ہو اور معاشی نظام کو یہودیوں کے زیر تسلط عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل اور قرض کی مصیبت سے چھٹکارا دلایا جائے۔
یہ وہ رہنما خطوط ہیں جن پر عمل کرکے نہ صرف مسلم معاشرے کو مغربیت اور جدیدیت کے تباہ کن سیلاب سے بچایا جاسکتا ہے، بلکہ مسلم اُمت کو اسلامی تناظر میں دنیاوی ترقی اور غلبہ و عروج کی سمت میں بھی متحرک کیا جاسکتا ہے ۔

Flag Counter