Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1430ھ

ہ رسالہ

13 - 14
***
خیر خواہی
مولانا کمال الدین المسترشد
پھر یہاں مزید مخفی دو قوتیں اور ہیں جو عقل او رنفس کے پیچھے کار فرما ہیں، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔”ما منکم من أحد إلا وقد وکل بہ قرینہ من الجن، وقرینہ من الملائکة“․ ( مشکوٰة ص:18 بحوالہ مسلم)
یعنی ہر بنی آدم پر ایک شیطان او رایک فرشتہ مقرر ہے، فرشتہ جس کا نام ملہم ہے خیر کا مشورہ دیتا ہے اور شیطان جس کو اہر من کہتے ہیں شر پر اکساتا ر ہے ۔ 
پس اگر عقل غالب آجائے تو نفس جوکہ برائی کا حکم دیتا تھا وہ عقل کا فرماں بردار ہو جاتا ہے، حتی کہ اگر انسان سے غیر شرعی امر صادر ہو تو اس پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہے، یہی حالت نفس لوامہ کی ہے اور پھر دونوں کے باہم اتفاق کی وجہ سے اس کو اطمینان حاصل ہوجاتا ہے، جو کہ کامیابی کا اعلی درجہ ہے۔
اور اس کے برعکس اگر نفس کو غلبہ حاصل ہو تو عقل ہر چیز کوحتی کہ شریعت کو بھی نفسانی خواہشات کے مطابق بنانے کی کوشش کرتی ہے او رجہاں یہ خواہش پوری نہ ہو سکے اس سے اعراض کرتی ہے، گویا کہ نفس اور عقل کے درمیان یہ اصول طے شدہ ہے کہ دونوں میں سے جو غالب آئے دوسرے کو اس کا ساتھ دیناہو گا، چناں چہ بہت سارے عقلاء اس ضابطے کے تحت گمراہ ہوئے اور یہی ضابطہ غیر مسلموں کی مادی ترقی کا راز ہے، کیوں کہ جب ان پر نفس نے غلبہ حاصل کیا اور ان کی عقلیں نفس کے تابع ہو گئیں تو نفس کی جدت پسندی کی بنا پر ان کی عقلیں ہمہ وقت اپنی توانا ئی اسی مقصد کے لیے خرچ کرتی ہیں اور شریعت سے بالکل لا پرواو لاتعلق ہو جاتی ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ پھر ان لوگوں کو وہ معقول چیز جس سے نفس نفرت کرتا ہے، بھی نامعقول نظر آتی ہے کہ عقل اس کو نفس کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
مثلاً قصاص وغیرہ شرعی حدود ان کو وحشیانہ سزائیں دکھائی دے رہی ہیں۔ حالاں کہ ان کے فوائد سلیم العقل شخص کے نزدیک روز روشن سے بھی زیادہ عیاں ہیں ۔یہاں ایک دوسری توجیہ بھی کی جاسکتی ہے جو فلسفی اصول پر مبنی ہے ۔ وہ یہ کہ عقل صرف کلیات اور جزئیات مجردہ ( یعنی وہ جزئیات جو مادہ سے خالی ہوں ) اور معنی کا ادراک تو کرتی ہے مگر مادی اشیا کا ادراک ہر گز نہیں کر سکتی ، کیوں کہ عقل مجرد ( مادہ سے خالی) ہے۔
لہٰذا اس میں مادی اشیا واقع نہیں ہو سکتیں ہیں، جب کہ وہم ان معانی کا ادراک کرتا ہے جو حس مشترکہ میں واقع جزئیات محسوسہ کی صورتوں سے منتزع ہوں۔
﴿ان الله لا یستحی أن یضرب مثلا ما بعوضة﴾․ (الآیة)
اس کی توثیق قاضی بیضاوی رحمة الله علیہ نے بھی کی ہے، چناں چہ وہ اپنی تفسیر میں بیان امثلہ کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ عقل چوں کہ معنی کا ادراک کرتی ہے اور وہم اس سے قاصر ہے ،لہٰذا جب کوئی عقلی مسئلہ مذکورہ ہو تو عقل اس کو سمجھ جاتی ہے، مگر وہم اس میں لاعملی کی وجہ سے عقل کی مخالفت کرتا ہے۔ لہٰذا جب محسوس چیز سے اس کی تشبیہ دی جاتی ہے تو وہم بھی سمجھ جاتا ہے، اس لیے دونوں پھر اسی پر متفق ہو کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ کلام الہٰی، بلغا اور حکما کی عبارت میں مثالیں بکثرت ملتی ہیں ۔ اس ضابطہ کے تحت یہ کہنا درست ہے کہ مادی ترقی کا دار ومدار چوں کہ محسوس اشیا پر ہے، اس لیے عقل کا اس سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں، بلکہ یہ ساری ترقی وہم پرستی پر مبنی ہے، گویا عقل کو بالکل معطل کرکے ہی دنیاوی ومادی اشیا میں ترقی ہو سکتی ہے ۔
اس کی تائید حضور پاک صلی الله علیہ وسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ” قد یجمعھا من لاعقل لہ“․ ( الشفاء ص:141 ج1)
دنیا کو وہ شخص جمع کرتا ہے جس کی عقل نہ ہو ۔ 
لہٰذا یہ جو مشہور ہے کہ انسانی عقل نے بہت زیادہ ترقی کی ہے، یہ کہنا عقل کی حقیقت سے ناواقفیت او رجہالت پر مبنی ہے، کیوں کہ جب مادی اشیا او رعقل کے درمیان کوئی تعلق ادراک ہے ہی نہیں تو پھر اس ترقی کو عقل کی طرف کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے؟
دونوں توجیہوں کا مآل تو ایک ہی ہے کہ عقل کو اعتدال سے خارج کرنے میں حکمت ودانائی ختم ہو جاتی ہے، مگر پہلی توجیہ افراط کی صورت ہے اور دوسری تفریط کی ۔
عدل
جب انسان کے مزاج میں اعتدال آکر مذکورہ فضائل کے عمدہ زیور سے آراستہ ہو جاتا ہے اور افراط اور تفریط سے دامن بچا کر اوسط راہ کو اختیار کرتا ہے تو یہاں ایک دوسری فضیلت پیدا ہو جاتی ہے، جس کا نام عدل ہے ۔
گویا عدل عفت، شجاعت اور حکمت کے باہم اختلاط سے معرض وجود میں آتا ہے، انسان انسانیت کے تقاضوں کی تکمیل بغیر عدل کے۔ ہر گز نہیں کر سکتا ہے ،اس لیے الله جل شانہ نے عدل کو لازم قرار دیا ہے۔
چناں چہ ارشاد ربانی ہے: ﴿اعدلوا ھوا اقرب للتقوی﴾
عدل کرو یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقوی سے۔ ( مائدہ) 
عدل کا تعلق صرف تہذیب اخلاق سے ہی نہیں، بلکہ یہ تدبیر منزل اور سیاست مدنیہ کے لیے بھی رکن اعظم ہے ،اس لیے اس کے اپنانے پر عقل ونقل دونوں نہ صرف متفق ہیں، بلکہ انفرادی او راجتماعی طور پر اس کے مقتضا پر چلنے کو از حد ضروری سمجھتی ہیں۔
اس سلسلے میں مولانا حفظ الرحمن صاحب رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب ” اخلاق اور فلسفہ اخلاق“ میں ایک جامع او رلطیف بحث کی ہے، جس کا خلاصہ ترمیم اور اضافہ کے ساتھ یہاں پیش کیا جاتا ہے ۔
” انصاف یا عدل کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ عدل جو خاص فرد یا شخص کی صفت بنتا ہے اور یوں کہتے ہیں فلاں شخص عادل او رمنصف ہے اور دوسرا وہ جو جماعت یا حکومت کی صفت ہے ۔
عدل شخصی
ہر صاحب حق کو اس کا حق ادا کر دینا افراد اور اشخاص کا عدل کہلاتا ہے ،ا س لیے کہ جب ہر شخص اپنی جماعت کا ایک فرد ہے تو اس کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ جماعت کی خیر خواہی میں سے اپنے حصے کے مطابق فائدہ اٹھائے ۔ لہٰذا انسان کا ٹھیک ٹھیک اپنے حصہ کو لینے اور بغیر کمی کے ٹھیک ٹھیک دوسروں کے حقوق کو ادا کرنے کا نام عدل یا انصاف ہے، اس کے لیے غصب اور چوری ظلم ہے کیوں کہ ان میں دوسروں کے فائدہ کو چھین لینا او ران کے حقوق روک دینا پایا جاتا ہے اور اسی طرح وہ تاجر جو کسی چیز کو طے شدہ وزن یا پیمانے سے کم تول کر دیتا ہے ظالم ہے، اس لیے کہ وہ بھی دوسروں کے حقوق کے آڑے آتا ہے ۔ انسان کو عدل وانصاف سے روکنے اور ظلم وجور میں مبتلا کرنے کے عادتاً دو سبب ہوا کرتے ہیں، ایک اپنے نفس یا اپنے دوستوں اور عزیزوں کی طرف داری، دوسرے کسی شخص کی دشمنی وعداوت۔
قرآن میں ان دونوں طرف جھکنے سے صراحتاً ممانعت آئی ہے، چناں چہ سورة نساء میں ارشاد ہے:
﴿یا أیھا الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شہداء لله ولو علی أنفسکم أو الوالدین والأقربین﴾․
اے ایمان والو! قائم رہو انصاف پر، گواہی دو الله کی طرف، اگرچہ نقصان ہو تمہاراماں باپ کا یا قرابت داروں کا۔
اور سورہ مائدہ میں اس کے بعد ارشاد ہے :﴿ولا یجرمنکم شنآن قوم علی أن لا تعدلوا﴾․
اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو۔
پہلی آیت کا حاصل یہ ہے کہ عدل وانصاف کے معاملہ میں اپنے نفس اور والدین اور عزیزوں کی بھی پرواہ نہ کرو ،اگر انصاف کا حکم ان کے خلاف ہے تو خلاف ہی پر قائم رہو اور دوسری آیت کا خلاصہ یہ ہوا کہ عدل وانصاف کے معاملہ میں کسی دشمن کی دشمنی کی وجہ سے لغزش نہ ہونی چاہیے کہ اس کو نقصان پہنچانے کے لیے خلاف انصاف کام کرنے لگو اور دوسری جگہ ان آیتوں کا نتیجہ ذکر کرکے ایک جامع ضابطے کی تصریح فرمائی، چناں چہ ارشاد ہے ۔
﴿وإذا حکمتم بین الناس أن تحکموا بالعدل﴾․
اور جب فیصلہ کرنے لگو لوگوں میں تو فیصلہ کروا نصاف سے۔
اس جملہ میں حق تعالیٰ نے بین الناس فرمایا، بین المسلمین یا بین المومنین نہیں فرمایا، اس میں اشارہ فرمایا کہ مقدمات کے فیصلوں میں سب انسان مساوی ہیں، مسلم ہوں یا غیر مسلم اور دوست ہوں یا دشمن، اپنے ہم وطن ہوں، ہم رنگ ،ہم زبان ہوں یا غیر، مال دار ہوں یا فقیر، فیصلہ کرنے والوں کا فرض ہے کہ ان تعلقات سے الگ ہو کر جو بھی حق وانصاف کا تقاضا ہو وہ فیصلہ کریں ۔ ( معارف القرآن ص448 ج2)
”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: إنما أھلک الذین من قبلکم أنھم کانوا إذا سرق فیھم الشریف ترکوہ، وإذا سرق فیھم الضعیف أقاموا علیہ الحد، وأیم الله، لوأن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت یدیھا“․( بخاری، ج2، ص:3، مسلم ،ج2، ص64)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے ایسے لوگ ہلاک کر دیے گئے کہ جب ان میں کوئی سربر آوردہ چوری کرتا تو وہ اس کو معاف کر دیتے او راگر کوئی غریب وکمزور ایسا کرتا تو اس پر حدجاری کرتے ۔ بخدا! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا۔ 
لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے حکم ، فیصلے میں اتنا بیدار ہو کہ کسی وقت اس پر خواہش نفس،جانب داری یا عداوت کا اثر نہ ہونے پائے جو اس کو عدل وانصاف کی راہ سے ہٹا دے۔
جماعتی عدل
عادل جماعت وہ جماعت ہے جس کے نظم و قوانین اس قدر سہل الوصول اور آسان ہوں جو اس کے تمام افراد کے لیے ان کی اپنی اپنی استعداد کے مطابق یکساں ترقی کا باعث بنتے ہوں، سو اس وقت تک کسی جماعت کو عادل نہیں کہا جاسکتا جب تک کہ اس کے ذریعہ انسانوں کے ہر ایک گروہ کے لیے وسائل ترقی بہتات کے ساتھ میسر نہ آتے ہوں۔
مثلاً اس قوم میں ایک گروہ تجارت پیشہ ہے اور وہ اپنی تجارت میں ذرائع ابلاغ وترسیل کا محتاج ہے او رایک طلبہ کا گروہ ہے جو ہر قسم کے علوم کی تعلیم کے لیے مکاتب و مدارس اور ان میں نظم و انتظام اور ہرطالب علم کی احتیاج کے مطابق علوم کا طالب ہے او رایک گروہ اپنے جھگڑوں میں فیصلہ چاہنے والوں کا ہے اور وہ حاکموں، قاضیوں اور ایسے قوانین کا محتاج ہے جوملزموں کو سزا دے سکیں اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کر سکیں وغیرہ وغیرہ۔
پس اگر وہ قوم ان تمام ضروریات کو قائم کرنے اور باحسن وجوہ ان کا انتظام رکھنے والی ہے تواس کا حق ہے کہ اس کو جماعت عادل کہا جائے ورنہ تو پھر اس کا نام ظالم ہو گا“۔
جیسے کہ ہمارے زمانے میں ہوتا ہے کہ نہ کسی کی صلاحیت کی پروا اور نہ قوم وملت کی خیر خواہی ملحوظ، بلکہ جس نے زیادہ رشوت دی اس کو اپنے حق کے علاوہ دوسروں کے حقوق بھی بآسانی مل جاتے ہیں اور وہ انہیں ہضم کرنے میں کسی قسم کی گرفت سے نہیں ڈرتا اور یہ ناانصافی صرف ایک شعبے میں نہیں، بلکہ ووٹ سے لے کر کورٹ تک تمام شعبہ ہائے زندگی ومعاملات وغیرہ میں پائی جاتی ہے ۔
جماعتی عدل میں جماعت کے ہر فرد سے یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ جماعتی عدل کو قائم کرنے میں اپنا فرض ادا کرے اور ثبوت عدل کے لیے جن اعمال کی ضرورت ہے اپنی طاقت بھران کو انجام دے۔
مثلاً اگر کسی شہر میں شفاخانوں کی ضرورت ہے تو ایک مقرر کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی تقریر کے ذریعے سے ان کے قیام پر توجہ دلائے او راخبار نویسوں کا فرض ہے کہ وہ مقالات کے ذریعے سے یہ خدمت انجام دیں اور شعراء کا فرض ہے کہ وہ اشعار کے وسیلہ سے او رمال داروں کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مال کے واسطہ سے یہ فرض انجام دیں اور ارباب قوت وجاہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان جیسے جائز امور کی موافقت میں اپنی قوت وجاہ کو کام میں لائیں۔
اور بالآخر ارباب حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ حکومت کی قوت تنفیذ کو اس کے نفاذ کے لیے استعمال کریں۔
اور اگر کسی قسم کے افراد اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کرتے ہیں تو اس صورت میں ان کی نحوست اور ظلم کی زد میں وہ افراد بھی آسکتے ہیں جو اپنے فرائض کو صحیح طور پر انجام دے رہے ہیں۔
افلاطون نے اسی کو اپنے اس قول میں ادا کیا ہے ۔
بہترین حکومت وہ ہے جوقوم کے ہر فرد کو اس کے لائق بہترین جگہ دے اور یہ طاقت رکھتی ہو کہ ہر فرد میں اپنے عطیات کو نمایاں کر سکے کہ وہ اپنے ادائے فرض وعہد کے قابل ہو جائے ۔
لہٰذا کوئی حکومت اس وقت تک عادل نہیں ہو سکتی جب تک وہ اپنے اس فرض کو پورا نہ کر دے۔ ( اخلاق اور فلسفہ اخلاق ص:377)
عدل ومساوات
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ عدل مساوات کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ مساوات کی صورت ہی میں عدل قائم رہتا ہے اور عدم مساوات کی حالت میں عدل باقی نہیں رہتا۔
اس نظریہ نے فرانس کی تحریک بیداری کے وقت سے عقول میں جگہ لے لی ہے، کیوں کہ اس زمانہ میں فرانسیسیوں کا شعاریہ تھا
آزادی، مساوات، اخوت
اس بنیاد پر مبنی لینن اورا سٹالن کے نظریات زن، زر، زمین بھی قدرے مختلف انداز میں تحریک کی شکل میں بڑے زور وشور کے ساتھ تو ابھرے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ بہت جلد دنیا اس تحریک کی لپیٹ میں آجائے گی مگر وہ بجائے کامیابی کے خود تنقید کا نشانہ بن گئے۔
یہ بات مسلم ہے کہ مساوات چاہنے والے اب بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، مگر یہ کوئی ایسی حقیقت نہیں کہ ہر عقل اس کو تسلیم کرے، کیوں کہ اگر مساوات کے نعرہ لگانے والوں کی عقلیں اس کو حق اور عدل سمجھتی ہیں تو مخالفین کی عقلیں اسے باطل اور ظلم سمجھتی ہیں ،گویا ارباب عقل کے اس مسئلہ میں دو گرو ہ بن گئے ہیں۔
ایک فریق مساوات کا حامی ہے اور اسی کو انصاف سمجھتا ہے اوردوسرا فریق اس کا مخالف ہے او راس کو ظلم کہتا ہے ۔
فریق مخالف کی دلیل یہ ہے کہ انسان بالطبع اپنے قُوی او رملکات میں مختلف ہیں بعض ان میں سے ذکی اور ذہین ہیں اور بعض غبی، بعض حاذق ہیں اور بعض بے وقوف، بعض محنتی ہیں اور بعض نہایت سست مزاج وغیرہ غیرہ۔
اب اگر ان سب کو ایک ہی معیار زندگی پر رکھا جائے تو اس سے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا، کیوں کہ غبی اور بے وقوف کو تو عاقل بنا نہیں سکتے تو لامحالہ ذہین اور عاقل کو ان کے مساوی کرنا ہو گا ۔ اور یہ مقتضائے عقل کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں یہ حکمت وترقی کے بھی خلاف ہے، کیوں کہ مساوات کی صورت میں کسی کو شدید محنت میں دلچسپی نہیں رہے گی ،کیوں کہ اسے حق الخدمت تو ہر صورت میں ملنا ہے ۔
بلکہ ایسا کرنا ممکن بھی نہیں،کیوں کہ زندگی کے شعبے مختلف ہیں اور مساوات کی بنا پر اس اختلاف کو ختم کرنا ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا کرنے میں زندگی مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔
عدل ورحمت
اکثر اشخاص یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ رحمت انصاف سے بلند شے ہے اور وہ اس قول سے یہ مراد لیتے ہیں کہ عمل باقتضائے رحمت بہتر ہے عمل باقتضا عدل سے، مگر یہ بات درست نہیں ہے۔ کیوں کہ عدل اور رحمت کے درمیان نسبت عموم وخصوص من وجہ کی ہے ۔
یعنی کبھی دونوں اکٹھا بھی ہو سکتے ہیں او رالگ لگ بھی، مثلاً اپنا قرض طلب کرنا عدل ہے، مگر مقروض کے فقیر ہونے کی صورت میں شفقت ورحمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو صاحب ثروت ہونے تک مہلت دے دی جائے یا بالکل معاف کر دیا جائے ۔ تو چوں کہ قرض ایک ذاتی چیز ہے، اس لیے یہاں رحمت کے مقتضا پر چلنا عدل سے افضل ہے ۔
اور جہاں حق کئی اشخاص یا قوم کے مابین مشترک ہو تو دہاں عدل کے مقتضا پر چلنا رحمت سے اولیٰ وبہتر ہے۔
مثلاً مدرسہ کا ایک مدرس اپنے درس کا کام ٹھیک انجام نہیں دیتا،نہ ٹھیک پڑھاتا ہے اور نہ اس کے وجود سے طلبا کو کوئی فائدہ ہے ۔ اس لیے یہ مسئلہ درپیش ہے کہ اس کو بر طرف کر دیا جائے مگر وہ مدرسہ کا قدیم مدرس ہے ،بوڑھا ہو چکا ہے، کثیر العیال ہے، اس موقع پر رحمت تو یہ ہے کہ اس کو بر قرار رکھا جائے، مگر عدل یہ ہے کہ اسے بر طرف کیا جائے کیوں کہ پہلی صورت میں صرف ایک شخص کا فائدہ اور پور ی جماعت وادارے کا نقصان ہے، اس لیے عدل کے مطابق عمل کرتے ہوئے اس کو بر طرف کرنا مدرسہ کا جائز حق ہے بلکہ ذمہ داری ہے۔
او راگر اسی صورت میں معزول کرنے کے سا تھ ساتھ کسی اور مد سے اس کی مالی مدد کی جائے تو رحمت اور عدل دونوں پر عمل ہو سکتا ہے، کیوں کہ اس طرح سب کا نقصان بھی ختم ہوا اور انفرادی او راجتماعی فائدہ بھی حاصل ہوا۔ ( فلسفہ اخلاق ص386)
خاتمہ
اخلاق رذیلہ سے اجتناب اور اخلاق کریمانہ سے آراستہ ہونے کے لیے مندرجہ ذیل صفات ، حیا ، تقویٰ، خوف ورجا ، رضا بالقضا، توکل ، صبر، شکر اور توبہ سے موصوف ہونا ضروری ہے ۔
کیوں کہ جب انسان میں یہ اوصاف بوجہ اتم موجود ہوں تو لامحالہ وہ مذموم اخلاق اور بری عادتوں سے گریزاں اور اخلاق محمودہ کے زیور سے مزین ہونے کی ہر ممکن کوشش وسعی کرے گا۔
مثلاً جو اپنے خدا سے خائف ہو گا اس کو امور مرضیہ او رغیر مرضیہ یعنی طاعت و معصیت کی معرفت اور قرآن وسنت کے مطابق چلنے کی ضرور تلاش ہو گی اور جس نافرمان کے د ل میں خوف نہیں اور آخرت کی نعمتوں کی امید نہیں، اس کو طاعت کی کیا فکر او رمعصیت سے کیا اندیشہ ؟ اس لیے مناسب ہے کہ مندرجہ بالا امور کو اجمالاً زیر قلم لایا جائے۔
حیا…
حیا ایک ایسی کفیت اور ملکہ کا نام ہے جس کی بدولت انسان خیر اور بھلائی کی طرف اقدام کرتا ہے اور شر وقبیح سے خوف مذمت کی بنا پر بچتا ہے۔
یہ وقاحت ( لاپرواہی اور غلط کام کی جرات) اور خجل ( ہر کام کرتے ہوئے شرمندہ ہونے ) کے درمیان درجہ اوسط سے عبارت ہے ۔
حیا کی فضیلت
حیا کی فضیلت کے لیے اتنا کہنا کافی ہے کہ اس کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے، چناں چہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”الحیاء شعبة من الإیمان“․
حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔ ( مسلم ص:7 ج1)
گویا ایمان بغیر حیا کے ناتمام ہے، یعنی جس طرح پھل دار درخت کے لیے شاخوں کا ہونا ضروری ہے او ربغیر شاخوں کے درخت بے ثمر رہتا ہے، اسی طرح ایمان کی بھی شاخیں ہیں، جن میں سے حیا قابل ذکر ہے، کیوں کہ ایمان کا ثمرہ حیا پر مبنی ہے ۔
چناں چہ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے ۔
”الحیاء لا یأتی إلا بخیر“․ (بخاری)
حیا خیر کے علاوہ دوسری کوئی چیز نہیں دیتی ۔ 
یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ سے خیر کے سوا کوئی برا عمل صادر نہیں ہوا ، نہ کبھی زنا کیا نہ جھوٹ بولا، نہ شراب پی ۔ الغرض فحاشی کا کوئی کام دور جہالت میں بھی ان سے سر زد نہیں ہوا۔
اس کے برعکس اگر کوئی شخص اس نعمت سے محروم رہا تو وہ یقینا ایک عظیم فضیلت سے دور رہا بلکہ اس کی وجہ سے بہت ساری فضیلتوں سے بے بہرہ رہا۔ چناں چہ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے ۔ ” إذا لم تستحی فاصنع ما شئت“․ (بخاری)
اس حدیث میں امربہ معنی خبر ہے یعنی جب تیرے اندر حیا نہ رہے سوتو ہر قبیح اور گناہ کاکام کرتا رہے گا۔ (مشکوٰة ص431)
”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الحیاء من الإیمان، والإیمان فی الجنة، والبذاء من الجفاء والجفاء فی النار“․ (احمدو ترمذی ص:21 ج2)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حیا ایمان کا جز ہے او رایمان یعنی مومن جنت میں جائے گا اور بے حیائی بدی کا جز ہے اور بد دوزخ کی آگ میں جائے گا۔
”عن زید بن طلحة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:إن لکل دین خلقا، وخلق الاسلام الحیاء“․ (مشکوٰة ص:432)
حضرت زید بن طلحہ رضی الله تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہر دین میں ایک خلق ہے اور اسلام کا وہ خلق حیا ہے ۔
یعنی ہر مذہب والوں میں ایک ایسی صفت، فضلیت ہوتی ہے جو ان کی تمام صفتوں پر غالب او ران کی ساری خصلتوں سے اعلیٰ ہوتی ہے، اسلام میں یہ درجہ حیا کو حاصل ہے۔
”عن ابن عمر رضی الله عنہ أن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: إن الحیاء والإیمان قرناء جمیعاً، فإذا رفع أحدھما رفع الآخر“․ (مشکوٰة ص:432)
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: حیا اور ایمان کو ایک دوسرے کے ساتھ یکجا کیا گیا ہے، لہٰذا جب کسی کو ان دونوں میں سے کسی ایک سے محروم کیا جاتا ہے تو وہ دوسرے سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ (مشکوٰة ص:432)
انتباہ
حیا سے اس چیز میں شرم کرنا مراد ہے جس میں حیا کرنا مشروع ہے، چناں چہ جن چیزوں میں شرم وحیا کرنے کی اجازت نہیں ہے جیسے تعلیم وتدریس، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، ادائیگی حق کا حکم دینا ،خود حق کو ادا کرنا او رگواہی دینا وغیرہ ان میں شرم وحیا کرنے کی کوئی فضیلت نہیں، بلکہ معیوب اورمذموم ہے۔
تقوی
تقوی کے معنی دور رکھنے کے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو ان کاموں سے بچانا جو آخرت کے لیے نقصان دہ ہوں۔
اس کے تین مراتب ہیں : نمبر خود کو ہمیشہ کے عذاب سے بچانے کے لیے شرک سے دور رکھنا ۔ مطلق گناہ (چاہے صغائر ہوں یا کبائر) سے اجتناب کرنا۔ ہر اس چیز سے دوری اختیار کرنا جو آدمی کی روح کو حق سے پھیرتی ہو۔
یعنی الله کی طرف مکمل متوجہ ہونا کہ ذرا برابر اس کے حکم او رمرضی کے خلاف نہ چلے، اس تیسری قسم کی طرف قرآن میں ترغیب دی گئی ہے، چناں چہ ارشاد ربانی ہے۔ ﴿واتقوا الله حق تقاتہ﴾․
یعنی الله سے اس طرح ڈرتے رہو جس طرح اس سے ڈرنا چاہیے۔
یہ آخری قسم تقوی کی خواص کا تقوی ہے، اس کے لیے ایک وسیع علم اور نہایت احتیاط کی ضرورت ہے، یہ ہر کس وناکس کا کام نہیں ہے، البتہ اسی درجہ کے لیے جدوجہد کرنا بہرحال محمود ہے، بلکہ مسلمان کی شان بھی یہی ہونی چاہیے کہ وہ ترقی میں کسی درجہ پر قناعت نہ کرے، بلکہ اس کا سفر وسلوک مسلسل جاری وساری رہنا چاہیے۔ جس کی طرف اس آیت کے جز ثانی میں اشارہ ہے کہ:﴿ اتقوا الله حق تقاتہ ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون﴾․
اور ارشاد ہے:﴿ واعبد ربک حتی یأتیک الیقین﴾․ (الآیة)
اور بندگی کیے جا اپنے رب کی جب تک آئے تیرے پاس یقینی بات ( موت)۔ رہا دوسرا درجہ تو یہ ایک وسیع باب ہے، اس میں ہرآدمی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مقام حاصل کر سکتا ہے کیوں کہ اس نوع کو استطاعت کے ساتھ متعلق کیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿فاتقوا الله ما استطعتم﴾․
یعنی ڈرو الله سے، جتنا تمہاری قدرت میں ہے یعنی معاصی اور گناہوں سے بچنے میں اپنی پوری توانائی اور طاقت صرف کرو اور ظاہر ہے کہ سارے انسان ایک جیسے نہیں، بلکہ ان میں ضعف ، قوت وخوف، رجا اور احتیاط کے اعتبار سے تفاوت موجود ہے۔
لہٰذا ہر شخص کا تقوی دوسرے سے مختلف ہے ۔
تقویٰ کی فضیلت
قرآن کریم میں بارہا مصیبت اور مشکل سے بچنے کے لیے صبر وتقویٰ کو اپنانے پر زور دیا گیا ہے۔
گویا تقوی انفرادی اور اجتماعی کامیابی کا ضامن ہے اورتمام مشکلات کا حل اس میں مضمر ہے ۔ چناں چہ ارشاد ہے : ﴿وإن تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدھم شیئا﴾․
اگر تم صبر وتقوی اختیار کیے رہو تو تم کو ان کی چالیں ذرا بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی ۔اور ارشاد ہے: 
﴿بلی إن تصبروا وتتقوا ویأتوکم من فورھم ھذا یمددکم ربکم بخمسة آلاف من الملائکة مسومین﴾․
البتہ اگر تم صبر کر واور بچتے رہو اور وہ آئیں تم پر اسی دم تو مدد بھیجے تمہارا رب پانچ ہزار فرشتے نشان دار گھوڑوں پر او رارشاد ہے: ﴿واتقوالله لعلکم تفلحون﴾․
اور ڈرو الله سے، تاکہ تمہارا بھلا ہو ۔
اور ارشاد ہے: ﴿یا أیھا الذین آمنوا اصبروا وصابروا ورابطوا واتقوا الله لعلکم تفحلون﴾․
اے ایمان والو! صبر کر واو رمقابلہ میں مضبوط رہو اور لگے رہو اور ڈرتے رہو الله سے ، تاکہ تم اپنی مراد کو پہنچو۔
اس آیت میں تقویٰ کو سب سے آخرمیں ذکر کیا گیا ہے، تاکہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ تقوی ان سب کاموں کی روح اور قبولیت اعمال کا مدار ہے۔
ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے:
”عن أبی ذر قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: إنی لأعلم آیة لو أخذ الناس بھا لکفتھم“․
حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر لوگ اس پر عمل کر لیں تو ان کے دین ودنیا کے لیے وہی کافی ہے ۔ وہ آیت یہ ہے ۔
﴿ومن یتق الله یجعل لہ مخرجاً﴾ ۔ ( الآیة)
یعنی جو شخص الله تعالیٰ سے ڈرے الله اس کے لیے راستہ نکال دیتے ہیں ۔(معارف القرآن ص:161، ج2 بحوالہ مسند احمد)
(جاری ہے)

Flag Counter