Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1430ھ

ہ رسالہ

5 - 14
***
دینی مدارس کے بارے میں صدر پاکستان کےارشادات اور ہمارا موقف
مولانا قاری محمد حنیف جالندھری
صدر ِ پاکستان جناب آصف علی زرداری صاحب نے اپنے حالیہ دورہ امریکا کے دوران واشنگٹن میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” مدارس ریفارمز کے تحت حکومت تمام مدرسوں کا کنٹرول سنبھال لے گی اور طلبہ کو انتہا پسندوں سے علیٰحدہ کرکے انہیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم سے بھی بہرہ مند کیا جائے گا“۔ انہوں نے کہا ہے کہ” پیپلز پارٹی کی حکومت نے پاکستان میں مدرسہ سسٹم میں اصلاحات لانے کا عزم کر رکھا ہے،جس کے تحت نصاب کو جدید بنایا جائے گا اور انہیں حکومتی نظام میں شامل کیا جائے گا ۔“ صدر مملکت کے ان ارشادات کا جائزہ لیا جائے تو تین باتیں سامنے آتی ہیں، پہلی بات مدارس کو حکومتی کنٹرول میں لینے کی خواہش ، دوسری بات مدارس سسٹم میں اصلاحات اور تیسری بات مدارس کے نصاب میں تبدیلی۔
جہاں تک مدارس کو سرکاری کنٹرول میں لینے کی خواہش کا معاملہ ہے تو حقیقت یہ ہے کہ مدار س کو سرکاری کنٹرول میں لینے کاخواب بہت سے سابق حکمرانوں نے بھی دیکھا تھا، لیکن کسی کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا اوران شاء الله آئندہ بھی ایسا کوئی خواب ہر گز پورا نہیں ہو گا۔ مدارس چوں کہ دین مبین کی سَچی اور سُچی تعلیمات کو فروغ دینے میں سر گرم عمل ہیں اور ظاہر ہے کہ دین کی حقیقی تعلیمات کو مدارس کی آزادی وخود مختاری اور اندرونی، بیرونی مداخلت سے محفوظ رکھے بغیر فروغ نہیں دیا جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ اہل مدارس معاشی طور پر انتہائی بد حالی او رکسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں ، مدارس قرضوں کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں ، مدارس کے اساتذہ بہت قلیل مشاہرے پر گزر بسر کرتے ہیں، مدارس کے طلبا روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے ہیں، لیکن مدارس کسی قسم کی سرکاری یا بیرونی امداد قبول نہیں کرتے ۔ اس ریاضت کی وجہ صرف یہ ہے کہ مدار س کو کسی کی ڈکٹیشن قبول نہ کرنی پڑے، کیوں کہ جب ہم قومی ، ملکی اور سرکاری طور پر آئی ایم ایف، ورلڈ بینک ، امریکا اور دیگر مالیاتی اداروں سے امداد اور قرض لیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کی کڑی شرائط بھی ماننی پڑتی ہیں اور ان کی من پسند پالیسیاں بھی تسلیم کرنی پڑتی ہیں ، جب کہ دینی مدارس نے چوں کہ خالصتاً قرآن وسنت اور دین مبین کی حقیقی تعلیم دینی ہوتی ہے اس لیے دینی مدارس نہ تو کسی مالیاتی ادارے کی شرائط تسلیم کر پاتے ہیں اور نہ ہی مدارس کے نظام میں کسی کی مداخلت کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ ہمارے سرکاری اداروں کے نصاب ونظام کے ساتھ گزشتہ ساٹھ برسوں سے کس قسم کا سلوک روا رکھا گیا ؟ ہر حکمران نے عصری تعلیمی درس گاہوں کو بازیچہ اطفال سمجھا او ران کے نصاب کو موم کی ناک کی طرح اپنی خواہشات کا تختہ مشق بنایا۔ اگر دینی مدارس اپنے نصاب ونظام کے حوالے سے کسی کی ڈکٹیشن اور مداخلت قبول کرنے لگتے تو خود سوچیے کہ ایسے وزرائے تعلیم جنہیں یہ تک معلوم نہ تھا کہ قرآن کریم کے تیس پارے ہوتے ہیں یا چالیس ؟ وہ مدارس کے نصاب ونظام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ؟جس طرح ہماری عصری درس گاہوں کے نصاب سے دینی مواد کو بتدریج ختم کرکے مادر پدر آزاد ماحول پروان چڑھایا گیا ، اگر مدارس کو سرکار کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا تو آج امریکی ایما پر مدارس دینیہ کے تمام بال وپرنوچ کر ان کاحلیہ تک بگاڑ دیا گیا ہوتا۔ اگر مدارس کو کنٹرول میں لینے کی خواہش کے پیچھے اس قسم کی کوئی غلط فہمی موجود ہے کہ مدارس حکومتی عمل داری سے ہی باہر ہیں او ران کی نگرانی ہی نہیں کی جاتی تو اس غلط فہمی کا فوراً ازالہ ہو جانا چاہیے، کیوں کہ مدارس کی باقی اداروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کڑی نگرانی ہوتی ہے، بلکہ نگرانی کے نام پر مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے انسانی حقوق تک پامال کیے جاتے ہیں ۔مدارس کو حکومت کی طرف سے اس قدر باز پرس کا سامنا رہتا ہے کہ مدارس کے منتظمین زچ ہو جاتے ہیں او رانہیں آزادی سے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس وقت پاکستان کے تقریباً تمام مدارس رجسٹرڈ ہیں، ان کا مکمل ریکارڈ سرکاری اداروں کے پاس موجود ہے اور یہ مدارس مکمل طو رپرملکی آئین اور قانون کے تحت اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اس لیے ہمارے حکمرانوں کو مغرب کے سامنے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے انہیں یہ بھی باور کروانا چاہیے کہ پاکستان میں مدارس تو پہلے ہی ملکی آئین کے دائرے اور قومی دھارے میں شامل ہیں، انہیں نہ تو مزید کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ، نہ قومی دھار ے میں لانے کے لیے کسی قسم کے جتن کرنے کی حاجت ہے او رنہ ہی مدارس کا نظام کسی قسم کی مہم جوئی اور طالع آزمائی کو قبول کر سکتا ہے۔
جہاں تک جدید علوم سے مدارس دینیہ کے طلبا کو بہرہ مند کرنے کا تعلق ہے اس حوالے سے عرض ہے کہ مدارس کی قیادت نے کبھی بھی ان علوم کی ضرورت واہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا، بلکہ عملاً اس وقت انگریزی، سائنس، کمپیوٹر اور دیگر جدید علوم مدارس کے نصاب میں شامل ہیں ، کئی مدارس میں انتہائی جدید قسم کی کمپیوٹر لیبز قائم ہیں۔ کئی مدارس فارغ التحصیل علماء کو انگریزی ، صحافت اور کمپیوٹر وغیرہ کے خصوصی کورسز کرواتے ہیں، تاہم یہ بھی یاد رہے کہ موجودہ دور چوں کہ اسپیشلائزیشن کا دور ہے اس دور میں جب میڈیکل کالجز میں پڑھنے والے طلبا کو انجینئرنگ نہ پڑھنے کا طعنہ نہیں دیا جاتا اورانجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ طلباء پر میڈیکل سے نابلد ہونے کی پھبتی نہیں کسی جاتی تو پھر مدارس کے طلبا کو دینی علوم جو دنیوی فنون کے مقابلے میں میں کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کرنے پرکیوں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے ؟ 
باقی جہاں تک نصاب کی تبدیلی کا معاملہ ہے اس بارے میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کی سربراہی میں مدارس کے منتظمین، علمائے کرام ، ماہرین تعلیم اور قدیم وجدید علوم پر دسترس رکھنے والے اہل علم پر مشتمل اکتیس رکنی کمیٹی قائم ہے ۔ یہ کمیٹی وقتاً فوقتاً نصاب کا جائزہ لیتی رہتی ہے اور اسے عصر حاضر کی ضروریات کوملحوظ رکھتے ہوئے اپ ڈیٹ کیا جاتا رہتا ہے، اس لیے کسی کو مدارس کے نصاب میں تبدیلی کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں اور پھر جب یہ تبدیلی امریکی ایما پر ہو تو خود اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کے کیا کرشمے ہوں گے؟
مدارس میں اصلاحات کا نعرہ ہر دور میں لگایا جاتا رہا۔ یہ نعرہ بظاہر تو بڑا پرکشش او رہمدردی وخیر خواہی پر مبنی معلوم ہوتا ہے لیکن در حقیقت اس نعرے کے پیچھے ” ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں “ والا معاملہ کار فرما ہے ۔ الله کا قرآن سورہ بقرہ کی ابتد ا میں ہی ہمیں بتاتا ہے کہ منافقین کوجب یہ کہا جاتا کہ ” زمین میں فساد مت پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں ہم فساد تو نہیں پھیلا رہے، بلکہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔الله فرماتے ہیں آگاہ رہو! یہی لوگ اصل میں اصلاحات کے نام پر فساد اور بگاڑ پیدا کر رہے ہیں، لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔“ مدرسہ ریفارمز کے پرکشش نعرے کے پیچھے بھی دراصل مدارس کے نصاب ونظام میں بہتری اور مثبت تبدیلی کے بجائے قطع وبرید ، ترمیم وتحریف، مدارس کی مُشکیں کسنے اور انہیں حقیقی دینی تعلیم سے باز رکھنے کے عزائم اور منصوبے شامل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ملک میں بیٹھ کر اور مدارس کی قیادت کو اعتماد میں لے کر مدارس میں اصلاحات کرنے کے بجائے امریکی سر زمین پر جاکر مدارس میں اصلاحات کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے ، جو آج کی بات نہیں،بلکہ سابقہ حکمرانوں کا بھی وطیرہ رہا ہے اور یہ سب کچھ اپنے مغربی آقاؤں کی خوشنودی کے حصول اور ڈالروں کی طلب میں کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ اطلاع بھی قارئین کے لیے یقینا دلچسپی کا باعث ہو گی کہ ہماری حکومت نے فرینڈز آف پاکستان سے مدرسہ ریفارمز کی مد میں ڈالرز کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک ایسی حکومت جس کی کرپشن کے قصے زبان زد عام ہیں اور طلال بگٹی جس حکومت کی اعلیٰ شخصیات پر پچاس کروڑ روپے رشوت طلب کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں اس حکومت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ مدارس میں اصلاحات کے نام پر بیرونی امداد لے کر اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟
اس لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ حکومت مدارس کو اپنی اصلاحات کا تختہ مشق بنانے کے بجائے ان اداروں میں اصلاحات کا آغاز کرے جہاں بوٹی مافیا کا راج ہے، جہاں سے اسلحہ برآمد ہوتا ہے ، جن اداروں کے ہاسٹلوں میں منشیات کی بھر مار ہے ، جن اداروں سے شرم وحیا کے جنازے اٹھتے ہیں اورجہاں تعلیم وتربیت کے بجائے بے راہروی سکھائی جاتی ہے۔ حکومت ٹاٹ کلچر، طبقاتی نظام تعلیم، گھوسٹ اسکولوں کا خاتمہ کرے۔ اگر قومی نظام تعلیم کی مکمل اصلاح اور فلاح وبہبود کے بعد حکومت مدارس میں اصلاحات کرنا چاہے گی تو ہمارے لیے زیادہ باعث مسرت ہو گا، لیکن اگر اربوں روپے بجٹ خرچ کرنے کے باوجود گزشتہ ساٹھ سالوں کے دوران ہمارا نظام تعلیم بہتر ہونے کے بجائے زوال وانحطاط کا ہی شکار ہو تو ایسے میں ہمیں مدارس میں نہام نہاد اصلاحات کی فکر میں ہلکان ہونے کے بجائے اس نظام تعلیم کی بہتری کی فکر کرنی چاہیے اور مدارس کے ٹمٹماتے چراغوں کو بجھانے کی کوشش کرنے کے بجائے ان کی لوکو مدہم نہیں ہونے دینا چاہیے، جو ہم سے نہ کچھ مانگتے ہیں نہ کچھ لیتے ہیں، بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت اس قوم کے بیس لاکھ بچوں کو تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ قیام وطعام اور علاج معالجہ تک کی مفت سہولیات بھی مہیا کرتے ہیں۔

Flag Counter