Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1430ھ

ہ رسالہ

8 - 14
***
تاتاریوں میں اشاعت اسلام
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
تاتاریوں کا ایک سال کے عرصہ میں برق وباد کی طرح وسیع اسلامی دنیا پر چھا جانا اور عالمِ اسلام کو بزور شمشیر فتح کر لینا اتنا عجیب واقعہ نہیں، اس لیے کہ ساتویں صدی کا عالم اسلام ان بیماریوں اور کمزوریوں کا شکار تھا ، جو بالعموم تہذیب وتمدن کی انتہائی ترقی کے بعد قوموں میں پیدا ہو جایا کرتی ہیں اور ان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں، اس کے بالمقابل تاتاری تازہ دم، جفاکش، بدوی زندگی کے عادی اور خوں خوار اور خون آشام تھے ، لیکن عجیب واقعہ اور تاریخ کا معمہ یہ ہے کہ اپنے انتہائی عروج کے زمانے میں یہ نیم وحشی قوم اپنے مفتوح اور بے دست وپا مسلمانوں کے دین کی حلقہ بگوش بن گئی، جو اپنی ہر قسم کی مادی وسیاسی طاقت کھو چکا تھا اور جس کے پیروؤں کو تاتاری سخت ذلت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے ، پروفیسر ٹی ، ڈبلیو ، آرنلڈ اپنی مشہور کتاب دعوتِ اسلام (Preaching of Islam) میں استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے:
” لیکن اسلام اپنی گذشتہ شان وشوکت کے خاکستر سے پھراٹھا اور واعظین اسلام نے انہیں وحشی مغلوں کو جنہوں نے … مسلمانوں پر کوئی ظلم باقی نہ رکھا تھا مسلمان کر لیا، یہ ایسا کام تھا جس میں مسلمانوں کو سخت مشکلیں پیش آئیں ، کیوں کہ دو مذہب اس بات کی کوشش میں تھے کہ مغلوں اور تاتاریوں کو اپنا معتقد بنائیں اور وہ حالت بھی عجیب وغریب اور دنیا کا بے مثل واقعہ ہو گی جس وقت بدھ مذہب ، عیسائی مذہب اور اسلام اس جدوجہد میں ہوں گے کہ ان وحشی اور ظالم مغلوں کو، جنہوں نے ان تین بڑے مذہبوں کے معتقدوں کو پامال کیا تھا، اپنا مطیع بنائیں۔“ ( دعوت اسلام ) مترجمہ مولوی عنایت الله ص241-240)
اسلام کے لیے ایسے وقت میں بدھ مذہب اور عیسائی مذہب کا مقابلہ کرنا اور مغلوں کو ان دونوں مذہبوں سے بچا کر اپنا پیرو بنانا ایسا کام تھا جس میں بظاہر کامیابی ناممکن معلوم ہوتی تھی، مغلوں کے طوفان ہلاکت خیز سے مسلمانوں کے برابر کسی نے نقصان نہ اٹھایا تھا ، وہ مشہور معروف شہر جو ایک زمانے میں اسلامی علوم وفنون کا مرکز تھے اور جہاں ایشیا کے ارباب علم وفضل آباد تھے اکثر جلا کر خاک کر دیے گئے تھے ، مسلمانوں کے عالم اور فقیہ یا توقتل کر دیے گئے یا ان کو غلام بنایا گیا ، مغلوں نے مسلمانوں پر ایسے ظلم کیے کہ چینی تماشے والے جب پردہ پر عکس کی تصویر دکھاتے ہیں تو ایک تصویر میں سفید داڑھی کا ایک بڈھا آدمی آتاہے، جس کی گردن گھوڑے کی دم سے بندھی ہوتی ہے اور گھوڑا اس کو گھسیٹے گھسیٹے پھرتا ہے، یہ تصویر گویا ظاہر کرتی ہے کہ مغلوں کے سواروں نے مسلمانوں کو کیسے آزار پہنچائے۔ خانان مغل جو اسلام کے سوائے اور سب مذہبوں پر مہربان تھے ، اسلام کے ساتھ مختلف درجہ کی نفرت اور عداوت رکھتے تھے، چنگیز خاں نے حکم دیا تھا کہ جو لوگ جانوروں کو شرع کے مطابق ذبح کریں ان کو قتل کر دیا جائے، اسی حکم کو قوبلائی خان نے اپنے زمانہ میں از سر نو جاری کیا اور اس کی پیروی کے لیے مخبر او رمخبروں کے لیے انعام مقرر کیے اور ا س طرح سات برس تک مسلمانوں کو سخت سے سخت آزار پہنچائے ، مفلسوں نے اس موقع پر دولت جمع کر لی او رغلاموں نے آزاد ہونے کے لیے آقاؤں پر ذبیحہ کا الزام لگایا۔ گیوک خاقان کے عہد میں (1248-1246) جس نے کل انتظام سلطنت دو عیسائی وزیروں کے سپرد کر رکھا تھا مسلمانوں کو سخت اذیتیں پہنچیں ، ارغوخان نے بھی ، جو چوتھا ایلخان (1291-1284) ہوا، مسلمانوں پر ظلم کیے اور عدالت اور مال کے محکموں میں جس قدر آسامیاں ان کے پاس تھیں ، وہ خالی کرالیں او ران کادربار میں آنا بند کردیا۔
یہ واقعہ جتنا عجیب اور عظیم الشان ہے ، اتنا ہی یہ امر حیرت انگیز ہے کہ تاریخ میں اس کی تفصیلات اور جزئیات بہت کم ملتی ہیں اور جن لوگوں کے ہاتھوں یہ کارنامہ انجام پایا ان کا تاریخ کے دفتر میں بہت کم سراغ ملتا ہے، جن مخلصین نے اس خون آشام تاتاری قوم کو اسلام کا حلقہ بگوش بنایا، ان میں بہت کم لوگوں کا نام دنیا کو معلوم ہے، مگر ان کا یہ کارنامہ کسی اسلامی کارنامے سے کم نہیں اور ان کا احسان نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ پوری انسانیت پر قیامت تک رہے گا کہ انہوں نے دنیا کو وحشت وبربریت سے محفوظ کرکے ایک ایسی قوم کی تولیت میں دے دیا جو خدائے واحد کی پرستار اورر حمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کے دین کی علم بردار تھی۔
ہم یہاں مثال کے طور پر صرف چغتائی بن چنگیز خان کی شاخ میں اشاعت اسلام کے واقعہ کا ذکرکرتے ہیں ، پروفیسر آرنلڈ لکھتا ہے:
” بلاد متوسطہ میں، جو چغتائی بن چنگیز خان اور اس کے والد کے حصے میں آئے تھے، دعوت اسلام کے حالات کا پتہ کم چلتا ہے ، اس سلسلہ میں پہلا بادشاہ جس کو نور اسلام کی برکت ملی وہ براق خاں تھا ، جو چغتائی خاندان کا پوتا تھا اور جس نے تخت نشین ہونے کے دو برس کے بعد مسلمان ہو کر سلطان غیاث الدین (1270-1266) اپنا نام رکھا، لیکن یہاں شروع زمانہ میں اسلام کی ترقی زیادہ عرصہ تک جاری نہ رہ سکی ، چوں کہ براق خاں کے مرنے کے بعد جو مغل مسلمان ہوئے تھے انہوں نے پھر اپنا قدیم مذہب اختیار کیا اور چودھویں صدی عیسوی سے پہلے اس حالت کی اصلاح ہو سکی، البتہ طرمشرین خاں جس نے 1322ء سے1330ء تک سلطنت کی، جس وقت مسلمان ہوا تو چغتائی مغلوں نے بالعموم اسلام اختیار کر لیا اور جب ایک دفعہ انہوں نے اپنے بادشاہ کی طرح اسلام قبول کر لیا، تو وہ مضبوط دل سے اس مذہب پر قائم رہے، لیکن اس سال میں بھی اسلام کا اور مذہبوں پر غالب آنا، جو حریف مقابل تھے، یقینی امر نہ تھا، کیوں کہ طرمشرین کے جانشینوں نے مسلمانوں کے اوپر ظلم وستم کرنے شروع کر دیے، جب تک کاشغر کا بادشاہ ،جس کی ریاست چغتائیہ سلطنت کی تقسیم وضعف سے خود مختار ہو گئی تھی، اسلام کی حمایت کو نہ اٹھا اس وقت تک اسلام کی ترقی ممکن نہ ہوئی ، سلطان کاشغر کے مسلمان ہونے کی نسبت جس کا نام تغلق تیمور خاں (1363-1347) تھا، لکھا ہے کہ بخارا سے ایک بزرگ شیخ جمال الدین کاشغر میں آئے اور انہوں نے تغلق تیمور کو مسلمان کیا، شیخ جمال الدین او ران کے ساتھی سفر میں تھے کہ نادانستہ تغلق کی شکاری زمین پے سے ان کا گزر ہوا ، بادشاہ نے اس قصور میں ان سب لوگوں کی مشکیں کسوا کر اپنے سامنے طلب کیا اور نہایت غصہ کی حالت میں ان سے پوچھا کہ تم لوگ کیوں ہماری زمین پر بے اجاز ت داخل ہوئے ؟شیخ نے جواب دیا کہ ہم اس ملک میں اجنبی ہیں اور ہم کو مطلق خبر نہ تھی کہ ہم ایسی زمین پر چل رہے ہیں ، جس پر چلنے کی ممانعت ہے ، بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لوگ ایرانی ہیں تو اس نے کہا کہ ایرانی سے تو کتا بہترہوتا ہے۔ شیخ نے کہا کہ سچ ہے ، اگر دین حق ہمارے پاس نہ ہوتا تو فی الحقیقت ہم کتے سے بدتر تھے۔ یہ جواب سن کر تغلق تیمور حیران رہ گیا اور حکم دیا کہ جب ہم شکار سے واپس آئیں تو یہ ایرانی ہمارے سامنے حاضر کیے جائیں ۔ چناں چہ ایساہی ہوا اور بادشاہ نے شیخ جمال الدین کو علیٰحدہ لے جاکر کہا کہ جو کچھ تم اس وقت کہتے تھے اس کو اب سمجھاؤ ،دین برحق سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ یہ سن کر شیخ نے اسلام کے احکام اور ارکان کو ایسے جوش سے بیان کیا کہ تغلق تیمور کا دل جو پہلے پتھر تھا ، اب موم کی طرح نرم ہو گیا، شیخ نے حالت کفر کا ایسا مہیب نقشہ کھینچا کہ بادشاہ کو اپنی غلطیوں سے اب تک بے بصیرت رہنے کا یقنی ہو گیا ، لیکن اس نے کہا کہ اگر اس وقت میں اپنا مسلمان ہونا ظاہر کروں گا تو پھر رعایا کو راہ راست پر نہ لاسکوں گا ، اس لیے کچھ عرصہ کے لیے تم سکوت کرو ، جب میں اپنے باپ کے تخت اور ملک کا مالک بنوں تو اس وقت تم میرے پاس آنا۔ چغتائیہ سلطنت اب حصہ ہو کر چھوٹی چھوٹی عمل داریوں میں قائم ہو گئی تھی اور برسوں کے بعد تغلق تیمور اس قابل ہوا کہ ان سب عمل داریوں کو شامل کرکے پھر قلمروچغتائیہ کی مثل ایک سلطنت قائم کر دے، اس عرصہ میں شیخ جمال الدین اپنے وطن کو چلے گئے اوریہاں سخت بیما رپڑے، جب موت کا وقت قریب آیا تو اپنے بیٹے رشیدالدین سے کہا کہ تغلق تیمور ایک دن بڑا بادشاہ ہو گا، تم اس وقت اس کے پاس جانا اور میراسلام پہنچا کر بے خوف وخطر بادشاہ کو یاددلانا کہ اس نے مجھ سے کیا وعدہ کیا تھا ، چند سال کے بعد تیمور تغلق نے باپ کا تخت حاصل کر لیا توایک دن رشیدالدین بادشاہ کے لشکر میں پہنچا کہ باپ کی وصیت کو پورا کرے ، لیکن باوجود کوشش کے اس کو خان کے دربار میں حضوری نہ ہوئی، آخر کار اس نے مجبور ہو کر یہ تدبیر کہ ایک دن علی الصباح تغلق کے خیمہ کے قریب اذان کہنی شروع کی، تغلق کی جب نیند خراب ہوئی تو غصہ ہوا اس نے رشید الدین کو اپنے سامنے بلوا یا، رشیدالدین آیا اور اپنے باپ کا پیغام تغلق کو سنایا، تغلق کو پہلے ہی سے اپنے وعدہ کا خیال تھا ، وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوا ، اس کے بعد اس نے اپنی رعایا میں اسلام کی اشاعت کی اور اس کے زمانے میں ان تمام ملکوں کا مذہب اسلام ہو گیا، جو چغتائی بن چنگیز خاں کے تسلط میں رہتے تھے۔“ ( دعوت اسلام آز آرنلڈ ص256)
بعض ترکی مؤرخین کی تاریخوں میں یہ روایت اس طرح منقول ہے کہ تغلق تیمور نے اپنے شکاری کتے کی طرف اشارہ کرکے کمال حقارت سے شیخ جمال الدین سے پوچھا یہ بہتر ہے کہ تم بہتر ہو ؟ شیخ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ اگرمیں دنیا سے ایمان کے ساتھ چلاگیا تو میں بہتر ہوں، ورنہ یہ کتا۔ تغلق تیمور کے دل میں یہ بات چبھ گئی اور اس نے اس کی تفصیل دریافت کی اور پوچھا کہ ایمان کسے کہتے ہیں ؟ شیخ نے ایمان کی حقیقت بیان کی،اس پر تغلق تیمور نے ان سے خواہش کی کہ اس کی تخت نشینی کے بعد اس کو اپنی زیارت سے مشرف کریں اور پھر وہ واقعہ پیش آیا جو اوپر مذکور ہوا ، بہرحال اتنا محقق ہے کہ تغلق تیمور کے اسلام لانے اور بالواسطہ کاشغر اور سلطنت چغتائیہ میں اسلام کی اشاعت کا ظاہری سبب شیخ جمال الدین ہیں ، جن کے دل سے نکلے ہوئے ایک فقرہ نے او ران کی قوتِ ایمانی اور اخلاص ودرد نے وہ کام کیا جو ہزاروں تقریریں اور لاکھوں شمشیریں نہیں کرسکتیں۔

Flag Counter