Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1430ھ

ہ رسالہ

4 - 14
***
اولاد کی تربیت ..والدین سے چند کھری کھری باتیں
محترم سید عبدالله ناصح علوان
کیا یہ صورت حال افسوس ناک نہیں ہے کہ ہمارے نوجوان سن شعور کو پہنچ جاتے ہیں، لیکن ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسلام دین وحکومت ، قرآن وتلوار، عبادت وسیاست سب کے مجموعہ کا نام ہے اور اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو ترقی پذیر زمانہ اور ترقی یافتہ زندگی کے ساتھ چلنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔ کیا یہ تکلیف دہ بات نہیں ہے کہ ہماری اولاد اسکولوں میں مغرب کے سرکردہ لوگوں اور مشرق کے فلاسفہ کے کارناموں کی تو معلومات رکھتی ہو مگر مسلمانوں کے سرکردہ لوگوں اور اسلام کے بہادروں کی زندگی کے بارے میں ان کو معمولی معلومات بھی حاصل نہ ہو ؟ اور کیا یہ بات دل وجگر کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والی نہیں ہے کہ مسلمان نوجوان ایسے مدعیوں کے پیچھے چلنے لگ جائیں جو ان کی قوت فکر یہ کو معطل کر دیں اور اسلامی ثقافت سے ان کو بالکل منقطع کر دیں اور ہر مخلص مرشد سے تعلق ختم کر دیں جو انہیں اسلام کی حقیقت سمجھا سکے اور اسلام کا کامل نظریہ واضح کر سکے۔ اور آخری بات یہ ہے کہ کیا یہ ذلّت ورسوائی اور عیب کی بات نہیں ہے کہ ہماری اولاد ملحدانہ نظریات پر مشتمل کتابیں او رگندے اور عریاں رسالے اور عشقیہ قصے کہانیاں توجمع کرے لیکن ان کا ایسی کتابوں سے قطعاً واسطہ نہ ہو جو اسلام کے نظام کو پیش کرتی ہوں اور دشمنوں کے اعتراضات کو دور کرتی ہوں اور تاریخ کے قابل فخر کارناموں کو بیان کرتی ہوں۔ مگر افسوس کہ اب مسلمان ایسی علمی دینی کتابوں کے نہ خریدنے کی ضرورت سمجھتے ہیں اور نہ پڑھنے کی ۔
اس لیے اے والدین اور اے مربیو! آپ کی یہ ذمے داری ہے کہ آپ لوگ اپنے جگر گوشوں کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کو ادا کریں ۔ اگر ان کے نظریات وافکار گمراہ کن آرا پر مشتمل ہوں تو ان کی اصلاح کی پوری کوشش کریں اور ساتھ ہی یہ فرض ہے کہ مادہ پرستوں اور مستشرقین کی بہتان طرازیوں سے بھی آگا ہ کرتے رہیں، اگر آپ حضرات اس راستے پر چلے تو آپ کی اولاد اپنے دین کو عزت وافتخار کا ذریعہ سمجھے گی اور اپنے بزرگوں کی تاریخ پر فخر کرے گی۔ اور اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو دین نہ سمجھے گی ۔
ذہنی صحت وتندرستی کی ذمہ داری
والدین پر ازروئے شریعت یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی عقل کی اصلاح کی فکرکریں۔ تاکہ ان کی فکر ورائے درست رہے اور ان کا حافظہ قوی اور ذہن صاف اور عقل پختہ رہے۔ اس مناسبت سے اب ہم جسم وعقل کو نقصان پہنچانے والی چیزوں کا ذکر کرتے ہیں ۔
جسم وعقل کو نقصان پہنچانے والی چیزیں
شراب نوشی کی لعنت۔ خواہ کسی شکل میں ہو ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو صحت کو تباہ وبرباد کر دیتی ہے۔
مشت زنی کی عادت۔ اس پر مداومت دق وسل پیدا کرتی ہے اور حافظہ کو کمزور کرتی ہے۔
تمباکو نوشی کی عادت۔ یہ ایسی لعنت ہے جو عقل پر اثر انداز ہوتی ہے او رحافظہ کو کمزور کر دیتی ہے۔
جنسی جذبات کو بھڑکانے والی چیزوں کی آفت۔ جیسے گندی فلموں کا دیکھنا ،ننگی تصویروں کو دیکھنا۔ اس لیے کہ یہ چیزیں عقل کی ذمہ داری اور فریضہ کو معطل کر دیتی ہیں اور ذہنی پراگندگی پیدا کرتی ہیں ( نیز اس کی زیادتی سے اچھا خاصا انسان ہوس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے ) اور قیمتی وقت کے ضیاع کی موجب ہیں۔
پس یہ وہ ذمہ داریاں ہیں جو بچوں کی عقلی تربیت کے سلسلہ میں والدین، اساتذہ اور مربیوں پر عائد ہوتی ہیں ۔ لہٰذا اگر یہ لوگ اس کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے تو الله تعالیٰ ان سے عنقریب حساب لے گا اور باز پرُس فرمائے گا۔
چناں چہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے:
”ان الله سائلٌ کل راع عما استرعاہ حفظ ام ضیّع“ (ابن حبان)
الله تعالیٰ ہر نگہبان سے اس کی رعایا کے بارے میں دریافت فرمائیں گے کہ اس نے ان کی دیکھ بھال کی یا انہیں ضایع کر دیا؟
اے الله! ہمیں ان لوگوں میں سے بنا دیجیے جو الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں ۔ اور ان لوگوں میں سے بنائیے جنہوں نے اپنی اولاد او رگھر بار کی دیکھ بھال کی اور اپنی ذمہ داری کے فرائض کو بہتر طریقے سے پورا کیا ۔ آپ ہی سے اچھی امید قائم کی جاسکتی ہے اور آپ ہی وہ کریم داتا ہیں جس سے سوال کیا جاتا ہے۔
نفسیاتی تربیت کی ذمے داری
نفسیاتی تربیت سے مراد یہ ہے کہ بچہ جب سمجھ دار ہو جائے تو اسی وقت سے اس کو حق کے سلسلہ میں جرأت ، صداقت اور شجاعت کی تربیت دی جائے اور دوسروں کے لیے خیر وبھلائی پسند کرنے ، غصہ کے وقت قابو میں رہنے اور نفسیاتی اور اخلاقی فضائل وکمالات سے آراستہ ہونے کی ترغیب دی جائے ۔
اس تربیت کا مقصد بچے کی شخصیت کو بنانا اور اس کی تکمیل وآراستگی ہے، تاکہ جب وہ بڑا ہو تو جو ذمہ داریاں اس پر ڈالی جائیں انہیں عمدگی اور خوبی کے ساتھ صحیح طریقہ سے ادا کرسکیں۔
بچے میں نفسیاتی امراض وعادات
میرے خیال میں وہ اہم عوامل وعادات، جن سے مربیوں اور اساتذہ کو اپنے بچوں او رشاگردوں کو بچانا چاہیے، وہ مندرجہ یل ہیں :
شرمیلا پن اور جھینپنے کا مرض، خوف ودہشت کی عادت،احساس کمتری کا شعور، حسد وبغض کی بیماری،غصہ میں آپے سے باہر ہو جانا، غفلت ولاپروائی۔
شرمیلا پن اور جھینپنے کا مراض
بچوں میں فطری طور سے شرمیلا پن ہوتا ہے او راس کی ابتدائی علامات چار مہینے کی عمر سے شروع ہو جاتی ہے او رایک سال کی عمر مکمل ہونے کے بعد شرمانے کی عادت مکمل طور پر نظر آنے لگتی ہے اور تین سال کی عمر میں شرم کو اس وقت محسوس کرتا ہے جب کہ وہ نئی جگہ جاتا ہے اور بسا اوقات وہ اپنی ماں کی گود میں یا اس کے پاس بیٹھ کر تمام وقت گزار دیتا ہے اور اپنا ہونٹ تک نہیں ہلاتا۔
بعض بچوں میں تویہ مرض موروثی ہوتا ہے۔ نیز گھر کے ماحول کا بھی بچے پرکافی اثر پڑتا ہے۔ پس وہ بچے کم شرمیلے ہوتے ہیں جو دوسروں سے میل جول رکھتے ہیں ۔
اس مر ض کا علاج
اس مرض کا علاج اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ ہم بچوں کو لوگوں کے ساتھ میل جول کا عادی بنائیں ۔ اب خواہ اس سلسلہ میں یہ کریں کہ اپنے دوستوں کو اپنے گھر پر بار بار بلا کر ان بچوں کے اندر میل جول کی عادت ڈالیں ۔ یا والدین جب اپنے دوستوں عزیزوں سے ملنے جائیں تو بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں اور ان سے ملاقات کرائیں ۔ یا نرمی سے ان کو سمجھائیں کہ دوسروں سے بھی ملا جلا کریں اور بات چیت کیا کریں، خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔
ذیل میں چند وہ تاریخی مثالیں اور احادیث نبویہ پیش کی جارہی ہیں جو تمام تربیت کرنے والے حضرات کے لیے مشعل راہ کا کام دیں گی۔
الف: امام بخاری وغیرہ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے، جو کہ ابھی بالغ نہیں ہوئے تھے ، یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ جس کے پتے نہیں جھڑتے اور وہ ( نفع پہنچانے میں ) مسلمان کی طرح ہے ۔ بتلاؤ! وہ کون سا درخت ہے ؟ حضرت عبدالله فرماتے ہیں کہ لوگ وادی کے مختلف درختوں کے بارے میں بتلانے اور سوچنے لگے او رمیرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ درخت کھجور کا ہے۔ لیکن شرم کی وجہ سے لب کشائی نہ کی ۔ پھر صحابہ کرام رضی الله عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اے الله کے رسول! آپ ہی ہمیں بتلا دیں کہ وہ کون سا درخت ہے ؟ ”قال: ھی النخلة“ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر وعمر  خاموش ہیں ، اس لیے میں نے بات کرنا مناسب نہ سمجھا۔ پھر جب وہاں سے رخصت ہوئے تو میں نے اپنے والد ماجد سے اپنے دل میں آنے والا خیال ظاہر کیا تو انہوں نے فرمایا، اگر تم یہ بات اس وقت کہہ دیتے تو مجھے سرخ اونٹوں کے حصول سے زیادہ خوشی حاصل ہوتی۔
ب: امام مسلم حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله عیہ وسلم کے پاس کوئی مشروب ( پینے کی چیز) لایا گیا۔ آپ نے اسے نوش فرمایا۔ اس وقت آپ کے دا ہنی جانب ایک نو عمر جوان ( یعنی حضرت ابن عباس ) بیٹھے تھے اور بائیں جانب عمر رسیدہ حضرات بیٹھے تھے ۔ تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان نو عمر صاحبزادے سے فرمایا: ”أتاذن لی أن أعطی ھٰؤلاء؟“ یعنی کیا تم مجھے اس بات کی اجازت دیتے ہو کہ میں پہلے ان حضرات کو دے دوں؟ تو اس نوجوان نے کہا ، نہیں …بخدا ہر گز نہیں ! آپ سے حاصل ہونے والے متبرک حصہ کے بارے میں میں کسی کو ہر گز ترجیح نہیں دے سکتا۔
فائدہ سبحان الله! کیسی فراست ودانش مندی کی بات فرمائی۔ (ق)
ج: عید کے موقع پر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ الله تعالی نے اپنے ایک بیٹے کو پرانے کپڑے پہنے دیکھا تو ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈباگئیں۔ ان کے صاحبزادے نے دیکھ لیا اور ان سے پوچھا اے امیر المومنین! آپ کو کس چیز نے رُلایا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ۔ میرے بیٹے! مجھے ڈر ہے کہ جب دوسرے لڑکے تمہیں ان پُرانے کپڑوں میں دیکھیں گے تو اس سے تمہارا دل ٹوٹ جائے گا۔ اس لڑکے نے جواب دیا اے امیر المومنین! دل تو اس شخص کا ٹوٹتا ہے جس سے الله ناراض ہو یا جو اپنے ماں باپ کا نافرمان ہو اور مجھے تو یہ امید ہے کہ آپ کی رضا مندی کی وجہ سے الله تعالیٰ بھی مجھ سے راضی ہوں گے۔
فائدہ: سبحان الله! یہ تھا حال امیر المومنین کے صاحبزادے کا، جب کہ یہ حال امیر زادوں کا تو کیا درویش زادوں کا بھی نہیں ہے ۔ جس کا سبب اصلی یہ ہے کہ شروع سے اسلامی طریقہ سے ان کی تعلیم وتربیت نہیں کی جاتی ۔
د: ایک مرتبہ مدینہ کے راستوں میں سے کسی راستہ سے حضرت عمر رضی الله عنہ کا گزر ہوا۔ وہاں بچے کھیل رہے تھے، جن میں عبدالله بن زبیر  بھی تھے جو چھوٹے تھے او رکھیل رہے تھے ۔ اور بچے تو حضرت عمر رضی الله عنہ کے ڈر سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ لیکن حضرت عبدالله بن زبیر خاموش کھڑے رہے، وہاں سے بھاگے نہیں۔ جب حضرت عمر رضی الله عنہ ان کے پاس پہنچے تو ان سے پوچھا کہ اور بچوں کے ساتھ تم کیوں نہیں بھاگے؟ انہوں نے فوراً کہا، میں کوئی مجرم تو ہوں نہیں کہ آپ کو دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوتا اور نہ ہی راستہ تنگ ہے کہ میں بھاگ کر اسے آپ کے لیے کشادہ کر دیتا! واقعی بڑا جرأت مندانہ اور بالکل درست جواب تھا۔
سلف صالحین کے بچوں کی پیش کردہ مندرجہ بالا مثالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچے جھجھک، احساس کمتری اور بلا موقع شرم وحیا سے بالکل آزاد تھے ۔ جس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ جرأت مندی وبہادری کے عادی بنائے گئے تھے اور وہ اپنے والدین کے ہمراہ عمومی مجالس او ران کے دوستوں کی ملاقات وغیرہ میں شریک ہوا کرتے تھے اورپھر بڑوں کے سامنے سلیقہ سے گفتگو کرنے پر ان کو داد دی جاتی تھی اور سمجھ داروں اور فصیح وبلیغ حضرات کو حکام وامرا وخلفا سے شرف ہم کلامی بخشا جاتا تھا اور عمومی وعلمی مسائل اور مشکلات کے حال کے سلسلہ میں مفکرین وعلما کی محفلوں اور مجلسوں میں ان سے مشورہ کیا جاتا تھا۔
ادبی وعلمی جرات اور یہ تمام چیزیں بچوں میں علم وسمجھ او ردانائی کے اعلی ترین معانی پیدا کرتی ہیں اور سوجھ بوجھ بڑھاتی ہیں اور ان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہیں کہ وہ کمال کے اعلی ترین مراتب تک پہنچنے کی کوشش کریں اور اپنی شخصیت سازی کی طرف متوجہ ہوں اور فکری ومعاشرتی پختگی پیدا کرنے میں ہمہ تن مصروف رہیں۔
اس لیے تربیت کرنے والوں اور خاص طور سے والدین پر آج یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عظیم وشاندار تربیت کے اصول کو اپنائیں، تاکہ ان کے بچے حق گوئی ،بے باکی اور ادب واحترام کی حدود میں رہتے ہوئے کامل جرات کا مظاہرہ کر سکیں اور ساتھ ہی دوسروں کے احساسات وشعور کا بھی خیال رکھیں اور ہر شخص کو اس کی شان کے مطابق درجہ دیں، ورنہ تو جرات بے حیائی سے بدل جائے گی اور بے باکی دوسروں کے ساتھ بے ادبی وگستاخی کی شکل اختیار کر لے گی ۔
ہماری ایک ذمے داری یہ بھی ہے کہ حیا اور بے جا شرم کے مابین فرق کریں 
شرمندگی نام ہے بچے کا دوسروں کی ملاقات سے بھاگنے، دور ہونے او ران سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اور حیا اسلامی آداب اور اخلاقِ نبوی کے طریقوں پر عمل کرنے نام ہے۔
جیسا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”استحیوا من الله حق الحیاء“۔ الله سے ایسی حیا کرو جس طرح اس سے حیا کرنے کا حق ہے ۔
حضرات صحابہ رضی الله عنہم نے عرض کیا کہ اے الله کے رسول! ہم تو الله سے حیا کرتے ہیں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا ۔ یہ حیا نہیں ہے ۔ الله سے حیا کرنا درحقیقت یہ ہے کہ تم سر اور جو اعضا اس میں ہیں ان کی حفاظت کرو ۔ اورموت اور بوسیدہ ہونے کو یاد رکھو۔ اور جو شخص آخرت کا طلب گار ہوتا ہے وہ دنیا کی زینت کو چھوڑ دیتا ہے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے۔ لہٰذا جو شخص ایسا کرے گا تو اس نے الله تعالیٰ سے وہ حیا کی جو حیا کا حق ہے ۔ ( ترمذی)
نیز حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی ہے ۔ اے الله! مجھے ایسا زمانہ نہ پائے جس میں سمجھ دار اور عالم کی پیروی نہ کی جائے اور حلیم وبردبار سے حیا نہ کی جائے ۔ ( امام احمد)
اور امام مالک سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ہر مذہب اور دین کے کچھ اخلاق واوصاف ہوتے ہیں اور اسلام کا وصف حیا ہے ۔
خوف وڈر اور اس کے اسباب وعلاج
یہ ایک نفسیاتی حالت ہے جو بڑوں چھوٹوں ، عورتوں مردوں سب کو پیش آتی ہے، کبھی یہ خصلت قابل تعریف ومستحن ہو جاتی ہے، جب کہ وہ حد کے اندر ہو، اس لیے کہ یہ عادت بچوں کو بہت سے حوادث سے بچانے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ لیکن اگر یہ خوف حد سے تجاوز کرجائے تو بچے میں نفسیاتی بے چینی پیدا ہو جاتی ہے، جس کا دور کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔ عام طور سے بچوں کی بہ نسبت بچیاں زیادہ خوف کا اظہار کرتی ہیں ۔ اور عموماً یہ خوف وڈر بچے کے تخیل پر مبنی ہوتا ہے ۔ چناں چہ بچہ جتنا زیادہ سوچنے کا عادی ہو گا اتنا ہی زیادہ اس میں خوف کا مادہ ہو گا۔
بچوں میں خوف وڈر بڑھنے کے اہم اسباب
ماں کا بچوں کو سایوں اور بھوت چڑیل وغیرہ سے ڈرانا۔
ماں کا بچوں کے زیادہ ناز نخرے اٹھانا اور ضرورت سے زیادہ بے چین ہونا۔
بچے کو گوشہ نشینی اور گھر کی دیواروں کے پیچھے چھپنے کا عادی بنانا۔
ان خیالی قصوں کابیان کرنا جن کا تعلق جنوں ، بھوتوں اور چڑیلوں سے ہے۔
اس مرض کا علاج
بچے کو شروع ہی سے الله پر ایمان او راس کی عبادت اور ہر پیش آمدہ چیز پر الله کے سامنے گردن جھکانے کی تربیت دینا۔ اور بلاشبہہ اگر بچے کی تربیت ان ایمانی حقائق کے مطابق ہوں اور اس کو ان روحانی وبدنی عبادات کا عادی بنایا جائے تو وہ کسی بھی ابتلا کے وقت نہ خوف زدہ ہو گا اور نہ کسی مصیبت پر جزع وفزع کرے گا۔ قرآن کریم اسی جانب ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے۔
﴿ان الانسان خلق ھلوعا، اذا مسہ الشر جزوعا، واذا مسہ الخیر منوعا، الا المصلین الذین ھم فی صلوتھم دائمون﴾․ (معارج)
”انسان بے ہمت پیدا ہوا ہے کہ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو جزع فزع کرنے لگتا ہے او رجب اسے خو شحالی ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے ۔ ہاں! البتہ وہ نمازی ( اس حکم میں داخل نہیں ) جو اپنی نماز میں برابر لگے رہتے ہیں۔“
بچے کو تصرفات کی آزادی دینا چاہیے او راس پر ذمے داری ڈالنا چاہیے اور اس کی عمر کے مطابق مختلف کاموں کا بار اس پر ڈالنا چاہیے، تاکہ وہ بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل فرمان مبارک کے عموم میں داخل ہو جائے ۔جیسا کہ آپ کا ارشاد گرامی ہے۔
”کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ“․
تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے او رتم میں سے ہر شخص سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پُرس ہو گی۔
بچوں کو جن ، بھوت ، چڑیل، بجو، چور، ڈاکو، شیر ، کتے وغیرہ سے نہ ڈرانا چاہیے۔ خصوصاً رونے کے وقت ۔ تاکہ بچہ خوف وڈر کے سایہ سے بھی دور رہے اور شروع ہی سے بہادری وجرات پر پلے بڑھے۔ اس میں پیش قدمی کا حصول پیدا ہو اور اس بہترین جماعت میں شامل ہو سکے جس کی جانب رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے رہنمائی کی ہے۔
”المؤمن القوی خیر وأحب الی الله من المؤمن الضعیف“․ ( مسلم)
”کمزور اور ضعیف مومن کے مقابلہ میں طاقت ور مومن الله کے یہاں زیادہ بہتر اور زیادہ محبوب ہے۔“
بچہ جب سمجھ دار ہو جائے تو اسے اسی وقت سے عملی طور سے دوسروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے ، میل جول رکھنے اور ملاقات کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ تاکہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو جن کا تذکرہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے درج ذیل فرمان مبارک میں کیا ہے ۔
”المؤمن الف مألوف، ولا خیر فیمن لا یالف ولا یولف، خیر الناس انفعھم للناس“․ ( حاکم)
مومن الفت رکھنے والاہوتا ہے اور اس سے الفت رکھی جاتی ہے اور ایسے شخص میں کوئی خیروبھلائی نہیں جو نہ دوسروں سے الفت رکھے اور نہ دوسرے اس سے الفت رکھیں ۔ اور لوگوں میں بہترین آدمی وہ ہے جس سے لوگوں کو زیادہ نفع پہنچے۔“
علمائے تربیت کی نصیحتوں میں سے ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ بچہ جس چیز سے ڈرتا ہو، اس سے ہم اور زیادہ متعارف کرائیں ۔ چناں چہ اگر وہ اندھیرے میں ڈرتا ہو تو اس میں کچھ حرج نہیں کہ ہم اس سے اس طرح مزاح (ہنسی) کریں کہ کچھ دیر کے لیے بتی بھجا دیں ، پھر جلا دیں ۔ اور اگر پانی سے ڈرتا ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ہم اس کو یہ موقع فراہم کردیں کہ وہ کسی چھوٹے برتن یا اور کسی چیز میں تھوڑے سے پانی سے کھیلے۔ اسی طرح دوسری چیزیں۔
بچوں کو رسو ل اکرم صلی الله علیہ وسلم کے غزوات اور جنگوں کے واقعات اور سلف صالحین کے بہادری کے کارناموں سے واقف کرائیں اور یہ نصیحت کریں کہ ان رہنماؤں اور فاتحین اور صحابہ وتابعین کے اخلاق وعادات اپنے اندر پیدا کریں، تاکہ ان میں بے مثال شجاعت ، بہادری اور جہاد کی محبت اور اعلائے کلمة الله کے لیے پوری کوشش رچی بسی ہو۔
اس موضوع پر حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کی کتاب ” حکایات صحابہ“ کا مطالعہ جواردو زبان میں ہے مفید ہو گا۔
احساس کمتری کی بیماری اور اس کے اسباب وعلاج
اپنے اندر کمی ونقصان کا شعور واحساس ایک ایسی نفسیاتی حالت ہے جو بعض بچوں میں پیدائشی یا بیماری کی وجہ سے یا اقتصادی ( معاشی) حالات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔ جو نہایت خطرناک بیماری ہے ۔ جو بچے کو رذالت، بدبختی اور مجرمانہ زندگی کی جانب دھکیل دیتی ہے۔
اس لیے ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اس عادت پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالیں اور اس کا علاج بیان کریں ۔ اس لیے کہ یہ نہایت اہم مرض ہے جس کے اثرات دور دور تک پہنچتے ہیں ۔
وہ اسباب جو بچے کی زندگی میں احساس کمتری کا شعور پیدا کرتے ہیں ،وہ درج ذیل ہیں :
تذلیل وتحقیر اور اہانت آمیز سلوک۔
ضرورت سے زیادہ ناز ونخرے برداشت کرنا۔
بچوں میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا۔
جسمانی امراض وبیماریاں۔
یتیمی۔
فقروفاقہ اور غربت
اب ان میں سے ہر ایک کی کسی قدر تشریح ملاحظہ فرمائیں!
تحقیر واہانت آمیز سلوک
ماں باپ کا تحقیر آمیز سلوک بچوں میں احساس کمتری پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ چناں چہ بسا اوقات ہم سنتے ہیں کہ ماں یا باپ جب بچے کو صحیح راستہ اور اعلیٰ اخلاق سے پہلی مرتبہ ہٹتے دیکھتے ہیں تو فوراً خود اس کی تشہیر کر دیتے ہیں مثلاً بچہ اگر ایک مرتبہ بھی جھوٹ بول دے تو اسے ہمیشہ جھوٹے کے نام سے پکارتے ہیں اور اگر چھوٹے بھائی کو ایک مرتبہ بھی تھپڑمار دے تو اسے مستقل شریر کہنے لگتے ہیں اور اگر چھوٹی بہن سے چالاکی سے سیب چھین لے تو اسے مکار کہنے لگتے ہیں بلکہ بعض دفعہ رشتہ داروں اور دوستوں کے سامنے بھی اسے ناپسندیدہ کلمات کہنے لگتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بچہ اپنے آپ کو حقیر وذلیل اور ایسا مہمل ونکما سمجھنے لگے گا کہ جیسے اس کی نہ کوئی حیثیت ہے اور نہ عزت وقدر ومنزلت، جس کی وجہ سے بچے میں ایسی نفسیاتی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ دوسروں کو ناپسندیدگی وکراہیت کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے او راپنے آپ کو دوسروں سے علیٰحدہ اور ذمہ داریوں سے عاجز وقاصر سمجھنے لگتا ہے اور کسی کام کا نہیں رہ جاتا، اس لیے کہ وہ اپنے اندر کسی کا م کے انجام دینے کی ہمت وحوصلہ نہیں پاتا۔
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جب ہم اپنے بچوں اور بچیوں کے ساتھ ایسی غلط تربیت اور سخت گیر معاملہ کرتے ہیں تو ہم بہت بڑی غلطی اور زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔
بھلا بتائیے کہ جب ہم بچپن ہی سے بچوں کے دلوں میں نافرمانی اور سرکشی کا بیج بو دیتے ہیں تو ایسی صورت میں ان بچوں سے اطاعت وفرماں برداری او راستقامت وبربادباری کی کیسے توقع کر سکتے ہیں؟
حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کے پاس ایک صاحب اپنے بیٹے کی نافرمانی کی شکایت کرنے آئے ۔ تو حضرت عمر نے لڑکے کو بلایا اور والد کی نافرمانی اور حقوق کے ادانہ کرنے پر اسے تنبیہ کی۔ تو لڑکے نے کہا اے امیر المومنین! کیا لڑکے کے لیے والد کے ذمہ کچھ حقوق نہیں ہیں ؟ حضرت عمر  نے فرمایا ، کیوں نہیں!! لڑکے نے پوچھا اے امیر المومنین وہ حقوق کیا ہیں ؟ حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اس کے لیے اچھی ماں کا انتخاب کرے اور اس کا اچھا سا نام رکھے اور اس کو قرآن کی تعلیم دلائے ۔ لڑکے نے کہا اے امیر المومنین! میرے والد نے تو ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کیا۔ اس لیے کہ میری ماں ایک مجوسی کی حبشی باندی ہے اور میرے والد نے میرا نام جُعَل ( جو ایک کیڑے کا نام ہے ) رکھا ہے۔ اور میرے والد نے مجھے قرآن کریم کا ایک حرف بھی نہیں سکھایا۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ ، ان صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے فرمایا کہ تم تو میرے پاس اپنے بیٹے کی نافرمانی کی شکایت لے کر آئے ہو ۔ حالاں کہ اس کی نافرمانی سے قبل تم نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے اور تم نے اس کے ساتھ برُا سلوک کیا ہے اس سے قبل کہ وہ تمہارے ساتھ برُا سلوک کرے۔ ف: سبحان الله! حضرت عمر نے کیا ہی خوب فیصلہ فرمایا۔ جسے تمام ہی والدین کو پیش نظر کھنا چاہیے ۔ ( ق)
لطیفوں میں سے ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ ایک روز ایک باپ نے اپنے بیٹے کو اس کی ماں کے بارے میں طعنہ دیا کہ تم ایک باندی کی اولاد ہو کر میری حکم عدولی کرتے ہو ؟ یہ سن کر بیٹے نے اپنے باپ سے کہا ابا جان! میری ماں تو آپ سے بہتر ہے۔ باپ نے پوچھا وہ کیسے ؟ لڑکے نے کہا ۔ اس لیے کہ اس نے نہایت عمدہ انتخاب کیا اور مجھے ایک آزاد مرد کے نطفہ سے جنا اور آپ نے غلط انتخاب کیا او رمجھے ایک باندی کے بطن سے پیدا کیا۔
ف: سبحان الله لڑکے نے کتنی عمدہ بات کہی جو اس کی عقل وفراست کا ثبوت ہے۔ ( ق)
ہمیں اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں کہ والد کیطرف سے لڑکے کو جو سخت وسست یا قبیح القاب سے نوازا جاتا ہے تو وہ بچے کے کسی چھوٹے یا بڑے جرم یا غلطی ہی کی وجہ سے ہوتا ہے، جس کا مقصد یقینا اصلاح وتربیت ہی ہوتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جرم کا علاج او راس غلطی کی اصلاح غصہ، ناراضگی اور سختی سے نہیں ہو سکتا۔ 
اس لیے کہ سختی اور ناراضگی سے بچے کے ذہن پر نہایت خطرناک اثرات پڑتے ہیں اور اس کا شخصی کردار مجروح ہوتا ہے، اس لیے وہ بے وقوفوں اور بد کرداروں کے طریقے کو اختیار کر لیتا ہے ۔ لہٰذا ہم اپنی اس ناشائستہ حرکت اور سخت معاملہ کی وجہ سے اپنے بچے پربڑا ظلم کرتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ہم اسے ایک سمجھ دار، باوقار آدمی بنائیں، جو استقامت وبردباری اور عقل وبصیرت کے ساتھ زندگی گزارے، اس کو ہم نفسیاتی واخلاقی اعتبار سے تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔ پس یہ ایک حقیقت ہے، خواہ اس کو ہم تسلیم کریں یا نہ کریں ۔
اگر بچے سے کوئی غلط سر زد ہو جائے تو اسلام اس کی اصلاح کا کیا طریقہ بتلاتا ہے ؟ 
بچے سے اگر کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اس کے علاج کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم نرمی اور پیار سے اسے اس کی غلطی پر متنبّہ کریں اور مضبوط دلیلوں سے اسے باور کرائیں کہ یہ ناشائستہ حرکت کوئی بھی عقل مند اور صاحب بصیرت انسان ہر گز ہر گز پسند نہ کرے گا ۔ پھر اگر وہ اس طرح سمجھ جائے تو ہمارا مقصدِ اصلاح حاصل ہو گیا او راس کی کجی درست ہو گئی ۔ ورنہ پھر اس کا دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جسے ہم” سزا کے ذریعہ تربیت“ کے عنوان کے تحت ان شاء الله بیان کریں گے۔(جاری)

Flag Counter