Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1430ھ

ہ رسالہ

10 - 14
***
مجددملت کے آثارِ علمیہ
مولاناسید سلیمان ندوی
اصلاح ترجمہ پر حیرت
مولوی نذیر احمد صاحب کے ترجمے کی اشاعت نے دہلی کے ایک بلند بانگ اخبار نویس مرزاحیرت کو حیرت میں ڈال دیا اور انہوں نے پہلے تو ڈپٹی نذیر احمدکے ترجمے پر اعتراضات کیے اور اپنا ترجمہ چھپوایا، جس کی نسبت عام طور پر مشہور ہے کہ وہ لکھنو کے ایک عالم کا کیا ہوا ہے ۔لیکن نام سے وہ مرزا صاحب کے چھپا، کیوں کہ مرزا صاحب خود عربی سے نابلد تھے۔ بہر حال مولانا نے اس ترجمہ کے اغلاط پر یہ رسالہ تالیف فرمایا۔
التقصیر فی التفسیر
بعض معاصر علما نے اردو میں قرآن شریف پر حواشی لکھے ہیں جن میں ربط آیات کا خاص طور سے اظہار کیا گیا ہے ۔ اور آیات کو بتاویل سیاسی مسائل پر منطبق کیا ہے اور اس تاویل واعتبار میں کہیں کہیں حد اعتبار سے قلم باہر نکل گیا ہے ۔ مولانا نے ان تاویلات بعیدہ پر تنبہیات لکھیں، جن کا نام ”التقصیر فی التفسیر“ ہے۔
الھادی لبعض البنات فی تفسیر بعض الآیات
مولانا کے خاندان کی بعض لڑکیوں نے مولانا سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا تھا اور اکثر آیات کی تفسیر وتقریر کو ضبط تحریر میں کر لیا تھا، چناں چہ وہ ایک مجموعہ ہو گیا، مگر چھپا نہیں۔
”رفع البناء فی نفع السماء“، الذی جعل لکم الارض فراشا والسماء بناء“ کی تفسیر ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ آسمان سے کیا کیا فائدے ہیں۔ یہ درحقیقت ایک سوال کے جواب میں ہے۔
”احسن الاثاث فی النظر الثانی فی التفسیر المقامات الثلاث “․
اس میں سورہ بقرہ کی تین آیتوں پر نظر ثانی فرمائی ہے۔
اعمال قرآنی
قرآن مجید کی بعض آیات کے خواص جو بزرگوں کے تجربہ میں آئے ، ان کو بیان کیا گیا ہے۔
خواص فرقانی
اس کا موضوع بھی یہی ہے۔ اس کا ایک اور حصہ ہے جس کا نام ”آثار تبیانی“ہے، ان رسائل سے مقصود عوام کو ناجائز ،غیر شرعی تعویذ، گنڈوں اور عملیات سے بچا کر قرآنی آیات کے خواص کی طرف ملتفت کرنا ہے اور اس قسم کے خواص احادیث میں بھی مروی ہیں۔
سبق الغایات فی نسق الآیات
یہ قرآن پاک کی آیات وسور کے ربط ونظم پر عربی میں 156 صفحوں کی کتاب ہے، جس کو 1316ھ میں ڈھائی مہینوں میں تصنیف فرمایا۔ اس میں مولانا نے سورہ فاتحہ سے سورہ ناس تک تمام سورتوں اور ان کی آیات کے ربط پر کلام فرمایا ہے۔
اشرف البیان لما فی علوم الحدیث والقرآن
مولانا کے چند وعظ سے ان کے ایک معتقد وخادم نے ان اقتباسات کو یکجا کر دیا ہے، جن میں آیات قرآنی اور احادیث کے متعلق لطیف نکات وتحقیقات ہیں۔ افسوس ہے کہ اس کام کو اگر زیادہ پھیلاؤ کے ساتھ کیا جاتا تو کئی حصے اس کے مرتب ہو سکتے تھے۔
احکام القرآن
جس کی طرف ابتدائی توجہ1351ھ میں دارالعلوم دیوبند میں دورہ تفسیر کے آغاز میں ہوئی اور اس کے لیے فروع حنفیہ پر استدلال قرآنیہ اور مواضع اختلاف میں دوسرے ائمہ کا جواب ایک مستقل کتاب میں ہونے کی بنا پر ہوئی اور اسی بنا کے اعتبار سے اس کا نام ” دلائل علی مسائل النعمان“ تجویز فرمایا کہ یہ خدمت حضرت نے اپنے مسترشد خاص، سیدی وسندی، مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کے سپرد فرمائی ،یہ کام آسان تھانہ مختصر ، حضرت مفتی صاحب نے اپنی فرصت کے موافق کرنا شروع کر دیا ۔ اسی عرصہ میں حضرت مولانا ظفر احمد صاحب اعلاء السنن کی تصنیف کو مکمل کرکے فارغ ہوگئے تو حضرت والا نے یہ کام ان کے سپرد فرمادیا۔ لیکن اتفاقاً تھوڑے ہی عرصہ کے بعد مولانا بھی ڈھاکہ میں ملازم ہو کر تشریف لے گئے اور یہ کام التواہمیں پڑ گیا۔1361ھ میں حضرت کو اس کام کی طرف زیادہ توجہ ہوئی اور چاہا کہ کوئی عالم فارغ ہو کر اسی کام میں لگ جائے، تاکہ جلد مکمل ہو سکے۔ مگر اس کی صورت نہ ہوئی ، تو چند حضرات پر تقسیم کر دینے کا فیصہ فرمایا اور دو منزلیں قرآن کریم کی حضرت مولانا ظفر احمد صاحب کے اوردو منزلیں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے اور ایک منزل استاذی شیخ التفسیر حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی کے حصے میں دے دی۔ چناں چہ حضرت کے ایماء کے موافق سیدی وسندی حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب تھا نہ بھون میں ہی قیام کرکے اس کام میں مصروف ہو گئے، مولانا روزانہ کی مجلس میں اس کے متعلق جو جو نکتے ان کو یاد آجاتے تھے بیان فرماتے اور حضرت مولانا مفتی صاحب اس کو اپنے مقام پر آکر قلم بند فرمالیتے۔ یہ تصنیف اسی طور سے جاری تھی کہ مولانا کا مرض الموت شروع ہوا۔ اب بفضلہ تعالیٰ حضرت مولانا صاحب  نے اپنے حصہ کے مسودہ کو تکمیل فرمالیا ہے، معلوم ہوا کہ حضرت مولانا جمیل احمد صاحب کے علاوہ دیگر حضرات نے بھی اپنے اپنے حصے تقریبا مکمل فرما لیے ہیں ۔ الله تعالیٰ اس کی بقیہ تصنیف وتدوین اور اشاعت کا جلد کوئی انتظام فرما دیں۔ موجودہ وقت کے لیے نہایت اہم چیز ہو گی۔
تصویر المقطعات لتیسیر العبارات
تفسیر بیضاوی میں حروف مقطعات کا جو مجمل ومغلق بیان ہے۔ اس رسالہ میں بزبان عربی اس کو آسان کرکے بیان کیا گیا ہے، جس میں حروف مقطعات کی تاویل کا ایک طریق معلوم ہوتا ہے۔ (17,16) مولانا کے دورسالے علم القرآن سے متعلق اور ہیں اور ان دونوں کا تعلق ملوک سے ہے، جن کا نام ” مسائل السلوک من کلام کلام الملوک“ اور دوسرے کا نام ” تائید الحقیقة بالآیات العتیقہ“ ہے او ران دونوں رسالوں کا موضوع قرآن پاک کی ان آیتوں کی تفسیر سے ہے جن سے سلوک کے مسائل مستنبط ہوتے ہیں ۔ اس دوسرے رسالے کی بنا ایک سابق مؤلف کی تالیف ہے، جس کا قلمی رسالہ حضرت رحمة الله علیہ کو 1327ھ میں بہاولپور میں ملا تھا۔ اس پر مزید اضافہ کرکے یہ رسالہ مرتب ہوا ہے۔
علوم الحدیث
مجدد الملت کو علوم حدیث میں جو مہارت حاصل تھی اس کی شہادت ان کے مواعظ ورسائل اور تالیف کے ہزاروں صفحات دے رہے ہیں، جن میں بے شمار احادیث کے حوالے، اشارے اور تلخیصات، ان کے مشکلات کی شرح ، ان کے دقیق مطالب کے حل اور ان کے نکات ولطائف کا بیان ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ شیخ کے مواعظ میں جو زبانی تقریریں ہیں ۔ برمحل حدیثوں کے حوالے اور اکثر احادیث کے بعینہ الفاظ مع ان کی تخریجات او رکتابوں کے حوالے اس کثرت سے ان میں ہیں کہ ان کو دیکھ کر کسی انصاف پسند کو ان کے حافظ الحدیث ہونے میں شبہ نہیں ہو سکتا۔
اس کے بعد ان کی ان تصانیف کو لیجیے جو گو فقہ وفتاوی اور احکام ومسائل یا اصلاح ورسوم اور سلوک میں ہیں لیکن ان کی بنیاد دلیل پر ہے ۔ ان میں احادیث کے حوالے ، دلائل کی مضبوطی اور صحت بیان کی تائید وشہادت کے لیے آئے ہیں، جو مولف کے علوم معرفت پر دلیل قاطع ہیں۔ حضرت مجدد الملت کو فن سلوک کی جوتوفیق عنایت ہوئی تھی اس کا ایک مبارک اثر یہ ہے کہ حضرت نے احادیث کی کتابوں سے ان تمام حدیثوں کو یکجا فرما دیا جن میں اس فن شریف کے مسائل متفرق تھے۔ اگر چہ بعض حضرات محدثین نے اپنی کتابوں میں بعض ابواب زہد ورقاق کا تذکرہ کیا ہے ۔ تاہم ان کی حیثیت فن کی نہیں ۔ قدما میں سے صرف ایک بزرگ امام عبدالله ابن مبارک المتوفی181ھ کا نام ہم کو معلوم ہے ،جنہوں نے ” کتاب الزھد والرقاق“ کے نام سے مستقل تصنیف فرمائی ہے۔
اہل سلوک نے جن روایات سے کام لیا ہے ، وہ عموما ضعیف بلکہ موضوع تک ہیں ۔ اسی لیے علمائے سلوک کو اس فن میں کمزور سمجھا گیا ہے اور اسی بنا پر بعض اہل حدیث ورواة نے خود یہ غلط خیال قائم کر لیا کہ فن سلوک اور اس کے مسائل احادیث نبوی سے ثابت نہیں اور صدیوں سے ان کا یہ اعتراض قائم تھا۔ گو محدثین نے ادھر توجہ فرمائی اور اس سلسلہ میں کچھ کام انجام دیا، مثلاً امام ابن ابی حمزہ اندلسی المتوفیٰ699ھ نے صحیح بخاری کی شرح بہجة النفوس کے نام سے لکھی، جس کی پہلی جلد چھپ کر شائع ہو چکی ہے، اس میں التزام کیا ہے کہ احادیث کی شرح میں سلوک کے مسائل ونکات کی طرف بھی اشارہ کیا کرتے ہیں۔
حضرت مجدد الملت نے اس کام کو مستقل طور سے انجام دیا اور ”حقیقة الطریقة من السنة الانیفة“ ”التشرف بمعرفة احادیث التصوف“ کے نام سے دو کتابیں تالیف فرمائی ہیں۔
حقیقة الطریقت
1327ھ میں تالیف پائی اور یہ حقیقت حضرت کی کتاب ”التکشف بمھمات التصوف“ کا آخری جز ہے اور ساتھ ہی مستقل تصنیف بھی ہے ۔ اس میں تین سو تین احادیث سے جو عموما ً صحاح میں مذکور ہیں، سلوک وتصوف کے مسائل کو مستنبط کیا گیا ہے۔ اور ان کو اخلاق ، احوال ، اشغال ، تعلیمات ، علامات ، فضائل ، عادات، رسومات، مسائل اقوال ، توجیہات، اصلاح اور متفرقات کے دس ابواب پر تقسیم کیا گیا ہے ، یہ اہل علم کے مطالعہ کی خاص چیز ہے۔
التشرف
یہ کتاب چار حصوں میں ہے ، ان میں ان احادیث کی تحقیق ہے جو تصوف کی کتابوں میں یا صوفیا کے کلام میں آتی ہیں اور یہ دکھایا گیا ہے کہ اصول فن حدیث کی رو سے یہ حدیث کس درجہ کی ہے اور حدیث کی کس کتاب میں ہے اور جو روایات ان میں دراصل حدیث نہ تھیں بلکہ عوام نے غلط فہمی سے ان کو حدیث سمجھ رکھا ہے اگر وہ اقوال نتیجہ کے طور پر کسی دوسری حدیث یا آیت پاک سے ثابت ہیں تو ان احادیث وآیات اور ان سے ان اقوال کی صحت کے طریقہ واستنباط پر گفتگو فرمائی۔
حصہ اول التشرف میں امام غزالی کی احیاء علوم الدین کی احادیث کی تخریج ہے، اس حصہ کا ماخذ زیادہ تر امام غزالی کی تخریج احیاء العلوم ہے، جس کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ احادیث کی دوسری کتابیں، جن کا ماخذ ہر روایت کے ساتھ بتایاگیا ہے ۔ یہ حصہ1341ھ میں لکھا گیا ہے ، حصہ دوم میں دفتر اول مثنوی مولانا روم او راس کی شرح کلید مثنوی میں آئی ہوئی حدیث وروایات کی تخریج کی گئی ہے ۔ ان احادیث کی تحقیقات زیادہ تر امام بخاری کی المقاصد الحسنہ سے التقاط کی گئی ہیں۔
حصہ سوم وچہارم، ان دونوں میں حافظ سیوطی کی جامع صغیر سے جو احادیث کی ساری کتابوں کا بہ ترتیب حروف تہجی ترتیب دیا گیا ہے ۔ ساتھ ہی تحقیقات خاصہ کا جا بجا اضافہ او راحادیث کے مطالب کی تشریح وتطبیق اور بعض مشکلات کا حل کیا گیا ہے ، حصہ سوم صرف الف کی روایتوں پر مشتمل ہے اور1350ھ میں ترتیب پایا ہے او رحصہ چہارم میں بقیہ حروف کی روایتیں ہیں اور وہ محرم1352ہ میں تکمیل کو پہنچا ہے۔
حضرات اہل حدیث کے اس فرقہ کی طرف سے جو غالی ہے اکثر حضرات حنفیہ پر یہ طعن کیا گیا ہے کہ حنفی مسائل کی تائید میں احادیث بہت کم ہیں اور چوں کہ کتب حدیث زیادہ تر محدثین اور حضرات شوافع کی تالیف ہیں اس لیے ان میں حنفیہ کی موید حدیثیں یکجا نہیں ہیں ، گوامام محمد کی مؤطا اور آثار اور قاضی ابو یوسف کی کتاب الآثار اور مسند ابی حنیفہ مرتبہ خوار زمی او رامام طحاوی کی تصانیف سے ان کا جواب دیا جاتا رہا ہے ۔ مگر کتب صحاح ومسانید ومصنفات سے جو رائج اور محدثین میں مقبول ہیں چن کر ان احادیث وروایات کو یکجا نہیں کیا گیا تھا جن سے مسائل حنفیہ کی تائید ہوتی تھی۔
یہ ضرورت تو ہمیشہ سے تھی، مگر اس زمانہ میں اہل حدیث کے ظہور وشیوع سے اس ضرورت کی اہمیت بہت بڑھ گئی تھی ۔چوں کہ اس تحریک کا آغاز پورب وعظیم آباد پٹنہ سے ہوا، اس لیے اس ضرورت کا احساس بھی پہلے یہیں کیا گیا۔ چناں چہ حضرت مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی کے شاگرد رشید مولانا محمد بن علی ظہیر احسن شوق نیموی عظیم آبادی نے ” آثار السنن“ کے نام سے کتب حدیث سے التقاط کر کے اس قسم کی حدیثوں کو شائع کیا۔ اس کے دو ہی حصے شائع ہو سکے۔ اس کا دوسرا حصہ 1221ھ میں شائع ہوا، علمائے احناف نے اس کتاب کا بڑی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ یہاں تک کہ مولانا انور شاہ کشمیری نے جو اس زمانے میں مدرسہ امینیہ میں مدرس تھے اس کی مدح میں عربی قصیدے لکھے ،افسوس ہے کہ مولانا نیموی کی وفات سے ان کا یہ کام ناتمام رہا۔
احیاء السنن
مجدد الملت نے بھی اس ضرورت کو محسوس فرمایا او راحیاء السنن کے نام سے اس قسم کی احادیث کا مجموعہ مرتب فرمایا۔ اور اس کی ترتیب ابواب فقہیہ پر رکھی، لیکن افسوس کہ اس کا مسودہ ضائع ہو گیا۔
جامع الآثار
کچھ دنوں کے بعد پھر اس موضوع کا خیال آیا اور دو بارہ ایک جدید اسلوب پر اس قسم کی حدیثوں کا مجموعہ”جامع الآثار“ کے نام سے مرتب فرمایا، لیکن یہ سلسلہ ” ابواب الصلوٰة“ سے آگے نہیں بڑھا، تاہم جتنا مرتب ہو گیا وہ چھپ کر شائع ہو گیا۔
تابع الآثار
یہ بھی اسی موضوع پر ہے اور اس کو ” جامع الآثار“ کا ضمیمہ بنا دیا گیا ہے۔
احیاء السنن کا احیاء
1331ھ میں یہ خیال ہوا کہ یہ کام اتنا بڑا ہے کہ حضرت والا خوداس کام کو تنہا انجام نہیں دے سکتے۔ اس لیے یہ قرار پایا کہ اس کے لیے بعض مستند علماء کو رکھ کر کام لیا جائے ۔ چناں چہ مولانا احمد حسن صاحب سنبھلی کو اس کام کے لیے مقرر کیا گیا، انہوں نے کام شروع کیا۔ جو کام کرتے جاتے مولانا کی نگاہ سے گزارتے جاتے تھے ۔ اس طور پر کتاب الحج تک کام ہوا اور اس کا نام: ” بارہ“ احیاء السنن“ رکھا گیا، تاکہ مرحوم احیاء السنن کا یادگار ہو ۔ اس کے دو حصے شائع ہوئے تھے کہ بعض اسباب سے اس کتاب کے بعض مضامین سے مولانا کو تشفی نہیں ہوئی اور اس پر استدراک لکھوانے کا خیال ہوا اور آئندہ کام کے لیے مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی کاانتخاب ہوا۔
الاستدراک الحسن
مولانا ظفر احمد صاحب نے مجدد الملت کے زیر ہدایت اس کا م کو بڑی دیدہ ریزی، وسعت نظر او رتحقیق وتنقید کے ساتھ انجام دینا شروع کیا ۔ سب سے پہلے احیاء السنن کے شائع شدہ حصہ پر دوبارہ نظر کرکے اس کو ”استدراک الحسن“ کے نام سے شائع کیا گیا۔
اعلاء السنن
اس کے بعد احیاء السنن کے نام کو بدل کر ” اعلاء السنن“ کے نام سے اس کام کو شروع کیا اور اس وقت تک اس کی بارہ جلدیں شائع ہو چکی ہیں جن میں مذہب حنفی کی موید حدیثوں کو بڑے استیعاب کے ساتھ جمع کیا گیا اور محدثین اور اہل فن کی تحقیقات شروح وحواشی میں یکجا کی گئی ہیں۔
الخطب الماثورہ من الآثار المشہورہ
جمعہ وعیدین کے خطبوں میں اس درجہ تکلف وتصنع او رمضامین کے ابتذال سے کام لیا گیا ہے کہ یہ بازاری خطبے زبان، طرز اور مضامین و مطالب کے لحاظ سے عہد نبوت اور خلافت راشدہ کے اسلوب سے ہٹ کر بلغاء اور خطباء کے اظہارقا بلیت کا دنگل بن کر رہ گئے ہیں ۔ مجلدد الملت کی اصلاحی نظر سے محراب ومنبر کا یہ گوشہ بھی مخفی نہیں رہا۔ چناں چہ ” الخطب الموثورہ من الآثار المشہورة“ کے نام سے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم اور حضرات خلفائے راشدین کے خطبات کو احادیث صحیحہ سے انتخاب فرما کر ایک جگہ جمع کر دیا، تاکہ خطبائے مساجد مسنون خطبوں کو پڑھ کر ان تکلفات بار دہ کے گناہ سے محفوظ رہیں۔
خطبات الاحکام
جمعہ اور عیدین کے پچاس خطبوں کا یہ مجموعہ تالیف فرمایا، جس میں احادیث وآیات سے ترغیب وترہیب کے مضامین کے علاوہ عقائد واعمال اوراخلاق کے مضامین درج فرمائے۔
مناجات مقبول
احادیث میں وارداذ کار مسنونہ کے لیے ” حصن حصین، وحزب اعظم ملاعلی قاری“ وغیرہ کتابیں رواج پذیر ہیں ۔ مگر وہ طویل ہونے کی وجہ سے سے کے کام کی نہیں ، حضرت مجدد الملت نے عام مسلمانوں کے فائدے کے لیے ان سب سے تلخیص کرکے ” مناجات مقبول قربات عندالله وصلوة الرسول“ کے نام سے ایک مختصر مجموعہ تالیف فرمایا ہے، جو اپنے اختصار اورجامعیت کے لحاظ سے بے حد مقبول ہے۔
علوم الفقہ
مجدد الملت کو مسائل فقہیہ کی تلاش وتحقیق کا خاص ذوق تھا اور یہ ذوق ان کو اپنے شیوخ واساتذہ کرام سے ورثہ میں ملا تھا ،چناں چہ ابھی وہ تعلیم سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ حضرت مولانا محمد یعقوب نے ان سے فتوی نویسی کی خدمت لینا شروع کر دی تھی۔ اگر حضرت مجدد الملت کی فقہی خدمات کا آغاز1301ھ سے بھی لیا جائے تو 1262ھ تک بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ پورے ساٹھ سال اس فن شریف کی خدمت میں بسر کیے ، اس طویل عرصہ میں ہزاروں مسئلوں کے جو اب دیے، ہزاروں فتوے اور سینکڑوں چھوٹے بڑے فقہی رسالے لکھے ، متعدد ضخیم جلدوں میں امدادا الفتاوی اورتتمہ امداد الفتاوی کے نام سے حضرت کے فتاوے کے مجموعے جمع کیے گئے ہیں، جس کی نظیر ہندوستان میں کم ازکم نہیں ملتی، ذلک فضل الله یوتیہ من یشاء․
حوادث الفتاوی
یہ ان فتاوی کا مجموعہ ہے جواس زمانے کے نئے مسائل اور نئے موضوعات سے متعلق ہیں ،جن کے جوابات گزشتہ کتب فتویٰ سے بآسانی حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
ترجیح الراحج
یہ وہ مجموعہ ہے جس کی مثال سلف صالحین میں تو ملے گی ۔ مگر متاخرین کے یہاں یہ سلسلہ بالکل مسدود ہے ، اس مجموعہ میں حضرت مجدد الملت نے اپنے ان مسائل کوجمع فرما دیا ہے جن میں از خود یا کسی دوسرے کے توجہ دلانے سے کوئی تسامح نظر آیا تو اس سے رجوع فرماکر مسئلہ کی مزید تحقیق فرما کرتصحیح کر دی۔ یہ سلسلہ حضرت کی انصاف پسندی ، تواضع اور عدم نفسانیت کا بین ثبوت ہے ۔ یہی حضرات صحابہ  حضرات تابعین وتبع تابعین او رمجتہدین عظام کا طریق تھا، جس کو اس زمانہ میں حضرت مجدد الملت نے زندہ کیا او راپنے کو بار آخرت سے بچایا۔
مکمل امداد الفتاوی کی از سر نو تبویب وترتیب اہم خدمت
حضرت کے فتاوی اس زمانہ میں مستند ، مدلل اور علما ئے ہند کا معتمد علیہ ، ضروریات زمانہ پر گہری نظر ، نئے حوادث، جدید معاملات اور آلات جدیدہ سے متعلقہ مباحث میں بے نظیر ہیں۔ اس وقت اس کی اشاعت گیارہ حصوں میں اس طرح ہوئی تھی کہ چار مستقل جلدیں ، پانچ تتمے، ایک ترجیح الراجح، ایک حوادث الفتاوی اور آخری زمانہ کے چند فتاوی ماہوار رسالہ النورمیں شائع ہوئے، کچھ قلمی رجسٹر میں محفوظ تھے۔ جو بار ہواں حصہ ہوتا ، سلسلہ فتاوی جاری رہنے کے سبب ان تمام حصوں کی تبویب وترتیب یکجا نہ ہو سکتی تھی، اس لیے ایک مسئلے کے متعلقہ مباحث تمام حصوں میں منتشر او رایک دوسرے پر موقوف تھے جس سے استفادہ آسان نہ تھا، اس وقت سیدی وسندی، مفتی اعظم، حضرت مولانا محمد شفیع صاحب دیوبندی خلیفہ خاص حضرت ممدوح نے تمام کتاب کے بارہ حصوں کی محنت شاقہ برداشت کرکے ابواب فقہیہ پر مرتب کیا ،جس کی چند خصوصیات یہ ہیں۔
ایک مسئلہ کے متعلق جتنے فتاوی مختلف جلدوں میں تھے یا ترجیح الراحج میں اس کی بحث کو بھی اس میں یکجا کر دیا۔
ہر مسئلہ کے ساتھ طبع قدیم جلد اور صفحہ کاحوالہ لکھا۔
جن مسائل میں متعدد فتاویٰ بظاہر متعارض نظر آئے او رترجیح الراحج میں اس پر کلام نہیں ان کی تطبیق یا ترجیح کے لیے حاشیہ میں توضیح کی گئی۔
جن مسائل میں کوئی ابہام یا اغلاق تھا، ان پر حواشی لکھ کر واضح کیا گیا۔ترتیب میں قدیم طرز کے ابواب فقہیہ کے ساتھ اہم مسائل کے لیے جدید عنوانات وفصول بھی قائم کر دیے۔
ہر جلد کے فتاوی پر ترتیبی نمبر ڈال دیے۔
فہرست مضامین نہایت مکمل اور واضح لگائی گئی وغیرہ وغیرہ۔ اس کی دوجلدیں زیر طبع ہیں۔ کل غالباً چھ ہوں گی۔
فتاویٰ اشرفیہ کے نام سے مسائل دینیہ کے تین حصے الگ شائع ہوئے جو مختصر رسائل ہیں۔
بہشتی زیور
اس کی دس جلدیں جو گو عورتوں کی ضروریات کے لیے ہیں مگر ان میں اسلامی معلومات کا مکمل ذخیرہ ہے او ران میں پیدائش سے لے کر مرنے تک کے تمام حالات ومسائل، جوہر مسلمان کو پیش آتے ہیں ،مکمل طور پر درج ہیں ۔ حقیقت میں بہشتی زیور دینی ودنیاوی معلومات کا مکمل کورس ہے۔
بہشتی گوہر
بہشتی زیور کے سلسلہ کا مردانہ حصہ ہے، جس میں خاص طور سے ان مسائل کا بیان ہے جو مردوں سے خاص ہیں، جیسے جمعہ ، جماعت،عیدین وغیرہ۔
الحیلة الناجرة للحلیة العاجزة
جس میں مظلوم ومصیبت زدہ عورتوں کی مشکلات کا شرعی حل ہے، جن عورتوں کے شوہر مفقود یا مجنون ہو جائیں یا نامرد ہوں یا باوجود قدرت رکھنے کے نان ونفقہ نہ دیں اور طلاق وخلع پر بھی آمادہ نہ ہوں ان کی خلاصی کے لیے شرعی صورتیں ، نیز جن صورتوں میں اپنا نکاح باقی رکھنے نہ رکھنے کا اختیار ملتا ہے۔ ان کے تفصیلی احکام مرتب ہو جانے کی صورت میں فسخ نکاح ہونے نہ ہونے کی مکمل بحث فرمائی ہے ۔ ان کے علاوہ مسئلہ حجاب، مسئلہ رشوت، مسئلہ بنک، سینما، فلم اور ریڈیوو غیرہ کے مسائل پر فقہی تحقیقات ہیں اور بعض موضوعات پر بار بار کئی رسالے تالیف فرمائے۔
علم کلام
علم کلام وعقائد توحید پر متعدد مضامین قلم بند فرمائے، جو شائع وذائع ہیں، خاص نئے زمانے کے حالات کا خیال کرکے خود چند کتابیں تالف فرمائیں اور دوسروں سے ترجمہ کروایا، مثلاً اسلام اور سائنس کے نام سے الحصون الحمدیہ کا مولانا اسحاق صاحب سے ترجمہ کرایا۔ یہ عربی کی ایک جدید کلامی تصنیف ہے ۔ اس کے مصنف علامہ حسبری ہیں، جنہوں نے سلطان عبدالحمید خاں کے عہد میں اس کو ملک شام میں تصنیف فرمایا تھا او رجو نئے حلقوں میں بہت پسند کیا گیا تھا۔ اس کی خاص صفت یہ ہے کہ اس میں تاویل فاسد ہ کا دروازہ نہیں کھولا گیا ہے۔ (جاری)

Flag Counter