Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1430ھ

ہ رسالہ

6 - 14
***
راہبر کے روپ میں راہزن
مولانا سعید احمد جلال پوری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
گزشتہ سال اکتوبر نومبر 2008ء میں راقم الحروف نے قربِ قیامت کے فتنوں اور فتنہ پروروں کی نشاندہی کرتے ہوئے حدیث کی مشہور کتاب کنزالعمال کی ایک روایت کے حوالے سے انسان نما شیطانوں کے اضلال و گمراہی کی نشاندہی کی اور ضمناً ٹی وی کے ”نامور تجزیہ نگار“ زید حامد کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی طرف بھی اشارہ کیا تھا کہ کل کا زید زمان آج کا زید حامد ہے، اور یہ بدنام زمانہ اور مدعی نبوت یوسف کذاب کا خلیفہ اول ہے جو یوسف کذاب کے واصل جہنم ہونے کے بعد ایک عرصہ تک منقار زیر پَر اور خاموش رہا، جب لوگ، ملعون یوسف کذاب اور اس کے ایمان کُش فتنہ کو قریب قریب بھول گئے تو اس نے زید حامد کے نام سے اپنے آپ کو منوانے اور متعارف کرانے کے لیے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل سے معاملہ کرکے اپنی زبان و بیان کے جوہر دکھلانا شروع کردیے اور بہت جلد مسلمانوں میں اپنا نام اور مقام بنانے میں کامیاب ہوگیا، ...یہ بات بھی غلط ہے کہ براس ٹیکس نجی ٹی وی چینل کا پروگرام ہے، یہ پروگرام زید زمان کی اپنی کمپنی براس ٹیکس کا تیار کردہ ہے، کیوں کہ اسلام آباد میں مقیم ہمارے ایک باخبر دوست کے مطابق یہ ایک اہم ادارے کا اسپانسر پروگرام ہے، ظاہر ہے کہ اس طرح کے پروگرام کی تیاری اور آن ایئر جانے پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے، (ڈاکٹر فیاض عالم، روزنامہ جسارت کراچی) بہرحال یہ سب کچھ اس کی چرب لسانی،تُک بندی اور جھوٹی سچی معلومات کا کرشمہ ہے، ورنہ زید حامد کے پس منظر میں جھانک کر دیکھا جائے تو یہ ملعون یوسف کذاب کے عقائد و نظریات کا علمبردار اور اس کی فکر و سوچ کا داعی و مناد ی ہے ...اور ایسا کیوں نہ ہو کہ چشم بددور یہ اس کا صحابی، خلیفہ، اس کا معتمد خاص، اس کا سفروحضر کا ساتھی، مشکل وقت میں اس کا معاون و مددگار،اس کے مقدمہ اور کیس کی پیروی کرنے والا اور طرف دار رہا ہے۔
راقم کی یہ تحریر جب ماہنامہ بینات کراچی اور ہفت روزہ ختم نبوت میں شائع ہوئی تو ہمارے بہت سے محترم و معزز احباب و رفقا اور دین ومذہب سے وابستگی رکھنے والے مخلصین نے فون پر رابطہ کرکے میری فہمائش کرنا چاہی کہ: زید حامد تو بہت اچھا آدمی ہے بلکہ وہ اس دور میں مسلمانوں کا واحد ترجمان اور نمائندہ ہے، کیوں کہ جس طرح یہ یہودیوں اور امریکا کے خلاف اور جہاد افغانستان کے حق میں بولتا ہے، دوسرا کوئی اس کی ہمت و جرأت نہیں کرسکتا، بلکہ جس بے باکی اور بے خوفی سے یہ شخص بولتا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ خالص ”طالبان“ ہے۔
اس کے علاوہ آج جب کوئی شخص اپنے اندر مسلمانوں، جہاد اور اسلام کے حق میں لکھنے اور بولنے کی ہمت و جرأت نہیں پاتا، بلکہ جب سب لکھنے اور بولنے والوں کی زبان و قلم کا رخ اسلام، اسلامی شعائر، جہاد، مجاہدین اور طالبان کے خلاف ہے، بلاشبہ اس جیسے مردِ مجاہد کی زبان و بیان سے اسلام اور مسلمانوں کی ترجمانی، لق و دق صحرا میں کسی ہوا کے ٹھنڈے جھونکے یا شجرسایہ دار کے مترادف ہے؟ اگر ایسا ہے اور یقینا ایسا ہے تو اس مردِ مجاہد کی مخالفت کیوں؟
یوں تواس سلسلہ میں بہت سے حضرات نے نہایت اخلاص سے مجھے سمجھانے کی سعی و کوشش کی، مگر ہمارے بہت عزیز اور باقاعدہ سندیافتہ عالم دین مولانا محمد یوسف اسکندر سلمہ نے اس موقع پر خاصی جذباتیت کا مظاہرہ فرمایا، چناں چہ فرمانے لگے کہ:
”آپ حضرات بلا تحقیق کسی کو کافر و ملحد لکھنے اور باور کرانے میں ذرہ بھر تامل نہیں کرتے، مولانا! ایک ایسا شخص جو آپ کا، اسلام کا، مسلمانوں کا، جہاد کا، مجاہدین کا اور طالبان کا ترجمان ہے اور اس کی آواز دنیا بھر میں سنی جاتی ہے اور دنیا اس کے علم و فہم اور مبنی برصداقت تجزیوں اور یہود و امریکا کے خلاف بے لاگ تبصروں پر خراج اور تحسین کے ڈونگرے برساتی ہے، آپ نے بیک جنبش قلم اس کو مخالفین کے کیمپ اور پلڑے میں ڈال کر کوئی اچھا کام نہیں کیا۔
مولانا! آپ خود ہی اس کا فیصلہ فرمائیں کہ جو شخص اسلام دشمن ہوگا، وہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں کیوں کر بولے گا؟ اور جو امریکا اور یہودیوں کا ایجنٹ ہوگا وہ یہودیوں اور امریکا کے خلاف سرِ عام لب کشائی کیوں کرے گا؟“ میں نے غور سے ان کی تقریر سنی اور عرض کیا: عزیز من! کسی آدمی کا اچھا مقرر ہونا، عمدہ تجزیہ نگار ہونا، وسیع معلومات سے متصف ہونا، کسی کی چرب زبانی اور طلاقت لسانی ،اس کے ایمان دار ہونے کی علامت اور نشانی نہیں ہے، کیونکہ بہت سے باطل پرست ایسے گزرے ہیں، جو ان کمالات سے متصف ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ مسلمان نہیں تھے، بلکہ وہ اپنے ان کمالات و اوصاف کو اپنے کفر، الحاد اور باطل نظریات کی اشاعت و تبلیغ اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، صرف ایک صدی پیشتر متحدہ ہندوستان کے غلیظ فتنہ، فتنہ قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کی ابتدائی زندگی کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہوگا کہ شروع شروع میں اس نے بھی اپنے آپ کو مسلمانوں کا نمائندہ اسلام کا ترجمان اور آریوں اور عیسائیوں کے خلاف مناظر باور کرایا تھا، مگر یہ سب کچھ ایک خاص وقت اور ایک خاص مقصد کے لیے تھا ...وہ یہ کہ کسی طرح مسلمانوں میں اس کا نام اور مقام پیدا ہوجائے اور بحیثیت مسلمان، اس کا تعارف ہوجائے، مسلمان اس کے قریب آجائیں اور مسلمانوں کا اس پر اعتماد بیٹھ جائے، چناں چہ جب اس نے محسوس کیا کہ ان مناظروں اور مباحثوں سے اس کے مقاصد حاصل ہوگئے ہیں، تو اس نے اپنے باطل افکار و نظریات کا اظہار کرکے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کردیے، اس کے بعد اس نے جو گل کھلائے، وہ کسی باخبر انسان اور ادنیٰ مسلمان سے مخفی اور پوشیدہ نہیں۔ 
ٹھیک اسی طرح زید حامد بھی ایک خاص حکمت عملی کے تحت یہ سب کچھ کررہا ہے، لہٰذا جس دن اس کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس کا مقصد پورا ہوگیا ہے، یا مسلمانوں میں اس کا اعتماد، مقام اور تعارف ہوگیا ہے، یہ بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح اپنے پوشیدہ افکار و عقائد کا اظہار و اعلان کردے گا۔
میرے خیال میں میری اس تقریر سے عزیز مولوی محمد یوسف سلمہ کا ذہن تو صاف نہیں ہوا، البتہ اس نے میری سفید داڑھی اور عمر کے فرق کا لحاظ کرتے ہوئے وقتی طور پر خاموشی اختیار کرلی۔
تاہم اس نے میرے مضمون میں دیے گئے موصوف کے ویب سائٹ کے پتہ پر زید حامد سے رابطہ کیا، تو آگے سے اس نے بھی ٹھیک وہی تقریر جھاڑی کہ یہ میرے خلاف خواہ مخواہ کا غلط پروپیگنڈا ہے اور مولوی مجھ سے خواہ مخواہ بغض رکھتے ہیں یا مجھ سے پرخاش رکھتے ہیں، وغیرہ وغیرہ، ورنہ میرا کسی یوسف کذاب سے کوئی تعلق نہیں رہا، بلکہ میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا۔
بہرحال ویب سائٹ پر ان کی بات چیت اور چیٹنگ جاری تھی کہ میرے رفیق کار مولانا محمد اعجاز صاحب نے انہیں ”یوسف کذاب“ نامی کتاب پیش کردی، اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے عزیز مولوی محمد یوسف اسکندر کو جنہوں نے نہایت غورو خوض سے اس کا مطالعہ کیا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور ان پر حقیقت حال منکشف ہوگئی۔
چناں چہ انہوں نے حکمت و دانش مندی اور سلیقہ سے زید حامد کے ساتھ براہ راست سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پوچھا کہ: اگر تمہارا یوسف کذاب سے کوئی تعلق نہیں تھا تو اس کتاب میں اور یوسف کذاب کے مقدمہ میں تمہارا نام کیوں ہے؟ اور تم نے اس کے مقدمہ کی پیروی کیوں کی تھی؟ اور تم نے اس مقدمہ کے فیصلہ کے بعد روزنامہ ڈان کراچی میں اس فیصلہ کو انصاف کے قتل سے کیوں تعبیر کیا ؟ اور مدعی نبوت یوسف کذاب کو ایک مہربان اور اسلام کے معزز صوفی اور اسکالر کے طور پر کیوں پیش کیا؟ وغیرہ وغیرہ۔
الغرض مسلسل سوالوں کے بعد اس نے بہرحال اتنا اعتراف کرلیا کہ جی ہاں! میرا اس مقدمہ میں کسی حد تک کردار رہا ہے۔ چناں چہ اس کے اس اعتراف کے بعد مولوی محمد یوسف اسکندر صاحب کو زید حامد کی حقیقت سمجھ میں آگئی۔
خیر یہ تو ایک سمجھ دار عالم دین کا معاملہ تھا، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے دین دار حضرات کو میری اس تحریر پر اعتراض تھا اور ہے، چناں چہ بہت سے مخلصین نے یہ کہہ کر اس بحث کو ختم کردیا کہ سعید احمد جلال پوری کو یا تو غلط فہمی ہوئی ہے یا پھر اس کو صحیح معلومات نہیں دی گئیں۔ 
اسی طرح جناب حافظ توفیق حسین شاہ صاحب نے روزنامہ جنگ کراچی میں حامد میر کے جواب میں راقم الحروف کے مضمون کی اشاعت پر اپنے میسیج میں لکھا:
”حضرت مدنی سے متعلق بہترین جوابات بھی انہماک سے پڑھے ہیں، میں خاکسار آپ کی توجہ کے لیے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ٹی وی ون کے ایک پروگرام میں ایک زبردست مجاہد صحافی زید حامد صاحب نے گستاخ حامد میر کو ”را“ کا ایجنٹ قرار دیا ہے، فون:0300-3345123“
دیکھا آپ نے ان صاحب نے بھی زید حامد کو ”زبردست مجاہد صحافی“ لکھا، الغرض اس قسم کے دسیوں حضرات موصوف کے سحر میں گرفتار ہیں اور ان کی تقریر و بیان اور تنقید و تجزیوں کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہیں، صرف اس لیے کہ ان کے سامنے زید حامد کی تصویر کا ایک رخ ہے اور اس کی زندگی کا دوسرا بھیانک رخ ان کے سامنے نہیں ہے، جس میں وہ مدعی نبوت یوسف علی کذاب کا خلیفہ اول، ناموس رسالت کا غدار اور فلسفہٴ اجرائے نبوت کا قاتل، یوسف کذاب کی فاشسٹ زندگی، اس کی زنا کاری و بدکاری، کالے کرتوتوں کا حامی، بلکہ اس کے وکیل صفائی کا کردار ادا کرتا رہا ہے، حد تو یہ ہے کہ وہ قوم کی عزت مآب ماؤں، بہنوں، بہوؤں اور بیٹیوں کی عزت تار تار کرنے والے کو نعوذباللہ نبی و رسول باور کراتا رہا ہے۔
جب یہ بات طے ہے کہ کل کے زید زمان اور آج کے زید حامد نے یوسف علی کذاب کے عقائد و نظریات سے توبہ نہیں کی، بلکہ وہ آج بھی اس کے خلاف عدالتی فیصلہ کو انصاف کا خون کہتا ہے تو یقینا آج بھی وہ کذاب یوسف علی کی روش، اس کے مشن اور عقائد و نظریات کا حامی و داعی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ کل تک وہ کھل کر اس کا جانبدار اور وکیل صفائی تھا، مگر اب وہ حالات کا دھارا دیکھ کر وقتی اور عارضی طور پر اس کی وکالت و ترجمانی سے کنارہ کش، خاموش اور حالات کے سازگار ہونے کا منتظر ہے۔
اس لیے ضروری ہوا کہ اس مارِ آستین کی زہرناکی اور فتنہ سامانی سے قوم کو آگاہ کیا جائے اور اس کے خطرناک عزائم و ارادوں سے بھولی بھالی انسانیت کو آشنا کیا جائے، لہٰذا طے ہوا کہ زید حامد اور یوسف کذاب کے پرانے تعلق داروں سے رابطہ کرکے صحیح صورت حال معلوم کرکے اصل حقائق مسلمانوں تک پہنچائے جائیں، لہٰذا اس سلسلہ میں جب رابطہ مہم شروع کی گئی تو بحمداللہ! اچھا خاصا مواد اور اس حلقے کے کئی ایسے حضرات مل گئے جو زید حامد کو بچپن سے اب تک جانتے ہیں اور اس کی زندگی کے انقلابات اور قلا بازیوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔
چناں چہ جب ان افراد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نہایت ہی خلوص واخلاص سے نہ صرف سارے حقائق اور معلومات مہیا کیں، بلکہ دفتر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی میں تشریف لاکر اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ ہم اس سلسلہ میں ہر جگہ جانے بلکہ زید حامد سے بات چیت کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ (جاری) 

Flag Counter