Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1430ھ

ہ رسالہ

2 - 14
***
پاکیزہ زندگی پاکیزہ ماحول سے بنتی ہی
مولانا محمد عمر پالن پوری 
مثال کے طور پر آپ نے ہوائی جہاز سے سفر کرنا ہے او راس کے لیے آپ تیار ہوئے ۔ ٹکٹ، پاسپورٹ وغیرہ تیار، ان سب کو سوٹ کیس میں ڈالا اور ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہوائی جہاز کھڑا ہے او راس کے جانے کا مکمل انتظام ہے ۔ بس اتنے میں چور نے ہاتھ سے سوٹ کیس چھینا اور بھاگ گیا۔ اس میں آپ کا پاسپورٹ ، ٹکٹ، ویزہ، دوسرے ضروری کاغذات، نقدی اور سفری ضروریات تھیں ،وہ سب غائب گئیں۔ اب ہوائی جہاز کھڑا ہے، لوگ چڑھ رہے ہیں اور لوگوں کو دیکھ کرتم نے شور مچایا کہ ہائے میرا پاسپورٹ، ہائے میرا ویزہ ، ٹکٹ، بہت چلائے ۔ لیکن کام نہیں بنا اور سارا پلان فیل ہو گیا، اب ہوائی جہاز اڑا اور تم دیکھ رہے تھے او رافسوس کر رہے تھے۔ اتنے میں وہ ہوائی جہاز کسی فنی خرابی کی وجہ سے ابھی چڑھا ہی تھا کہ دھڑام سے نیچے گر کر تباہ ہو گیا۔ اور ایسا گرا کہ ایک آدمی بھی ان میں سے نہ بچ سکا۔
اب جو تم نے دیکھا تو بے اختیار زبان سے یہ نکلا کہ اے الله! شکر ہے کہ میرا کام نہیں بنا۔ اگر بنتا تو میں بھی ہلاک ہو جاتا ۔اب تم چور کے پیچھے اور اس کو تلاش کر رہے ہو کہ اوپر سے دو ہزار انعام اسے دے دوں۔
الله تعالیٰ جس حالت میں رکھے اس پر انسان راضی ہو۔ کام بنے یا نہ بنے، بس احکام خدا کے پورے کرے۔ تدبیر کرنے کے انسان مکلف ہیں جو شریعت کے اندر ہو او رکام کا نتیجہ الله تعالیٰ پر ہے، جو چاہے کرے ۔ کرنے والی ذات الله کی ہے ۔ جو حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے باپ کی محبت کی خاطر تدبیر کی او رتدبیر چلی، لیکن چوں کہ شریعت کے خلاف تھی تو انجام اس کا برا نکلا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ
حضرت یوسف علیہ السلام پر تکلیفیں تو بہت آئیں۔ لیکن پھر الله تعالیٰ نے راحت کا سامان دیا۔ ایک گھر کے اندر بہت سی تمام قسم کی سہولیات مہیا کیں۔ بڑھیا کھانا، بڑھیا مکان، اچھا لباس ،تمام سہولتیں میسر ہو گئیں۔ لیکن اس اچھیماحول میں اس عورت نے برائی کی طرف مائل کرنا چاہا، حضرت یوسف علیہ السلام نے انکار کر دیا۔ عورت نے کہا اگر بات نہیں مانوگے تو جیل خانے جاؤ گے۔ اب جیل جانا کو ن پسند کرتا ہے۔ اس کے لیے تدبیر چاہیے تھی اور آسان تدبیر یہ تھی کہ اس عورت کی بات کو مانا جائے، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام سمجھتے تھے کہ اس تدبیر سے جیل خانے سے تو بچوں گا لیکن حکم خدا کا ٹوٹے گا اور آسمانی فیصلہ میرے خلاف ہو گا اور انجام اس کا بہت برا آئے گا۔ چناں چہ اس عورت کی بات کو نہیں مانا او رجیل خانے تشریف لے گئے۔
خدا کی شان دیکھیے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے پیچھے وہ عورت پڑ گئی اور زبردستی حضرت یوسف علیہ السلام سے برائی کرانے پر مصر ہوئی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے انکار کر دیا۔ تو عورت نے انہیں پکڑنے کی کوشش کی ۔ اب یوسف علیہ السلام آگے بھاگ رہے ہیں اور وہ عورت پیچھے بھاگ رہی ہے ۔ دروازے تک جب پہنچے تو عورت نے حضرت یوسف علیہ السلام کا دامن پکڑا اور وہ پھٹ گیا۔ دروازے میں آگے سے اس عورت کا شوہر سامنے آیا۔ عزیز مصر نے جب اس منظر کو دیکھا تو کہا کہ یہ کیا؟ تو عورت نے جلدی سے یوسف علیہ السلام پر الزام لگایا کہ اس نے میرے پر ہاتھ ڈالا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے صاف کہہ دیا کہ اس عورت نے مجھے برائی کرنے کی طرف بلایا اور میرے پر ہاتھ ڈالا۔ اب عزیز مصر کس کو سچا مانے؟ وہ تو بیوی کو سچا مانے گا، لیکن ایک بچہ تھا ،اس نے گواہی دی ﴿ان کان قمیصہ قد من قبل فصدقت وھو من الکذبین وان کان قمیصہ قدمن دبر فکذبت وھو من الصدقین﴾․
اس بچے نے یہ بات بتا دی کہ اگر قمیص آگے سے پھٹی ہے تو عورت سچی اور اگر پیچھے سے پھٹی ہے تو مرد سچا۔ جب دیکھا تو قمیص پیچھے سے پھٹی ہے، عزیز مصر نے سوچا کہ اپنی بیوی خراب ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ اس معاملے کو رفع دفع کرو اور بیوی سے کہا: ﴿ واستغفر ی لذنبک انک کنت من الخاطئین﴾ ( سورة یوسف آیت:29 پارہ12)
توبہ کر، غلطی تیری ہے۔ عورت عزیز مصر کی بیوی تھی ۔ پورے ملک میں بد نامی ہوئی۔ پورے مصر سے بدنامی کے الزامات آئے۔ اب بدنامی سے پورے مصر کو بچانا، بدنامی سے اتنی بڑی عورت عزیز مصر کی بیوی کو بچانا، یوسف علیہ السلام (جو بے گناہ تھے) کو جیل میں ڈال دو۔ تدبیر یہ کی اور چلی، لیکن شریعت کے خلاف تھی تو انجام برا آیا۔ اگر تدبیر ہو اور شریعت کے خلاف ہو اور تدبیر کامیاب بھی ہو جائے مگر انجام برا آئے گا۔ اگر راحت دین داری کے ساتھ آتی ہے تو یہ برکت اور رحمت ہے ۔ جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام۔ اور اگر راحت بے دینی کے ساتھ آئی تو یہ مہلت ہے جیسے فرعون، ہامان، قارون۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی آمدنی الله نے زیادہ کر دی اور قارون کی بھی زیادہ کر دی ۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ الله کے حکموں کو توڑ کر اگر آمدنی زیادہ ہو گئی تو یہ قارون، فرعون کی لائن ہے اور یہ مہلت اور خدا کی ڈھیل ہے اوراگر الله کے حکموں کو پورا کرکے آمدنی زیادہ ہوئی تو یہ برکت ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی لائن ہے ۔ خدا کی برکت ورحمت والی لائن ہے۔
میرے محترم دوستو! خالی دو کان چلنے سے خوش نہیں ہونا۔ بلکہ یہ دیکھنا کہ حکم خدا پورا ہو رہا ہے یا نہیں، دین کے تقاضوں پر میں استعمال ہو رہا ہوں یا نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک طرف دین مٹ رہا ہو اور میں کاروبار میں لگا ہوں!؟
خالی نعمتوں کا آجانا یہ خدا کی رضا کی دلیل نہیں!
خالی نعمتوں کا زیادہ ہونا یہ خدا کی خوشنودی اور رضا کی دلیل نہیں الله تعالیٰ ناراض ہو کر بھی نعمتیں دیتا ہے۔ الله تعالی ہر حالت میں نعمتیں دیتا ہے۔ لیکن برکت اور مہلت کے ساتھ ۔ اس فرق کے ساتھ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جیسے چوہا انسان کو غصہ آیا کہ چوہا گھر میں ہے ،کبھی برتن گرا دیتا ہے، کبھی چیزوں کو ادھر ادھر کرتا ہے، اب انسان نے پنجرے کے اندر نعمتیں رکھیں، ناراض ہو کر نعمتیں بھر دیں، تاکہ اس چوہے کو پنجرے کے اندر پکڑا جائے اور پھر اس کو مارا جائے اور دوسری طرف طوطے کو بھی پنجر ے میں نعمتیں دی جارہی ہیں اور اس سے انسان دل بہلا رہا ہے ۔ طوطے کی پنجرے کی نعمت رضا مندی کے ساتھ ، چوہے کی پنجرے کی نعمت ناراضگی کے ساتھ ۔ اس طرح بے دین اور دین دار کو بھی نعمتیں دی جاتی ہیں، لیکن دین دار کی نعمتیں راضی ہونے سے ، جیسے طوطے کے پنجرے میں نعمتیں رکھنا اور بے دین کو نعمتیں دینا مگر ناراضگی کے ساتھ، جیسے چوہے کے پنجرے میں نعمتوں کا رکھنا۔ دونوں میں فرق ہے ۔ 
بہت سے چوہے گھر میں آگئے۔ بہت نقصان پہنچا رہے ہیں تو بہت سے پنجرے رکھے او رہر ایک میں نعمتیں رکھیں ۔ کسی میں لڈو، کسی میں برفی، کسی میں موتی، کسی میں میٹھائی، اب چاروں طرف سے نعمتیں ہی نعمتیں دکھائی دیں گی۔ اب جو چوہا آئے گا وہ ان نعمتوں کے لیے گھسے گا۔ لیکن انجام اسی کا برا ہو گا، جو گھسے گا تو پنجرے میں بند ہوجائے گا او رپکڑکر اسے مارا جائے گا۔ اسی طرح نعمتیں تو ملیں لیکن جان بھی گئی ۔ اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی نافرمانی کرے گا تو یہ نہیں کہ نعمتوں کے دروازے اس پر بند کر دیے جائیں گے، بلکہ نعمتوں کے دروازے اور کھول دوں گا۔ الله تعالیٰ فرماتے ہیں۔
﴿فلما نسواماذکروا بہ فتحنا علیھم ابواب کل شییٴ حتی اذا فرحوا بما اتوا اخذنھم بغتة فاذا ھم مبلسون﴾․ (سورة الانعام، آیت:44 پارہ7)
الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے دروازے کھول دیے نافرمانوں کے لیے۔ ملک کا دروازوہ ، مال کا دروازہ، آمدنی کا دروازہ ، سب کھول دیے ہیں
﴿حتی اذا فرحوا بما اتوا﴾․
فرمایا جو انہیں ملا اس پر وہ اترانے لگے تو پھر ہم کیا کریں گے ؟ 
﴿اخذنھم بغتة فاذا ھم مبلسون﴾․ 
ہم اچانک پکڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟
یہ لفظ ( بما) یہاں پر عام ہے ۔ اگر ملک، آمدنی ، دولت ،پیسہ ، عہدہ، ڈگری ملی او راس پر آدمی اترایا تو الله کی پکڑ آئے گی اور اگر نعمت دین کی ہو ، روحانیت ہو ، علم کی ہو، تبلیغ کی ہو ، دعوت کی ہو، ان نعمتوں پر بھی اگر اترایا تو یہاں پر بھی الله کی پکڑ ہو گی ۔ یہ لفظ ( ما) عام ہے ۔ روحانی نعمت جس پر اترایا جائے ،وہ روحانی نعمت نہیں بن سکتی، بلکہ نفسانی بن جاتی ہے ۔
لیکن ہر نعمت کے بار ے میں کہا جائے، جیسے چوہے کا پنجرہ۔ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ دوسری جگہ الله نے فرمایا۔
﴿ولو ان اھل القری آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکت من السماء والارض﴾․ ( سورة الاعراف، آیت:96 پارہ:9)
اگر ایمان والے او رتقوے والے ہوں گے تو ہم برکتیں کھول دیں گے، آسمان سے بھی برکتیں برسیں گی اور زمین سے بھی ہر طرف سے برکتیں ہو گی۔ تو دین دار اور بے دین کی نعمتوں میں فرق ہے ۔ اس طرح بے دین اور دین دار پر تکالیف بھی آتی ہیں ۔ فرماں بردار پر اگر تکالیف آتی ہیں تو اس کی نوعیت جدا ہے او راگر بے دین پر تکالیف آتی ہیں تو اس کی نوعیت جدا ہے۔
فرماں بردار پر اگر تکلیف آتی ہے تو وہ بطو رابتلا اور آزمائش کے آتی ہے، خدا کو امتحان لینا مقصود ہوتا ہے۔
ان تکالیف کو الله تعالیٰ ابتلا اور آزمائش کہتا ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر تکالیف آئیں۔
﴿واذا بتلی ابراھیم﴾․ ( بقرہ آیت:24 پ:1)
اُحد کے اندر صحابہ پر جوتکلیف آئی وہ بھی بطور ابتلا کے، حنین کے اندر جو تکلیف آئی وہ بطور ابتلا کے ۔ یہ تمام تکالیف جو صحابہ پر آئیں یہ سب ابتلا اور آزمائش کے طور پر آئیں۔
میرے محترم دوستو اور بزرگو! حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کر رہا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے تدبیر کی باپ کے دل میں محبت پیدا کرنے کے لیے اور وہ تدبیر چلی، لیکن شریعت کے خلاف تھی تو انجام اس کا برُا آیا۔
عزیز مصر نے تدیبر کی کہ اپنی عزت، بیوی کی عزت او رملک کی عزت بچانے کے لیے۔ وہ تدبیر یہ تھی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل میں ڈالا۔ تدبیر چلی، عزت بچ گئی، چوں کہ شریعت کے خلاف تھی تو آسمانی فیصلہ خلاف ہوا۔ انجام برا آیا اور برا انجام کیا آیا، حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی فلسطین میں تھے، عز یز مصر، مصر میں تھا اور آسمانی فیصلہ دونوں کے خلاف ہوا۔ تو سات سال کا قحط مصر میں آیا اور فلسطین میں بھی آگیا۔
تدبیر شریعت کے خلاف ہو او رکامیاب بھی ہو، لیکن انجام بُرا آئے گا
خداکے حکموں کو توڑ کر جو کاروبار کیے جاتے ہیں وہ کاروبار خوب چلے اور تدبیریں خوب چلیں ، انجام اس کا برا آئے گا۔ خدا کے حکم کو پورا کرکے جو تدبیر کی جائے وہ تدبیر چاہے نہ چلے لیکن اس کا انجام اچھا آئے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام جب جیل میں گئے تو جیل کے اندر نکلنے کی تدبیریں کر رہے ہیں اور شریعت کے موافق کر رہے ہیں، جو ایک آدمی جیل سے نکل کر چلا گیا۔ حضرت یوسف نے جس کو خواب کی تعبیر بتائی تھی او رکان میں یہ بات بتائی تھی کہ بادشاہ سے جاکر میرا ذکر کرنا۔ یعنی میں کتنا بھلا آدمی ہوں۔ سارے جیل والے جانتے ہیں، میرے کردار سے سب جیل والے واقف ہیں۔ یہ تدبیر تھی اور تدبیر شریعت کے موافق تھی لیکن خدا کی شان کو دیکھیے کہ تدبیر چلی نہیں، وہ شخص جیل سے جاکر حضرت یوسف علیہ السلام کی بات کو بھول گیا تو تدبیر نہیں چلی، لیکن تدبیر چوں کہ شریعت کے موافق تھی،انجام اس کا اچھا آیا اور انجام کیا؟ کئی سالوں کے بعد بادشاہ نے خواب دیکھا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو بلایا او رحضرت یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیر بتائی تو یہ بات ذریعہ بنی کہ رات کے وقت جیل کی کال کوٹھریوں میں تھے اور جب صبح کا وقت آیا تو وزارت مصر کے تخت پر تھے، یہ انجام نکلا۔ جن کی تدبیر شریعت کے خلاف تھی اور چلی لیکن انجام سات سال کا قحط آیا او رجن کی تدبیر شریعت کے موافق تھی اور چلی بھی نہیں اور انجام اس کا اچھا آیا کہ اس سات سال کے قحط پر کنٹرول کرنے کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام فوڈ منسٹر بن گئے اور حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے بدلہ لینے کا یہ بہترین موقع تھا۔ بادشاہ نے جو خواب کی تعبیر پوچھی ، حضرت یوسف نہ بتاتے ، بڑی آسانی سے بدلہ لے سکتے تھے۔ تعبیر نہ بتاتے ، سات سال کا قحط آجاتا، فلسطین تباہ ہو جاتا۔ مصر تباہ ہو جاتا۔ سات سال کے قحط میں مصرو فلسطین کا نام جغرافیہ سے ختم ہوتا اور نہ ملتا، وہ سات سال قحط اگر آجاتا اور تدبیر نہ ہوتی تو مصر وفلسطین کانام ونشان ختم ہو جاتا، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام شریف تھے اور شریف آدمی کو جب موقع ملتا ہے وہ بدلہ نہیں لیتا، بلکہ معاف کرتا ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے بجائے بدلہ لینے کے خواب کی تعبیر صحیح بتائی او رتعبیر کے ساتھ ساتھ قحط سے بچنے کی تدبیر بتائی اور تعبیر بتا کر خود تدبیر کی، اپنے سر پر لے کر خود تدبیر کی اور پورے مصر وفلسطین پر احسان کیا اور آخری انجام یہ نکلا کہ سارے بھائیوں اور باپ کو بلا لیا۔ یہ سارے کے سارے پورے مصر پر حاوی ہو گئے او رمصر پر فلسطین والوں کا بہت بڑا احسان ہوا۔ جب نبیوں والی ترتیب پر یہ بنی اسرائیل چلے تو الله تعالیٰ نے دنیا میں بھی بہت اونچا کر دیا ، آخرت کی اونچائی تو ہے ہی ۔ لیکن الله نے دنیا میں بھی ان کو عزت بخشی ۔ مگر جب حضرت یوسف علیہ السلام اس دنیا سے پردہ فرماگئے اور آخرت کی طرف چلے تو آہستہ آہستہ بنی اسرائیل کے اعمال بگڑتے گئے اور مشاہدات پر ان بنی اسرائیل کا یقین آتا گیا۔ غیب پر یقین کم ہوتا چلا گیا۔ اور ان کی زندگیاں الله کے حکموں کے خلاف ہو گئیں اور نبیوں والا طریقہ انہوں نے چھوڑ دیا۔ الله تعالیٰ ڈھیل دیتے رہے، لیکن پتہ نہیں چلا اور آخر میں جاکر الله تعالیٰ نے ان بنی اسرائیل کو اتنا گرایا کہ کفن چور فرعون ان کے سروں پر مسلط ہو گیا۔ ایک وقت پورے مصر پر ان کی چلتی تھی اور اب کفن چور فرعون کی چلی اور اتنی چلی کہ سارے ایسے بن گئے کہ ان کی لڑکیوں کو فرعون اور اس کی فوج رات بھر اپنے گھر میں رکھتے تھے اور لڑکوں کو مارتے تھے اورکوئی ایکشن لینے والا نہ تھا او رکوئی ایجی ٹیشن چلانے والا نہ تھا۔ الله تعالیٰ نے اتنا ان کو ذلیل ورسوا کیا اور الله نے یہ بتایا کہ جب تم نے نبیوں کے طریقے کو اختیار کیاتو ہم نے تم کو کتنا اونچا کیا او رجب تم نے نبیوں کے طریقے کو چھوڑا تو ہم نے تم کو ذلیل ورسوا کیا۔
نبیوں کے قصے قیامت تک کے لیے خدائی ضابطے ہیں!
یہ نبیوں کے قصے اور واقعات کہانیوں کے طو رپر کافی نہیں ہیں، بلکہ یہ الله کے ضابطے ہیں۔ اور قیامت تک کے لیے وہی ہو گا جو نبیوں کے زمانے میں الله تعالیٰ نے کیا۔ ان نبیوں کے واقعات کو پڑھو کہ قیامت تک کے لیے امت مسلمہ کے لیے قانون ہیں اور ان سے خدا کی مدد وغضب کے قوانین ملتے ہیں ۔
تمام انبیاء کا آنا بطور تمہید اور حضور صلی الله علیہ وسلم کا آنا بطور اصل!
سارے نبیوں کا آنا بطور تمہید ہے اور رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کا تشریف لانا بطور اصل کے ہے۔
رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے نبیوں کو بھیج کر پورے عالم کے اندر فضا بنائی ۔ اکثریت نے نبی کی بات نہ مانی ، طاقت والوں نے نہیں مانی۔ لیکن سب کے سب ناکام ہوئے، اقلیت والے جو نبیوں کی بات ماننے والے تھے ان کے سامنے اکثریت والے جو نبیوں کی بات ماننے والے نہ تھے ناکام ہو گئے، جو نبی کی بات کو نہیں مانتے تھے ۔ قیامت تک کے لیے الله تعالیٰ نے بتا دیا کہ ملک ومال ، پیسہ روپیہ ، طاقت، سونا چاندی، عہدہ ڈگری ، اس سے زندگیاں نہیں بنتیں۔ زندگی الله بناتے ہیں اور زندگیاں الله بگاڑتے بھی ہیں ۔ الله تعالیٰ کی زندگیوں کو بنانے کا ضابطہ انبیاء ہیں او رنبیوں کا طریقہ اگر چھوڑ دیا گیا تو الله تعالیٰ زندگیاں اجاڑ دیں گے، جب نبیوں کا طریقہ چھوڑا گیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ کفن چور فرعون کو الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر مسلط کر دیا او راس فرعون نے ان کوبڑا ذلیل کیا ۔ اب ان میں الله تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو بھیجا۔ حضرت موسی علیہ السلام تشریف لائے۔ الله تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو نبوت دی اور نبوت کو ہ طور پر ملی ۔ الله تعالیٰ نے کوہ طور پر موسی علیہ السلام سے پوچھا۔
﴿ وماتلک بیمینک یموسی﴾․ ( طہ آیت :17 پ:16)
اے موسی! تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ موسی علیہ السلام نے جواب دیا۔
﴿ قال ھی عصای﴾․ ( سورة طہ آیت:18 پارہ16)
حضرت موسی علیہ السلام نے جواب دیا۔ میرے ہاتھ میں ڈنڈا ہے۔ اس سے میں بکریاں پالتا ہوں اور چھوٹے موٹے کام اس سے ہوتے ہیں ۔ الله تعالیٰ نے حکم دیا ۔ ﴿قال القھا یموسی﴾․ سورة طہ آیت:17 پارہ:16)
حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ
اے موسی علیہ السلام چھوڑ دو۔ اسے زمین پر ڈال دو ۔ اب حضرت موسی ! نے یہ نہیں کہا کہ اے الله! اگر میں اس ڈنڈے کو ڈال دوں تو میری بکریوں کے پلنے کا کیاہو گا ؟ یہ نہیں کہا کیوں؟ اس لیے کہ حضرت موسی علیہ السلام نبوت سے پہلے بھی سمجھتے تھے کہ پالنے والا الله ہے۔ یہ ڈنڈا میری بکریوں کو نہیں پالتا۔ اس ڈنڈے کو الله استعمال کر رہے ہیں میری بکریوں کو پالنے کے لیے، پالتے تو الله ہیں۔ چناں چہ ڈنڈا ڈال دیا تو ڈنڈے سے اژدہا بنا اور طبیعت کے خلاف بنا۔ حضرت موسی علیہ السلام ڈرے، الله کے حکموں کو آدمی اپنی طبیعت کے خلاف پورا کرے، اس کے بعد والے حالات اگر طبیعت کے خلاف آئے الله کے حکموں کو جو آدمی پورا کرے گا تو الله تعالیٰ غیب سے اس کی مدد فرمائیں گے۔ طبیعت کے خلاف حکموں پر قدم اٹھانا تو ظاہری حالت کے خلاف الله کی مدد کا اتروانا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام بھاگنے لگے اژدھے سے جان بچانے کے لیے، الله تعالیٰ نے حکم دیا کہ ﴿ خذ ھا ولا تخف﴾ ” اے موسی علیہ السلام پکڑو اور مت ڈرو!“
نفع والا ڈنڈا تھا تو فرمایا اسے چھوڑ و۔ نقصان پہنچانے والا اژدہا بنا تو فرمایا اسے پکڑو ۔ یہی معنی ﴿ایاک نعبد وایاک نستعین ﴾کا ہے ﴿ایاک نعبد﴾ میں ہم وہ مانتے ہیں جو الله فرماتے ہیں او ر﴿ایاک نستعین﴾ میں جوہم کہتے ہیں وہ آپ کریں گے اور یہی معنی حی علی الفلاح اور حی علی الصلوٰة کا ہے ۔ جو الله کہہ دے ہم وہ کریں گے اور جو ہم کہہ دیں الله وہ کریں گے۔
حضرت موسی علیہ السلام نے اژدھے کو پکڑا تو ڈنڈا بن گیا۔ حضرت موسی علیہ السلام سمجھ گئے کہ ظاہری اسباب کا اپنی مرضی پر لگنا اصل اور نہ چھوڑنا اصل اور الله کے کہنے پر ظاہرہی اسباب کا لگنا بھی اصل اور چھوڑنا بھی اصل ۔ ڈنڈا تھا اپنی مرضی سے پکڑتے تھے۔ کئی دفعہ چھوڑا اور پکڑا اپنی مرضی سے، سوائے بکری چرانے کے کوئی کام نہیں دیتا تھا ۔ اب الله کے کہنے پر چھوڑا اور پکڑا تو اب ڈنڈے سے صرف بکریاں نہیں پلیں گی بلکہ یہ ڈنڈا ایسا بنا کہ سمندر کو مارا، بارہ راستے بن گئے اور بارہ خاندان پار ہو گئے۔ پتھر پر مارا تو بارہ نہریں جاری ہو گئیں اور قوم کو سیراب کیا ۔ جادو گروں کے مقابلے میں ڈالا تو اژدھا بنا اور سارے جادو گروں کے جادو کونگل گیا۔ چھ لاکھ جادو گر مسلمان ہوئے ۔ فرعون کی بیگم آسیہ مسلمان ہو گئی۔
ڈنڈے کو اپنی مرضی سے استعمال کرتے تھے تو صرف بکریوں کے پلنے کا کام دیتا تھا او رجب الله کے حکم پر استعمال کیا تو بارہ کے بارہ خاندان بچے۔ سمندر میں ڈنڈے کے راستوں پر چلے او رحفاظت ہو رہی ہے او رالله کا دین بھی پھیل رہا ہے ۔ ہر چیز کا سبب بنا۔
الله تعالیٰ نے ہمیں کاروبار اور گھر دیے ہیں !
الله تبارک وتعالیٰ نے ہمیں بھی دیے ہیں ۔ ایک کاروبار اور دوسرا گھر ۔ مگر ہم اسے اپنی رائے سے استعمال کرتے ہیں دن کے وقت کاروبار پکڑا، گھر کوچھوڑا اور رات کے وقت کاروبار کو چھوڑا ور گھر پکڑا۔ کئی بیچارے تو رات کو بھی کاروبار نہیں چھوڑتے ۔ یہ ہم اپنی مرضی سے پکڑتے او رچھوڑتے ہیں، لیکن اسے الله کی مرضی سے چھوڑنا او رپکڑنا، الله کے حکم سے جب کاروبار اورگھر کو چھوڑتے اور پکڑتے رہیں گے۔ ان شاء الله ، الله کے حکم سے باطل کا جادو نکلتا جائے گا اور دین پھیلتا رہے گا۔ مگر شرط ہے کہ الله تعالیٰ کے حکم سے پکڑیں اور الله کے حکم سے چھوڑیں۔جب بھی دین کا تقاضا آجائے فوراً کاروبار او رگھر کو چھوڑیں اور دین کے تقاضوں کو پورا کریں ۔ دین کے تقاضوں کو پورا کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ایمان کی طاقت نہ ہو۔
دین کے سیکھنے کی کوشش کوئی اس وقت تک نہیں کرتا جب تک اس کے دل کے اندر ایمان کی طاقت نہ ہو او رجب ایمان کی طاقت آجائے تو پھر ہر آدمی دین سیکھنے کی کوشش کرے گا اور دین پھیل جائے گا ۔آج لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مال روپیہ ، پیسہ سے کامیابی ہے او راسے طاقت سمجھتے ہیں ۔ جب تک ان کی محبت دل سے نہ نکل جائے او رایمان کی طاقت آجائے تو دین کی کوشش میں آسانی ہو گی اور دین پورے عالم کے اندر پھیلے گا ۔ لیکن اگر دنیا ، مال ، روپیہ پیسہ سے محبت ہو گی اور اپنے جذبات وخواہشات پر چلے تو یہ آواز جہنم کی ہے ۔ جو اپنے جذبات او رخواہشات پر چلتے ہیں او راپنے جذبات پورا کرتے ہیں ان کے لیے جہنم ہے اور وہ جہنم کے راستے پر چلتے ہیں ۔ او رجہنم کا مزاج یہ ہے کہ ﴿ھل من مزید ﴾”اور لاؤ اور لاؤ“ یہ مزاج جہنم کا ہے تو جو جہنم کے راستے پر چلتا ہے اور یہی کہتا ہے ”لاؤ۔ لاؤ“ جھوٹ سے، رشوت سے ، سود سے ، دھوکہ فراڈسے، جس طریقے پر بھی ہو بس لاؤ، تو یہ جہنم کا مزاج ہے ﴿ھل من مزید؟﴾
او رجو اپنے جذبات کو قربان کرے ان کے لیے جنت ہے جواپنے ہاتھ سے اپنی جان سے دوسروں کے لیے قربان کرے۔ جو آدمی الله کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا، اپنے جذبات کو قربان کیا تو اس کے لیے جنت اور جنت کی آواز ہے ﴿ ولدینا مزید﴾ جہنم کی آواز ہے ”لاؤ اور لاؤ“ اورجنت کی آواز ہے لے لو، لے لو۔
دنیا کی آواز
آج پوری دنیا کے اندر یہ آواز ہے کہ ”لاؤ، بس لاؤ“ جھوٹ سے، فراڈ سے ، حکومت سے، ٹیکسوں کے راستوں سے، آفیسرز ، رشوت کے راستوں سے ، سرمایہ دار سود کے راستوں سے اور غریب اسٹرائیک اور ڈاکہ کے راستے سے، بس لاؤ۔ اس آواز سے پوری دنیا پریشان کن بنی ہوئی ہے ۔ لیکن رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے آواز دی ہے کہ لے لو، ایسا پاکیزہ طریقہ لائے ہیں کہ جو بھی اس کو قبول کرتا ہے بس اس کی آواز ہوتی ہے لے لو ۔ زکوٰة سے، صدقہ سے، خیرات سے ، قربانی سے لے لو، مکہ والے جب مدینہ گئے تو مدینہ والوں نے کہا کہ لو، لو۔ مکہ والوں نے کہا ہم نہیں لیں گے ۔ بلکہ ہمیں بازار کا راستہ بتا دو۔ رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو یہ سکھایا کہ دے دو ، بانٹو اور یہ بھی نہیں کہ نہیں مانگتے تھے ۔ مانگتے تھے، مگر الله سے ” اے الله دے، اے لله دے!“ اور الله نے شروع میں تو کھجوریں دیں مگر آخر میں ہیرے جواہرات دیے اور ایسے دیے کہ ہر آدمی تقسیم کرنے والا تھا۔ ہر صحابی تقسیم کرنے والا تھا۔
میرے محترم دوستو! آج پوری دنیا جو جذبات کو پورا کرنے کے راستے پر چلی ہوئی ہے او رہر شخص کی آواز ہے کہ لاؤ۔ اس سے تمام انسانوں کی زندگیاں تنگ ہو گئی ہیں اور ساری دنیا پریشان ہے او رنجات کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔ نجات کا راستہ مسلمانوں کے پاس ہے ، لیکن یہ راستہ نقوش میں ہے اورنفوس میں نہیں ہے ۔ اس پاکیزہ طریقہ کو نقوش سے نکال کر نفوس میں لایا جائے او راس پاکیزہ طریقہ کو زندہ کیا جائے اور پورے عالم کے اندر اسے پھیلایا جائے ۔ جب یہ پاکیزہ طریقہ دنیا کے اند رپھیل جائے تو ان شاء الله سب کی زندگیاں سکون والی، چین والی، دین والی بنیں گی اوررحمة للعالمین کا طریقہ دنیا کے اندر زندہ ہوجائے گا اور پورے عالم کے اندر امن وامان آئے گا۔ ( ان شاء الله)
(جاری)

Flag Counter