Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1430ھ

ہ رسالہ

12 - 14
***
دعا مومن کا ہتھیار.. جسے آج کے مسلمان چھوڑ چکے ہیں
مولانا عمیر احمد صدیقی، کراچی
ہوا نہ چلے تو گرد جم ہی جاتی ہے، بلکہ سات تہ خانوں تک پہنچ جاتی ہے، جس سبق کو دہرایا نہ جائے اس کے نقوش مٹتے جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ بالکل معدوم ہو جاتے ہیں، جیسے کبھی تھے ہی نہیں، کچھ یہی حال ہم مسلمانوں کے ساتھ ہوا کہ بہت کچھ ہم سے اس لیے جاتا رہا کہ اس کی طرف توجہ کم کر دی گئی۔
لکھنے والوں نے نئی راہیں لیں، پڑھنے والوں کے مزاج بدلے ،چھاپا خانوں کے مالکان نے بھی سادہ مگر دل سوز تحریروں کو جگہ دینا کم کر دیا ۔ جس کی وجہ سے بہت سے بنیادی عنوانات لوگوں کے ذہن سے مٹتے چلے جارہے ہیں اور ان کی اہمیت دلوں سے کم ہوتی چلی جارہی ہے ۔
ہر شخص جدت آمیز تخلیق اور نئی فکر کو ترجیح دینے لگا اور یہی زمانے کا اصول ہے … مگر اسلام کا یہ خاصہ ہے کہ یہ عالم گیر مذہب اپنے دامن میں بے پناہ ایسے عنوانات رکھتا ہے ( بلکہ اگر میں کہوں کہ پورا اسلام ہی ان صفات کا مجموعہ ہے تو غلط نہ ہو گا ) جو اپنی سادگی کے باوجود کبھی پرانے نہیں ہوتے ، جن کی ضرورت ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ یہ عنوانات بار بار لکھے جانے کے باوجود بھی پڑھنے والے کو رو پہلے اور تروتازہ ہی معلوم ہوتے ہیں ۔
اس ذخیرے کا ایک موتی دعا بھی ہے۔ دعا کیا ہے ؟ اس کا مقام، ضرورت واہمیت اور فضائل میں کن چیزوں کو ذکر کیا جاتا ہے؟ وہ کون سے مواقع ہیں، جن کو دعا سے خاص مناسبت ہے؟ ان تمام باتوں کے جوابات ان شاء الله اس تحریر میں سپردِ قلم کیے جائیں گے۔
دعا کیا ہے ؟ 
دعا عربی زبان کا ایک عام لفظ ہے۔ لغت میں اس کے معنی ”پکارنا“ اور مدد طلب کرنا ہیں اور اصطلاح شرع میں اپنے آپ کو انتہائی حقیر وذلیل، کمتر وفقیر سمجھتے ہوئے انتہائی عاجزی او رانکساری کے ساتھ الله رب العزت کے حضور کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی التجا کرنا دعا کہلاتا ہے۔
دعا الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نظر میں
ذیل میں دعا کے بارے میں ایک آیت او را س کا شان نزول ذکر کیا جارہا ہے، جس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ یہ کس قدر اہم عبادت ہے:
جلیل القدر مفسر علامہ ابن کثیر رحمة الله علیہ اپنی سند سے نقل کرتے ہیں :
”ان اعرابیا قال: یا رسول الله، (صلی الله علیہ وسلم) اقریب ربنا فنناجیہ ام بعید فننادیہ؟ فسکت النبی صلی الله علیہ وسلم، فانزل الله: ﴿إذا سألک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوة الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی ولیومنوا بی لعلھم یرشدون﴾․ (ابن کثیر ج1 ،البقرہ آیت:186)
ایک مرتبہ ایک دیہاتی نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا اے الله کے رسول ! کیا ہمارا رب ہم سے قریب ہے کہ ہم اس سے ( دعا کے وقت) سرگوشیاں کریں ( اور زیادہ چیخ وپکار کی ضرورت نہ رہے) یا ہمارا رب ہم سے دور ہے کہ چیخ چیخ کر پکاریں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور خاموش رہے۔ اس پر یہ آیت ناز ل ہوئی: جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں ( کہ میں ان سے قریب ہوں یا دور) سو میں قریب ہوں، جب کوئی مجھ سے دعا مانگے تو دعا مانگنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں ، لہٰذا چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین لائیں، تاکہ نیک راہ پر آئیں۔
شاید معمولی غوروفکر کے بعد ہی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ایک آیت میں الله تبارک وتعالی نے اپنے بندوں سے کس قدر محبت او رشفقت کا انداز کتنے پیارے انداز میں کیا ہے کہ جب سوال، الله کے رسول سے کیا گیا کہ الله قریب ہے یا دور تو الله نے یہ نہیں فرمایا کہ ” اے نبی! آپ فرما دیجیے۔ “ بلکہ براہ راست فرمایا: ” میں تو قریب ہوں، کوئی پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو جواب بھی دیتا ہوں ( اور جب میں جواب دینے والا ہوں ) تو مجھے پکارو اور مجھ ہی پر ایمان لاؤ“۔
شاید ایسے یوں سمجھنے میں آسانی ہو کہ ایک باپ خوش کرنے کے لیے چند لمحوں کے لیے اپنے بچے کی نظروں سے اوجھل ہو جائے تو وہ بچہ دوسرے بھائی وغیرہ سے پوچھتا ہے ” بابا کہاں ہیں؟“ اور تلاش کرتا ہے اور اچانک باپ دیوار کے پیچھے سے نمودار ہو کر خود کہتا ہے” بابا یہاں ہیں ، بابا یہاں ہیں“۔
اسی طرح قرآن کی ایک دو نہیں، بے شمار آیات میں الله تعالیٰ اپنے سے مانگنے کا نہ صرف حکم دیتے ہیں بلکہ نہ مانگنے پر سخت ناراضگی کا اظہار بھی فرماتے ہیں۔
آئیے !دعا کہ بارے میں مزید چید چیدہ آیات واحادیث پر نظر ڈالتے ہوئے آگے بڑھتیہیں۔
عظمت دعا اور اس کا مقام
عن النعمان بن بشیر قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:” الدعا ء ھو العبادة ثم قرأ: ﴿ وقال ربکم ادعونی استجب لکم إن الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم داخرین﴾․
حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” دعا عین عبادت ہے“۔ پھر آپ نے سند کے طور پر یہ آیت پڑھی:
ترجمہ: تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا اور تم کو دوں گا۔ جو لوگ میری عبادت سے متکبرانہ روگردانی کریں گے ان کو ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں جانا ہو گا۔“
(معارف الحدیث ج5، حدیث71)
عن انس رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ” الدعا مخ العبادة“․ (رواہ الترمذی)
حضرت انس رضی الله عنہ سے منقول ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”دعا عبادت کا مغز ( اصل جوہر) ہے۔“
کیوں کہ عبادت کی حقیقت تذلل وعاجزی ہے اور دعا میں یہ بات بدرجہ کمال موجود ہے ۔
عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لیس شیء اکرم علی الله من الدعاء“․
حضرت ابوھریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله کے یہاں کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں۔“ ( حوالہ بالا، حدیث72)
لہٰذا معلوم ہوا کہ الله کے نزدیک جب یہی سب سے افضل ہے تو الله کے لطف وعنایت اور رحمت کو کھینچنے کی سب سے زیادہ طاقت دعا ہی میں ہے ۔
عن ابن عمر رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من فتح لہ منکم باب الدعاء فتحت لہ ابواب الرحمة، وماسُئِل الله شیئا یعنی احب إلیہ من ان یسال العافیة“․ (رواہ الترمذی)
حضرت ابن عمر رضی الله عنہ سے منقول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے اور الله کو سوالوں اور دعاؤں میں سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندے اس سے عافیت کی دعا کریں، یعنی کوئی دعا الله کو اس سے زیادہ محبوب نہیں۔“ ( بہ حوالہ بالا حدیث74)
تشریح: اس حدیث میں دو باتیں بہت اہم ہیں، جن کا سمجھنا نہایت ضروری ہے : عافیت کسے کہتے ہیں ؟ دعا کا دروازہ کھلنے کا کیا مطلب ہے ؟ عافیت نام ہے ”تمام دنیوی واخروی اور ظاہری وباطنی، آفا ت وبلیات سے سلامتی اور تحفظ کا ، چناں چہ جو شخص الله سے عافیت طلب کرتا ہے وہ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ الله کی حفاظت او رکرم کے بغیر وہ زندہ سلامت رہ سکتا ہے اور نہ ہی کسی چھوٹی سے چھوٹی مصیبت اور بڑی تکلیف سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے اور یہ عاجزی ہی تو کمال عبدیت ہے۔
دعا کا دروازہ کھلنے کا مطلب یہ ہے کہ کیفیت دعا نصیب ہو جائے، کیوں کہ دعا دراصل ان دعائیہ کلمات کا نام نہیں جو زبان سے ادا ہوتے ہیں، ان الفاظ کو تو زیادہ سے زیادہ دعا کا لباس اور قالب کہہ سکتے ہیں، دعا کی حقیقت انسان کے دل اور اس کی روح کی طلب اور تڑپ ہے اور حدیث میں اسی کیفیت کے نصیب ہونے کو باب دعا کھل جانے سے تعبیر کیا ہے اور جب یہ نصیب ہو جائے تو اس شخص کے لیے رحمت کے دروازے کھل ہی جاتے ہیں ۔
عن ابی ھریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”من لم یسأل اللہ یغضب علیہ“․ (رواہ الترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو الله سے نہ مانگے الله اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔“
یقینا رحمت وشفقت کی اس سے بڑھ کر کوئی انتہا نہیں ہو سکتی ۔ کیا خوب کہا ہے ایک شاعر نے #
الله یغضب إن ترکت سؤالہ
وبنی آدم حین یسئل یغضب
ترجمہ: الله اس وقت ناراض ہوتے ہیں جب اس سے مانگنا چھوڑ دیاجائے اور انسان سے اگر مانگا جائے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے۔
عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : ”سلوا الله من فضلہ، فإن الله یحب ان یسأل، وأفضل العبادة انتظار الفرج“ ․
حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” الله سے اس کا فضل مانگو ( یعنی دعا کرو کہ وہ فضل وکرم فرمائے) کیوں کہ الله کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعا کریں اور مانگیں اور فرمایا کہ :” الله تعالیٰ کے کرم سے امید رکھتے ہوئے ) اس بات کاانتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فرمائے گا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے ( کیوں کہ اس میں عاجزانہ اور سائلانہ طور پر الله تعالیٰ کی طرف توجہ ہے )۔ بہ حوالہ بالا ،حدیث76)
درحقیقت بات یہ ہے کہ بندوں کے مقامات میں سب سے بلند عبدیت کا مقام ہے او ردعاچوں کہ عبدیت کا جوہر اور خاص مظہر ہے ( بہ شرط کہ دعا کرتے وقت انسان کا ظاہر وباطن عبدیت میں ڈوبا ہوا ہو )،اس لیے دعا کو اس قدر اہمیت دی گئی اور افضل ترین عبادت کہا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم چوں کہ اس مقام عبدیت کے امام تھے، اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے احوال میں سب سے غالب وصف اور حال دعا کا ہے اسی وجہ سے آپ کے ذریعے امت کو روحانی دولتوں کے جو عظیم خزانے ملے ہیں ان میں سب سے بیش قیمت خزانہ ان دعاؤں کا ہے، جو مختلف اوقات میں الله تعالیٰ سے خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے کیں یا امت کو ان کی تلقین فرمائی۔
دعا کی مقبولیت اور نافعیت
عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:”ان الدعاء ینفع مما انزل ومما لم ینزل فعلیکم عباد الله بالدعاء“․ (رواہ الترمذی واحمد عن معاذ بن جبل)
حضرت ابن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” دعا کار آمد ہوتی ہے ( ضرور فائدہ پہنچاتی ہے) ان حوادث (مصیبت او ربلاؤں) میں بھی جو نازل ہو چکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، پس اے الله کے بندو! دعا کا خوب اہتمام کرو ۔ (معارف الحدیث ج5، حدیث77)
سبحان الله! کتنا بڑا احسان ہے الله کا کہ دعا کو ایسا فائدہ مند بنایا کہ ان مصیبتوں اور پریشانیوں کا بھی حل بنا دیا جن کا انسان فی الحال سامنا کر رہا ہے اور ان پریشانیوں کے دور کرنے میں بھی مؤثر بنایا جو مستقبل میں کبھی پیش آئیں گی۔ اب دعا کی مقبولیت اور الله کے نزدیک اس کے مقام کے بارے ایک اور حدیث دیکھیے۔
عن سلمان قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”ان ربکم حی کریم، یستحیی من عبدہ إذا رفع یدیہ ان یردھماصفرا“ (رواہ ابوداؤد والترمذی)
حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” تمہارے پرورد گار بہت زیادہ حیا ( شرم) اور کرم فرمانے والے ہیں ،ان کو اپنے بندے سے شرم آتی ہے کہ جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے تو انہیں خالی لوٹا دیں“۔
شاید اب دعا کے مقام اور نافعیت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا کو مؤمن کا خاص ہتھیار فرمایا ہے اور ہر جگہ ذریعہ نجات بتایا ہے :
حضرت جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا میں تمہیں وہ عمل بتاؤں جو تمہارے دشمنوں سے تمہارا بچاؤ کرے او رتمہیں بھرپور روزی دلائے؟ وہ یہ ہے کہ اپنے الله سے دعا کیا کرو رات میں اور دن میں، کیوں کہ ”فان الدعاء سلاح المؤمن“ دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔ یعنی اس کی خاص طاقت ہے۔
دعا سے متعلق چند اہم ہدایات
بہرحال دعا اسلامی مضامین کا ایک طویل باب ہے، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے بے شمار فضائل ( جن میں سے صرف چیدہ چیدہ فضائل کا بیان ہوا) کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق کچھ خاص ہدایات اور آداب بھی بتائے ہیں، ان پر بھی ایک طائرانہ نظر ڈال لینی چاہیے۔
دعا میں یقین یا بے دھیانی
عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:” ادعوا الله وانتم موقنون بالاجابة، واعلموا أن الله لا یستجیب دعاءً من قالب غافل، لاہ“۔ (رواہ الترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” جب الله سے دعا مانگو اور دعا کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ وہ ضرور قبول کرے گا اور عطا فرمائے گا اور خوب سمجھ لو کہ الله تعالیٰ اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل ( دعا کے وقت) الله سے غافل ( بے دھیان) اور بے پروا ہو۔“
اگر دعا بے دھیانی سے کی جائے تو اس کی مثال بالکل ایسی ہو گی کہ ایک شخص بادشاہ کے سامنے اپنی فریاد اور درخواست پیش کرتے وقت بھی کبھی آسمان کو دیکھے ، کبھی زمین کو ، بڑی بے فکری سے کبھی مشرق کا جائزہ لے اور کبھی مغرب کے نظارے کرے، تو کیا خیال ہے کہ بادشاہ اس کی فریاد کو سن کر پورا کرے گا یا ناراض ہو کر سزا دے گا؟ شاید کوئی مہربان بادشاہ ہو تو معاف کر دے گا، ورنہ سخت سزا دے گا۔
دعا کی قبولیت کا اہم نسخہ
انتہائی بے وفائی اور بے مروتی کی بات ہے کہ مصیبت او رپریشانی کے وقت کسی سے مدد طلب کی جائے اور اس کے سامنے فریاد کرکے اس کی ہم دردیاں حاصل کی جائیں اور خوشی کے موقع پر اپنیمعاون وغم گسار کو بھول جایا جائے اور پھر جب دوبارہ مصیبت آئے تو ایک بار پھر اس کے سامنے اپنی حاجات پیش کی جائیں۔ اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عن ابی ھریرة رضی الله عنہ: ”من سرہ أن یستجیب الله لہ عند الشدائد فلیکثر الدعاء فی الرخاء“․ (رواہ الترمذی)
”جوکوئی یہ چاہے کہ پریشانیوں اور تنگیوں کے وقت الله تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے ، تو اس کو چاہیے کہ عافیت اور خوش حالی کے زمانے میں کثرت سے دعا کیا کرے۔“ (الترمذی)
دعا میں جلد بازی
فطری طور پر انسان جلد باز واقع ہوا ہے اور دعا میں جلد بازی اور عجلت طلبی دعا کی روح کے بالکل خلاف ہے، کیوں کہ دعا نام ہے عاجزی اور انکساری کا اور عجلت طلبی اور کسی کام کو جلد کروانے میں ایک عنصر حکم اور بڑائی کا ہے، جو الله کے سامنے سخت بے ادبی اور نادانی ہے اس لیے حضرت اقدس صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:” یستجاب لأحدکم مالم یعجل، فیقول: قد دعوت، فلم یستجب لی“․ ( رواہ البخاری ومسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے منقول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہاری دعائیں ( الله کے نزدیک) اس وقت تک قابل قبول ہوتی ہیں جب تک کہ جلد بازی سے کام نہ لیا جائے ( اور جلد بازی یہ ہے ) کہ بندہ کہنے لگے ، میں نے تو دعا کی تھی، مگر وہ قبول ہی نہیں ہوئی۔“ (بخاری ومسلم)
ہم اکثر بزرگوں سے سنتے رہتے ہیں ” الله کے یہاں دیر ہے ( وہ بھی بندے ہی کی کسی بھلائی اور مصلحت سے) اندھیر نہیں“۔
دعا قبول کیوں نہیں ہوتی…؟
اب دعا کرنے والوں کی ایک عمومی پریشانی او رایک اہم سوال یہ ہے کہ جب ارشاد عزاسمہ ہے ﴿ادعونی استجب لکم﴾( تم دعا کرو میں قبول کروں گا) تو اس وعدہ قبولیت کے باوجود ہماری دعا قبول کیو ں نہیں ہوتی؟ کہ ” الله تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا“۔ تو اس کی چندو حوہ ہیں، جو احادیث میں بیان کی گئی ہیں:
بے توجہی، عجلت پسندی، خوش حالی میں خدا کو بھول جانا (ان کابیان گزر چکا)، حرام چیزوں کا استعمال ( ابھی یہی ہمارا موضوع بحث ہے)۔ دعا کی قبولیت کا مطلب سمجھنے میں غلط فہمی ( عن قریب اس کو تفصیل سے ذکر کیا جائے گا)۔
حرام چیزوں کا استعمال
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! الله پاک ہے اور وہ صرف پاک ہی کو قبول کرتا ہے اور اس نے اس بارے میں جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے وہی اپنے سب مومن بندوں کو دیا ہے ۔ پیغمبروں کے لیے اس کا ارشاد ہے: ” اے رسولو! تم کھاؤ پاک اور حلال غذا ور عمل کرو صالح، میں خوب جانتا ہوں تمہارے اعمال۔“ اور اہل ایمان کو مخاطب کرکے اس نے فرمایا ہے : ” اے ایمان والو! تم ہمارے رزق سے حلال وطیب کھاؤ ( اور حرام سے بچو)۔ اس کے بعد حضور صلی الله علیہ وسلم نے ذکر فرمایا ایک ایسے آدمی کا، جو طویل سفر کرکے ( کسی مقدس مقام پر) ایسی حالت میں جاتا ہے کہ اس کے بال پراگندہ ہیں اور جسم اور کپڑوں پر گردوغبار ہے ( آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے : ” یارب، یا رب، ومطعمہ حرام، ومشربہ حرام، وملبسہ حرام، وغذی بالحرام، فانی یستجاب لذالک؟“ ( یعنی یا الله اے میر ے پرورد گار کہہ کہہ کر دعا کرتا ہے او رحالت یہ ہے کہ اس کا کھا ناحرام، اس کا پینا حرام ہے ، اس کا لباس بھی حرام ہے او رحرام غذا سے اس کی نشوونما ہوئی ہے، تو اس آدمی کی دعا کیسے قبول ہو گی؟)
(رواہ مسلم ،ترجمہ معارف الحدیث ج5 ،ص97)
اس پوری حدیث کا خلاصہ اس قدر ہے کہ سارے حالات ایسے مسکنت اور بے چارگی کے کہ الله جیسی رحیم ذات کو کیا عام مخلوق کو بھی دیکھ کر ترس آجائے، تو پھر بھی دعا کا قبول نہ ہونا صرف اس وجہ سے کہ وہ مکمل طور پر حرام چیزوں کے استعمال میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس لیے دعا کی قبولیت اور اس میں اثر پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حرام چیزوں سے پرہیز کیا جائے۔
ناپسندیدہ اور ممنوعہ دعائیں
جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ انسان فطری طور پر جلد باز اور بے صبرا واقع ہوا ہے، اس کا علم اور اس کی عقل بھی کامل نہیں، اس لیے کبھی اپنی جہالت یا بے صبری سے ایسی دعائیں کر بیٹھتا ہے جو خود اس کے حق میں ، اس کے جان ومال یااولاد کے حق میں بری ہوتی ہیں ۔ اس قسم کی تمام دعاؤں سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ دی گئی چند احادیث کو ذرا غور سے پڑھیے اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شفقت ورحمت کا اندازہ لگائیے۔
عن جابر قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”لا تدعو علی انفسکم، ولا تدعوا علی اولادکم، ولا تدعوا علی اموالکم، ولاتوافقوا من الله ساعة یسأل فیھا عطاء فیستجیب لکم“۔
حضرت جابر رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” تم کبھی اپنے حق میں یا اپنی اولاد اور مال وجائیداد کے حق میں بد دعا نہ کرو، مبادا ( ہوسکتا ہے ) وہ وقت دعا کی قبولیت کا ہو اور تمہاری وہ دعا الله تعالیٰ قبول فرمائے ( پھر تمہیں خود اس کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا)“۔
یہ بہت ہی عام مرض ہے مسلمانوں میں، خاص کر عورتیں اس مرض کا بہت زیادہ شکار ہوتی ہیں ۔ اپنے ہی مال واولاد کے لیے بات بات میں بد دعائیں دیتی ہیں کہ: تیرا ستیاناس ہو ، خدا تیرا بیڑا غرق کرے، ہائے ہائے تو بھی ایسے ہی برباد ہو گا… وغیرہ وغیرہ او رجب کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو سارے جہاں میں روتی پھرتی ہیں اور الله سے گلے شکوے کرنے لگتی ہیں کہ ہم ہی ملے تھے الله کو اور کوئی دکھا ہی نہ تھا۔ نعوذ بالله من ذلک۔
موت کی دعا کا مسئلہ
اب ایک اہم مسئلہ موت کی تمنا کرنے کا ہے کہ یہ جائز ہے یا نہیں ؟ تو احادیث اس بارے میں بھی بہت واضح اور بے غبار ہیں جن میں۔ چند ایک سپرد قلم کر دی جاتی ہیں:
”عن انس رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:” لایتمنین احدکم الموت لضرٍ نزل بہ “․
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں کوئی بھی شخص کسی سے پیش آنے والی تکلیف کی وجہ سے ہر گز موت کی تمنا نہ کرے۔“
اس سے زیادہ تفصیل سے دوسری جگہ ارشاد ہے:
عن انس رضی الله عنہ قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم :”لاتدعوا بالموت ولا تتمنوہ فمن کان داعیا لابد فلیقل: اللھم أحینی ما کانت الحیوٰة خیراً لی، وتوفنی إذا کانت الوفاة خیراً لی“․ (رواہ النسائی)
حضرت انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم لوگ موت کی دعا نہ کرو اور نہ ہی اس کی تمنا رکھو ۔ بس اگر کوئی (پریشانی اور مصیبت کی وجہ سے موت کی ) دعا کرنے پر مجبور ہی ہے ، کوئی اور چارہ نظر ہی نہیں آتا ، تو الله کے حضور میں یوں عرض کرے : ” اے الله! جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لیے موت بہتر ہو تو اس دنیا سے مجھے اٹھا لے۔“
بہرحال یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ ایک تو موت کی تمنا ہے جو کسی مصیبت او رپریشانی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ یہ تو منع ہے جیساکہ ابھی گزرا ،کیوں کہ یہ بے صبری اور کم ہمتی کی غمازی کرتی ہے۔ اور ایک تمنائے موت یہ ہے کہ جب الله کے خاص مقرب بندوں کا وقت موعود قریب آتا ہے تو ملاقات خداوندی کے غلبہ شوق میں کبھی کبھی ان سے موت کی تمنا اور دعا کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا : ﴿فاطرالسمٰوات والارض انت ولی فی الدنیا والاخرة توفنی مسلماً والحقنی بالصلحین﴾ ( یعنی اے زمین وآسمان کے پیدا کرنے والے! تو ہی میرا مولا ہے ، دنیا اور آخرت میں، مجھے اٹھالے، اس حالت میں کہ تیرا فرماں بردار بندہ ہوں اور مجھے ملادے اپنے اچھے اور نیک بندوں کے ساتھ۔) اور اسی طرح آخری وقت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دعا: ” اللھم الرفیق الأعلی․“ ( یعنی اے الله! میں رفیق اعلیٰ (ذات خداندی ) کا طالب وسائل ہوں) اس قبیل سے ہیں اور اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ والله اعلم بالصواب
دعا قبول ہونے کا مطلب
ہم اپنی روز مرہ زندگی میں اس بات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ بہت دفعہ ہمارا بچہ ہم سے کسی چیز کی ضد کرتا ہے اور اپنی فریاد کو وہ اپنے لیے سب سے بہتر خیال کرتا ہے ، مگر ہم کبھی نرمی سے اسے سمجھاتے ہیں ، کبھی گرمی سے منع کرتے ہیں اور زیادہ شفقت کا معاملہ کرتے ہیں تواس کی جگہ کوئی اور چیز ،جو اس بچہ کے مناسب حال ہو ،دلادیتے ہیں ، جو اس کے لیے نقصان دہ بھی نہیں ہوتی۔ بالکل اسی طرح الله بھی دعا مانگنے والوں کے ساتھ انتہائی شفقت کا معاملہ فرماتے ہوئے کبھی بہ ظاہر وہ مانگی ہوئی چیز نہیں دیتے، مگر کبھی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے، تو دیکھیے! الله کا معاملہ بندوں کے ساتھ دعا کے بارے میں کیسا ہے : 
عن ابی سعید الخدری رضی الله عنہ ان النبی صلی الله علیہ وسلم قال: ”مابین مسلم یدعو بدعوة لیس فیھا اثم، ولا قطیعة رحم إلا اعطاہ اللہ بھا احدی ثلاث : اما ان یجعل لہ دعوتہ، وإما ان یدخرھا لہ فی الاخرة، واما ان یصرف عنہ من السوء مثلھا قالوا: إذا نکثر قال: الله اکثر“․ (رواہ احمد بحوالہ ریاض الصالحین․
ابوسعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” جب کوئی مومن بندہ کوئی بھی دعا کرتا ہے جس میں کوئی گناہ کی بات نہ ہو اور نہ ہی قطع رحمی ہو ( رشتہ ناتے کا توڑنا) تو الله تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ضرور دیتا ہے یاتو جو اس نے مانگا فوراً وہی چیز عطا کر دی جاتی ہے یا اس کی دعا کو آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ کر دیا جاتا ہے یا آنے والی تکلیف اس دعا کے حساب میں روک دی جاتی ہے۔ صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا ( جب بات ایسی ہے کہ کوئی دعا بے کار نہیں جاتی ) تو ہم بہت زیادہ دعائیں کریں گے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا ، الله کے پاس اس سے بھی زیادہ (خزانے اور کرم وعنایات) ہیں۔“
اس موضوع سے متعلق ایک اور حدیث کنز العمال جلد نمبر2 میں مستدرک حاکم کے حوالے سے ، حضرت جابر رضی الله عنہ سے نقل کی گئی ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ:
الله تعالیٰ جب اس بندے کو جس نے دنیا میں بہت سی ایسی دعائیں کی ہوں گی جو بہ ظاہر دنیا میں قبول نہیں ہوئی تھیں ۔ ان دعاؤں کی مد میں ( بدلے میں ) جمع شدہ ذخیرہ آخرت میں جمع فرمائیں گے تو بندے کی زبان سے نکلے گا ” یا لیتہ لم یجعل لہ شیء من دعائہ“․
( اے کاش! اس کی کوئی دعا دنیا میں قبول نہ ہوئی ہوتی اور اس کا بدلہ مجھے اب ملتا)۔ ( کنزالعمال ج2)
دعا کی قبولیت کے خاص احوال واوقات
بنیادی طور پر دعا کی قبولیت میں جو چیز کار گر ہے وہ الله جل جلالہ سے تعلق، اس سے عاجزی وانکساری اور اندرونی کیفیت کا ہے ۔ بہرحال باری تعالی نے فطرت انسانی کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے ، دلچسپی اور تفنن کو بڑھانے کے لیے کچھ ایسے احوال واوقات رکھے ہیں ، جن میں الله تعالیٰ کی رحمت وعنایت کی خاص طور سے امید کی جاتی ہے، ذیل میں مختصر طور پر ان مواقع کا ذکر بہ حوالہ کیا جاتا ہے، جو احادیث میں بیان کیے گئے ہیں :
فرض نمازوں کے بعد۔ ( معجم کبیر لطبرانی)
ختم قرآن کے بعد ۔( ایضاً)
اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی۔ ( جامع ترمذی، سنن ابوداؤد)
راہ خدا میں جنگ کے وقت۔ ( معجم کبیر طبرانی)
بارش کے وقت ۔( ایضاً)
اقامت صلوة (نماز قائم ہونے) کے وقت۔ ( ایضاً)
کعبة الله کی زیارت کے وقت ۔( ایضاً)
ہر رات ایک ایسا وقت ( نامعلوم) آتا ہے کہ بندہ اس میں جو دعا کرے الله اسے ضرور عطا کرتے ہیں۔ ( مسلم شریف)
جمعے کے دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اگر اس میں دعا کی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے اور اس میں بہت سے اقوال ہیں، البتہ دو زیادہ مشہور ہیں : عصر سے مغرب کے درمیان، جمعے کا وقت شروع ہونے سے جماعت کے قیام تک۔
حضرت ربیعہ ابن وقاص سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” تین مواقع ایسے ہیں کہ ان میں انسان کی دعا رد نہیں کی جاتی ایسے جنگل یا بیابان میں ہو جہاں خدا کے سوا اسے دیکھنے والا کوئی نہ ہو اور وہ (خدا کے حضور) نماز ادا کرے ( اور پھر دعا کرے )۔ وہ شخص جسے میدان جہاد میں اس کے ساتھی چھوڑ کر بھاگ جائیں اور وہ ثابت قدم رہے ( اور اس حال میں دعا کرے)۔ وہ شخص جو رات کے آخری حصے ( نماز کے لیے کھڑا ہو) اور دعا کرے ۔“( بہ حوالہ معارف الحدیث ج5)
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :” سجدے کی حالت میں انسان الله کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ، لہٰذا اس حالت میں کثرت سے دعا کرو۔“ (بخاری ومسلم)
دعائیں جو خصوصیت سے قبول ہوتی ہیں
یہ وہ احوال واقات تھے جو دعا کی قبولیت میں خاص اثر رکھتے ہیں، اب بعض دعائیں خود ذاتی طور پر ایسی مبارک ہیں جو خصوصیت سے قبول ہوتی ہیں:
حضرت ابن عباس سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ پانچ دعائیں خصوصیت سے قبول ہوتی ہیں۔
مظلوم کی دعا جب تک کہ وہ بدلہ نہ لے لے۔
حاجی کی دعا جب تک کہ وہ لوٹ کر گھر واپس نہ آجائے۔
مجاہد کی دعا جب تک کہ وہ شہید ہو کر لاپتہ نہ ہو جائے۔
بیمار کی دعا جب تک کہ وہ شفایاب نہ ہو جائے۔
ایک ( مسلمان) بھائی کی دوسرے مسلمان بھائی کے لیے غائبانہ دعا۔
ان سب کے بیان کے بعد یہ فرمایا کہ ” اور ان دعاؤں میں سب سے جلد قبول ہونے والی دعا کسی بھائی کے لیے غائبانہ دعا ہے ۔“( رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر)
اس کے علاوہ دوسری احادیث میں یہ دعائیں بھی نقل کی گئی ہیں:
باپ کی دعا ( اولاد کے لیے)۔
مسافر کی دعا۔
روزے دار کی دعا افطار کے وقت۔ ( ابو داؤد طیالسی، بہ حوالہ معارف القرآن ج1 ،البقرہ آیت:186)
جس عبارت میں جس قدر شائستگی اور آداب کی رعایت ہو گی وہ اتنا ہی زیادہ موثر ہو گا۔ یہی معاملہ دعا کا بھی ہے جس قدر آداب کو مدنظر رکھا جائے گا قبولیت کے اتنا ہی قریب ہو گا، احادیث میں دعا کے بہت سے آداب بیان کیے گئے ہیں، جن میں بے شمار حکمتیں پنہا ہیں، مگر کیوں کہ موضوع پہلے ہی بہت طویل ہو چکا ہے، اس لیے صرف آداب ذکر کیے جاتے ہیں ۔
جب آپ صلی الله علیہ وسلمکسی دوسرے کے لیے دعا کرتے تو پہلے اپنی ذات کے لیے کرتے۔ ( الترمذی) یہ اس لیے کہ صرف سفارشی بن کر نہ رہ جائیں ، محتاجی بھی ظاہر کی جائے۔ دونوں ہاتھ سینوں تک اس طرح اٹھانا کہ ہتھیلیوں کا رخ چہرے کی طرف ہو۔ ( ابو داؤد، بیہقی، مصنف عبدالرزاق)
دعا کے بعد ہاتھوں کا چہرے پر پھیر لینا۔ ( ایضاً)
دعا میں سب سے پہلے الله تعالیٰ کی حمد وثنا اور اس کے بعد درود شریف اور پھر جو دعا مانگنا چاہے وہ کرے۔
دعا کے آداب میں علامہ قسطلانی  نے یہ بھی لکھا ہے کہ دونوں ہاتھوں کے درمیان تھوڑا فاصلہ بھی ہوناچاہے، بالکل ملے ہوئے نہ ہوں۔
دعا کے آخر میں امین کہنا، جس کا مطلب ہے اے الله! میری یہ دعا قبول فرما! اسی لفظ پر دعا کا خاتمہ کرنا چاہیے ابوداؤد کی ایک روایت منقول ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک شخص کو دعا میں آہ وزاری کرتے ہوئے سنا تو صحابہ سے فرمایا” اگر اس نے دعا کا خاتمہصحیح کیا اور مہر ٹھیک لگائی تو جو اس نے مانگا ہے اس کا اس نے فیصلہ کرالیا۔“ ہم میں سے ایک نے پوچھا حضور درست خاتمے اور مہر ٹھیک لگانے کا کیا طریقہ ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ” آخر میں امین کہہ کر دعا ختم کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو بس الله سے طے کرالیا۔“ ( بوداؤد)
آخری گزارش: اب تک جو کچھ بھی دعا کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے جو بہ ظاہر بہت طویل معلوم ہو رہا ہے مگر فی الواقع یہ کتب تفسیر اور حدیث میں بیان کردہ تفصیلات کا ایک چھوٹا سا حصہ او رمعمولی نمونہ ہے مقصد اس پوری کوشش کا یہ ہے کہ دعا کا جو ہتھیار مسلمان کھو چکے ہیں ( ایسا ہتھیار جس پر کوئی پابندی نہیں لگا سکتا ،کوئی اسے چھین نہیں سکتا، جس پر کوئی مال خرچ نہیں ہوتا) وہ دوبارہ اپنالیں۔
از راہِ کرم: دن میں ضرور کوئی ایک وقت مقرر کیجیے او راس میں اپنے لیے ، اپنے متعلقین کے لیے اور تمام عالم اسلام کے ناگفتہ بہ حالات کے لیے الله سے خیر وعافیت کی دعا کیجیے اور اپنی دعاؤں میں اس سیاہ کار سائل کو بھی یاد کر لیں تو یہ آپ کی مہربانی ہو گی۔
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید ترے بہر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر اثر آہ رسا دیکھ

Flag Counter