،تب میں کیوں گا کہ یہ تو میرے آدمی ہیں، وہاں سے جواب ملے گا کہ آپ کو علم نہیں کہ آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا بدعات ایجاد کیں؟ اس پر ارشاد فرمائیں گے کہ ان کو جہنم میں دھکیل دو۔
(حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ) یہ خرابی تو اس وقت ہے کہ زید "عالم الغیب" سے یہ مراد لے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا پورا علم غیب تھا اور اگر زید کی نیت یہ ہے کہ علمِ غیب پوراپورا نہیں تھا تھا یعنی بعض چیزوں کا علم تھا بعض کا نہیں تھا، اس بناء پر "عالم الغیب" ہے تو یہ مراد لے کر بھی"عالم الغیب" کہنا جائز نہیں؛ اس واسطے کہ بعض چیزوں کا علم ہونا بعض کا نہ ہونا یہ کمالاتِ نبوت میں سے نہیں، کیوں کہ ہر ایک کو کسی نہ کسی چیز کا علم ہوتا ہے جس کا دوسرے کو علم نہیں ہوتا؛ پس دوسرے کے اعتبار سے وہ علم غیب ہے ۔ زید عمرو،بکر بلکہ مومن، کافر بلکہ جانوروں کو بھی کسی ایسی چیز کا علم ہوتا ہے جو دوسروں کو نہیں، بعض جوگی کشف کے زریعہ کوئی بات معلوم کر لیتے ہیں۔ جو دوسروں کو معلوم نہیں۔
ہد ہد کا واقعہ قرآن کریم میں مزکور ہے کہ اس نے آکر بلقیسؔ کی سلطنت اور تخت کی خبر حضرت سلیمان علیہ السلام کو دی جو ان کے اعتبار سے غیب کی خبر تھی اور ان کے علم میں نہ تھی۔ ڈاک خانے کی اصطلاحات کا جس قدر علم پوسٹ مین اور ڈاک خانے کے ملازمین کو حاصل ہوتا ہے وہ ایک بڑے سے بڑے بیرسٹر کو نہیں ہوتا، تو کیا زید ان سب کو بھی اس جزئی علمِ غیب کی وجہ سے "عالم الغیب" کہے گا؟ ایسا علم کمالاتِ نبوت میں سے نہیں جس علم کے لیے ایمان بھی شرط نہ ہو بلکہ کافر کو بھی حاصل ہوسکتا ہو؛ جیسا کہ قرآن شاہد ہے، وہ کمالات نبوت میں سے کیسے ہو سکتا ہے؟ اور نہ ہی اس کو افضلیت اور مقبولیت کا معیار قرار دیاجاسکتا ہے، جیسا کہ خود "اعلٰی حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب" نے بھی اپنے ملفوضہ حصہ چہارم ص۱۰،۱۱/ میں تحریر فرمایا ہے وہ صفت جو غیر انسان کے لئے ہو سکتی ہے انسان کے لیے کمال نہیں؛ جو غیر مسلم کے لیے ہوسکتی ہے وہ مسلم کے لیے کمال نہیں۔ کم سے کم اسی ملفوظ کی روشنی میں غور کیا جائے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام منصبِ نبوت پر فائز ہیں، ان کے سامنے ہدہدؔ کی کوئی حیثیت ہی نہیں، وہ
۱۶