14غلظ فہمیوں کا ازالہ از قاری طیبؒ
طریقہ ہے ، تم اختیار مت کرو، حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں: "عنا بی امامہؓ قال خرج رسول اللہﷺ متکنا علی عصا فقمنا لہ فقال لا تقومو الی کما تقومو الاعاجم یعظّم بعضھم بعضا"(رواہ ابو دائود)
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے لئے قیام کریں وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لے، حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں" عن معاویہؓ قال قال رسول اللہﷺ من سر ہ ان یتمثل لہ الرجال قیاما فلیتبئوا مقعدہ من النار" (رواہ الترمذی و ابو دائود)
قیام سے متعلق یہ تینوں حدیثیں مشکوة شریف ص(٤٠٣) میں ہیں؛ یہ ساری بحث قیام مروجہ کے بارے میں ہے، اندازہ فرمایا جائے کہ جس چیز کو حضورﷺ نے اپنی مجلس پاک مین گوارہ نہیں فرمایا، کیا وفات کے بعد آپ حضرات کی مجالس میں اس مزعومہ تشریف آوری پر اسے گوارا فرماتے؟
لیکن اگر ایسی کوئی روایت ہوتی تو بہرحال سر آنکھوں پر رکھی جاتی ، مگر جب ہے ہی نہیں تو فرضیات اور قیاسات، اور وہ بھی نا مناسب اور مکروہ قیاسات پر آخر اس کی اجازت دینے کا اور وہ بھی بطور عقیدہ کے، کسی کو کیا حق ہے؟
(٤) جواب:
حضرت اقدس حکیم الامت مولانا تھانوی قدس سرہ العزیز سے کسی شخص نے دریافت کیا تھا کہ (زید) کہتا ہے کہ علم غیب کی دو قسمیں ہیں (١) ایک بالذات اس معنی کر عالم الغیب خدا کے سوا کوئی نہیں (٢) بواسطہ اس معنی کر رسول اللہﷺ عالم الغیب تھے ۔ زید کا عقیدہ اور استدلال کیسا ہے؟ زید کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح وحی کا آنا ، میدان حشر میں شفاعت کرنا، حوضِ کوثر پر پانی پلانا وغیرہ، حضرت سرور کائنات ﷺ کے کمالاتِ نبوت میں سے ہے، کیا اسی طرح عالم الغیب ہونا بھی کمالاتِ نبوت میں سے ہے؟
اس کا جواب حضرت مولانا تھانویؒ نے دیا جس کا حاصل یہ ہے کہ جب کتبِ
۱۴