جس کا خلاصہ ہوا کہ جہاں جہاں شیطان کا جانا احادیث میں موجود ہے ، شیطان پر قیاس کر کے حضرت رسول اکرمﷺ کے لیے وہاں آنا جانا ثابت کر نا افترعلی الرسول کی بھی انتہائی گھنائونی صورت ہے ، اللہ پاک اس بیہودہ عقیدہ سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔
تعجب ہے کہ مولانا احمد رضاخان صاحب نے حضورﷺ کی جگہ جگہ حاضری کی یہ انوکھی دلیل کہاں سے فراہم کی؟ عقیدہ کے لئے اول تو نصوصِ قطعیہ کی ضرورت ہے وہ نہ ہو تو کم سے کم کوئی صریح حدیث تو ہو اور وہ بھی نہ ہو تو قیاس قیاس تمثیلی کسی مثلِ اعلی کے ساتھ تو ہو؛ مولانا قیاس کے لئے بھی ملا تو شیطان ہی ملا" نعوذ باللہ منہ" سوائے اس کے کہ اس پر " انا للہ وانا الیہ راجعون" پڑھا جائے اور کیا عرض کیا جائے۔
جہاں تک قیاس کے مسئلے کا تعلق ہے ، تو حقیقت یہ ہے کہ ایک حرکتِ وجدی ہے، جو صاحب حال سے سرزد ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے ۔ صاحب حال اس میں معذور بھی ہے، جس پر کوئی نکیر و ملامت نہیں کی جا سکتی ، لیکن وہ قانون عام نہیں کہ بطور حکم عام، اسے انجام دیا جائے جب وہ مسئلہ شرعی کے طور پر پیش کیا جائے گا تو حجت شرعیہ کا مطالبہ قدرتی طور پر کیا جانا ناگریز ہے، سو اس بارہ میں جہاں تک حجت و قانون کا تعلق یے وہ ہمیں یہ ملتی ہے کہ حضورﷺ نے اسے نہ پسند فرمایا، نہ اس کی اجازت دی۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ صحابہؓ کو حضورﷺ سے زیادہ کوئی محبوب نہ تھا ، مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب آپﷺ کو دیکھتے تو قیام نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ قیام کرنے سے آپﷺ کو ناگواری ہوتی ہے۔ حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں: "عن انسؓ لم یکن شخص احب الیھم من رسول اللہﷺ وکانو اذا راوہ لم ہ یقومو الما یعلمون من کراھیتہ لذالک" (رواہ الترمذی وقال ھذا حدیث حسن صحیح)
صحابہ کرامؓ کو آپﷺ کی ناگواری کا علم اس طرح ہوا کہ ایک دفعہ صحابہؓ بیٹھے ہوئے تھے کہ حضورﷺ اپنے حجرہ مبارک سے نکل کر لاٹھی پر سہارا لیتے ہوئے باہر تشریف لائے آپؐ کو دیکھتے ہی جذبہ محبت میں سب کھڑے ہو گئے، اس پر آپؐ نے قیام سے منع فرمایا کہ یہ قیام تعظیمی تو عجمیوں کا
۱۳