Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2017 ء

امعہ دا

47 - 65
تدریس کے طریقے
امام بخاری ؒ تدریس کے دو طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ایک یہ کہ استاد درس دے اور شاگرد سنے، اوردوسرا یہ کہ شاگرد عبارت پڑھے اور استاد سنے۔ امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ بعض محدثین نے عالم کے سامنے قراۃ پر ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا’’ کہ اللہ نے آپؐ کو یہ حکم دیا کہ ہم نماز پڑھیں۔آپؐ نے فرمایا ’’ہاں‘‘ تو یہ گویا رسول ؐ کے سامنے پڑھنا ہے اور ضمام نے اس بات کی اپنی قوم کو اطلاع دی، اوران کی قوم نے اس خبر کو کافی سمجھا۔(۱۴)
کلاس روم کے آداب
باب من قعد حیث ینتہی بہ المجلس(۱۵)  میں امام بخاری ؒکلاس روم کے دو آداب بتلا رہے ہیں ایک یہ کہ اگر کلاس روم میں طلبہ زیادہ ہوں تو جہاں جگہ ہے،وہیں بیٹھ جائیں اور اگر قریب بیٹھنے کی خواہش ہو توپہلے آیا کرے اور دوسرا یہ کہ اگر پہلے بیٹھنے والے اس طرح ہو کہ اگلی صف میں یا بیج میں جگہ خالی ہو تو پھاند کر آگے جاسکتا ہے اگرچہ تخطی رقاب سے منع کیا گیا ہے تاہم یہ اس لئے جائز ہے کہ پہلے سے بیٹھنے والوں نے ہی خود بے تمیزی کی کہ آگے جگہ خالی چھوڑ دی۔(۱۶)
اپنے ضابطے میں سے کم درجہ کے لوگوں سے علم حاصل کرنا
باب قول النبی رب مبلغ اوعٰی من سامع سے امام بخاری ؒ یہ تنبیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی طالب علم بڑا فہیم و ذکی ہو اوراستاد اس جیسا ہوشیار نہ ہو تواس کو اس استاد سے استنکاف فی طلب علم نہیں کرنا چاہیے کہ میں تو اتنا فہیم ہوں۔ بھلا میں اس سے علم حاصل کروں، ایسا ہرگزنہ کریں کیونکہ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے’’ رب مبلع اوعٰی من سامع‘‘(۱۷) بسااوقات وہ جسے حدیث پہنچائی جائے براہ راست سننے والے سے زیادہ حدیث کو یاد رکھتا ہے (۱۸) اس باب میں یہ ترغیب دینا ہے کہ اپنے سے کم سے بھی علم حاصل کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
بلا امتیاز ہرکسی کو پڑھانا چاہیے
’’ رب مبلغٍ اوعٰی من سامع  سے ایک بات یہ بھی معلوم ہورہی ہے کہ معلم کسی کو پڑھانے سے انکار نہ کرے ہر کسی کو پڑھائے، کیا معلوم کون زیادہ سمجھنے والا ہے ۔بعض اوقات شاگرد سمجھ بوجھ کے لحاظ سے اپنے استاد سے آگے نکل جاتا ہے اور وہ اس سبق سے ایسے فوائد اور معلومات کا ادراک کرتا ہے جواستاد نہ کرسکتا ہو تو رب مبلغٍ میں اس طرف اشارہ ہے۔


Flag Counter