Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2017 ء

امعہ دا

45 - 65
درس سے پہلے طلباء کے علمی شوق کو ابھارنا
امام بخاری ؒ کی تعلیمی نظریات کے مطابق معلم سب سے پہلے شاگردوں کو سبق کی طرف راغب کرے گا۔ ان کے علمی شوق کو مختلف فضائل اور سابقہ علمی واقفیت سے ابھارے گا، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے باب باندھا ہے۔باب فضل العلم (۱) اس باب کے انعقاد سے امام بخاریؒ کی غرض یہ ہے کہ معلمین اور متعلمین علم کی فضیلت واہمیت کو دیکھ کر ان میں علمی شوق اور جذبات پیدا ہوجائے ۔
درس کے درمیان سوال نہ پوچھنا
معلم سے درس کے دوران اگر شاگرد کوئی سوال پوچھے تو معلم اپنے درس کوپورا کرلے اور بعد میں جواب دے درس کے درمیان پوچھنا آداب گفتگو کے خلاف ہے‘ شاگرد کواس دوران نہیں پوچھنا چاہیے اگر کسی شاگرد نے غلطی سے پوچھ لیا تواستاد کا درس کے درمیان جواب نہ دینا قابل ملامت بات نہ ہوگی۔
امام بخاری ؒ نے اس قاعدے کے اثبات کیلئے حدیثِ اعرابی کو بطور استدلال پیش کیا ہے۔ اعرابی نے بیان کے درمیان آپؐ سے سوال کیا آپؐ نے بیان ختم ہونے کے بعد سائل کے سوال کا جواب دیا۔
یہاں یہ قید ملحوظ رکھی جائے کہ سوال اہم ضروری اورپوری نوعیت کا نہ ہو، اگر ایسا ہو تو فوراً سوال کرنے کی گنجائش ہے اور معلم کو فوری طور پر جواب دینا چاہیے۔(۲) جیسا کہ رسول ؐ سے خطبے کے دوران ایک دیہاتی نے سوالات کئے۔آپؐ خطبہ دینے والی کرسی سے نیچے اترے اس دیہاتی کو جوابات دئیے اور خطبہ مکمل کیا۔(۳)
سائل کو نہ جھڑکنا
مذکورہ حدیث اعرابی اورترجمۃ الباب سے امام بخاریؒ استاد کو یہ ادب سکھلا رہا ہے کہ اگر اشتغال کے وقت اس سے سوال کیا جائے تو سائل کو زجر کرنے اور جھڑکنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنا کام پورا کرے، اس کے بعد سائل کا جواب دیں، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے :(۵)
طلباء کے استفسار پر ناراض نہ ہونا:
حدیث ِ اعرابی میں سائل اضاعتِ امانت کا مطلب نہ سمجھ سکا ، اس نے کہا کیف اضاعتھا؟(۶)اس سے معلوم ہوا کہ اگر متعلم کی سمجھ میں بات نہ آئے تووہ استفسار کرسکتا ہے اوراس کے استفسار پر معلم کو ناراض نہیں ہونا چاہیے، البتہ اگر سوال کا مقصد امتحان لینا ہو تو پھر ناراضگی بجا ہے(۷)
بلند آواز سے درس دینا
معلم کو بلند آواز سے درس دینا چاہیے ۔بعض اوقات اساتذہ دھیمی آواز سے درس دیتے ہیں، جس

Flag Counter