دادوں اور تجاویز کے پاس کرانے یا پیش کرنے یا نشان راہ معلوم کرنے، یا ان حقائق کو سامنے لانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے، چنانچہ آج اقوام متحدہ کی حالت ایک مجلس یا ادبی کلب یا اسٹیج سے بھی بدتر ہے۔
دنیا میں رونما ہونے والے حوادث پر جس کی نظر ہے خصوصاً بوسنیا، ہرزے گووینا، صومالیہ، سوویت یونین کی سابق جمہور یائوں، یوگوسلاویہ اور دیگر جگہوں پر جہاں خونریز تصادم، المناک حوادث اور سخت حالات درپیش آئے اور انسانی خون کی نہریں رواں ہوئیں، مسائل و حالات دن بدن مشکل ہوتے گئے، ان تمام حالات پر جس کی نظر ہے وہ اپنے اس احساس کو بھی نہیں چھپا سکتا کہ دنیا کسی ایسی طاقت کے نہ ہونے کی وجہ سے جو توازن کو برقرار رکھتی، بڑی تیزی سے انار کی، بدنظمی کی طرف بڑھ رہی ہے، آج دنیا میں کوئی طاقتور ہے نہ کوئی بڑا، امریکہ کا گمان ہے کہ وہ آقائے عالم ہے، دنیا کا ایک وہی سپر پاور ہے اور یہ کہ دنیا کا نیا عالمی نظام صرف وہی قائم کر سکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی عالمی بالادستی اور بین الاقوامی کنٹرول وجود میں آنے سے پیشتر ہی زمیں بوس ہو گئی اور پوری دنیا کو یہ معلوم ہو گیا کہ امریکہ اپنے تین چار فوجیوں کا بھی خسارہ برداشت نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ کسی علاقائی جنگ کے اخراجات یا اس کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی اہلیت رکھتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی بالادستی کو کسی پر نافذ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پاکستانی ایٹمی سائنسدان عبدالقدیر خان نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا اور سچ کہا تھا کہ امریکہ کا صرف ایک رعب ہے جو میڈیا کے ذریعہ مشرقی ملکوں کے حکمرانوں کے دلوں پر طاری کر دیا گیا ہے ورنہ اس کے سارے دعوے کھوکھلے ہیں، وہ جو کچھ کامیابی حاصل کرتا ہے دوسروں کی طاقت استعمال کر کے، دوسروں کی زمین استعمال کرکے اور باغیوں کی مدد کر کے، دوسروں سے پیسہ وصول کر کے اور دوسروں سے جانوں کی قربانی دلوا کر اور جہاں اس کو یہ سہولتیں نہیں ملتیں، وہاں وہ صرف ہارا ہے، ہارا ہے، ہارا ہے، ویتنام، کوریا اور ایران اس کی مثال ہے جبکہ دوسری حکومتیں تو اور بھی بے حیثیت و بے دست و پا ہیں، وہ کسی طرح کے نقل و حرکت کی تمام تر توانائیوں سے محروم ہو چکی ہیں۔
ان تمام ترقی یافتہ ملکوں کا سیاسی کھوکھلا پن اس طرح طشت ازبام ہو چکا ہے جس طرح ان کا اخلاقی دیوالیہ پن دنیا کے سامنے آچکا ہے اور کچھ عجب نہیں کہ ان حکومتوں کے اندر یہ ضعف و ناتوانی بھی جلد سرایت کر جائے کیونکہ وہ شباب کے مرحلے سے گزر کر پیری کے حدود میں قدم رکھ چکی ہیں، آج اقوام متحدہ کی باگ ڈور انہیں ماضی کی بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے، جو اس بات کی منتظر ہیں کہ اولوالعزم اور صاحب بصیرت افراد ہمت کر کے ان کے اس کھوکھلے پن کو ظاہر کر دیں اور عالمی قیادت میں تبدیلی لائیں، جب تک زمانہ کی قیادت معذوروں کے ہاتھ سے دست و بازرکھنے والے اور چشم بینا کے مالک افراد کے ہاتھ میں نہیں آجاتی، دنیا کا توازن درست نہ ہو گا۔