رحمہ اللہ سے شرف تلمذنصیب ہوئی تھی ،تقسیمِ ہند کے بعد جب پاکستان بن گیااورجب کبھی حضرت اقدس مولانا عبدالحق رحمہ اللہ لاہور سے گزربھی جاتے توحضرت مولانا عبیداللہ انور صاحب رحمہ اللہ ہرراستے کواس کے احترام سے مزین کرتے،جہاں سے اس کے شیخ گزرتے تھے اورحضرت کی کوششوں سے حضرت شیخ الحدیث کی مرضی کاہر وہ کھانا ، ہر وہ نعمت دسترخوان پر چنتے جولاہور میں میسر ہوتاتھا۔ہمارے حضرت لاہوری ؒکا اسی طرح والد گرامی کا مولانا شیخ عبدالحق رحمہ اللہ سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی۔
حضرت لاہوری رحمہ اللہ کاپاکستان میں دیوبند ثانی دارالعلوم حقانیہ کے قیام میں دلچسپی
صاحبو !آج حقانیہ کاوہ ابتدائی زمانہ جب شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق رحمہ اللہ اس مدرسہ کی بنیادی انتظام اوربنیادی افتتاح فرمارہے تھے،تواس مشورے میں جو ہستی سب سے زیادہ متوجہ تھی ، حضرت شیخ التفسیر امام الاولیاء مولانااحمد علی لاہوری رحمہ اللہ کی ذات تھی،جن کا یہ عقیدہ تھا کہ دارالعلوم دیوبند کی برکات اب اہل پاکستان پرمنطبق ہوگی ،اب پاکستان کیلئے نئے دیوبند کی ضرورت ہے ، اورحضرت لاہوری رحمہ اللہ نے اس کیلئے دعا فرماتے اوربحمداللہ نوشہرہ کے غیور لوگ جمع ہوئے اورنوشہرہ سے حضرت تشریف لائے اوربحمداللہ دارالعلوم حقانیہ کی ایسی شاندار بنیاد رکھی گئی کہ آج پوری دنیا اسلام سے زیادہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف ہے،بہر حال میری معروضات کالب لباب اورمقصد یہ ہے کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ ایک مدرسہ نہیں ایک نکتہ نظر یہ کی بنیاد ہے اوریہاںسے جونظریہ پھیلایاجارہاہے، اس نظریہ کو دروازہ ٔ لاہور کی پوری پوری نسبت حاصل تھی ۔ میں عرض کرنا چاہتاہوکہ آج حضرت اقدس مولاناسمیع الحق کی زیارت کوئی چھوٹاانعام نہیں، حضر ت اقدس مولانا سمیع الحق کی زیارت ایمان کی تکمیل پر گزرہواہے،تقدس ، تقویٰ، طہارت اپنی جگہ جس کی امین ہمارے حضرت دیر باباجی (مولانا عبدالحلیم دیروی،مدرس حقانیہ) ہیں، لیکن وہ نظریاتی استحکام ونظریاتی محبت اور نظریات کے اندر پورے رسوخ اورامام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی پوری جانشینی اس دور میں اگر کسی کو نصیب ہے ،وہ حضرت مولانا سمیع الحق صاحب ہیں۔
دارالعلوم حقانیہ ایک نظریہ کانام
میرے محترم دوستو!ایک زمانے میں امریکہ کے صدر نے جس زمانہ میں ابھی طالبا ن کاوجود بھی نہ تھا، اس وقت افغانستان کے مجاہدین کی سات جماعتیں تھیں، وہ سات کی سات جماعتیں امریکہ گئیں، اس وقت میں بھی ایک سفر میں امریکہ میں موجود تھا، وہاں امریکی صدر کے اوروائٹ ہاؤس کے لوگ اگرکسی پاکستان کی نظریاتی جگہ کوجانتی تھے تووہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک تھی، اس کے نام سے وہ کانپتے تھے اور اگر اس کی کسی شخصیت سے متعارف تھے تو وہ حضرت اقدس قائد جمعیت مولانا سمیع الحق صاحب تھے، وہاں نیک