Deobandi Books

طلبہ کے علی میاں ندوی

5 - 24
جس بزرگ نے بڑی سادگی سے کہا کہ نعت کے سامنے تو ہم سبھی بچے ہی ہیں اور بڑے اشتیاق سے نعت سننے لگے ، یہ نعت سننے والے ’’ بڑے آدمی ‘‘کون تھے ؟ 
	دنیاے اسلام نے انہیں بہت اونچے الفاظ میں یادکیا ہے ۔ ’’مفکر اسلام‘‘ ’’مؤرخ اسلام‘‘’’ شیخ الاسلام ‘‘ ’’ الشیخ الھندی‘‘ اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔یہ سب القاب بالکل مناسب ۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ وہ ایک طالب علم تھے ، ایک سچے طالب علم ۔ ایک ایسے طالب علم کہ علم کا سمندر پی گئے مگر پیاس نہ بجھی۔ آپ کے وسعتِ مطالعہ کا ہلکا سا اندازہ آپ کے رسالے ’’ میری علمی ومطالعاتی زندگی ‘‘ سے ہوسکتا ہے اوربات بھی یہی ہے کہ حقیقی طالب علم کی پیاس کبھی نہیں بجھتی۔ چنانچہ سنن دارمی میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا اثر منقول ہے کہ مَنْھُوْمَانِ لا یَشْبَعَانِ طَالِبُ عِلْمٍ وَ صَاحِبُ دُنْیَا: یعنی دو پیاسے ایسے ہیں کہ ان کی پیاس کبھی نہیں بجھتی؛ ایک علم کا پیاسا ، دوسرا دولت کا پیاسا ۔ [سنن الدارمی ، رقم الحدیث ۳۳۸] 
آئندہ سطور میں حضرت علی میاں ندویؒ کی باغ وبہار زندگی سے چند خوشے چننے کی طالبعلمانہ کوشش کی گئی ہے ۔ 
کتب خانہ ابو الحسن علی 
ہوتا یہی ہے کہ آدمی پہلے لکھنا پڑھنا سیکھتا ہے ۔ پھر لکھنے پڑھنے میں ایک عرصہ گذرنے کے بعد اسے اپنے لیے کتابیں خریدنے اور جمع کرنے کا ٰخیال آتا ہے ۔  پھر

Flag Counter