باندھ دی ۔ محلے کے بچے جمع ہوگئے تو آپ نے اپنے کتب خانہ سے سیرت پاک کی کوئی کتاب نکالی اور بلند آواز سے سنانی شروع کی۔بعد میں آپ نے بڑے ہوکر خود لکھا ہے کہ اس وقت میری لیاقت کا عالم یہ تھا کہ حضور ﷺ کے دادا کا نام عبدالمُطّلِب کے بجاے عبدُالمَطْلَبْ پڑھ رہا تھا۔
آپ کے والد مولانا حکیم عبدالحئی صاحب ، خود بہت بڑے عالم اور مؤرخ تھے ،ہمیشہ اپنے تصنیفی کاموں میں مشغول رہتے ۔ جلسۂ سیرت النبی کے اس ننھے مقرر پراچانک نظر پڑی تو بہت خوش ہوے ،چپکے سے ایک کنارے کی اوٹ لے کر ٹہر گئے اور سننے لگے۔ خدا جانے اس موقع پر کیا کیا دعائیں والدِ مبارک کے سینے سے نکل کر مستجاب ہوی ہوں گی۔
استاذ کی مار پھولوں کا ہار
استاذ شاگرد کو لگاتا رپیٹے جارہے تھے ۔ پیٹنے والے کا نام تھا مولانا خلیل عرب صاحب ، اور پٹنے والے یہی تھے ہمارے حضرت علی میاں ندوی ،اور پیٹے جانے کا سبب یہ تھا کہ مولاناخلیل عرب صاحب سے جناب خلیل الدین صاحب ہنسوی نے یہ شکایت کی تھی کہ ’’ آج سبق پڑھانے گیا تو علی میاںنے کہا ’ آج فلاں عذر کی وجہ میں سبق نہیں لے سکوں گا‘، یہ کہا اور بس پھٹ سے دروازہ بند کردیا۔ مجھے ناقدری سی محسوس ہوی‘‘ ۔جناب خلیل الدین صاحب ہنسوی سے