رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے ’’ اِنَّ مِنْ اَعْظَمِ الْجِہَادِ کَلِمَۃَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ یعنی ’’ظالم بادشاہ کے سامنے عدل وانصاف کی بات پیش کردینا سب سے بڑا جہاد ہے ‘‘[سنن الترمذی ، رقم الحدیث۲۱۰۰] حضرت علی میاں ندوی نے اپنے بے غبار قول سے ثابت کردیا کہ اسلام پر آنچ آے تو آپ بڑی سی بڑی قوت سے ٹکرانے کا عزمِ مصمم رکھتے ہیں۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ حضرتِ علی میاں ندوی کے اس عزمِ مصمم کا اثر نہیں ہوتا۔ اثر ہوا اور بہت اثر ہوا،وہ حکومت جو مسلمانوں کے بڑے بڑے اجتماعات ، جلسے جلوس اور تجویزوں پر کان نہیں دھر رہی تھی ، اسے مجبور ہونا پڑا اور دوسرے ہی دن حکومت کے وزیرِ داخلہ کو یہ بیان دینا پڑا کہ وندے ماترم تمام بچوں کے لیے لازمی نہیں کیا گیا ہے ۔ جو چاہے اس میں شریک ہو ، جو چاہے شریک نہ ہو۔ اسی پر بس نہیں بلکہ ریاستی حکومت کے جس وزیر نے ایسا حکمنامہ جاری کیا تھا ،حکومت نے اسے وزارت ہی سے برطرف کردیا۔
کمسن مبلغ
ہمارے ملک کے ایک بہت بڑے سیاسی لیڈر تھے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر صاحب۔ ہندوستان کا جو دستور بنایا گیا ہے ،یہ پورا دستور تو انہوںنے نہیں بنایا ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس دستور ساز کمیٹی کے یہ صدر تھے ۔ اسی سے ہم یہ