Deobandi Books

طلبہ کے علی میاں ندوی

6 - 24
 دھیرے دھیرے آدمی اپنا ایک ذاتی کتب خانہ بنالیتاہے ۔ مگر حضرت علی میاں ندویؒ کی تو بات ہی نرالی تھی۔ آپ کو اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی کتابیں خریدنے اور جمع کرنے کا ذوق اسی وقت سے دامن گیر تھا جب کہ آپ کی عمر بہت چھوٹی تھی اتنی چھوٹی کہ آپ کوپڑھناہی نہیں آتا تھا ۔ 
ایک دفعہ ایساہوا کہ حضرت علی میاں ندویؒ کے پاس کچھ پیسے آگئے ۔ وہ ایک دو آنے سے زیادہ نہ تھے ۔ اس وقت حضرت علی میاں ندوی بہت چھوٹے بچے تھے ، انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کتاب ہر دکان میں نہیں ملتی، کتب فروشوں کے یہاں ملتی ہے ، ہر چیز کی دکان الگ الگ ہوتی ہے ۔پیسہ لیا، گھر سے نکلے اور سیدھے بازار جا پہنچے۔ سامنے جو دکان نظر آئی ، اس میں چلے گئے اور دکاندار کے سامنے پیسے بڑھا کر کہنے لگے ’’ کتاب دیجئے‘‘۔
 یہ کسی دوا فروش کی دکان تھی ، دوائی کی دکان میں کتاب کیا ملتی، دکاندار سمجھ گیا کہ کسی شریف گھرانے کا بھولا بھالا بچہ ہے ، دواؤں کی فہرست اردو ہی میں تھی ۔ اس نے دل رکھنے کی خاطر وہی اٹھا کر دیدی اور پیسے بھی واپس کردیے۔
حضرت علی میاں ندویؒ بڑے خوش ہوگئے ، خوشی اس بات کی تھی کہ کتاب بھی مل گئی اور پیسے بھی واپس مل گئے ۔ خوشی خوشی گھر پہنچے اور اپنی اس نئی ’’کتاب ‘‘ کو اپنے کتب خانے میں سجادیا ۔ جس کا نام خود آپ نے ’’ کتب خانہ ا بو الحسن علی ‘‘ رکھا تھا اور اس چھوٹے سے ’’ کتب خانہ ابو الحسن علی ‘‘ میں 

Flag Counter