حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور حکومت نے کسی بات کا نوٹس نہیں لیا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک ٹیلی ویژن کے نمائندہ نے حضرت علی میاں ندویؒ سے وندے ماترم کے بارے میں آپ کی راے پوچھی۔
یہاں یہ بات بھی ہمیں ذہن میں رکھنی ہوگی کہ وندے ماترم کا صحیح معنی معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کسی کسی نے وندے ما ترم کو ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ جیسا ایک قومی گیت سمجھ کر اسے پڑھنے کی اجازت بھی دے دی تھی ۔
بہرحال جب ٹیلی ویژن کے نمائندے نے حضرت علی میاں ندویؒ سے وندے ماترم کے بارے میں راے پوچھی تو آپ نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر ہونے کی حیثیت سے سلطانِ جائر کے روبرو کلمۂ حق کی شہادت دیتے ہوے دوٹوک الفاظ میں فرمایا:
’’یہ حرام ہے ، مسلمانوں کے بچے اس کو نہیں پڑھیں گے ، اگر حکومت نے مجبور کیا تو ہم مسلمانوں کو یہ مشورہ دیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال لیں‘‘۔
ٹیلی ویژن کے نمائندے نے حضرت علی میاں کے اس ارشاد کو ’’ علی میاں کا فتویٰ‘‘ کہہ کر براڈ کاسٹ کیا اور پورے ملک میں ’’ علی میاں کے فتویٰ‘‘ کی گونج سنی گئی۔