Deobandi Books

نقد و نظر

ن مضامی

48 - 58
بیگم نسیم ولی خان کی یاد دہانی کے لیے
پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات ایک بار پھر ملک کے قومی حلقوں اور بین الاقوامی فورموں میں زیر بحث ہیں۔ یہ بات کسی بھی سطح پر سیکولر لابیوں کو ہضم نہیں ہو رہی کہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت دستوری طور پر ابھی تک کیوں قائم ہے اور دستور پاکستان میں موجود اسلامی دفعات کو دستور سے خارج کرنے کی کوششیں فیصلے کے مرحلے میں آ کر دم کیوں توڑ جاتی ہیں؟ چند روز قبل محترمہ بیگم نسیم ولی خان نے ایک خصوصی انٹرویو میں یہ بات فرمائی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر بنا تھا اور خفیہ اداروں نے مذہبی جنونیت کو تقویت دی ہے۔محترمہ بیگم نسیم ولی خان ملکی سیاست میں اہم مقام اور کردار رکھتی ہیں اور میرے لیے اس وجہ سے بھی قابل احترام ہیں کہ میں نے 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ میں ان کی قیادت میں ایک کارکن کے طور پر کام کیا ہے۔ چونکہ محترمہ اور ان کا خاندان تحریک پاکستان کا حصہ نہیں تھے اس لیے اس حوالے سے ان سے کچھ گزارش کرنا شاید مناسب نہ ہو مگر دو حوالے انہیں ضرور یاد دلانا چاہتا ہوں۔
پہلی بات یہ کہ 1972ء میں جب نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیۃ علمائے اسلام کی کولیشن تھی اور صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) اور بلوچستان میں دونوں کی مشترکہ حکومتیں قائم تھیں تو کولیشن کے معاہدے میں نیشنل عوامی پارٹی نے اس پابندی کو قبول کیا تھا کہ دستور سازی میں اسلامی دفعات و قوانین کے بارے میں وہ جمعیۃ علمائے اسلام کے ساتھ تعاون کرے گی اور پھر نیشنل عوامی پارٹی نے یہ تعاون کیا بھی تھا۔ نیز صوبہ سرحد میں مولانا مفتی محمودؒ نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے جو چند اسلامی اصلاحات کی تھیں، خان عبد الولی خان مرحوم اور ان کی پارٹی نے اس میں بھی مفتی صاحب مرحوم کا ساتھ دیا تھا۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر اسلام کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو دستور پاکستان میں اسلامی دفعات کی شمولیت اور صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی نے مولانا مفتی محمودؒ کی اسلامی اصلاحات کی حمایت کس بنیاد پر کی تھی؟
دوسری بات محترمہ نسیم ولی خان صاحبہ کو یہ یاد دلانا چاہوں گا کہ وہ پاکستان قومی اتحاد کی ہائی کمان میں شامل رہی ہیں جس کے منشور کی بنیاد ہی یہ تھی کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے اور اس میں نظام مصطفیٰ کا نفاذ ضروری ہے۔ پاکستان قومی اتحاد کا سارے کا سارا منشور نظام مصطفیٰ کے نفاذ کی بنیاد پر ترتیب دیا گیا تھا اور اس منشور کی حمایت میں ملک بھر کی انتخابی مہم میں محترمہ بیگم نسیم ولی خان صاحبہ نے بہت سے جلسوں سے خطاب کیا تھا۔ پھر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے احتجاجی تحریک چلائی تو وہ تحریک قومی اتحاد کے منشور اس کے انتخابی نعرے ’’نظام مصطفیٰ‘‘ کی وجہ سے تحریک نظام مصطفیٰ کا عنوان بھی اختیار کر گئی۔
نیشنل عوامی پارٹی اس وقت کالعدم ہو چکی تھی اس کی جگہ عوامی نیشنل پارٹی نے لے لی تھی۔ سردار شیرباز خان مزاری اس کے سربراہ تھے اور محترمہ بیگم نسیم ولی خان پارٹی کی سیکنڈ ان کمانڈ تھیں اور ان دونوں نے پاکستان قومی اتحاد کے منشو رکی مکمل حمایت کی تھی۔ نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے منشور کی بنیاد پر پاکستان قومی اتحاد کے انتخابی جلسوں اور پھر تحریک میں محترمہ نسیم ولی خان صاحبہ کی تقاریر کو جمع کیا جائے تو ایک پوری کتاب مرتب ہو جاتی ہے۔ میں محترمہ سے دریافت کرنا چاہوں گا کہ اگر پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تو وہ پاکستان قومی اتحاد کے فورم پر نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے لیے قیادت کی صف اول میں کیوں متحرک رہی ہیں؟ اور اگر اس وقت نظام مصطفیٰ ہی پاکستان کا مقدر تھا تو اب تین عشرے گزر جانے کے بعد انہیں اسلام کو پاکستان سے الگ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ محترمہ نے فرمایا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے مذہبی جنونیت کو فروغ دیا ہے۔ کیا محترمہ نسیم ولی خان صاحبہ سمیت پاکستان قومی اتحاد کی پوری قیادت کو ملک میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے لیے منشور پیش کرنے اور تحریک چلانے کے لیے بھی ان کے پس پردہ خفیہ ایجنسیاں ہی متحرک تھیں؟
جہاں تک مذہبی جنونیت کا یہ پہلو ہے کہ کچھ لوگ نفاذ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں تو محترمہ نسیم ولی خان سے زیادہ کون اس حقیقت کو جانتا ہے کہ یہ دستوری اور قانونی ذرائع سے نفاذ اسلام کو روکنے اور دستور کی اسلامی دفعات کے ساتھ منافقت برتنے کا رد عمل ہے جو ہمارے مقتدر طبقات دستور کے نفاذ کے بعد سے مسلسل روا رکھے ہوئے ہیں۔ ہم اس شدت پسندانہ ردعمل کے حامی نہیں ہیں اور ہم نے ہر مناسب موقع پر اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ لیکن ہم یہ بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر دستور کی اسلامی دفعات پر خلوص کے ساتھ عمل کیا جاتا اور دستوری، قانونی اور سیاسی راستے سے اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ کو پیش رفت کا موقع دیا جاتا تو اس شدت پسندانہ ردعمل کی نوبت نہ آتی۔ چنانچہ شدت پسندانہ ردعمل اور ہتھیار اٹھانے کی غلط پالیسی کی ذمہ داری صرف شدت پسندوں پر عائد نہیں ہوتی بلکہ وہ مقتدر طبقات اور پارٹیاں بھی اس کی ذمہ داری میں برابر کی شریک ہیں جنہوں نے پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت اور دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کے ساتھ ہمیشہ منافقانہ رویہ اختیار کیے رکھا اور پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کی جدوجہد کو جمہوری اور سیاسی محاذ پر راستہ دینے سے انکار کر دیا۔
یہ تو اس وقت ملک کا داخلی ماحول ہے کہ محترمہ نسیم ولی خان صاحبہ نے ایک بار پھر یہ بات چھیڑ دی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر بنا تھا۔ جبکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس محاذ کو ازسرنو منظم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دستور پاکستان کی اسلامی دفعات کو بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے نام پر ختم کر دیا جائے۔ چنانچہ روزنامہ جنگ میں یکم جنوری 2012ء کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی تنظیم ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ پاکستان کے آئین کی اسلامی شقوں اور توہین رسالت کے ایکٹ کے خلاف متحرک ہو چکی ہے۔ اس تنظیم کے پاکستانی چیپٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علی داریان حسن نے بتایا ہے کہ ان کی تنظیم دستور پاکستان کی بعض اسلامی دفعات اور شقوں کے خلاف ہے کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہیں اور انہیں جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں دستور کا حصہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکس کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے جس میں چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام کے منافی کسی بھی قانون کو منسوخ قرار دے سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے توہین رسالتؐ کی سزا کے قانون کی جامع اسٹڈی کرائی ہے اور اس میں تبدیلی لانے کے لیے نیا مسودہ تیار کیا ہے، جبکہ وہ دستور پاکستان کی دیگر اسلامی دفعات کو ختم کرانے کے لیے بھی سرگرم عمل ہیں۔
یہ بات بجائے خود محل نظر ہے کہ دستور پاکستان میں چند اسلامی دفعات جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں شامل کی گئی تھیں کیونکہ
قرارداد مقاصد پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم کے دور میں دستور میں شامل ہوئی تھی اور دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پیش بھی خود انہوں نے کی تھی،
اسلام کو دستوری طور پر ملک کا ریاستی مذہب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں پارلیمنٹ کے ذریعے قرار دیا گیا تھا،
پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے منافی قانون سازی سے روکنے اور قرآن و سنت کے قوانین کے نفاذ کے لیے پارلیمنٹ کو ذمہ دار قرار دینے کا دستوری فیصلہ بھی بھٹو مرحوم کے دور میں ہوا تھا،
قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ بھی منتخب پارلیمنٹ نے اسی دور میں کیا تھا،
اور توہین رسالت پر موت کی سزا کا قانون بھی منتخب اسمبلی کے فیصلے کے بعد ملک میں نافذ ہوا تھا۔
یہ سارے اقدامات کسی ڈکٹیٹر کے کہنے پر نہیں ہوئے بلکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی جمہوری اسمبلیوں نے کیے تھے۔ لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر ہمارا اصولی سوال یہ ہے کہ پاکستان کے دستور اور قانون میں تبدیلی اور ترامیم کے لیے ایک امریکی ادارہ آخر اس قدر مضطرب کیوں ہے اور پاکستان کے عوام اور ان کی منتخب جمہوری اسمبلیوں کے فیصلوں پر بیرونی لابیاں کیوں پیچ و تاب کھا رہی ہیں؟ کیا ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ نامی امریکی تنظیم پاکستان کے کسی فورم یا ادارے کا یہ حق تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے کہ وہ امریکی آئین میں ترامیم تجویز کرے اور امریکی کانگریس کے منظور کردہ کسی قانون میں ترامیم کا مسودہ تیار کرے؟
ہم ہیومن رائٹس واچ نامی امریکی تنظیم کے ذمہ دار حضرات سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کرنا صرف پاکستان کے عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کا حق ہے کہ ملک میں دستور کون سا نافذ کیا جائے اور ملک کے قانون کی بنیاد کیا ہو؟ اور یہ تاریخی حقیقت بھی کسی کو نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے جداگانہ مذہبی اور تہذیبی تشخص کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا۔ یہ مذہبی اور تہذیبی امتیاز ہی ملک کے دستور و قانون کی بنیاد ہے۔ دین اسلام اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے ہٹ کر نہ پاکستان کی کوئی پہچان ہے اور نہ ہی پاکستانی قوم کی کوئی شناخت باقی رہ جاتی ہے۔ اگر امریکی قوم اپنی تہذیب اور جداگانہ شناخت کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تو پاکستان کا یہ حق بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ اس ملک کے باشندے اپنی تہذیب اور اپنے دین کی بنیاد پر اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ پاکستان، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۶ جنوری ۲۰۱۲ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں سے 1 1
3 اسلام پر رحم کیجئے 2 1
4 وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ خان کا ارشاد 3 1
5 ایم آر ڈی اور علماء حق 4 1
6 روزنامہ نوائے وقت اپنی روش پر نظر ثانی کرے 5 1
7 ایم آر ڈی کے بیس نکات اور مولانا فضل الرحمان 6 1
8 وکلاء کرام ! خدا کے لیے سنجیدگی اختیار کریں 7 1
9 جمہوریت، ووٹ اور اسلام 8 1
10 سنی شیعہ کشیدگی اور ظفر حسین نقوی 9 1
11 بھارت کی عظمت اور نجم سیٹھی کا خطاب 10 1
12 میاں محمد شہباز شریف ۔ خدیو پنجاب؟ 11 1
13 مرزا طاہر احمد کی خوش فہمی 12 1
14 محراب و منبر کے وارث محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ 13 1
15 راجہ صاحب کی خدمت میں 14 1
16 مذہبی طبقات کا طرز مباحثہ ۔ راجہ صاحب کا تاثر 15 1
17 عقائد اور نظریات میں بنیادی فرق 16 1
18 علماء دیوبند اور سر سید احمد خان مرحوم ۔ راجہ صاحب کی غلط فہمی 17 1
19 جہاد کے حوالے سے راجہ صاحب کی الجھن 18 1
20 صوفیائے کرام اور مجاہدین ۔ راجہ صاحب کا ایک مغالطہ 19 1
21 مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور خلافت عثمانیہ 20 1
22 کیا اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ 21 1
23 شہدائے بالاکوٹ کا جہاد ۔ راجہ صاحب کی رائے 22 1
24 قیام پاکستان کی پہلی اینٹ کس نے رکھی؟ 23 1
25 کیا نجات کے لیے ایمان اور نسبت کافی ہے؟ 24 1
26 اسلامی نظام پر تھیاکریسی ہونے کا الزام! 25 1
27 جمعہ کی چھٹی کا مسئلہ، اسلامی ریاست کی اصطلاح ۔ راجہ صاحب کے خیالات 26 1
28 جمعۃ المبارک کی چھٹی 26 27
29 اسلامی ریاست کی اصطلاح اور اس کا پس منظر 26 27
30 نو آبادیاتی ماحول میں ملا اور مسٹر کا کردار 27 1
31 قرآنی اصول اور جناب معین قریشی 28 1
32 محترمہ ہیلری کلنٹن ! کچھ غصہ اور دکھائیے 29 1
33 غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر 30 1
34 1-غامدی صاحب کا علمی پس منظر 30 33
35 2-علماء اور سیاست 30 33
36 3- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 30 33
37 4-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 30 33
38 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 30 33
39 غامدی صاحب اور خبر واحد 31 1
40 رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب 32 1
41 علماء اور عملی سیاست 33 1
42 معز امجد صاحب کے استدلالات پر ایک نظر 34 1
43 1-اس بحث کا پس منظر 34 42
44 2-قطعی اور ظنی اصولوں میں فرق 34 42
45 3-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 34 42
46 4- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 34 42
47 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 34 42
48 غامدی صاحب سے مباحثہ ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ 35 1
49 یہ جنگ فراڈ ہے ۔ برطانوی صحافی جان پلجر کا تجزیہ 36 1
50 مسئلہ کشمیر اور برطانوی خارجہ جیک اسٹرا کا چٹکلا 37 1
51 توہین رسالت کا قانون اور فرحت اللہ بابر کے سوالات 38 1
52 محترم جاوید غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی توضیحات 39 1
53 غامدی صاحب کا تصور سنت 40 1
58 غامدی صاحب کے تصور سنت کے حوالہ سے بحث ومکالمہ 41 1
59 خودکش حملہ ۔ ڈاکٹر محمد فاروق خان کے ارشادات 42 1
60 حدیث وسنت ۔ غامدی صاحب کا موقف 43 1
61 ارباب علم ودانش کی عدالت میں ماہنامہ الشریعہ کا مقدمہ 44 1
62 حامد میر کی سیاسی چاند ماری 45 1
63 آزادانہ بحث ومباحثہ اور ماہنامہ الشریعہ کی پالیسی 46 1
64 رائے کی اہلیت اور بحث ومباحثہ کی آزادی 47 1
65 بیگم نسیم ولی خان کی یاد دہانی کے لیے 48 1
66 فاروق ستار کے مغالطے 49 1
67 نجم سیٹھی اور اسلامی نظریہ سے وفادای کا حلف 50 1
68 الشریعہ بنام ضرب مومن 51 1
69 ایک نظر ادھر بھی 51 68
70 علمی وفکری مسائل میں طرز عمل 51 68
71 طرز تکلم اور اسلوب بیان 51 68
72 معاشرتی وسماجی تعلقات 51 68
73 مشترکہ سیاسی وتحریکی جدوجہد 51 68
74 بعض مسائل کے حوالے سے امام اہل سنتؒ کا موقف 52 1
75 ڈاکٹر امین صاحب کے خیالات 53 1
76 اختلاف رائے کے دائرے، حدود اور آداب 54 1
77 الشریعہ اور ہائیڈ پارک 55 1
78 اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ 56 1
79 خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف 57 1
80 ’’اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟‘‘ 58 1
Flag Counter