Deobandi Books

نقد و نظر

ن مضامی

43 - 58
حدیث وسنت ۔ غامدی صاحب کا موقف
حدیث وسنت کے بارے میں محترم جناب جاوید احمد غامدی کی مختلف تحریرات کے حوالہ سے راقم الحروف نے کچھ اشکالات ’’الشریعہ‘‘ میں پیش کیے تھے اور غامدی صاحب سے گزارش کی تھی کہ وہ ان سوالات و اشکالات کے تناظر میں حدیث و سنت کے بارے میں اپنے موقف کی خود وضاحت کریں تاکہ اہل علم کو ان کا موقف سمجھنے میں آسانی ہو۔ غامدی صاحب محترم نے اس گزارش کو قبول کرتے ہوئے ماہنامہ ’’اشراق‘‘ کے مارچ ۲۰۰۹ء کے شمارے میں اپنا موقف تحریر فرمایا ہے جسے ان کے شکریہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم کچھ مزید معروضات بھی پیش کر رہے ہیں۔
غامدی صاحب محترم فرماتے ہیں کہ:
1- ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو قرآن دیا ہے۔اِس کے علاوہ جو چیزیں آپ نے دین کی حیثیت سے دنیا کو دی ہیں، وہ بنیادی طور پر تین ہی ہیں:
2- مستقل بالذات احکام و ہدایات جن کی ابتدا قرآن سے نہیں ہوئی۔
3- مستقل بالذات احکام و ہدایات کی شرح و وضاحت، خواہ وہ قرآن میں ہوں یا قرآن سے باہر۔
اِن احکام و ہدایات پر عمل کا نمونہ۔
یہ تینوں چیزیں دین ہیں۔ دین کی حیثیت سے ہر مسلمان اِنھیں ماننے اور اِن پر عمل کرنے کا پابند ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِن کی نسبت کے بارے میں مطمئن ہوجانے کے بعد کوئی صاحب ایمان اِن سے انحراف کی جسارت نہیں کرسکتا۔ اُس کے لیے زیبا یہی ہے کہ وہ اگر مسلمان کی حیثیت سے جینا اور مرنا چاہتا ہے تو بغیر کسی تردد کے اِن کے سامنے سرتسلیم خم کردے۔
ہمارے علما اِن تینوں کے لیے ایک ہی لفظ ’’سنت‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ میں اِسے موزوں نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک پہلی چیز کے لیے ’’سنت‘‘، دوسری کے لیے ’’تفہیم و تبیین‘‘ اور تیسری کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنی چاہیے۔ اِس سے مقصود یہ ہے کہ اصل اور فرع کو ایک ہی عنوان کے تحت اور ایک ہی درجے میں رکھ دینے سے جو خلط مبحث پیدا ہوتا ہے، اُسے دور کردیا جائے۔
یہ محض اصطلاحات کا اختلاف ہے، ورنہ حقیقت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو میرے اور ائمۂ سلف کے مؤقف میں سرمو کوئی فرق نہیں ہے۔ میرے ناقدین اگر میری کتاب ’’میزان‘‘ کا مطالعہ دقت نظر کے ساتھ کرتے تو اِس چیزکو سمجھ لیتے اور اُنھیں کوئی غلط فہمی نہ ہوتی۔ یہ توقع اب بھی نہیں ہے۔ دین کے سنجیدہ طالب علم، البتہ مستحق ہیں کہ اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے یہ چند معروضات اُن کی خدمت میں پیش کردی جائیں۔
اولاً، سنت کے ذریعے سے جو دین ملا ہے، اُس کا ایک بڑا حصہ دین ابراہیمی کی تجدید و اصلاح پر مشتمل ہے۔ تمام محققین یہی مانتے ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس میں محض جزوی اضافے کیے ہیں۔ ہرگز نہیں، آپ نے اِس میں مستقل بالذات احکام کا اضافہ بھی کیا ہے۔ اِس کی مثالیں کوئی شخص اگر چاہے تو ’’میزان‘‘ میں دیکھ لے سکتا ہے۔ یہی معاملہ قرآن کا ہے۔ دین کے جن احکام کی ابتدااُس سے ہوئی ہے، اُن کی تفصیلات ’’میزان‘‘ کے کم و بیش تین سو صفحات میں بیان ہوئی ہیں۔ میں اِن میں سے ایک ایک چیز کو ماننے اور اُس پر عمل کرنے کو ایمان کا تقاضا سمجھتا ہوں، اِ س لیے یہ الزام بالکل لغو ہے کہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزوں سے ہٹ کر کوئی نیا حکم دینا یا دین میں کسی نئی بات کا اضافہ کرنا میرے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن مجید کے دائرۂ کار میں شامل ہی نہیں ہے۔
ثانیاً، سنت کی تعیین کے ضوابط کیا ہیں؟ اِن کی وضاحت کے لیے میں نے ’’میزان‘‘ کے مقدمہ ’’اصول و مبادی‘‘ میں ’’مبادی تدبر سنت‘‘ کے عنوان سے ایک پورا باب لکھا ہے۔ یہ سات اصول ہیں۔ اِن کی بنیاد پرہر صاحب علم کسی چیز کے سنت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ سنن کی ایک فہرست اِنھی اصولوں کے مطابق میں نے مرتب کردی ہے۔ اِس میں کمی بھی ہوسکتی ہے اور بیشی بھی۔ تحقیق کی غلطی واضح ہوجانے کے بعد میں خود بھی وقتاً فوقتاً اِس میں کمی بیشی کرتا رہا ہوں۔ میں نے کبھی اِس امکان کو رد نہیں کیا ہے۔
ثالثاً، اِس فہرست سے ہٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ارشادات بھی دین کی حیثیت سے روایتوں میں نقل ہوئے ہیں، اُن میں سے بعض کو میں نے ’’تفہیم و تبیین‘ ‘ اور بعض کو ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کے ذیل میں رکھا ہے۔ یہی معاملہ عقائد کی تعبیر کا ہے۔ اِس سلسلہ کی جو چیزیں روایتوں میں آئی ہیں، وہ سب میری کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ایمانیات میں دیکھ لی جاسکتی ہیں۔ یہ بھی ’’تفہیم و تبیین‘‘ ہے۔ علمی نوعیت کی جو چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے نقل ہوئی ہیں، اُن کے لیے صحیح لفظ میرے نزدیک یہی ہے۔ آپ سے نسبت متحقق ہو تو اس نوعیت کے ہر حکم، ہر فیصلے اور ہر تعبیر کو میں حجت سمجھتا ہوں۔ اِس سے ادنیٰ اختلاف بھی میرے نزدیک ایمان کے منافی ہے۔‘‘
جہاں تک غامدی صاحب کے موقف کا تعلق ہے، وہ ان کے اس مضمون کی صورت میں اہل علم کے سامنے ہے اور اگر اس کے بارے میں کسی کے ذہن میں تحفظات موجود ہیں تو اس کا علمی انداز میں اظہار ہونا چاہیے۔ البتہ راقم الحروف سرِدست دو پہلوؤں پر کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ ایک یہ کہ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’یہ محض اصطلاحات کا اختلاف ہے، ورنہ حقیقت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو میرے اور ائمہ سلف کے موقف میں سرِ مو کوئی فرق نہیں‘‘۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ اگر صرف اتنی سی بات ہے تو اصطلاحات و تعبیرات کے اس فرق میں یہ پہلو ضرور ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ نئی اصطلاح اور جداگانہ تعبیر سے کیا نئی نسل کے ذہن میں کوئی کنفیو ژن تو پیدا نہیں ہو رہا ہے، کیونکہ اس وقت ہماری نئی نسل مختلف اطراف سے پھیلائے جانے والے کنفیوژنز کی زد میں ہیں، اسے اس ماحول سے نکالنا ایک مستقل دینی ضرورت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ایسے ماحول میں سنجیدہ اہل علم کو نئی نسل کی ذہنی اور فکری الجھنوں میں اضافہ کرنے کی بجائے ان میں کمی کرنے کا اسلوب اختیار کرنا چاہیے اور ہم برادرانہ جذبات کے ساتھ غامدی صاحب محترم سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی اس پر غور فرمائیں گے۔
دوسری گزارش ہے کہ غامدی صاحب محترم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ارشادات کو (۱) مستقل بالذات احکام، (۲) مستقل بالذات احکام و ہدایات کی شرح و وضاحت اور (۳) ان احکام و ہدایات پر عمل کا نمونہ میں تقسیم کیا ہے اور فرمایا کہ وہ پہلے حصے کو سنت، دوسرے کو تفہیم وتبیین اور تیسرے حصے کو اسوۂ حسنہ سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ علماے کرام ان سب کو سنت قرار دیتے ہیں۔ ہمارے خیال میں ان امور کو سنت قرار دینے کی نسبت صرف علمائے کرام کی طرف کرنا شاید واقعہ کے مطابق نہیں ہے، اس لیے کہ خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور صحابہ کرامؓ کے فرمودات میں ایسے امور پر ’سنت‘ کا اطلاق پایا جاتا ہے جو غامدی صاحب کی تقسیم کی رو سے سنت میں شمار نہیں ہوتیں، مثلاً:
1- بخاری شریف کی روایت (۸۹۸) کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کے دن کی ترتیب میں نماز کو پہلے اور قربانی کو بعد میں رکھا ہے اور فرمایا ہے کہ جس نے ہماری ترتیب پر عمل کیا، ’’فقداصاب سنتنا‘‘ اس نے ہماری سنت کو پا لیا۔
2- بخاری شریف کی روایت (۱۵۵۰) کے مطابق حج کے موقع پر حجاج بن یوسف کو ہدایات دیتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ ’’ان کنت ترید السنۃ‘‘ اگر تم سنت پر عمل کا ارادہ رکھتے ہو تو خطبہ مختصر کرو اور وقوف میں جلدی کرو۔
3- بخاری شریف کی روایت (۱۴۶۱) کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو حج اور عمرہ اکٹھا کرنے سے بعض وجوہ کی بنا پر منع کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر حج اور عمرہ کا اکٹھا احرام باندھ لیا کہ میں کسی کے قول پر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں چھوڑ سکتا۔
4- بخاری کی روایت (۳۷۶) میں بتایا گیا ہے کہ حضرت حذ یفہؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز میں رکوع وسجود مکمل نہیں کر رہا تو فرمایا کہ اگر تو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مرگیا تو تیری موت ’’سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پر نہیں ہوگی۔
5- بخاری شریف کی روایت (۱۵۹۸) میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اونٹ کو بٹھا کر ذبح کر رہا ہے تو فرمایا کہ اس کو کھڑا کر کے ایک ٹانگ باندھ دو اور سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ذبح کرو۔
6- بخاری کی روایت (۲۳۸۳) میں بتایا گیا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں اپنا بچا ہوا مشروب بائیں طرف بیٹھے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق کی بجائے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ایک اعرابی کو دیا اور فرمایا کہ کوئی چیز دینے لگو تو دائیں طرف سے شروع کرو۔ یہ واقعہ بیان کرکے حضرت انس نے فرما یا کہ یہی سنت ہے، یہی سنت ہے، یہی سنت ہے۔
احادیث کے ذخیرے میں اس نوعیت کی بیسیوں روایات موجود ہیں جن میں سے چند کا ہم نے بطور نمونہ تذکرہ کیا ہے، اس لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و اعمال کے مختلف پہلوؤں پر ’’سنت‘‘ کے اطلاق کو صرف علما کی بات کہہ کر نظر انداز کر دینا مناسب نہیں ہے اور غامدی صاحب محترم کو اس پر بھی بہرحال نظر ثانی کرنی چاہیے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ
تاریخ اشاعت: 
اپریل ۲۰۰۹ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں سے 1 1
3 اسلام پر رحم کیجئے 2 1
4 وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ خان کا ارشاد 3 1
5 ایم آر ڈی اور علماء حق 4 1
6 روزنامہ نوائے وقت اپنی روش پر نظر ثانی کرے 5 1
7 ایم آر ڈی کے بیس نکات اور مولانا فضل الرحمان 6 1
8 وکلاء کرام ! خدا کے لیے سنجیدگی اختیار کریں 7 1
9 جمہوریت، ووٹ اور اسلام 8 1
10 سنی شیعہ کشیدگی اور ظفر حسین نقوی 9 1
11 بھارت کی عظمت اور نجم سیٹھی کا خطاب 10 1
12 میاں محمد شہباز شریف ۔ خدیو پنجاب؟ 11 1
13 مرزا طاہر احمد کی خوش فہمی 12 1
14 محراب و منبر کے وارث محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ 13 1
15 راجہ صاحب کی خدمت میں 14 1
16 مذہبی طبقات کا طرز مباحثہ ۔ راجہ صاحب کا تاثر 15 1
17 عقائد اور نظریات میں بنیادی فرق 16 1
18 علماء دیوبند اور سر سید احمد خان مرحوم ۔ راجہ صاحب کی غلط فہمی 17 1
19 جہاد کے حوالے سے راجہ صاحب کی الجھن 18 1
20 صوفیائے کرام اور مجاہدین ۔ راجہ صاحب کا ایک مغالطہ 19 1
21 مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور خلافت عثمانیہ 20 1
22 کیا اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ 21 1
23 شہدائے بالاکوٹ کا جہاد ۔ راجہ صاحب کی رائے 22 1
24 قیام پاکستان کی پہلی اینٹ کس نے رکھی؟ 23 1
25 کیا نجات کے لیے ایمان اور نسبت کافی ہے؟ 24 1
26 اسلامی نظام پر تھیاکریسی ہونے کا الزام! 25 1
27 جمعہ کی چھٹی کا مسئلہ، اسلامی ریاست کی اصطلاح ۔ راجہ صاحب کے خیالات 26 1
28 جمعۃ المبارک کی چھٹی 26 27
29 اسلامی ریاست کی اصطلاح اور اس کا پس منظر 26 27
30 نو آبادیاتی ماحول میں ملا اور مسٹر کا کردار 27 1
31 قرآنی اصول اور جناب معین قریشی 28 1
32 محترمہ ہیلری کلنٹن ! کچھ غصہ اور دکھائیے 29 1
33 غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر 30 1
34 1-غامدی صاحب کا علمی پس منظر 30 33
35 2-علماء اور سیاست 30 33
36 3- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 30 33
37 4-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 30 33
38 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 30 33
39 غامدی صاحب اور خبر واحد 31 1
40 رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب 32 1
41 علماء اور عملی سیاست 33 1
42 معز امجد صاحب کے استدلالات پر ایک نظر 34 1
43 1-اس بحث کا پس منظر 34 42
44 2-قطعی اور ظنی اصولوں میں فرق 34 42
45 3-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 34 42
46 4- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 34 42
47 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 34 42
48 غامدی صاحب سے مباحثہ ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ 35 1
49 یہ جنگ فراڈ ہے ۔ برطانوی صحافی جان پلجر کا تجزیہ 36 1
50 مسئلہ کشمیر اور برطانوی خارجہ جیک اسٹرا کا چٹکلا 37 1
51 توہین رسالت کا قانون اور فرحت اللہ بابر کے سوالات 38 1
52 محترم جاوید غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی توضیحات 39 1
53 غامدی صاحب کا تصور سنت 40 1
58 غامدی صاحب کے تصور سنت کے حوالہ سے بحث ومکالمہ 41 1
59 خودکش حملہ ۔ ڈاکٹر محمد فاروق خان کے ارشادات 42 1
60 حدیث وسنت ۔ غامدی صاحب کا موقف 43 1
61 ارباب علم ودانش کی عدالت میں ماہنامہ الشریعہ کا مقدمہ 44 1
62 حامد میر کی سیاسی چاند ماری 45 1
63 آزادانہ بحث ومباحثہ اور ماہنامہ الشریعہ کی پالیسی 46 1
64 رائے کی اہلیت اور بحث ومباحثہ کی آزادی 47 1
65 بیگم نسیم ولی خان کی یاد دہانی کے لیے 48 1
66 فاروق ستار کے مغالطے 49 1
67 نجم سیٹھی اور اسلامی نظریہ سے وفادای کا حلف 50 1
68 الشریعہ بنام ضرب مومن 51 1
69 ایک نظر ادھر بھی 51 68
70 علمی وفکری مسائل میں طرز عمل 51 68
71 طرز تکلم اور اسلوب بیان 51 68
72 معاشرتی وسماجی تعلقات 51 68
73 مشترکہ سیاسی وتحریکی جدوجہد 51 68
74 بعض مسائل کے حوالے سے امام اہل سنتؒ کا موقف 52 1
75 ڈاکٹر امین صاحب کے خیالات 53 1
76 اختلاف رائے کے دائرے، حدود اور آداب 54 1
77 الشریعہ اور ہائیڈ پارک 55 1
78 اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ 56 1
79 خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف 57 1
80 ’’اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟‘‘ 58 1
Flag Counter