Deobandi Books

نقد و نظر

ن مضامی

10 - 58
بھارت کی عظمت اور نجم سیٹھی کا خطاب
نجم سیٹھی سے میرا براہ راست تعارف نہیں ہے، اخبارات ہی کے ذریعہ کبھی کبھار ان کے خیالات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ انہیں تفصیل کے ساتھ پڑھنے کا کبھی موقع نہیں ملا اور نہ کبھی اس کی ضرورت پیش آئی ہے۔ البتہ ان کی گرفتاری کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اور جس طرح ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی گرفتاری پر ردعمل کا اظہار ہوا ہے، حتیٰ کہ امریکی سفیر کو بھی لب کشائی کی ضرورت محسوس ہوئی ہے، اس کے پیش نظر یہ خیال ہوا کہ انہیں پڑھنا چاہیے۔ یا کم از کم ان کے اس خطاب سے آگاہی کی کوئی صورت ضرور نکالنی چاہیے جو بھارت کی سرزمین پر ہوا اور جسے ان کی گرفتاری کے پس منظر میں خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔
خدا بھلا کرے ان کی اہلیہ محترمہ کا کہ انہوں نے اس خطاب کا متن اخبارات کو جاری کر دیا اور میرے جیسے لوگوں کی بھی اس خطاب تک رسائی ہوگئی۔ میں نے نجم سیٹھی کے خطاب کا مطالعہ کیا ہے اور اس لحاظ سے انہیں داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ انہوں نے جو محسوس کیا، یا جو کچھ ان کے دل میں تھا انہوں نے اس کا اظہار کر دیا۔ اور اس بات کا بھی لحاظ نہیں کیا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور کن لوگوں کے سامنے گفتگو کر رہے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مولانا مفتی محمودؒ جب دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے بھارت گئے تو اس وقت صورتحال یہ تھی کہ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے ساتھ ان کی اچھی خاصی ٹھن چکی تھی۔ اور وہ قومی سیاست میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایک طاقت ور اور وسیع تر سیاسی اتحاد قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ دوسری طرف ان سے منسوب یہ جملہ بھی خاصی شہرت حاصل کر چکا تھا کہ ’’ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔‘‘ یہ جملہ دراصل کیا تھا اور اس کی پوری کہانی کیا ہے، اس پر پھر کسی موقع پر عرض کروں گا کیونکہ میں اس کا عینی گواہ ہوں۔ سردست دہلی میں مولانا مفتی محمودؒ کی بھارت کے اخبار نویسوں کے ساتھ گفتگو کا تذکرہ کرتے ہوئے اس وقت کے مجموعی تناظر کو سامنے لانا چاہتا ہوں کہ اس پس منظر میں بھارت کے اخبار نویسوں نے مفتی صاحب مرحوم سے پاکستان کی داخلی صورتحال کے بارے میں کچھ سوالات کرنا چاہے تو مفتی صاحبؒ نے انہیں بلا تکلف ٹوک دیا کہ میں دہلی میں بیٹھ کر ان سوالات کا جواب نہیں دوں گا۔ کیونکہ یہ معاملات ہمارے گھر کے اندر کے ہیں اور یہاں میں صرف پاکستان کا نمائندہ ہوں۔
مگر نجم سیٹھی صاحب نے جس انداز میں پاکستان کی داخلی صورتحال پر بھارت میں بیٹھ کر بات کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ذہن میں سرحدات اور دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے وہ دائرے قائم نہیں رہے جو گزشتہ نصف صدی کی تاریخ کا حصہ چلے آ رہے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کی نظریاتی شناخت کا تعلق ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ ابھی تک قائم نہیں ہوئی۔ مگر ان کی یہ بات غلط ہے کیونکہ پاکستان کی قومی شناخت 1965ء میں دنیا بھر نے اس وقت دیکھ لی تھی جب بھارت نے لاہور پر قبضہ کرنے کے لیے شب خون مارا تھا اور پوری قوم اس جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی تھی جس کی بنیاد لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر تھی۔ اور پھر اسی شناخت کو سبوتاژ کرنے کے لیے دنیا بھر کی قوتیں اور لابیاں متحرک ہوگئی تھیں۔ ہماری بدقسمتی یہ نہیں کہ ہم قومی شناخت نہیں رکھتے، بلکہ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری شناخت کے ساتھ ہمارے حکمران طبقات کی کمٹمنٹ نہیں ہے۔ اور نجم سیٹھی جیسے دانشوروں کا ذہن جو کسی نہ کسی اوٹ میں حکمرانی کی کمین گاہوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اس قومی شناخت کو قبول نہیں کر رہا۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمیں آج تک قومی شناخت کے ساتھ نظریاتی اور شعوری وابستگی رکھنے والی لیڈرشپ نہیں ملی اور اسی کے نتیجے میں وطن عزیز پہلے بھی دولخت ہوا ہے اور اب پھر قومی عصبیتوں کے نام سے اس کے خلاف سازشوں کا نیا تانا بانا بنا جا رہا ہے۔
نجم سیٹھی نے اس خطاب میں مسلم ریاستوں کو روایتی اور لبرل ریاستوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ جن ریاستوں کا انہوں نے ذکر کیا ہے وہ اپنی پالیسیوں کے حوالہ سے کم و بیش سب کی سب لبرل ہیں اور مغربی استعمار کی طے شدہ پالیسیوں کے دائرہ میں چل رہی ہیں۔ صرف ہماری شمالی مغربی سرحد پر ایک روایتی نظریاتی ریاست کے ابھرنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں تو پوری دنیا خوف کا شکار ہوگئی ہے کہ اگر یہ ریاست کامیاب ہوگئی تو مروجہ مصنوعی نظاموں کا کیا بنے گا؟
نجم سیٹھی کو یہ بھی پریشانی ہے کہ اسلام کی تعبیر میں جماعت اسلامی، جمعیۃ علماء اسلام اور سپاہ صحابہ میں کس کی اجارہ داری ہوگی؟ مگر وہ اس حقیقت سے جان بوجھ کر لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام کی دستوری تعبیر اور قانون سازی کے حوالہ سے نہ صرف ان مذکورہ جماعتوں میں بلکہ پاکستان کے کم و بیش سبھی دینی حلقوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور وہ اپنے اتفاق رائے کا اظہار علماء کے 22 دستوری نکات، 1973ء کے دستور، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات، اور وفاقی شرعی عدالتوں کے فیصلوں کی صورت میں کئی بار کر چکے ہیں۔
یہاں نجم سیٹھی کے خطاب کے تمام پہلوؤں کا احاطہ مقصود نہیں بلکہ صرف اس انداز کی طرف توجہ دلانا مطلوب ہے جو انہوں نے بھارت کی سرزمین پر کھڑے ہو کر پاکستان کے داخلی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے اختیار کیا ہے اور اس کا مقصد واضح کرنے میں بھی کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چنانچہ ان کا ارشاد ہے کہ:
’’اگر بھارت کے عقبی صحن میں غیر مستحکم اور ناراض ہمسایہ موجود ہوگا تو وہ کبھی اپنا عظیم طاقت بننے کا خواب پورا نہیں کر سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر بھارت کا عظمت کا خواب فوجی وسعت کی حکمت عملی پر قائم ہے تو پاکستان کی جوابی اسلحہ سازی یہ خواب کبھی پورا نہیں ہونے دے گی۔ لہٰذا آنے والے سالوں میں بھارت اگر اپنی شناخت ایک عظیم طاقت کے طور پر کرانا چاہتا ہے تو اس کی بنیاد بھارت کی فوجی طاقت نہیں ہوگی بلکہ یہ حقیقت ہوگی کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک معاشی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کس قدر پیوست ہیں۔‘‘
ہمارے خیال میں اس کے بعد نجم سیٹھی صاحب کے خطاب کے کسی اور حصے پر گفتگو کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ کیونکہ جب گفتگو کا ایجنڈا ہی بھارت کی عظمت کا اعتراف اور اسے ایک عظیم طاقت کے روپ میں پیش کرنا ہے تو پھر اس مقصد کے لیے وہی باتیں کہی جا سکتی ہیں جو نجم سیٹھی نے کہی ہیں۔ اس کے سوا وہ اور کہہ بھی کیا سکتے تھے؟
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۲۰ مئی ۱۹۹۹ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں سے 1 1
3 اسلام پر رحم کیجئے 2 1
4 وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ خان کا ارشاد 3 1
5 ایم آر ڈی اور علماء حق 4 1
6 روزنامہ نوائے وقت اپنی روش پر نظر ثانی کرے 5 1
7 ایم آر ڈی کے بیس نکات اور مولانا فضل الرحمان 6 1
8 وکلاء کرام ! خدا کے لیے سنجیدگی اختیار کریں 7 1
9 جمہوریت، ووٹ اور اسلام 8 1
10 سنی شیعہ کشیدگی اور ظفر حسین نقوی 9 1
11 بھارت کی عظمت اور نجم سیٹھی کا خطاب 10 1
12 میاں محمد شہباز شریف ۔ خدیو پنجاب؟ 11 1
13 مرزا طاہر احمد کی خوش فہمی 12 1
14 محراب و منبر کے وارث محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ 13 1
15 راجہ صاحب کی خدمت میں 14 1
16 مذہبی طبقات کا طرز مباحثہ ۔ راجہ صاحب کا تاثر 15 1
17 عقائد اور نظریات میں بنیادی فرق 16 1
18 علماء دیوبند اور سر سید احمد خان مرحوم ۔ راجہ صاحب کی غلط فہمی 17 1
19 جہاد کے حوالے سے راجہ صاحب کی الجھن 18 1
20 صوفیائے کرام اور مجاہدین ۔ راجہ صاحب کا ایک مغالطہ 19 1
21 مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور خلافت عثمانیہ 20 1
22 کیا اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ 21 1
23 شہدائے بالاکوٹ کا جہاد ۔ راجہ صاحب کی رائے 22 1
24 قیام پاکستان کی پہلی اینٹ کس نے رکھی؟ 23 1
25 کیا نجات کے لیے ایمان اور نسبت کافی ہے؟ 24 1
26 اسلامی نظام پر تھیاکریسی ہونے کا الزام! 25 1
27 جمعہ کی چھٹی کا مسئلہ، اسلامی ریاست کی اصطلاح ۔ راجہ صاحب کے خیالات 26 1
28 جمعۃ المبارک کی چھٹی 26 27
29 اسلامی ریاست کی اصطلاح اور اس کا پس منظر 26 27
30 نو آبادیاتی ماحول میں ملا اور مسٹر کا کردار 27 1
31 قرآنی اصول اور جناب معین قریشی 28 1
32 محترمہ ہیلری کلنٹن ! کچھ غصہ اور دکھائیے 29 1
33 غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر 30 1
34 1-غامدی صاحب کا علمی پس منظر 30 33
35 2-علماء اور سیاست 30 33
36 3- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 30 33
37 4-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 30 33
38 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 30 33
39 غامدی صاحب اور خبر واحد 31 1
40 رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب 32 1
41 علماء اور عملی سیاست 33 1
42 معز امجد صاحب کے استدلالات پر ایک نظر 34 1
43 1-اس بحث کا پس منظر 34 42
44 2-قطعی اور ظنی اصولوں میں فرق 34 42
45 3-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 34 42
46 4- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 34 42
47 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 34 42
48 غامدی صاحب سے مباحثہ ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ 35 1
49 یہ جنگ فراڈ ہے ۔ برطانوی صحافی جان پلجر کا تجزیہ 36 1
50 مسئلہ کشمیر اور برطانوی خارجہ جیک اسٹرا کا چٹکلا 37 1
51 توہین رسالت کا قانون اور فرحت اللہ بابر کے سوالات 38 1
52 محترم جاوید غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی توضیحات 39 1
53 غامدی صاحب کا تصور سنت 40 1
58 غامدی صاحب کے تصور سنت کے حوالہ سے بحث ومکالمہ 41 1
59 خودکش حملہ ۔ ڈاکٹر محمد فاروق خان کے ارشادات 42 1
60 حدیث وسنت ۔ غامدی صاحب کا موقف 43 1
61 ارباب علم ودانش کی عدالت میں ماہنامہ الشریعہ کا مقدمہ 44 1
62 حامد میر کی سیاسی چاند ماری 45 1
63 آزادانہ بحث ومباحثہ اور ماہنامہ الشریعہ کی پالیسی 46 1
64 رائے کی اہلیت اور بحث ومباحثہ کی آزادی 47 1
65 بیگم نسیم ولی خان کی یاد دہانی کے لیے 48 1
66 فاروق ستار کے مغالطے 49 1
67 نجم سیٹھی اور اسلامی نظریہ سے وفادای کا حلف 50 1
68 الشریعہ بنام ضرب مومن 51 1
69 ایک نظر ادھر بھی 51 68
70 علمی وفکری مسائل میں طرز عمل 51 68
71 طرز تکلم اور اسلوب بیان 51 68
72 معاشرتی وسماجی تعلقات 51 68
73 مشترکہ سیاسی وتحریکی جدوجہد 51 68
74 بعض مسائل کے حوالے سے امام اہل سنتؒ کا موقف 52 1
75 ڈاکٹر امین صاحب کے خیالات 53 1
76 اختلاف رائے کے دائرے، حدود اور آداب 54 1
77 الشریعہ اور ہائیڈ پارک 55 1
78 اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ 56 1
79 خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف 57 1
80 ’’اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟‘‘ 58 1
Flag Counter