Deobandi Books

نقد و نظر

ن مضامی

3 - 58
وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ خان کا ارشاد
مذہبی امور کے وفاقی وزیر حاجی سیف اللہ خان نے گزشتہ روز لاہور میں دارالعلوم حزب الاحناف کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ
’’پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا نہیں بلکہ اس پر عملدرآمد کا مسئلہ ہے کیونکہ شریعت کا نفاذ اس روز سے شروع ہو گیا تھا جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اس دن کے بعد سے آج تک ہر مسلمان کا کام یہ ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق کام کرے اور دوسروں کو بھی تلقین کرے۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۱۹ جون ۱۹۸۷ء)
وزیر موصوف نے بے حد خوبصورتی کے ساتھ یہ کہہ کر نفاذِ اسلام کے سلسلہ میں حکومتی ذمہ داریوں کو نگاہوں سے اوجھل کرنے کی کوشش کی ہے کہ شریعت کا نفاذ تو اول دن سے ہو چکا ہے اب صرف اس پر عملدرآمد کا مرحلہ ہے او ریہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حاجی سیف اللہ خان کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ اگرچہ شریعت اسلامیہ اصولی طور پر روزِ اول سے ہی مسلمانوں پر نافذ ہے مگر عالم اسلام کے مسلم معاشروں میں شریعت کی عملی تنفیذ میں وہاں کی حکومتیں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ اس طور پر بھی کہ انہوں نے اپنے ممالک میں غیر اسلامی نظاموں کو عملاً رائج کر رکھا ہے اور اس طور پر بھی کہ نفاذِ اسلام کی تحریکات کی راہ میں یہ حکومتیں روڑہ بن کر اٹکی ہوئی ہیں۔ پاکستان ہی کا معاملہ لے لیجئے، اس مملکت کا قیام اسلام کے نام پر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے وجود میں آیا تھا مگر اس کے قیام کے بعد سے اب تک حکمران اسی فرسودہ نظام سے چمٹے ہوئے ہیں جو فرنگی سامراج نے یہاں مسلط کیا تھا۔ عدالتوں کا نظام وہی ہے، انتظامی ڈھانچہ کی چال ڈھال وہی ہے، بینکاری و تجارت اسی طرح سود کی بنیاد پر ہے اور دیگر شعبوں میں بھی وہی نوآبادیاتی اور فرنگی طور طریقے اور ضابطے نافذ ہیں۔ ہمارے حکمران ان فرنگی قوانین اور طور طریقوں کو اس طرح سینے سے لگائے ہوئے ہیں جیسے ان کے خاتمے سے خود ان حکمرانوں کی روح جسم سے پرواز کر جائے گی۔
ایک طرف ملک میں چالیس سال سے قومی زندگی کے ہر شعبہ میں کافرانہ فرنگی نظام مسلط ہے اور حکمران اس نظام کو عملاً نافذ رکھنے کے علاوہ پوری قوت کے ساتھ اس کی حفاظت بھی کر رہے ہیں اور دوسری طرف وفاقی وزیر مذہبی امور یہ فلسفہ جھاڑ رہے ہیں کہ اسلام تو شروع سے نافذ ہے اب سارے مسلمانوں کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اس کو منافقت کے سوا اور کیا جا سکتا ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ حکمران طبقہ کی یہی منافقت اسلام کے نفاذ اور اس پر عملدرآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ رکاوٹ ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے اور اس کا خاتمہ جس قدر جلد ہو جائے ملک و قوم کے حق میں بہتر ہوگا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
جون ۱۹۸۷ء ۔ جلد ۲۵ شمارہ ۳۰
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں سے 1 1
3 اسلام پر رحم کیجئے 2 1
4 وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ خان کا ارشاد 3 1
5 ایم آر ڈی اور علماء حق 4 1
6 روزنامہ نوائے وقت اپنی روش پر نظر ثانی کرے 5 1
7 ایم آر ڈی کے بیس نکات اور مولانا فضل الرحمان 6 1
8 وکلاء کرام ! خدا کے لیے سنجیدگی اختیار کریں 7 1
9 جمہوریت، ووٹ اور اسلام 8 1
10 سنی شیعہ کشیدگی اور ظفر حسین نقوی 9 1
11 بھارت کی عظمت اور نجم سیٹھی کا خطاب 10 1
12 میاں محمد شہباز شریف ۔ خدیو پنجاب؟ 11 1
13 مرزا طاہر احمد کی خوش فہمی 12 1
14 محراب و منبر کے وارث محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ 13 1
15 راجہ صاحب کی خدمت میں 14 1
16 مذہبی طبقات کا طرز مباحثہ ۔ راجہ صاحب کا تاثر 15 1
17 عقائد اور نظریات میں بنیادی فرق 16 1
18 علماء دیوبند اور سر سید احمد خان مرحوم ۔ راجہ صاحب کی غلط فہمی 17 1
19 جہاد کے حوالے سے راجہ صاحب کی الجھن 18 1
20 صوفیائے کرام اور مجاہدین ۔ راجہ صاحب کا ایک مغالطہ 19 1
21 مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور خلافت عثمانیہ 20 1
22 کیا اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ 21 1
23 شہدائے بالاکوٹ کا جہاد ۔ راجہ صاحب کی رائے 22 1
24 قیام پاکستان کی پہلی اینٹ کس نے رکھی؟ 23 1
25 کیا نجات کے لیے ایمان اور نسبت کافی ہے؟ 24 1
26 اسلامی نظام پر تھیاکریسی ہونے کا الزام! 25 1
27 جمعہ کی چھٹی کا مسئلہ، اسلامی ریاست کی اصطلاح ۔ راجہ صاحب کے خیالات 26 1
28 جمعۃ المبارک کی چھٹی 26 27
29 اسلامی ریاست کی اصطلاح اور اس کا پس منظر 26 27
30 نو آبادیاتی ماحول میں ملا اور مسٹر کا کردار 27 1
31 قرآنی اصول اور جناب معین قریشی 28 1
32 محترمہ ہیلری کلنٹن ! کچھ غصہ اور دکھائیے 29 1
33 غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر 30 1
34 1-غامدی صاحب کا علمی پس منظر 30 33
35 2-علماء اور سیاست 30 33
36 3- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 30 33
37 4-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 30 33
38 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 30 33
39 غامدی صاحب اور خبر واحد 31 1
40 رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب 32 1
41 علماء اور عملی سیاست 33 1
42 معز امجد صاحب کے استدلالات پر ایک نظر 34 1
43 1-اس بحث کا پس منظر 34 42
44 2-قطعی اور ظنی اصولوں میں فرق 34 42
45 3-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 34 42
46 4- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 34 42
47 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 34 42
48 غامدی صاحب سے مباحثہ ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ 35 1
49 یہ جنگ فراڈ ہے ۔ برطانوی صحافی جان پلجر کا تجزیہ 36 1
50 مسئلہ کشمیر اور برطانوی خارجہ جیک اسٹرا کا چٹکلا 37 1
51 توہین رسالت کا قانون اور فرحت اللہ بابر کے سوالات 38 1
52 محترم جاوید غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی توضیحات 39 1
53 غامدی صاحب کا تصور سنت 40 1
58 غامدی صاحب کے تصور سنت کے حوالہ سے بحث ومکالمہ 41 1
59 خودکش حملہ ۔ ڈاکٹر محمد فاروق خان کے ارشادات 42 1
60 حدیث وسنت ۔ غامدی صاحب کا موقف 43 1
61 ارباب علم ودانش کی عدالت میں ماہنامہ الشریعہ کا مقدمہ 44 1
62 حامد میر کی سیاسی چاند ماری 45 1
63 آزادانہ بحث ومباحثہ اور ماہنامہ الشریعہ کی پالیسی 46 1
64 رائے کی اہلیت اور بحث ومباحثہ کی آزادی 47 1
65 بیگم نسیم ولی خان کی یاد دہانی کے لیے 48 1
66 فاروق ستار کے مغالطے 49 1
67 نجم سیٹھی اور اسلامی نظریہ سے وفادای کا حلف 50 1
68 الشریعہ بنام ضرب مومن 51 1
69 ایک نظر ادھر بھی 51 68
70 علمی وفکری مسائل میں طرز عمل 51 68
71 طرز تکلم اور اسلوب بیان 51 68
72 معاشرتی وسماجی تعلقات 51 68
73 مشترکہ سیاسی وتحریکی جدوجہد 51 68
74 بعض مسائل کے حوالے سے امام اہل سنتؒ کا موقف 52 1
75 ڈاکٹر امین صاحب کے خیالات 53 1
76 اختلاف رائے کے دائرے، حدود اور آداب 54 1
77 الشریعہ اور ہائیڈ پارک 55 1
78 اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ 56 1
79 خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف 57 1
80 ’’اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟‘‘ 58 1
Flag Counter