Deobandi Books

نقد و نظر

ن مضامی

15 - 58
مذہبی طبقات کا طرز مباحثہ ۔ راجہ صاحب کا تاثر
مجھے راجہ انور صاحب کے کالم کا انتظار تھا اور میری خواہش بھی تھی کہ ایسے مسائل پر سنجیدہ گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اس سے مسائل کے تجزیہ و تنقیح اور توضیح و تشریح کے ضروری گوشے بے نقاب ہوتے ہیں اور عقل و استدلال کی بنیاد پر رائے قائم کرنے والے حضرات زیادہ بہتر انداز میں کسی نتیجہ تک پہنچنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔
راجہ صاحب کے ساتھ اس گفتگو میں بنیادی طور پر دو نکات زیر بحث ہیں۔ ایک ’’مذہبی کج بحثی‘‘ کے حوالہ سے کہ راجہ صاحب کو شکایت ہے کہ مذہبی لوگوں میں برداشت اور دوسرے فریق کی رائے کے احترام کا مادہ کم ہوتا ہے جس سے مذہبی جھگڑے جنم لیتے ہیں اور مذہبی بحث و مباحثہ افہام و تفہیم کے ماحول کا باعث بننے کی بجائے تنازعات کی شدت میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔ مجھے راجہ صاحب کی رائے سے اتفاق ہے لیکن ایک استثناء کے ساتھ کہ سب اہل دین اور اصحاب علم کے بارے میں یہ تاثر قائم کر لینا درست نہیں ہے۔ کیونکہ ارباب علم و دانش کا ایک بڑا طبقہ ہر دور میں موجود رہا ہے اور اب بھی ہے جو اختلافی مسائل اور مذہبی تنازعات پر بحث کے دوران سنجیدگی اور متانت کا دامن ہاتھ نہیں چھوڑتے اور اسی وجہ سے ان کے علمی اور تحقیقی انداز گفتگو کے مثبت اثرات و نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ مجھے چونکہ ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے اور ان سے استفادہ کا موقع بھی ملا ہے اس لیے ’’مذہبی کج بحثی‘‘ کے حوالہ سے راجہ صاحب کے اس تاثر کو ’’کلی اور عمومی تاثر‘‘ کے طور پر قبول کرنے میں مجھے تامل ہے۔ اس سلسلہ میں ایک دو ذاتی واقعات کا تذکرہ شاید نامناسب نہ ہو اور ممکن ہے اس سے راجہ صاحب محترم کے اس تاثر کی شدت کو کم کرنے میں کچھ مدد مل جائے ۔
ایک واقعہ میرے استاذ محترم مولانا محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو قادیانیت کے خلاف اہل اسلام کے بہت بڑے اور کامیاب مناظر تھے اور اسی وجہ سے انہیں ’’فاتح قادیان‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ گزشتہ صدی عیسوی کی چھٹی دہائی کا قصہ ہے کہ وہ گوجرانوالہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کے دفتر میں علماء اور طلبہ کو قادیانیت کے سلسلہ میں تربیتی کورس کرانے کی غرض سے چند روز کے لیے تشریف لائے۔ میں ان دنوں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں زیر تعلیم تھا اور قادیانیت کے عقائد کے بارے میں ابتدائی تیاری میں نے حضرت مولانا محمد حیاتؒ کے اس تربیتی کورس میں شامل ہو کر کی۔ کورس کے دوران ’’حیات عیسیٰ علیہ السلام‘‘ کا موضوع زیر بحث تھا۔ مولانا مرحوم نے قادیانیوں کے چند دلائل کا ذکر کیا اور ان کے جوابات سمجھائے پھر مجھے کہا میں اٹھ کر تقریر کی شکل میں ان کی گفتگو کا خلاصہ بیان کروں۔
یہ میرا نوجوانی کا دور تھا اور میں ایک دینی مدرسہ کا طالب علم تھا اس لیے گفتگو کا انداز فطری طور پر جذباتی اور جارحانہ تھا۔ چنانچہ جب مرزا غلام احمد قادیانی کی کسی بات کا حوالہ دینے کا موقع آیا تو میں نے اس کا ذکر ان الفاظ سے کیا کہ ’’مرزا بھونکتا ہے‘‘۔ مولانا محمد حیاتؒ نے فورًا یہ کہہ کر مجھے ٹوک دیا کہ ’’ناں بیٹا ناں ایسا نہیں کہتے، وہ بھی ایک قوم کا لیڈر ہے اس لیے بات یوں کرو کہ مرزا صاحب یوں کہتے ہیں لیکن ان کی یہ بات اس وجہ سے غلط ہے۔‘‘ استاذ محترمؒ کا یہ جملہ ذہن کے ساتھ کچھ اس طرح چپک گیا کہ اس نے سوچ کا زاویہ اور گفتگو کا انداز بدل کر رکھ دیا۔ اس لیے آج بھی جب اس واقعہ کی یاد ذہن میں تازہ ہوتی ہے تو مولانا محمد حیاتؒ کے لیے دل کی گہرائی سے بے ساختہ دعا نکلتی ہے۔
دوسرا واقعہ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا ہے جو میرے سب سے بڑے استاذ اور مربی ہیں۔ ان کا اپنا ذوق یہ ہے کہ اہل سنت، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، قادیانی، منکرین حدیث اور دیگر مذہبی گروہوں کے درمیان اختلافی مسائل پر انہوں نے پچاس کے لگ بھگ کتابیں لکھی ہیں جن میں سے بعض خاصی ضخیم بھی ہیں لیکن ان کا انداز تحریر علمی، تحقیقی اور شستہ ہے۔ اس پر ایک تاریخی شہادت کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے معروف محقق اور دانشور ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم ایک دور میں منکرین حدیث میں شمار ہوتے تھے اور انہوں نے حدیث رسولؐ کے حجت ہونے کے خلاف ’’دو اسلام‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس میں احادیث نبویہؐ پر اعتراضات کیے گئے ہیں۔ اس کے جواب میں برصغیر کے بہت سے سرکردہ علماء نے کتابیں لکھیں اور والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے بھی 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں گرفتاری کے بعد ملتان سنٹرل جیل میں اسارت کے دوران ’’صرف ایک اسلام‘‘ کے نام سے اس کا جواب تحریر کیا۔
ڈاکٹر برق مرحوم نے ’’دو اسلام‘‘ کے اگلے ایڈیشن میں ان جوابی کتابوں کا تذکرہ کیا اور اعتراف کیا کہ ان میں مولانا محمد سرفراز خان صفدر کی کتاب ’’صرف ایک اسلام‘‘ نے اپنے تحقیقی انداز اور شستگی کے باعث انہیں یعنی ڈاکٹر برق کو اپنی بہت سی باتوں پر ازسرنو غور کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ خیر اس کے بعد تو کایا ہی پلٹ گئی اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق مرحوم بالآخر اپنے سابقہ موقف سے رجوع کرتے ہوئے حدیث کی تاریخ اور حجیت پر ایک مستقل کتاب لکھ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین۔
اس سلسلہ میں میرا واقعہ یوں ہے کہ صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں ایک بار رؤیت ہلال میں شہادت کے مسئلہ پر علماء کرام میں اختلاف پیدا ہوگیا اور اخبارات و رسائل میں مضامین و بیانات شائع ہونے لگے۔ مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ اہل حدیث مکتب فکر کے بڑے علماء میں سے تھے، بڑے مناظر تھے اور خالص مناظرانہ مزاج رکھتے تھے۔ بعد میں میری ان سے خاصا عرصہ نیازمندی رہی ہے اور میں ان کی شفقت اور دعاؤں سے مستفید ہوتا رہا ہوں۔ اس زمانے میں ان کاایک مضمون غالباً ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہوا جو ہمارے موقف کے برعکس تھا۔ میں نے اپنے طور پر اس کا جواب لکھا اور تصحیح کے لیے والد صاحب کو دکھایا جس پر مجھے ان کی سخت ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑا اور یوں یاد پڑتا ہے کہ شاید انہوں نے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ بھی اٹھایا مگر بات صرف ہاتھ اٹھانے تک رہ گئی۔
میں نے اس جوابی مضمون میں مولانا حافظ عبد القادر روپڑیؒ کے مضمون کا ایک جملہ اس انداز سے لکھا تھا کہ ’’حافظ عبد القادر لکھتا ہے‘‘۔ والد صاحب نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے؟ ہو سکتا ہے عمر میں تمہارے باپ سے بھی بڑا ہو اس لیے اس طرح لکھو کہ مولانا حافظ عبد القادر روپڑی یوں لکھتے ہیں مگر مجھے ان کی اس بات سے اختلاف ہے۔‘‘
اس لیے راجہ انور صاحب سے گزارش ہے کہ اختلاف کو علم و دانش کے دائرے تک محدود رکھنے اور مخالفین کی رائے اور شخصیت کا احترام کرنے والے آج بھی موجود ہیں۔ بات صرف ان تک رسائی کی ہے جو تعلقات، نمود و نمائش، نفانفسی، اور چھینا چھپٹی کے اس دور میں روز بروز مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اور میرے نزدیک اس حوالہ سے ہمارا اصل المیہ یہی ہے ورنہ جہاں تک اختلاف کا تعلق ہے تو وہ انسانی فطرت کا اظہار اور عقل و دانش کا خوش ذائقہ ثمر ہے جو اپنی جائز حدود کے اندر اور جائز طریقہ سے ہو تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق امت کے لیے رحمت بن جاتا ہے۔ اور اسے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے کیا خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر صحابہ کرامؓ کے درمیان مسائل میں اختلاف نہ ہوتا تو مجھے یہ بات بالکل اچھی نہ لگتی کیونکہ اس طرح امت ہر مسئلہ میں ایک لگے بندھے راستے پر چلنے کی پابند ہو جاتی۔ اب اختلاف ہے اور ایک ایک مسئلہ میں چار چار پانچ پانچ اقوال ہیں، تنوع ہے، چوائس ہے اور امت کے ارباب علم و دانش اپنے اپنے فہم، ذوق، ضرورت، حالات اور سہولت کے مطابق ان میں سے کسی ایک کے انتخاب کا حق رکھتے ہیں جس سے علم و دانش کی دنیا رنگارنگ کے خوشنما پھولوں کے ایک چمنستان کا روپ اختیار کر گئی ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۱۲ مئی ۲۰۰۰ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں سے 1 1
3 اسلام پر رحم کیجئے 2 1
4 وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ خان کا ارشاد 3 1
5 ایم آر ڈی اور علماء حق 4 1
6 روزنامہ نوائے وقت اپنی روش پر نظر ثانی کرے 5 1
7 ایم آر ڈی کے بیس نکات اور مولانا فضل الرحمان 6 1
8 وکلاء کرام ! خدا کے لیے سنجیدگی اختیار کریں 7 1
9 جمہوریت، ووٹ اور اسلام 8 1
10 سنی شیعہ کشیدگی اور ظفر حسین نقوی 9 1
11 بھارت کی عظمت اور نجم سیٹھی کا خطاب 10 1
12 میاں محمد شہباز شریف ۔ خدیو پنجاب؟ 11 1
13 مرزا طاہر احمد کی خوش فہمی 12 1
14 محراب و منبر کے وارث محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ 13 1
15 راجہ صاحب کی خدمت میں 14 1
16 مذہبی طبقات کا طرز مباحثہ ۔ راجہ صاحب کا تاثر 15 1
17 عقائد اور نظریات میں بنیادی فرق 16 1
18 علماء دیوبند اور سر سید احمد خان مرحوم ۔ راجہ صاحب کی غلط فہمی 17 1
19 جہاد کے حوالے سے راجہ صاحب کی الجھن 18 1
20 صوفیائے کرام اور مجاہدین ۔ راجہ صاحب کا ایک مغالطہ 19 1
21 مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور خلافت عثمانیہ 20 1
22 کیا اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ 21 1
23 شہدائے بالاکوٹ کا جہاد ۔ راجہ صاحب کی رائے 22 1
24 قیام پاکستان کی پہلی اینٹ کس نے رکھی؟ 23 1
25 کیا نجات کے لیے ایمان اور نسبت کافی ہے؟ 24 1
26 اسلامی نظام پر تھیاکریسی ہونے کا الزام! 25 1
27 جمعہ کی چھٹی کا مسئلہ، اسلامی ریاست کی اصطلاح ۔ راجہ صاحب کے خیالات 26 1
28 جمعۃ المبارک کی چھٹی 26 27
29 اسلامی ریاست کی اصطلاح اور اس کا پس منظر 26 27
30 نو آبادیاتی ماحول میں ملا اور مسٹر کا کردار 27 1
31 قرآنی اصول اور جناب معین قریشی 28 1
32 محترمہ ہیلری کلنٹن ! کچھ غصہ اور دکھائیے 29 1
33 غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر 30 1
34 1-غامدی صاحب کا علمی پس منظر 30 33
35 2-علماء اور سیاست 30 33
36 3- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 30 33
37 4-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 30 33
38 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 30 33
39 غامدی صاحب اور خبر واحد 31 1
40 رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب 32 1
41 علماء اور عملی سیاست 33 1
42 معز امجد صاحب کے استدلالات پر ایک نظر 34 1
43 1-اس بحث کا پس منظر 34 42
44 2-قطعی اور ظنی اصولوں میں فرق 34 42
45 3-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 34 42
46 4- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 34 42
47 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 34 42
48 غامدی صاحب سے مباحثہ ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ 35 1
49 یہ جنگ فراڈ ہے ۔ برطانوی صحافی جان پلجر کا تجزیہ 36 1
50 مسئلہ کشمیر اور برطانوی خارجہ جیک اسٹرا کا چٹکلا 37 1
51 توہین رسالت کا قانون اور فرحت اللہ بابر کے سوالات 38 1
52 محترم جاوید غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی توضیحات 39 1
53 غامدی صاحب کا تصور سنت 40 1
58 غامدی صاحب کے تصور سنت کے حوالہ سے بحث ومکالمہ 41 1
59 خودکش حملہ ۔ ڈاکٹر محمد فاروق خان کے ارشادات 42 1
60 حدیث وسنت ۔ غامدی صاحب کا موقف 43 1
61 ارباب علم ودانش کی عدالت میں ماہنامہ الشریعہ کا مقدمہ 44 1
62 حامد میر کی سیاسی چاند ماری 45 1
63 آزادانہ بحث ومباحثہ اور ماہنامہ الشریعہ کی پالیسی 46 1
64 رائے کی اہلیت اور بحث ومباحثہ کی آزادی 47 1
65 بیگم نسیم ولی خان کی یاد دہانی کے لیے 48 1
66 فاروق ستار کے مغالطے 49 1
67 نجم سیٹھی اور اسلامی نظریہ سے وفادای کا حلف 50 1
68 الشریعہ بنام ضرب مومن 51 1
69 ایک نظر ادھر بھی 51 68
70 علمی وفکری مسائل میں طرز عمل 51 68
71 طرز تکلم اور اسلوب بیان 51 68
72 معاشرتی وسماجی تعلقات 51 68
73 مشترکہ سیاسی وتحریکی جدوجہد 51 68
74 بعض مسائل کے حوالے سے امام اہل سنتؒ کا موقف 52 1
75 ڈاکٹر امین صاحب کے خیالات 53 1
76 اختلاف رائے کے دائرے، حدود اور آداب 54 1
77 الشریعہ اور ہائیڈ پارک 55 1
78 اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ 56 1
79 خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف 57 1
80 ’’اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟‘‘ 58 1
Flag Counter