Deobandi Books

نقد و نظر

ن مضامی

27 - 58
نو آبادیاتی ماحول میں ملا اور مسٹر کا کردار
یہ ہمارے معاشرتی مزاج اور روایات کا حصہ ہے کہ گھر کے آٹھ دس افراد میں سے جو ’’کاما‘‘ ہوتا ہے اسے ہی گھر کے تمام کاموں کا ذمہ دار سمجھ لیا جاتا ہے۔ اور عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ گھر کا جو فرد خود محنت اور مشقت کا عادی بن کر مختلف کاموں کو نمٹانا شروع کر دیتا ہے گھر کے دوسرے افراد سارے کام اسی کے کھاتے میں ڈال کر خود کو ہر کام سے فارغ سمجھ لیتے ہیں۔ پھر اس غریب کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اسے کوئی کام سرانجام دینے کا کریڈٹ تو کبھی نہیں ملتا، البتہ جو کام نہیں ہو پاتا اس کا الزام یہ دیکھے بغیر اس ’’کامے‘‘ پر لگا دیا جاتا ہے کہ یہ اس کے کرنے کا تھا بھی یا نہیں، اور اس کام کے لیے اس کے پاس وقت بھی تھا یا نہیں۔ حتیٰ کہ اسے اپنے اس بھائی کی خشمگیں نگاہوں کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے جو سارا دن لمبی تان کر سویا رہتا ہے اور جب آنکھ کھلتی ہے تو اس ٹوہ میں لگ جاتا ہے کہ ’’کامے‘‘ بھائی کی کوئی کوتاہی سامنے آئے تو اس کے لتے لینے کا موقع ہاتھ آئے۔
یہی حال بے چارے ’’ملا‘‘ کا ہے جو اس جرم میں امت مسلمہ کی ہر ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے کہ اس نے معاشرتی تقسیم کار میں اپنے حصہ کی ڈیوٹی ادا کرنے میں کوئی کوتاہی روا نہیں رکھی اور جو کام اس کے ذمہ تھا وہ اس نے ہر مصیبت برداشت کر کے اور ہر رکاوٹ عبور کر کے بہرحال پورا کر دیا ہے۔ اس ستم ظریفی کا صحیح طور پر اندازہ کرنے کے لیے ذرا اس فہرست پر نظر ڈال لیجیے جو ملا کی ناکامیوں کے نام پر بار بار دہرائی جا رہی ہے اور اچھے خاصے پڑھے لکھے دوست بھی سوچے سمجھے بغیر اسی کا تکرار کیے چلے جا رہے ہیں کہ
امت مسلمہ سائنسی ترقی میں باقی اقوام سے بہت پیچھے رہ گئی ہے، اس کا ذمہ دار ملا ہے۔
امت مسلمہ اپنے معاشی وسائل سے استفادہ نہیں کر سکی اور ان پر اپنا کنٹرول قائم نہیں رکھ سکی، اس کی ذمہ داری ملا پر عائد ہوتی ہے۔
امت مسلمہ اپنے دفاع اور عسکری صلاحیت میں دوسری اقوام سےکے ہم پلہ نہیں ہے، یہ بھی ملا کا قصور ہے۔
امت مسلمہ کو آج کی ٹیکنالوجی پر گرفت حاصل نہیں ہے، یہ کوتاہی بھی ملا کے کھاتے میں ہے۔
اور امت مسلمہ اپنی سیاسی وحدت و مرکزیت قائم نہیں رکھ سکی اور انتشار و انارکی کا شکار ہوگئی ہے، یہ بھی ملا کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔
غرضیکہ امت مسلمہ کی ہر ناکامی اور کوتاہی ملا کے کھاتے میں ہے گویا کہ امت میں اسی ایک طبقہ کا وجود باقی رہ گیا تھا اور باقی کسی کے ذمہ کوئی کام نہیں تھا۔
ملا پر ’’چاند ماری‘‘ کی مشق کرنے والے ان دانشوروں کو ایک شکایت یہ بھی ہے کہ آمریت اور ملائیت کا باہمی تعلق اور رشتہ استوار ہوگیا تھا، اس لیے امت کی ساری خرابیاں ان کے نزدیک اسی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن تاریخ میں شاید یہ بات ان کی نظر سے نہیں گزری کہ امت مسلمہ میں ملائیت کے چار میں سے تین بڑے نمائندوں یعنی ائمہ اربعہ میں سے تین امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، اور امام احمد بن حنبلؒ وہ ہیں جنہوں نے آمریت سے براہ راست ٹکر لی ہے اور اپنی پشتوں پر آمروں کے کوڑے کھائے ہیں۔ حتیٰ کہ سب سے بڑے امام کو تو جیل میں زہر دے کر شہید کیا گیا۔ اور پھر آمریت اور مطلق العنانی سے ہر دور میں ٹکرانے والے ملاؤں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے امام ابوحنیفہؒ، امام احمد بن حنبلؒ، اور امام مالک کی سنت کو ہر دور میں زندہ رکھا ہے۔ اس مختصر مضمون میں اس فہرست کا اجمالی خاکہ پیش کرنے کی بھی گنجائش نہیں ہے البتہ حوالہ کے لیے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی ضخیم کتاب ’’تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کا مطالعہ کرنے کی سب دوستوں کو دعوت دوں گا جو کئی جلدوں میں ہے اور اس میں چودہ سو سال کے ان ملاؤں کا تاریخ کے حوالے کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے آمریت کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کی بجائے اسے للکارا اور قربانی و ایثار کے ہر مرحلہ سے باوقار طور پر گزر گئے۔ خود ہمارے برصغیر میں اکبر بادشاہ کی آمریت و الحاد کو مسترد کرنے والے مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندیؒ بھی ملا تھے، اور فرنگی اقتدار سے ٹکرا کر کالا پانی کا جزیرہ آباد کرنے والے اور درختوں کی ٹہنیوں پر ہزاروں کی تعداد میں سولیاں پانے والے مولوی بھی اسی ملائیت کا حصہ تھے جسے آمریت کا ساتھی قرار دے کر امت کی ہر ناکامی اور رسوائی کو اس کے حساب میں لکھا جا رہا ہے۔
امت کی ہر خرابی کو ملا کے نام لکھنے والے ان دانشوروں سے ایک سوال کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن پہلے اس کا پس منظر دیکھ لیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے حوالہ سے ہمارے جدید پڑھے لکھے اور دانشور کہلانے والے حضرات نے خود یہ کہہ کر ملا کو پیچھے دھکیل دیا تھا کہ معاشرے کی اجتماعی قیادت اس کا کام نہیں ہے، بس وہ آرام سے گھر بیٹھے جبکہ یہ کام اب ہم کریں گے۔ چنانچہ ملا نے اپنے بھائیوں کی یہ بات مانتے ہوئے ان کے لیے میدان کھلا چھوڑ کر اپنے ذمہ یہ کام لے لیا تھا کہ امت کے اجتماعی کام آپ سنبھالیں، ہم قرآن و سنت کی تعلیمات اور علوم کو باقی رکھنے اور امت کی اگلی نسلوں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیں گے۔ اور پھر یہ ڈیوٹی اپنے ذمہ لے کر ملا نے ہر طرف سے آنکھیں بند کر کے خود کو مسجد و مدرسہ تک محدود کر لیا تھا۔ البتہ اس کے ساتھ وہ برٹش حکمرانوں کے خلاف غم و غصہ اور نفرت کے اظہار کے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوا اور جب موقع ملا اس پر ضرب لگانے سے بھی گریز نہیں کی۔ مگر اس طبقہ نے اپنے ذمہ بنیادی کام یہ رکھا کہ قرآن و سنت اور ان سے متعلقہ علوم کی حفاظت کرتے ہوئے انہیں اگلی نسلوں تک منتقل کر دے۔
دوسری طرف جدید علوم اور معاشرتی امور میں امت کی رہنمائی کا کام ایک نئے طبقہ نے سنبھال لیا تھا۔ یہ تقسیم کار ملا نے نہیں کی تھی بلکہ اس کے سر تھوپی گئی تھی جسے اس نے قبول کر کے اپنے حصے کا کام سنبھالا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آج اگر اس تقسیم کار میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ اپنے حصے کا کام سر انجام نہیں دے سکا اور گزشتہ ڈیڑھ سو برس میں مغربی آقاؤں کی ناز برداری اور ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے سوا کوئی کام نہیں کر پایا تو اپنی اس ناکامی کا طوق ملا کے گلے میں کیوں ڈال رہا ہے؟ ملا نے تو اپنا کام کر دکھایا ہے کہ آج قرآن و سنت کے علوم اور اسلامی روایات و اقدار کے پرچار کے حوالے سے جنوبی ایشیاء کا یہ خطہ دنیائے اسلام میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔لیکن چونکہ سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت، سیاست اور معاشرتی قیادت 1857ء کے بعد ’’مسٹر‘‘ نے اپنے ہاتھ میں لی تھی اس لیے ان شعبوں میں ناکامی کا ذمہ دار بھی مسٹر ہی ہے۔ اور اگر وہ ملا کو طعنہ دے کر اپنی ان ناکامیوں پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ تاریخ کی کسوٹی بالاخر کھرے اور کھوٹے کو الگ کر دیتی ہے اور شاید اس کا وقت بھی اب زیادہ دور نہیں رہا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ہفت روزہ الہلال، اسلام آباد
تاریخ اشاعت: 
۱۱ اگست ۲۰۰۰ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 گوجرانوالہ کے اخبار نویس دوستوں سے 1 1
3 اسلام پر رحم کیجئے 2 1
4 وفاقی وزیر مذہبی امور حاجی سیف اللہ خان کا ارشاد 3 1
5 ایم آر ڈی اور علماء حق 4 1
6 روزنامہ نوائے وقت اپنی روش پر نظر ثانی کرے 5 1
7 ایم آر ڈی کے بیس نکات اور مولانا فضل الرحمان 6 1
8 وکلاء کرام ! خدا کے لیے سنجیدگی اختیار کریں 7 1
9 جمہوریت، ووٹ اور اسلام 8 1
10 سنی شیعہ کشیدگی اور ظفر حسین نقوی 9 1
11 بھارت کی عظمت اور نجم سیٹھی کا خطاب 10 1
12 میاں محمد شہباز شریف ۔ خدیو پنجاب؟ 11 1
13 مرزا طاہر احمد کی خوش فہمی 12 1
14 محراب و منبر کے وارث محنت مزدوری کیوں نہیں کرتے؟ 13 1
15 راجہ صاحب کی خدمت میں 14 1
16 مذہبی طبقات کا طرز مباحثہ ۔ راجہ صاحب کا تاثر 15 1
17 عقائد اور نظریات میں بنیادی فرق 16 1
18 علماء دیوبند اور سر سید احمد خان مرحوم ۔ راجہ صاحب کی غلط فہمی 17 1
19 جہاد کے حوالے سے راجہ صاحب کی الجھن 18 1
20 صوفیائے کرام اور مجاہدین ۔ راجہ صاحب کا ایک مغالطہ 19 1
21 مولانا احمد رضا خان بریلویؒ اور خلافت عثمانیہ 20 1
22 کیا اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ 21 1
23 شہدائے بالاکوٹ کا جہاد ۔ راجہ صاحب کی رائے 22 1
24 قیام پاکستان کی پہلی اینٹ کس نے رکھی؟ 23 1
25 کیا نجات کے لیے ایمان اور نسبت کافی ہے؟ 24 1
26 اسلامی نظام پر تھیاکریسی ہونے کا الزام! 25 1
27 جمعہ کی چھٹی کا مسئلہ، اسلامی ریاست کی اصطلاح ۔ راجہ صاحب کے خیالات 26 1
28 جمعۃ المبارک کی چھٹی 26 27
29 اسلامی ریاست کی اصطلاح اور اس کا پس منظر 26 27
30 نو آبادیاتی ماحول میں ملا اور مسٹر کا کردار 27 1
31 قرآنی اصول اور جناب معین قریشی 28 1
32 محترمہ ہیلری کلنٹن ! کچھ غصہ اور دکھائیے 29 1
33 غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر 30 1
34 1-غامدی صاحب کا علمی پس منظر 30 33
35 2-علماء اور سیاست 30 33
36 3- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 30 33
37 4-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 30 33
38 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 30 33
39 غامدی صاحب اور خبر واحد 31 1
40 رجم کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب 32 1
41 علماء اور عملی سیاست 33 1
42 معز امجد صاحب کے استدلالات پر ایک نظر 34 1
43 1-اس بحث کا پس منظر 34 42
44 2-قطعی اور ظنی اصولوں میں فرق 34 42
45 3-اعلان جہاد کے لیے حکومت کی شرط 34 42
46 4- زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکسیشن 34 42
47 5-فتویٰ کا آزادانہ حق 34 42
48 غامدی صاحب سے مباحثہ ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ 35 1
49 یہ جنگ فراڈ ہے ۔ برطانوی صحافی جان پلجر کا تجزیہ 36 1
50 مسئلہ کشمیر اور برطانوی خارجہ جیک اسٹرا کا چٹکلا 37 1
51 توہین رسالت کا قانون اور فرحت اللہ بابر کے سوالات 38 1
52 محترم جاوید غامدی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی توضیحات 39 1
53 غامدی صاحب کا تصور سنت 40 1
58 غامدی صاحب کے تصور سنت کے حوالہ سے بحث ومکالمہ 41 1
59 خودکش حملہ ۔ ڈاکٹر محمد فاروق خان کے ارشادات 42 1
60 حدیث وسنت ۔ غامدی صاحب کا موقف 43 1
61 ارباب علم ودانش کی عدالت میں ماہنامہ الشریعہ کا مقدمہ 44 1
62 حامد میر کی سیاسی چاند ماری 45 1
63 آزادانہ بحث ومباحثہ اور ماہنامہ الشریعہ کی پالیسی 46 1
64 رائے کی اہلیت اور بحث ومباحثہ کی آزادی 47 1
65 بیگم نسیم ولی خان کی یاد دہانی کے لیے 48 1
66 فاروق ستار کے مغالطے 49 1
67 نجم سیٹھی اور اسلامی نظریہ سے وفادای کا حلف 50 1
68 الشریعہ بنام ضرب مومن 51 1
69 ایک نظر ادھر بھی 51 68
70 علمی وفکری مسائل میں طرز عمل 51 68
71 طرز تکلم اور اسلوب بیان 51 68
72 معاشرتی وسماجی تعلقات 51 68
73 مشترکہ سیاسی وتحریکی جدوجہد 51 68
74 بعض مسائل کے حوالے سے امام اہل سنتؒ کا موقف 52 1
75 ڈاکٹر امین صاحب کے خیالات 53 1
76 اختلاف رائے کے دائرے، حدود اور آداب 54 1
77 الشریعہ اور ہائیڈ پارک 55 1
78 اسلام اور ریاست ۔ غامدی صاحب کے حالیہ مضمون کا جائزہ 56 1
79 خلیفہ کی اصطلاح اور غامدی صاحب کا موقف 57 1
80 ’’اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟‘‘ 58 1
Flag Counter